علامہ اقبال(۱۸۷۵۔۱۹۳۸ء)

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

شاعر مشرق ایک انقلاب آفریں شخصیت
علامہ اقبال بہت بڑے شاعر تھے۔ انہوں نے جو کچھ کہا وہ دل کی گہرائیوں میں ڈوب کر کہا اور دل سے نکلی ہوئی بات نہایت ہی مؤثر  کردار ادا کرتی ہے۔ اسی لیے انہوں نے کہا تھا:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
علامہ اقبال کا پورا نام شیخ محمد اقبال تھا۔ ان کا خاندان کشمیری پنڈتوں کا خاندان تھا۔ ان کے جد اعلیٰ مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ اقبال کے والد نے انہیں ہدایت دی تھی کہ قرآن مجید اس طرح پڑھو گویا یہ تم پر نازل ہوا ہے۔ اقبال نے اپنے والد کی نصیحت کو شعر کی زبان میں اس طرح کہا کہ:
ترے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم ایک مکتب میں حاصل کی۔ اس کے بعد انگریزی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا اور انٹرنس کا امتحان امتیازی نمبرات کے ساتھ پاس کیا۔ پھر اس کے بعد مشن اسکول سیالکوٹ میں داخلہ لیا۔ یہاں سید میر حسن مشرقی ادبیات کے معلم تھے۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے کر بی اے (فلسفہ) کی ڈگری لی۔ انگریزی اور عربی زبان میں ممتاز رہے، پھر پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں مشہور مستشرق پروفیسر آرنلڈ کے شاگرد رہے۔ آرنلڈ جب انگلستان چلے گئے تو اقبال کو بہت دکھ ہوا۔ ان کے ان احساسات پر مبنی ان کی نظم نالۂ فراق ہے۔ اقبال اورینٹل کالج لاہور میں تاریخ فلسفہ اور سیاسیات کے پروفیسر ہوگئے۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی اور فلسفہ کے استاذ مقرر ہوئے۔ ان کے درس وتدریس کا انداز نہایت عالمانہ تھا۔ اقبال نے شعر کہنا شروع کیا اور بذریعہ مراسلت داغ دہلوی کو اپنا کلام دکھانے لگے اور پھر لاہور کی انجمن حمایت الاسلام کے مشاعروں میں انہوں نے اپنی نظمیں پڑھیں جو بہت مقبول ہوئیں۔ ان نظموں میں تصویر درد، نیا شوالا، ترانۂ ہندی اور شکوہ بہت زیادہ مشہور ہیں اور لاہور کے اخبار مخزن اور سارے ہندوستان کے اردو اخبارات میں شائع ہوئیں۔ اقبال نے کئی انگریزی نظموں کے منظوم آزاد ترجمے کیے۔ پھر ۱۹۰۵ء میں اقبال لندن کے لیے روانہ ہوئے اور کیمبرج میں داخلہ لیا اور وہاں سے فلسفہ اور اخلاقیات میں ڈگریاں حاصل کیں۔ پھر جرمنی گئے اور فنون وادبیات کے مطالعہ میں مشغول ہوئے۔ دانایانِ فرنگ اور دانشوران مغرب کی صحبتوں میں رہے۔ لندن میں کچھ عرصے تک عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ انہوں نے یورپ کی دانش گاہوں سے اور دانشوروں سے پورا استفادہ کیا۔ اقبال کے کلام میں پیکر تراشی بھی ہے، منظر نگاری بھی ہے، ترنم اور موسیقیت بھی ہے۔ ان کی تشبیہات اور استعارات نئے انداز کی ہیں۔ انہوں نے جلال الدین رومی کے متصوفانہ کلام سے خاص طور پر استفادہ کیا اور تہذیب مغرب پر ایسی تیر بہ ہدف تنقیدیں کیں کہ اقبالؔ کے کلام کے پڑھنے والوں پر سے مغربی تہذیب کا رعب ختم ہوا۔ اقبال نے اسلام کی تعلیمات کی طرف لوٹنے اور عشق نبوی کو دل میں بسانے کی اثر انگیز تلقین کی اور دنیا میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے خودی میں ڈوبنے کی نصیحت کی۔ شاہین اقبال کا ایک بہترین استعارہ ہے، وہ چاہتے تھے کہ مرد مسلماں میں پھر عقابی روح پیدا ہو اور طاقت سر چشموں تک پہنچنا اس کے لیے آسان ہو۔ اقبال کی تصنیفات میں علم الاقتصاد اور فلسفہ عجم بھی ہے اور ان کے وہ لیکچرس بھی ہیں جو انہوں نے مدراس میں ’’خطبات تشکیل جدید علوم الٰہیہ‘‘ کے عنوان سے انگریزی میں دیے تھے اور اس کے ساتھ فارسی میں ان کا دیوان ’’اسرار خودی‘‘ اور ’’رموز بے خودی‘‘ پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ ہے۔ ان کے علاوہ بانگ درا، ضرب کلیم اور بالِ جبریل ان کے اردو دیوان ہیں۔ اقبالؔ عظیم شاعر ہی نہیں تھے بلکہ بہت بڑے مفکر اور مسلمانوں کی نشأۃ ثانیہ کے محرک اور پیغام بر بھی  تھے۔
اقبال کا عہد وہ عہد تھا جس میں پہلے سر سید نے دولت پرستی اور دنیوی فلاح اور ترقی کا نسخہ یہ تجویز کیا تھا کہ انگریزی زبان اور انگریزوں کی تہذیب اور ان کے علوم میں مسلمان دست گاہی حاصل کریں۔ اس نسخہ کے خلاف رد عمل پہلے اکبر الہ آبادی کا اور علامہ شبلی نعمانی کا سر سید کی زندگی میں آچکا تھا۔ بحیثیت مجموعی اس دور کے علماء نے جن میں سید سلیمان ندوی، ابو الکلام آزادؔ، مولانا اشرف علی تھانوی وغیرہ نے بھی سر سید کے نقطۂ نظر سے اختلاف کیا تھا۔ دارالمصنفین اعظم گڑھ جیسے عظیم تصنیفی ادارے کا مقصد اسلامی افکار کا فروغ اور مشاہیر اسلام پر اردو میں عالمانہ اور تحقیقی کتابیں لکھنا تھا۔ ان شخصیتوں کے بعد علامہ اقبال کی ایک طاقت ور شخصیت ابھری جس نے افکار اسلامی کو ایک نئے اسلوب اور طاقتورر پیرایہ میں پیش کیا اور مغربی تہذیب کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا۔ اقبال کے یہاں مرد مومن ایک استعارہ ہے جس میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو عظمت رفتہ کی باز آفرینی اور طاقت وشوکت کے حصول کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ مرد مومن کے بارے میں اقبال کے یہ اشعار دیکھیے:
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کار کشا و کار ساز
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
خاکی و نوری نہاد بندہ مولی صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اقبال نے خودی کے بارے میں بہت سے اشعار کہے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اشعار:
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ کشاں لا الہ الا اللہ
خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
اقبال نے ربط ملت کا تصور ابھارا اور تعمیر ملت کے لیے توحید پر ایمان اور رسالت پر ایقان کامل کی دعوت دی۔ انہوں نے اسلامی غیرت وحمیت اور خود شناسی کا پیغام دیا۔ اقبال نے مغرب کے علوم نَو سے بھی استفادہ کیا لیکن بنیادی افکار قرآن وحدیث سے حاصل کیے۔ اقبال مجموعی طور پر ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے اکتساب فیض کرنے اور ان سے متأثر ہونے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے اور وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ انہیں بجا طور پر بیسویں صدی کا مفکر، مجدد اور عہد آفریں شاعر تسلیم کیا گیا ہے۔ ان کے کچھ اور اشعار بطور مثال درج کیے جاتے ہیں:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
خود بہ خود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح
دیکھیے گرتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 نومبر تا 18 نومبر 2023