علامہ امداد صابری :جدوجہد آزادیٔ ہند کا بےباک سپاہی

علمی،تحقیقی، سماجی، اور سیاسی میدانوں میں امدادالرشید صابری کی بے نظیر خدمات

محمد عارف اقبال
ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دلی

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ علامہ امداد صابری (1914-1988) نے جدوجہد آزادی ہند کے دوران میں ایک جید صحافی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ یہ مفروضہ امداد صابری کی ایک تحقیقی کتاب ’تاریخ اردو صحافت‘ کی وجہ سے مشہور ہوا۔ انہوں نے دو اخبارات کی سرپرستی بھی کی، لیکن عملی صحافی سے زیادہ وہ بصیرت رکھنے والے مجاہد آزادی تھے جنہوں نے تقریباً پچاس برسوں تک ناانصافی اور ظلم کے خلاف جدوجہد کی۔ علامہ امداد صابری ایک عظیم باپ کے ایسے لائق و فائق بیٹے تھے جنہوں نے سیاسی بھول بھلیوں میں انسانیت کی خدمت کو ترجیح دی۔ وہ ظلم کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہے۔ عوام کے دکھ درد میں شریک ہونے کو وہ اپنا انسانی اور دینی فریضہ سمجھتے تھے۔
علامہ امداد صابری کے ایک ساتھی پنڈت ہرسروپ شرما تھے۔ انہوں نے امداد صابری کی خدمات پر 48 صفحات پر مشتمل ایک ایسی کتاب لکھی تھی جس میں امداد صابری کی زندگی اور ان کی جدوجہد کی داستان کا اجمالی تعارف کرایا گیا ہے۔ یہ تعارف اس قدر بھرپور ہے کہ اس کتاب میں نہ صرف علامہ صابری کی سماجی، سیاسی جدوجہد کے کارنامے سے حقیقی آشنائی ہوتی ہے بلکہ ان کی باوقار علمی اور تحقیقی خدمات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ علامہ صابری کی زندگی کا ہر گوشہ عملی اور علمی جدوجہد سے منور تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی کتاب کا آغاز پنڈت ہرسروپ شرما درج ذیل الفاظ سے کرتے ہیں:
’’مولانا امداد صابری کی حق گوئی و بے باکی، ظلم و ستم و ناانصافی و حق تلفی کے خلاف بے خوف و نڈر ہوکر آواز اٹھانا اور مصائب و آلام سے بے پروا ہوکر ظالم و بے انصاف طاقتوں اور طبقوں کے خلاف جدوجہد کرنا، اپنے بزرگوں سے ورثے میں ملی ہے۔ ‘‘
علامہ امداد صابری کے والد مولانا شرف الحق صابری (پ 1862 ، وفات28 جنوری 1936) دارالعلوم دیوبند کے فارغ تھے۔ ان کا شمار ان علماء دین میں ہوتا تھا جو عصری مسائل کا پامردی سے مقابلہ کرتے ہیں حتیٰ کہ کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ وہ عربی و فارسی کے علاوہ عبرانی، سنسکرت، ترکی اور پشتو زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ براہ راست، والی ترکستان سلطان عبدالحمید سے رابطہ میں تھے۔ ان کے پیر حاجی امداداللہ مکی تھے اور استاذ دارالعلوم دیوبند کے معروف دانشور مولانا رشید احمد گنگوہی تھے۔ امداد صابری کی پیدائش 16 اکتوبر 1914 ہوئی تو ان کے والد نے ان کا نام اپنے پیر و استاد کے ناموں پر ’امدادالرشید‘ رکھا۔ شاید ان دونوں انقلابی ناموں کے اثرات بھی امداد صابری پر پڑے۔ ’امدادالرشید‘ جو امداد صابری کے نام سے معروف ہوئے، لڑکپن ہی سے بے خوف، بے باک اور ناانصافی کے خلاف تھے۔ جب ان کی عمر سترہ سال تھی تو ایک کانگریسی جلوس اور پولیس کے تصادم کا دریاگنج کوتوالی کے قریب کھڑے ہوکر مشاہدہ کر رہے تھے۔ دریں اثنا ایک انگریز پولیس افسر نے ایک جوان لڑکی کو ڈنڈا مارنا چاہا تو انہوں نے پولیس افسر کو دھکا دینے کی کوشش کی تاکہ لڑکی اس ڈنڈے سے محفوظ رہے۔ لڑکی تو ڈنڈے سے محفوظ رہی لیکن اس کی ضرب سے امداد صابری بیہوش ہوکر گرپڑے۔ قصہ طویل ہے لیکن یہ ایک مثال ہے ان کی بے خوفی، بے باکی اور انسان و انسانیت نوازی کی۔ اس کے بعد ہی انہوں نے اٹھارہ سال کی عمر میں کانگریس کی ابتدائی رکنیت اختیار کی تھی۔ امداد صابری کی تعلیم ابتدا میں ادیب فاضل تک ہوئی تھی۔ پھر انہوں نے انگریزی کی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ 1930 میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں کالج کی تعلیم حاصل کی تھی۔ فارسی اور عربی زبان سے بھی وہ واقف تھے۔ ان کے والد ان کو جامعہ ازہر (قاہرہ) میں اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجنا ہی چاہتے تھے کہ 28 جنوری 1936 کو ان کا انتقال ہوگیا۔ نتیجہ میں گھر کی جملہ ذمہ داری ان پر آگئی۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے پُرآشوب حالات میں تیئیس برس کی عمر سے ہی انہوں نے انقلابی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ انقلابی جدوجہد کا راستہ امداد صابری کو ورثے میں ملا تھا، گھر کی ذمہ داری کے ساتھ وہ پُرآشوب حالات اور انگریز سرکار میں عوام پر ہونے والے ظلم و ناانصافی سے وہ کیسے آنکھیں چرا سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی ہر لمحہ سراپا جدوجہد اور قید و بند سے عبارت تھا۔ واضح ہو کہ امداد صابری کی زندگی کے تاریخی واقعات ان کے ایک ہندو دوست کی لکھی ہوئی کتاب ہے جو نہ صرف عینی شاہد تھے بلکہ امداد صابری کی زندگی کی جدوجہد کے تاریخی واقعات کو رقم کرکے انہوں نے فرض شناسی کا بروقت ثبوت دیا، ورنہ ممکن تھا کہ علامہ امداد صابری کی علمی و تحقیقی کتابوں سے تو ہم ضرور واقف ہوتے لیکن دلی اور اس کے عوام پر انہوں نے جو احسانات کیے شاید فراموش کر دیے جاتے۔
پنڈت سروپ شرما کی اس مختصر کتاب میں جامع مسجد دہلی کے امام شمس العلما سیّد احمد مرحوم کا واقعہ 1936 ہو، اوقاف کی جائیداد پر مسلمانوں کا قبضہ ہو، یا کانگریس رہنما کی حیثیت سے دہلی اور اس میں رہنے والے عوام کا ہو، احتجاجی دھرنے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں امداد صابری پر یک بعد دیگرے کئی مقدمے کیے گئے۔ حکومت نے 1942-43 میں ان کو نظر بند بھی رکھا۔ 1945 میں وہ شاہی قیدی بنائے گئے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے نیتاجی سبھاش چندر بوس کے جاپانی کارکنوں کی مدد کی تھی۔ ان پر چوتھا مقدمہ 5 اگست 1939 کو قائم کیا گیا جس کی پاداش میں 11 اگست کو چھ ماہ کی سزا ہوئی۔ وہ 1937 میں دہلی کانگریس کمیٹی کے سکریٹری رہے۔ پھر 1938-39 میں وہ جنرل سکریٹری بھی مقرر ہوئے۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس جو کانگریس سے وابستہ رہے تھے، انہوں نے اسی سال استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی امداد صابری اور لالہ شنکر لال نے بھی کانگریس سے بوجوہ علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ دہلی میونسپل کمیٹی کے تحت انہوں نے عوام کو شہر کی ترقی میں حصہ لینے پر مجبور کیا۔ انہوں نے دہلی کے متعدد مسائل پر 1936 سے 1948 تک مسلسل احتجاج کیا۔ ان کے ساتھ عوام کی بڑی تعداد تھی۔ ان مسائل میں اوقاف کی جائیداد پر قبضہ مافیا، مہلک بناسپتی گھی، تعمیر کے نام پر تخریب کے خلاف تحریک، میونسپلٹی کے آمرانہ رویہ ہو یا 1948 میں کسٹوڈین کے مظالم کا زمانہ ہو، امداد صابری صبر و توکل کے ساتھ کھڑے رہے۔ انہوں نے سخت آزمائشوں کا مقابلہ کیا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ دلی اور ملتان کی جیلوں میں رہے۔ فیروزپور میں گھر پر نظر بند بھی کیے گئے۔
دو اخبارات کی انتظامیہ سے امداد صابری کی وابستگی رہی تھی۔ ان میں ہفت روزہ ’چنگاری‘ بھی شامل ہے۔ وہ دہلی کے کونسلر کے ساتھ دہلی کے ڈپٹی میئر بھی رہے۔ علامہ امداد صابری کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے سماجی اور سیاسی مصروفیات کے باوجود ورثے میں جو علمی و تحقیقی رجحان عطا ہوا تھا اس کی نہ صرف پاسداری کی بلکہ اس کی آبیاری کا عملی ثبوت بھی دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی پچھتر سے زائد کتابیں شائع ہوئیں۔ ان کے موضوعات منفرد و اچھوتے ہوا کرتے تھے۔ علم و ادب کے میدان میں امداد صابری نے انہی موضوعات پر کام کیا جن پر کسی نے لکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ افسوس کہ لکھنے والے نے خوب لکھا لیکن ہماری علمی و اشاعتی دنیا میں امداد صابری کی تمام کتابیں شاید اب دستیاب نہیں ہیں۔ چند کتابوں کے نام جو جدول میں درج کیے گئے ہیں ان میں زیادہ تر ابھی بھی نایاب ہیں-
مذکورہ بالا چند کتابوں کے ناموں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ علامہ امداد صابری نے تحقیق و تنقید کے میدان میں کیا کارہائے نمایاں انجام دیے۔ اردو کے بلند ترین ادیبوں اور محققین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ افسوس کہ علامہ امداد صابری کو نام نہاد اردو حلقے نے محض سیاسی و سماجی شخصیت خیال کرکے تقریباً فراموش کردیا ہے۔ وہ باضابطہ صحافی نہیں تھے لیکن صحافت کے اسرار و رموز سے اعلیٰ سطح کی واقفیت رکھتے تھے۔ اسی طرح ادب، اسلامیات، تاریخ وغیرہ موضوعات پر ان کو دسترس حاصل تھی۔ یہ بات بھی قابل افسوس ہے کہ اردو ادب کی دنیا میں امداد صابری کی علمی و ادبی خدمات پر یونیورسٹیوں میں ابھی تک تحقیقی مقالات نہیں لکھے گئے۔ 13 اکتوبر 1988 کو 74 برس کی عمر میں علامہ امداد صابری کا انتقال ہوا۔ اللہ رب العزت ان کے حسنات کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ آمین۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 نومبر تا 30 نومبر 2024