ابو فہد ندوی
قرآن کی پہلی سورت کی پہلی دو آیات میں خالق کائنات کے لیے یکے بعد دیگرے تین الفاظ آئے ہیں، اللہ، رب اور رحمان۔ اور تینوں اسی ترتیب کے ساتھ آئے ہیں۔ قرآنی بیانیے میں ان کے کثرت استعمال اور ان کے توارد کی مختلف نوعیتوں کے حوالے سے غور و فکر کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی بیانیے میں ان کی استناد بنیادی نوعیت کی ہے گویا قرآن کے بیانیے کی ساری عمارت انہی پر ٹکی ہوئی ہے۔ خالق کائنات، اللہ رب العزت نے ضمیر غائب (ھو) اور واحد وجمع متکلم کی ضمائر کے علاوہ انہی تین الفاظ کے ذریعے خطاب کیا ہے۔ اسی طرح انبیاء کرام اور ان کی امتوں کے تمام نیک وصالح بندوں نے بھی اپنی دعا ومناجات میں خالق کائنات کو انہی تین لفظوں سے پکارا ہے۔
ان میں پہلا لفظ اللہ ہے اور ’اللہ‘ کے بارے میں معلوم ہی ہے کہ یہ اسم علم ہے اور اسم اعظم بھی۔ لفظ اللہ سے ہمیشہ ذات باری تعالیٰ ہی مراد ہوتی ہے، یہ لفظ کسی اور معنیٰ ومفہوم پر دلالت نہیں کرتا۔ یہ لفظ غیراللہ میں کسی بھی جان دار وغیر جان دار مخلوق کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، مجازی معنیٰ میں بھی نہیں، عارضی طور پر بھی نہیں، عاریۃً بھی نہیں اور اضافت کی نسبت کے ساتھ بھی نہیں۔ اللہ کے لیے دوسری زبانوں میں جو لفظ استعمال ہوتے ہیں جیسے، خدا، گاڈ، بھگوان اور پرماتما وغیرہ ان میں سے کوئی لفظ بھی لفظ ’اللہ‘ کا ترجمہ یا متبادل نہیں ہو سکتا، بس زیادہ سے زیادہ اللہ کی معرفت کی ترسیل کے لیے یَک لفظی اظہار ہو سکتا ہے۔ لفظ ’اللہ‘ اور لفظ ’رحمان‘ اہل عرب کے درمیان نزول قرآن سے بہت پہلے سے ہی متعارف تھے۔
دوسرا لفظ ’رب‘ ہے۔ قرآنی بیانیے میں یہ لفظ ’اللہ‘ اور رحمان کی طرح تو استعمال نہیں ہوا، تاہم یہ اسم ذاتی کے طور پر بھی قرآن میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ پھر ’اللہ‘ اور ’الحی القیوم‘ کی طرح اسے بھی اسم اعظم کہا گیا ہے۔ قرآن میں یہ لفظ سیکڑوں مرتبہ آیا ہے۔ لفظ ’رب‘ اگرچہ اللہ کی صفت ربوبیت کو بتاتا ہے مگر اس کا توارد بالکل منفرد ہے اور اس کا معاملہ بھی ’رحمان‘ کی طرح تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اسم علم جیسا ہے۔ اس فرق کی وضاحت آگے آرہی ہے۔
سورۂ طٰہٰ میں ہے: إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي (سورة طه: 14) اس آیت میں لفظ ’اللہ‘ سے باری تعالیٰ کی عین ذات مراد ہے۔ اور اس سے ماقبل کی جو آیت ہے: إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى(سورة طه 12) اس آیت میں لفظ ’رب‘ سے بھی عینِ ذات مراد ہے۔ یعنی لفظ رب اسم علم کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ جب اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مخاطب کرکے’’إِنِّي أَنَا رَبُّكَ‘‘ فرمایا ہے تو اس میں یہ معنیٰ زیادہ نکلتے ہیں کہ لفظ رب سے اللہ نے اپنی ذات کو مراد لیا ہے نہ کہ اپنی صفت ربوبیت کو۔ اسی سورہ کی پانچویں آیت میں لفظ ’رحمان‘ آیا ہے: الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ (طه: ٥) اوراس سے بھی عین ذات مراد ہے۔اور یہ بھی اسم علم کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
سورۂ یٓسن کی ایک آیت ہے: ’’سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ ‘‘(يٓس: ٥٨) ترجمہ: ’’ان (اہل جنت) کو مہربان رب کی طرف سے سلام کہا جائے گا‘‘ اس آیت میں لفظ ’رب‘ اسم علم کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
جس طرح لفظ ’اللہ‘ اور لفظ ’رحمان‘ کو غیراللہ کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا اسی طرح لفظ ’رب‘ کو بھی غیراللہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اضافت کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے، جیسے عبدالرحمان اور رب البیت۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے: ’’والرب هو : المالك المتصرف، ويطلق في اللغة على السيد، وعلى المتصرف للإصلاح ، وكل ذلك صحيح في حق اللهتعالى. ولا يستعمل الرب لغير الله ، بل بالإضافة تقول : رب الدار ، رب كذا ، وأما الرب فلا يقال إلا لله عز وجل ، وقد قيل : إنه الاسم الأعظم۔‘‘
قرآن کے بیانیے میں جس طرح اللہ اور رحمان کے ذریعہ جابجا تخاطب ملتا ہے اسی طرح لفظ ’رب‘ کے ذریعہ بھی جابجا تخاطب ملتا ہے۔ ’ربنا‘ کے نام سے قرآن کی جو چالیس دعائیں معروف ہیں ان میں لفظ ’رب‘ کے ذریعہ ہی تخاطب ہے۔ قرآن میں انبیاء کرام کی جو دعائیں شامل کی گئی ہیں وہ زیادہ تر) ’رب‘ کے لفظ سے ہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو اسی نام سے دعا کرنے کی تلقین بھی کی گئی ہے۔ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (الإسراء:۲۴)
آیتِ تسمیہ ’’بسم اللہ ۔۔‘‘ میں لفظ اللہ کے لیے جو اسلوب و انداز ہے وہی اسلوب اور انداز پہلی وحی ’’اقرأ بسم ربک۔۔۔‘‘میں لفظ ’رب‘ کے لیے بھی ہے۔ اسی طرح دیگر آیات جیسے: سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (الاعلیٰ:۱) تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (الغافر:۷۸) میں بھی تخاطب کا انداز یہی ہے۔
ابراہیم (علیہ السلام) نے سورج کو دیکھ کر کہا: هَٰذَا رَبِّي هَٰذَآ أَكۡبَرُۖ۔ اور حضرت (سلیمان علیہ السلام) کے پاس جب بلقیس کا تخت لایا گیا تو آپ نے فرمایا: هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّی۔ ان سب آیات میں لفظ رب اسم علم کے طور پر استعمال ہوا ہے کیونکہ یہاں عینِ ذات مقصود ہے نہ کہ توصیفِ ذات۔
بیشتر آیات میں لفظ رب اللہ کی تعریف وتوضیح کے لیے بھی آیا ہے، اسی طرح جس طرح سورہ فاتحہ کی پہلی آیت: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ میں ہے۔ سورۂ آل عمران میں ہے: إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ (آل عمران: ٥١) یہاں پر لفظ رب اللہ کی تعریف کے لیے ہے۔ اس آیت میں ’رب‘ کی معنویت یہ ہے کہ جب اللہ ہی ہے جو سب کو پیدا کرنے والا اور روزی مہیا کرنے والا ہے تو پھر عبادت بھی اسی کی ہونی چاہیے نہ کہ غیر کی؟ اسی طرح کی معنویت الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ میں بھی ہے کہ اللہ جو تمام جہانوں کا رب ہے، رحمان ورحیم ہے اور یوم جزا کا مالک و مختار ہے تو وہی سزاوار حمد ونعت بھی ہے۔ تعریف کا اصل سزاوار تو وہی ہے، دوسرے تو تبعا اور مجازا تعریف کے مستحق ٹہرتے ہیں۔
جس طرح لفظ اللہ کے لیے صفات وارد ہوتی ہیں جیسے: إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقرہ:۱۱۵) اسی طرح لفظ رب کے لیے بھی صفات وارد ہوتی ہیں: إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ (الحجر: ٨٦) نیزان تمام افعال واعمال کی نسبت لفظ ’رب‘ کی طرف بھی کی گئی ہے جن کی نسبت اللہ اور رحمان کی طرف کی گئی ہے۔
سورہ فاتحہ میں لفظ ’رب‘ جس طرح کی اضافت اور مابعد و ماقبل والے جن لفظوں کے ساتھ آیا ہے، قرآن کے بیانیے میں دیگر مقامات پر بھی اسی طرح کی اضافت اور ماقبل و مابعد کے انہی دونوں لفظوں کے ساتھ آیا ہے، مثلاً:
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الأنعام: ٤٥)
بعض آیات میں رحمان اور رب دونوں لفظ جمع ہوئے ہیں۔
سورہ طہ آیت ۹۰ میں ہے ’’ إِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَـٰنُ‘‘ سورہ اعراف آیت ۵۴ میں ہے ’’ إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ ‘‘ سورہ یونس میں آیت ۳ میں ہے ’’ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ‘‘سورہ اخلاص میں ہے ’’قُلۡ ھُوَ اللہ ‘‘ اور سورہ ملک آیت ۲۹ میں ہے’’قُلْ هُوَ الرَّحْمَٰنُ۔‘‘ بسم اللہ میں ’اللہ‘ کے بعد ’الرحمٰن‘ ہے اورسورہ فاتحہ میں ’اللہ‘ کے بعد ’رب‘ ہے۔ گویا اللہ کی سب سے بڑی پہچان اور شان ربوبیت و رحمت ہے۔ لفظ اللہ میں الوہیت کا مفہوم ہے، رب میں ربوبیت کا اور رحمان میں مہربانی کا۔ ان تینوں لفظوں کو سامنے رکھنے سے خالق کائنات کی ایک تصویر مکمل ہوجاتی ہے۔ یعنی زندگی (اپنے کلی معنیٰ میں) اسی کی عطا کی ہوئی ہے وہی زندگی کو باقی رکھے ہوئے ہے اور وہ زندگی کو باقی رکھنے پر کاربند بھی ہے کیونکہ وہ رحمٰن ہے۔
ان آیات کے مطالعے سے قرآنی بیانیے میں ان تینوں الفاظ کے توارد کی نوعیتوں کا پتہ چلتا ہے۔ تینوں الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہو رہے ہیں اور اس طرح بطور خاص قرآن کے اولین مخاطبین کو جن میں بعض گروہ اللہ کے لیے رحمان کے نام سے متعارف تھے اور بعض دوسرے گروہ رب کے نام سے متعارف تھے، یہ تینوں الفاظ خالق کائنات کی ہستی کی ایک مکمل تصویر ان اولین مخاطبین کے سامنے رکھ رہے ہیں،تاہم قرآنی بیانیے میں لفظ ’رب‘ کا توارد اور معنویت بہر حال لفظ اللہ اور رحمان کے توارد ومعنویت سے مختلف ہے۔ ذیل کی وضاحت سے اس پر کچھ روشنی پڑتی ہے۔
۱۔ لفظ ’رب‘ قرآن میں کہیں بھی معرف بالام استعمال نہیں ہوا ہے جبکہ ’رحمان‘ معرف بالام استعمال ہوا ہے۔ اور اللہ تو معرف بالام ہے ہی۔
۲۔ لفظ ’رب‘ ایک دو استثنائی مثالوں (جیسے سورہ یٓس کی آیت نمبر ۵۸: سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ اور سوۂ سبا آیت ۱۵: بَلْدَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ) کے علاوہ ہمیشہ اضافت کے ساتھ ہی استعمال ہوا ہے، جبکہ اللہ اور رحمان بنا اضافت کے اسعتمال ہوئے ہیں۔ لفظ ’رب‘ قرآن میں سیکڑوں بار آیا ہے مگر ہمیشہ اضافت کے ساتھ ہی آیا ہے، کہیں ضمائر کی طرف اضافت ہے اور کہیں اسماء کی طرف جیسے: رب العالمین، رب العرش العظیم، ربی، ربنا، ربک، ربکم، ربہ، ربہم وغیرہ۔
۳۔ لفظ ’رب‘ اللہ اور رحمان کی طرح استعمال نہیں ہوا ہے۔ جیسے ذیل کی آیات (ودیگر آیات) میں اللہ اور رحمان استعمال ہوئے ہیں: اللہ لا الہ الا ھو‘‘ اور ’’الرحمٰن علم القرآن۔ البتہ کچھ مختلف نوعیت کے ساتھ ضرور استعمال ہوا ہے جیسے: وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الْمُنتَهَىٰ (النجم: ٤٢) وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَىٰ (النجم: ٤٩) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (المدثر: ٣) اور وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (المدثر: ٧( وغیرہ۔
۴۔ دعا اور اللہ سے تخاطب کے لیے لفظ اللہ اور رحمان کے مقابلے میں لفظ رب زیادہ استعمال ہوا ہے۔ ’ربنا‘ کے نام سے چالیس قرآنی دعائیں تو معروف ہیں۔
۵۔ لفظ رب حرف ندا کے ساتھ استعمال ہوا ہے َقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (٣٠ الفرقان) اور وَقِيلِهِ يَا رَبِّ إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُونَ (٨٨ الزخرف) جبکہ اللہ اور رحمان حرف ندا کے ساتھ استعمال نہیں ہوئے ہیں ۔ البتہ ’اللہم‘ ضرور استعمال ہوا ہے جس میں میم حرف ندا کے بدل کے طور پر ہے اور اس کے معنیٰ ہوتے ہیں ’یا اللہ‘۔ تاہم قرآن میں ’اللہم‘ کا استعمال بھی بہت کم ہے۔
۶۔ لفظ اللہ کی طرح لفظ ’رب‘ بھی غیراللہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ لفظ بھی اسی قادر مطلق ہستی کے لیے خاص ہے۔ مگر اضافت کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے۔
۷۔ لفظ ’رب‘ اللہ کے معروف ننانوے ناموں میں شامل نہیں ہے، جبکہ ’رحمان‘ ان میں شامل ہے۔
اس طرح لفظ رب کا توارد لفظ اللہ اور رحمان کے توارد سے مختلف ہوجاتا ہے۔
تیسرا لفظ ہے رحمان۔ قرآن کے بیانئے میں یہ لفظ ’رحمان‘ بھی اسمِ علم کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ لفظ ’رحمان‘ کے بارے میں علامہ سید سلیمان ندوی نے ’’تاریخ الارض القرآن‘‘ میں صراحت کی ہے کہ رحمان اللہ کے لیے اسم علَم کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
’’خدا كے ليے رحمان كا لفظ اسلام سے پہلے عام طور پر عربوں ميں مستعمل نہ تھا ، اصل ميں یہ عبرانى لفظ ہے اور صرف يہود و نصاری اور بعض ديگر ارباب مذہب اس كو بولتے تھے، چنانچہ يمن كے آخرى كتبات ميں رحمٰن ہی كا نام ملتا ہے۔ سد عرم كے عيسائى كتبہ كا آغاز "بنعمة الرحمن الرحيم” سے ہوتا ہے۔ اسى ليے اسلام نے جب ابتداً رحمٰن كا نام ليا تو قريش كو اچنبھا ہوا کہ يہ کون سا نيا نام ہے؟ صلح حديبيہ ميں حضرت علیؓ نے عہد نامہ كى پيشانى پر بسم اللہ الرحمٰن الرحيم لكھا تو قريش نے ماننے سے انكار كيا كہ ہم رحمان كو نہیں جانتے۔
قرآن مجيد ميں قريش كے اس انكار كى تصريح مذكور ہے :
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا (الفرقان:۶۰) ’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمان كو سجدہ كرو تو كہتے ہیں رحمان كيا ہے، تو جس كو كہے گا اس كو ہم سجدہ كريں گے، اس سے ان كى نفرت ميں اور ترقى ہوتی ہے‘‘
قرآن نے ان كو بتايا كہ خدا كے ليے تمام اچھے نام بولے جا سكتے ہیں، اللہ اور رحمان ايك ہی ذات كے مختلف نام ہیں :
قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا (بنى اسرائيل:۱۱۰)
’’كہہ دو كہ اللہ كہہ كر پکارو يا رحمٰن كہہ كر پکارو اس كے ليے سب اچھے نام ہیں‘‘۔ قرآن کے ہر سورہ كا آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحيم سے ہوتا ہے، ہمارے مفسرين نے رحمان اور رحيم دو ہم معنى صفتوں كى يكجائى كى متعدد تاويليں كى ہیں اور ان دونوں الفاظ كے معانى كے درميان نہايت نازك اور دقيق فرق نكالے ہیں، ليكن ہمارے نزديك سب كوہ كاوى و موشگافى ہے۔ قرآن كے استعمال سے صاف ظاہر ہوتا ہے كہ اس نے رحمان كا استعمال بطور صفت كے نہیں، بطور علم كے كيا ہے۔ چنانچہ تمام قرآن ميں 53 دفعہ یہ نام خدا كے ليے آيا ہے۔ اس بناء پر اس كو صفت قرار دينا صحيح نہیں ہے سورہ بنى اسرائيل كى اوپر والى آيت سے یہ سمجھا جا سكتا ہے كہ رحمان خدا كى صفت نہيں بلكہ علم ہے ۔
ہم سمجھتے ہیں كہ عرب ميں دو متضاد جماعتيں تھیں، جن ميں سے ايك اپنے معبود كو اللہ اور دوسرى رحمٰن كہتى تھی۔ اسلام ان دونوں كو يكجا كرتا ہے كہ تم جس كو اللہ كہتے ہو اور وہ جس كو رحمٰن كہتے ہیں وہ حقيقت ميں ایک ہی ذات كى دو تعبيريں ہیں اور يہ باہمی اختلاف محض نزاعِ لفظى ہے۔ اس بنا پر بسم اللہ الرحمن الرحيم كے معنى ہمارے نزدیک يہ ہیں: ’’ہم اپنا كام اس خدا (اللہ) كے نام سے شروع كرتے ہیں جس كا دوسرا نام رحمن ہے اور جو رحمت والا ہے‘‘
(تاریخ الارض القرآن۔۔از سید سلیمان ندوی‘‘)
رحمٰن تقریبا ہر جگہ اسم علم کے طور پر ہی استعمال ہوا ہے۔ البتہ وہ تمام مقامات جہاں الرحمن اور الرحیم دونوں لفظ ایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں وہاں اس لفظ کا بطور صفت کے مستعمل ہونا مستنبد نہیں ہے۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ سید صاحب نے ’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘ کا جو ترجمہ کیا ہے، وہ ترجمہ کسی نے بھی نہیں کیا ہے، عرب مفسرین میں سے بھی بیشتر مفسرین نے رحمٰن کی تشریح بطور صفت ہی کی ہے۔اس کے علاوہ قرآن میں جن جن مقامات پر بھی یہ لفظ آیا ہے، ان میں سے بیشتر مقامات پر اسے صفت مان کر ہی اس کا ترجمہ وتشریح کی گئی ہے۔
آیت تسمیہ میں ’’اعوذ باللہ‘‘ ہے اور سورہ مریم آیت نمبر ۱۸ میں’’أَعُوذُ بِالرَّحْمَـٰن‘‘ ہے۔ان آیات میں اللہ اور رحمان دونوں کا بالکل ایک ہی طرح کا توارد ہے اور ایک ہی طرح کی معنویت ہے۔ قرآن میں لفظ ’رحمان‘ کے بطور اسم علم کے استعمال کی مثالیں بہت ہیں۔ سورہ رحمان ہی کو دیکھ لیں: ’’الرحمٰن علم القرآن، خلق الانسان، علمہ البیان‘‘۔ انسان کی تخلیق، اس کو تعلیم دینے اور پھر قوت گویائی عطا کرنے کی نسبت ’رحمان‘ کی طرف کی گئی ہے جس طرح اللہ کی طرف ان تمام افعال کی نسبت کی گئی ہے۔ سورہ رعد میں ہے : اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (الرعد: ١٦)
اسی طرح قرآنی بیانے میں لفظ رحمان کے ساتھ تخاطب یا مخاطبہ سے بھی یہی پتہ چلتا ہے ایک دو مقامات کے استثنیٰ کے ساتھ لفظ ’رحمان‘ بطور اسم علم آیا ہے نہ کہ بطور اسم صفت۔عام انسانی بیانیوں میں بھی جو تخاطب یا مخاطبہ ہوتا ہے وہ ہمیشہ اسم ذاتی کے ساتھ ہی ہوتا ہے صفاتی ناموں کے ساتھ نہیں ہوتا۔ اسی لیے ایسا ہے کہ قرآن میں اللہ کے جتنے بھی صفاتی نام آئے ہیں، جیسے: خالق، مالک، کریم، رحیم، غفور وودود۔۔ ان سب کا ترجمہ کیا جاتا ہے، مگر اللہ، رب اور رحمان کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔
قرآن کے بیانیے میں یہ دونوں لفظ ’رب اور رحمان‘ اس طرح آئے ہیں جیسے ایک شخص اتنا سخی ہو کہ اس کا نام ہی سخی پڑجائے اور پھر یہ صفتی نام اتنی شہرت حاصل کرلے کہ وہ اس کی پہچان بن جائے اور لوگ اسے ’سخی‘ کہہ کر پکارنے لگیں۔ تواللہ کی ذات جہاں بہت سی صفات کی حامل ہے، اس کی یہ دو صفات سب سے زیادہ نمایاں ہیں اور ان کا ظہور ابتدائے آفرینش سے مسلسل ہوتا رہا ہے اور اسی طرح مسلسل منتہائے آفرینش تک ہوتا رہے گا۔ باقی اللہ کی جو دیگر صفات ہیں جیسے شدید العقاب اور سریع الحساب وغیرہ، تو یہ صفات تو اگرچہ قدیم اور دائمی ہیں مگران کا ظہور وقت وقت پر ہے۔ ان کے علاوہ جو صفات ہیں جیسے العزیز، الجبار، المصور اور العلیم الخبیر، السمیع، اللطیف القوی وغیرہ توان کا تعلق انسان سے اس طرح نہیں ہے جس طرح رب اور رحمان کا تعلق ہے۔
قرآن نے کئی مقامات پر لفظ اللہ کے فورا بعد لفظ رب کا بھی استعمال کیا ہے۔ اسی طرح لفظ رب کے بعد لفظ رحمان کا بھی اور بعض آیات میں اللہ اور رحمان دونوں استعمال ہوئے ہیں۔ سورۂ انعام میں ہے ثُمَّ لَمْ تَكُن فِتْنَتُهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ (الأنعام: ٢٣) اس آیت میں لفظ ’ربنا‘ کو اس سے قبل حرف ندا ’یا‘ کو محذوف مان کر مفتوح بھی پڑھا گیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ علم بن جاتا ہے اور اس سے یہ دلیل نکلتی ہے کہ ایک ہی مختصر جملے میں بیک وقت دو علَم بھی مستعمل ہو سکتے ہیں۔ سورۂ نباء میں ہے: رَّبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمَٰنِ، لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا (النباء۳۷) اس میں رب اور رحمان دونوں اسم علم کے طورپر استعمال ہوئے ہیں۔ اسی طرح سورۂ انبیاء میں ہے قَٰلَ رَبِّ ٱحْكُم بِٱلْحَقِّ ۗ وَرَبُّنَا ٱلرَّحْمَٰنُ ٱلْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ (الانبیاء۱۱۲) اس میں رب اور رحمان باہم دگر بطور علم کے مستمعل ہوئے ہیں۔ البتہ کئی مفسرین نے اس کا ترجمہ بطور صفت کے بھی کیا ہے۔
ان آیات کے پیش نظر سید صاحب نے بسم اللہ میں اللہ اور رحمان دونوں کو اسم علم مان کر جو ترجمہ کیا ہے وہ درست قرار پاتا ہے۔
ان کے علاوہ ایک لفظ ’الٰہ‘ بھی ہے۔ والٰہکم الٰہ واحد، لاالہ الا ھو الرحمان الرحیم۔ قرآن کے بیانیے میں یہ لفظ بھی کثرت کے ساتھ آیا ہے، اور اکثر وبیشتر اللہ، رب اور رحمان کے سابقے ولاحقے کے طور پر آیا ہے۔ مثلا:
ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
(الأنعام: ١٠٢)
تاہم اس کا معاملہ پہلے تین لفظوں کی طرح نہیں ہے۔ یہ لفظ صرف تشریح کے لیے ہے جو اللہ کے معبود ہونے کی تشریح کرتا ہے۔ جس طرح لفظ خالق اور مالک اللہ کی صفت خلق اور ملکیت کو بتاتے ہیں اسی طرح یہ لفظ ’الٰہ‘ بھی اللہ کے معبود ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ قرآنی بیانیے میں لفظ اللہ ہمیشہ ہی اسم علم کے طور پر مستعمل ہوا ہے۔ لفظ رحمان چند استثنائی مقامات کے علاوہ بیشتر مقامات پر اسم علم کے طور پر اور لفظ ’رب‘ اسم علم اور نعت وصفت دونوں حیثیت سے استعمال ہوا ہے۔
بظاہر یہی محسوس ہوتا ہےکہ یہ تینوں الفاظ قرآنی بیانیے کے کلیدی الفاظ ہیں، یہ گویا بیانیے کی عمارت کے لیے تین ستونوں کی طرح ہیں، جن پر بیانیے کی عمارت تعمیر ہوئی ہے۔ انہیں کے ذریعہ تخاطب ہے اور انہیں کی ذریعے ذات الٰہی کی تفہیم ہے۔
اگر اسلوب اور تیکنک کی سطح پر بات کریں تو یہ تینوں نام اللہ، رب اور رحمان، قرآن میں بالکل اسی طرح استعمال ہوئے ہیں جیسے کوئی شاعر اپنی شاعری میں ایک سے زائد تخلص کا استعمال کرتا ہے، جو تخلص جہاں کے لیے مناسب اور موزوں ہوتا ہے وہ اس جگہ پر اسی موزوں تخلص کا استعمال کرتا ہے، جیسے غالب کہیں اسد لکھتے ہیں، کہیں غالب اور کہیں اسد اللہ خاں۔ (کلام اللہ کو انسانی کلام سے کوئی نسبت نہیں ہے لیکن تفہیم کا ذریعہ چونکہ یہی ہے اس لیے کلام اللہ کی تفہیم کے لیے انسانی کلام کے حوالے دینے پڑتے ہیں) غالب کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
مارا زمانے نے اسد اللہ خؔان تمہیں
وہ ولولے کیا ہوئے وہ جوانی کدھر گئی
کھائیو مت اسؔد فریب ہستی
ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے
غالبؔ تمہی کہو ملے گا جواب کیا
مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 ستمبر تا 09 ستمبر 2023