عالمی یوم اردو اور اردو کی زبوں حالی
زبان کی طاقت اس کے بولنے پڑھنے اور لکھنے والوں سے ہوتی ہے جو اس کو ذریعہ اظہار کے طور پر استعمال کرتے ہیں
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
9 نومبر کو ہر سال علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر عالمی یوم اردو منایا جاتا ہے۔ دہلی میں غالب اکیڈمی میں ماہر اقبالیات پروفیسر عبدالحق کی صدارت میں پروگرام منعقد ہوا۔ اقبال بیسویں صدی کی عظیم شخصیت کا نام ہے۔ مشرق سے بھی واقف مغرب سے بھی آگاہ۔ شاعر دردمند مسلمانوں کے بارے میں فکر مند، خدا آشنا خودی کا نگہباں۔ اقبال کے بارے میں ایک پورا کتب خانہ وجود میں آگیا ہے۔ عرب دنیا اردو یا فارسی سے واقف نہیں لیکن پچیس سے زیادہ کتابیں اقبال پر چھپ چکی ہیں اور دو سو سے زیادہ مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ عربی کے مشہور ادیب اور مصنف ڈاکٹر طہ حسین نے لکھا کہ اسلام کی پوری تاریخ میں اقبال سے بڑھ کر کوئی شاعر اسلام نہیں پیدا ہوا۔ بہت سی شخصیتوں نے کلام اقبال کے عربی ترجمے کیے لیکن مقبول ترین کتاب مولانا علی میاں کی کتاب روائع اقبال ہے جو عربی زبان وادب کا بہترین نمونہ ہے۔ہند و پاک میں اقبال پر جتنا لکھا گیا کسی اور شاعر اور ادیب پر نہیں لکھا گیا۔ ایک پورا کتب خانہ وجود میں آ گیا ہے لیکن اقبالیات کا کتب خانہ ایک طرف اور رشید احمد صدیقی کا فقرہ ایک طرف۔ رشید احمد صدیقی کہتے ہیں اقبال کی تین جہتیں ہیں ایک یہ کہ اقبال بہت بڑے فلسفی تھے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دنیا میں اقبال سے بڑا کوئی فلسفی نہیں گزرا۔ اقبال کی دوسری جہت یہ تھی کہ وہ شاعر تھے۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اقبال سے بڑا کوئی شاعر کہیں نہیں پیدا ہوا۔ اقبال کی تیسری جہت یہ ہے کہ وہ ایک مصلح ومرشد اور ریفارمر تھے۔ کسی کے لیے یہ دعوی کرنا مشکل ہے کہ اقبال دنیائے انسانیت کے سب سے بڑے مصلح اور مرشد تھے لیکن اگر تینوں جہتوں کو ملا کر کوئی دیکھے گا تو اقبال سے بڑی شخصیت اور کہیں نظر نہیں آئے گی۔ اور کوئی بھی آنکھوں میں نہیں جچے گا
ہزار مجمع خوبان ماہ رو ہوگا
نگاہ جس پہ ٹھہر جائے گی وہ تو ہو گا
وہ اردو زبان جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا ’’سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘ اس زبان کی خدمت کے حوالہ سے بہت سے لوگوں کو غالب اکیڈمی میں انعامات سے نوازا گیا لیکن اب اسی اردو زبان کے بارے میں ایک شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوا
کہہ دو کہ شکوہ لب مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
زبان کی طاقت اس کے بولنے پڑھنے اور لکھنے والوں سے ہوتی ہے جو اس کو ذریعہ اظہار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ عالمی یوم اردو کے موقع پر اردو زبان کے مسائل اور مشکلات کے موضوع پر مذاکرہ بھی منعقد ہوا۔ جناب سہیل انجم نے کلیدی خطبہ میں دشواریوں کا اور اہل اردو کی غفلت اور بے حسی کا تذکرہ کیا۔ آزادی سے قبل کشمیر سے بنگال تک لوگ اس زبان کو پڑھتے تھے اور لکھتے تھے۔ کشمیر میں پنجاب میں اور دوسری ریاستوں میں بھی ہندو اور مسلمان دونوں یہ زبان پڑھتے لکھتے اور بولتے تھے۔ دہلی یو پی، بہار اور حیدراباد اردو تہذیب کے مراکز تھے۔ اب یہ زبان صرف مسلمانوں کی زبان بن گئی ہے۔ اس ملک میں ہندوتوا کے نظریاتی مفکرین نہ صرف اسلام کو بلکہ مسلمانوں کی زبان اور تہذیب سب کو غیر اور لائق گردن زدنی سمجھتے ہیں۔ اردو والوں کو سب سے پہلے اس پر توجہ دینی چاہیے کہ کس طرح یہ زبان پھر سے ملک کی مشترکہ زبان بن سکتی ہے۔ لیکن اس کی سب سے پہلی ذمہ داری ان لوگوں کی ہے جن کی اور جن کے آبا واجداد کی یہ مادری زبان رہی ہِے۔ عربی اور فارسی کے بعد جتنا مذہبی سرمایہ اردو زبان میں ہے دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں ہے، اس لیے جن خاندانوں میں بچے اردو پڑھتے اور لکھتے نہیں ہیں ان خاندانوں میں اسلامیات کے فاضل اور اسکالر پیدا نہیں ہو سکتے اور اسلامی تہذیب کی حفاظت بھی آگے چل کر ممکن نہیں ہے۔ اردو زبان پر سب سے پہلی ضرب اس وقت لگی تھی جب انگریزوں نے اقتدار کی طاقت سے فائدہ اٹھا کر نظام تعلیم بدل دیا تھا اور انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا دیا تھا، پھر بھی ان کے اندر اتنی وسعت قلبی تھی کہ انہوں نے دیسی زبانوں کے فروغ کا بھی انتظام کیا تھا لیکن جدید ہندوستان کے نئے مذہب یعنی’’ ہندوتوا‘‘ کے جو علم بردار ہیں اور نئے ہندوستان کے جو معمار ہیں ان کے اندر اتنی وسعت ظرف نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کی تہذیب تمدن اور زبان کو برداشت بھی کر سکیں۔ انہیں تو نماز روزہ اور قربانی وحج بھی برداشت نہیں۔ بیسویں صدی کا ’’ہندتوا‘‘ وہ ہندو مذہب نہیں ہے جسے البیرونی نے جانا اور سمجھا تھا اور کتاب لکھی تھی جس کا نام تو لمبا ہے اور جو مختصرا "کتاب الہند” کے نام سے مشہور ہے۔ ہندوتوا اب بالکل ایک نیا فلسفہ نیا نظریہ اور نیا مذہب ہے۔ وہ نکلا تو ہندو مذہب سے ہےلیکن نئے خد وخال اور نئے فر وفال کے ساتھ اور اس کے پنجہ خونیں کی خطرناکی کو سمجھنے کے لیے ایک نئے البیرونی کی ضرورت تھی، چنانچہ جناب سید سعادت اللہ حسینی کی شکل میں اس نئے البیرونی کی آمد ہوئی ہے۔ کوئی بھی شخص ان کی کتاب ’’ہندوتوا انتہا پسندی‘‘ پڑھ کر میرے اس قول کے صحیح ہونے کی شہادت دے گا۔
اردو کے خلاف اس ملک میں اتنا کام ہوا کہ خود اردو والوں نے بھی گھبرا کر اردو سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے۔ اگر اردو والوں میں غیرت اور حمیت ہوتی تو اردو کے دشمن لاکھ اقدامات کرتے اور اردو زندہ رہتی لیکن حمیت نام تھا جس کا وہ مسلمانوں کے گھر یا اردو والوں کے گھر سے رخصت ہو گئی۔ اب اردو جن گھروں میں بولی جاتی ہے وہاں اردو کتابیں نہیں خریدی جاتیں وہاں کوئی اردو اخبار نہیں آتا۔ وہاں بچے اب اردو نہیں پڑھتے۔ اردو میڈیم میں داخلہ لینا تو دور بچے ایک مضمون کی حیثیت سے بھی اسکول میں اردو نہیں لیتے اور نہ بچوں کے سرپرستوں کو اس کی فکر ہے۔ اب خطوط اردو میں نہیں لکھے جاتے۔ اب شادیوں کے کارڈ تک اردو میں نہیں چھاپے جاتے، یہاں تک کہ اردو کے اساتذہ کے گھروں سے اردو غائب ہو رہی ہے۔ اردو زبان میں ناموں کی تختیاں غائب ہو گئی ہیں۔ قبرستانوں میں کتبے ہندی میں نظر آتے ہیں۔ پہلے لوگ بچوں کا انگلش میڈیم اسکولوں داخلہ کرواتے تھے لیکن گھروں پر کسی مولوی صاحب کو رکھ کر بچوں کو قرآن اور اردو کی تعلیم دلواتے تھے اب یہ اہتمام اور مذہب کا احترام اور اردو سے تعلق برائے نام بھی ختم ہو گیا ہے۔ اردو زبان اردو والوں کی شقاوت قلبی پر گریہ کناں اور فریاد بلب ہے۔
اردو کو اس کا جائز حق ملنا چاہیے اردو کی قانونی لڑائی لڑنی چاہیے، لیکن اس سے پہلے ہمارے اندر زبان کے سلسلہ میں غیرت اور حمیت موجود رہنی چاہیے۔ ہم پر اسی زبان کے سلسلہ میں جو فرض عائد ہوتا ہے اسے ادا کرنا چاہیے۔ اردو کو اپنے گھروں میں باقی رکھنا چاہیے۔ اگر ہمارے اندر اردو کے سلسلہ میں غیرت اور حمیت نہیں ہو گی تو ہم اردو کی لڑائی نہیں جیت سکتے ہیں۔
***
***
اردو کو اس کا جائز حق ملنا چاہیے اردو کی قانونی لڑائی لڑنی چاہیے، لیکن اس سے پہلے ہمارے اندر زبان کے سلسلہ میں غیرت اور حمیت موجود رہنی چاہیے۔ ہم پر اسی زبان کے سلسلہ میں جو فرض عائد ہوتا ہے اسے ادا کرنا چاہیے۔ اردو کو اپنے گھروں میں باقی رکھنا چاہیے۔ اگر ہمارے اندر اردو کے سلسلہ میں غیرت اور حمیت نہیں ہو گی تو ہم اردو کی لڑائی نہیں جیت سکتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 نومبر تا 26 نومبر 2022