علامہ قرضاوی اس دور کے حقیقی مجتہد تھے : ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی

موسوعہ امام یوسف القرضاوی پر ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی میں’ اسکالر سمینار‘ کا انعقاد

علی گڑھ(دعوت نیوز نیٹ ورک)

علامہ یوسف القرضاوی کی شخصیت عصر حاضر کی منفرد اور بے مثال شخصیت تھی وہ اپنی مجتہدانہ، مفکرانہ اور قائدانہ خصوصیات کی وجہ سے آسمان علم و فن کا روشن ستارہ تھے۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ عصری چیلینجز کا مقابلہ کرنے، علوم اسلامیہ کی عصری تطبیق اور شریعت اسلامیہ کی صالحیت و نافعیت کو زمانہ کے سامنے پیش کرنے میں صرف ہوا۔ قرآن، حدیث، سنت، فقہ، اصول فقہ ،عقیدہ ، اخلاق عبادات، مالیات، سیاسیات، سماجیات اور معاصر افکار و نظریات کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو، جس پر انہوں نے خامہ فرسائی نہ کی ہو۔ ان کے عظیم علمی و فکری سرمائے کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے اور اس کے تحفظ کی خاطر علامہ قرضاوی کے لائق شاگردوں نے، ان کی تمام کاوشوں کو موسوعہ کی شکل میں مرتب کر کے شائع کیاہے۔ یہ صاحب موسوعہ اور ان کے شاگردوں کی طرف سے امت مسلمہ پر ایک عظیم احسان ہے، جس کا پہلا حق یہ ہے کہ امت کے افراد اس سے خوب خوب فائدہ اٹھائیں اور علامہ موصوف کے منہج عمل کو اختیار کرنے کی کوشش کریں۔
پچھلے دنوں علی گڑھ میں ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی کی صدارت میں ایک وقیع اور علمی سمینار منعقد کیا گیا، جس میں رفقاء و اسکالرس نے اپنے مطالعے کی روشنی میں موسوعہ کے منتخب مباحث پر مقالات پیش کیے۔اس سمینار میں موسوعہ کے 11مرکزی عناوین پر مقالات پیش کیے گئے۔ جن میں موسوعہ کا تعارف بھی شامل ہے۔ 105ضخیم جلدوں اور 72/ہزار صفحات پر مشتمل یہ موسوعہ ، امام قرضاوی کی تمام تصانیف، مقالات ، مضامین، قصیدے، اشعار اور فتاوی کے ساتھ ایشیاء، افریقہ، یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں دیے گئے خطبات جمعہ مختلف علمی، فکری، دینی، اصلاحی کانفرنسوں ، سمینار اور دنیاکی مختلف یونیورسٹیوں میں دیے گئے محاضرات پر مشتمل ہے۔ موسوعہ کو 13 مرکزی عناوین کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔
اس سمینار میں 1۔شریعۃ الاسلامیۃ صالحۃ للتطبیق فی کل زمان و مکان 2۔القرآن، علومہ وتفسیرہ3۔ فقہ الزکاۃ 4۔فقہ السیاسۃ الشرعیۃ 5۔فقہ الاؤلویات 6۔اخلاق الاسلام 7۔کیف نتعامل مع القرآن 8۔ الاسلام بین شبہات الضالین و اکاذیب المفترین 9۔مبادی فی الحوار والتقریب بین المذاھب والفرق الاسلامیۃ، جیسے اہم مباحث پر انعام الحق قاسمی، ڈاکٹر ابو سعد اصلاحی، مولانا سالم برجیس ندوی، محمد روید خان فلاحی، محمد عمر فیاض، احمد رضوان ندوی، مولانا مجیب الرحمٰن فلاحی، ندیم اختر سلفی اور سالم فاروق ندوی نے بالترتیب اپنے مقالات پیش کیے۔
انعام الحق قاسمی نے ” شریعۃ الاسلامیۃ صالحۃ للتطبیق فی کل زمان و مکان “کے حوالہ سے شریعت اسلامیہ کی ہمہ گیری و آفاقیت بالخصوص اجتہاد کی ضرورت، اجتہاد کے معنی و مراد کی وضاحت اور مغرب پر انحصار سے آزادی وغیرہ پر بات کی۔ عبدالعزیز سلفی نے ”ملامح المجتمع المسلم الذي ننشده “ کی روشنی میں اسلامی معاشرے کی بنیادی خصوصیات اور اس کے تکوینی عناصر پر روشنی ڈالی ۔ ڈاکٹر ابو سعد اصلاحی نے "القرآن، علومہ وتفسیرہ”سے متعلق تفسیر القرآن بالقرآن، نظم کلام کی رعایت، تفسیر القرآن بالسنۃ، ضعیف اور موضوع احادیث سے احتراز، تفسیر الصحابہ، اسباب نزول کی واقفیت، تفسیر صحابہ سے رجوع کی اہمیت، تفسیر التابعین، تفسیر میں تنوع کا اختلاف، زبان کی رعایت، تفسیر بالرائے کی ممانعت کی حقیقت وغیرہ پر گفتگو کی۔ مولانا سالم برجیس ندوی نے ”فقہ الزکاۃ“ کےحوالہ سے مصنف ؒکے طریق استدلال اور زکوٰۃ سے متعلق ان کے نقطۂ نظر کا تعارف کرایا۔ محمد روید خان فلاحی نے ” فقہ السیاسۃ الشرعیۃ “میں دین اور سیاست کے معانی ومفہوم، فقہاء، فلاسفرز اور مغربی اسکالرز کےنزدیک سیاست کا مفہوم، اسلام کی جامعیت اور اس کےتمام شعبہ ہائے حیات کے تصور کو واضح کیا ۔ محمد عمر فیاض نے ” فقہ الاؤلویات“ کے حوالہ سے کہا کہ علامہ قرضاوی اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ امت مسلمہ کو فروعی معاملات میں الجھنے کے بجائے اپنے بڑے بڑے مسائل پر توجہ دینا چاہیے، آپسی اختلاف سے بچنا چاہیے، وقتی فائدے کے بجائے طویل المدتی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا چاہیے۔احمد رضوان ندوی نے ”اخلاق الاسلام “کے حوالہ سے اپنا تجزیہ پیش کیا اور کہا کہ علامہ یوسف القرضاوی نے اخلاقیات کو اسلامی عبادات سے جوڑا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی عبادات انسان کی روحانی تربیت کے ساتھ ہی اس کے اندر اخلاقیات کے مادہ کو بھی پروان چڑھاتی ہے ، گویا عبادات ایک مکمل اخلاقی تعلیم کا ذریعہ ہے ۔ اسلام میں عملی اخلاق کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، عقائد، فکر اور منہج کی تصحیح کے بعد عمل کی پاکیزگی پر بہت زور دیا گیا ہے۔مجیب الرحمٰن فلاحی نے ”کیف نتعامل مع القرآن "کےضمن میں قرآن پر غور وفکر کرنے اوراس پر عمل کرنے کے فضائل وآداب وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے ۔ ندیم اختر سلفی نے”الاسلام بین شبہات الضالین و اکاذیب المفترین“ کے عنوان پر مقالہ پیش کرتے ہوئے زمانہ قدیم سے لے کر موجودہ زمانے تک کے اعتراضات کا ایک مختصر جائزہ لیا اور گمراہ کن فرقوں کے شبہات اور دین پر افترا پردازیوں کا قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب دیا ہے۔سالم فاروق ندوی نے”مبادی فی الحوار والتقریب بین المذاھب والفرق الاسلامیۃ “کے حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس مقالہ میں مسلمانوں کے دو بڑے گروہ شیعہ اور سنی کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ علامہ قرضاویؒ نے بین المسالک مکالمے کے لیے اپنے دس اصول تحریر فرمائے ہیں، جن سے اس ڈائیلاگ کو فروغ ملے گا اور تقریب بین المسالک کی راہیں ہموار ہوں گی۔
سمینارکے اخیر میں صدرمجلس ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی نے علامہ یوسف القرضاوی کی زندگی کے مجاہدانہ پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ آپ نے کہا کہ علامہ یوسف القرضاوی اس دور کے حقیقی مجتہد تھے جنہوں نے اپنی شان اجتہاد سے امت کے بے شمار مسائل حل کیا۔ وہ تمام مکاتب فکر سے استفادہ کرتے تھے۔ علامہ قرضاوی اس دور کے سچے مرد مجاہد تھے جس نے کبھی باطل کے سامنے اپنے سر کو جھکنے نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ علامہ قرضاوی نے زندگی میں مختلف حالات کا سامنا کیا، انہیں جب مصری حکومت کے ظلم کا سامناکرنا پڑا تو قطر نے ان کو اپنے یہاں رکھ لینا اعزاز سمجھا اور وہ قطر میں رہنے لگے، قطری حکومت ان پر جان نچھاور کرتی تھی مگر کبھی قطری حکومت کے ساتھ بھی کسی غیر اسلامی معاملہ میں سمجھوتہ نہیں کیا۔ ڈاکٹر قرضاوی نے ہمیشہ غاصب صہیونیوں کی مخالفت کی اور اہل حق فلسطینیوں کی اسلامی اخوت پر حمایت کی۔ فیفا ورلڈ کپ 2022ء میں کسی حد تک دعوتی مشن کا مظاہرہ بھی آپ ہی کی تربیت اور مشوروں کا نتیجہ تھا۔ علامہ قرضاوی نے موجودہ دور میں روح جہاد کو زندہ کیا ہے۔
فلسطین کی حمایت میں فتویٰ صادر کرنے پر آپ کو مصر سے نکلنا پڑا ، دہشت گردی کا الزام لگا مگر انہوں نے حق کا دامن نہ چھوڑا۔ ایک مرتبہ انہوں نے ایک کانفرنس میں کہا کہ اگر مظلوموں کے لیے آواز اٹھانا، ظالم کے خلاف مہم چلانا، عورتوں کی عصمت کی پاسداری کرنا، معصوم بچوں کے خون پر آنسو بہانا ، اسلام کا تحفظ ، اسلامی شناخت ،اپنے ورثہ اور اراضی کی حفاظت اگر دہشت گردی ہے تو نوٹ کرلیں کہ قرضاوی دہشت گرد ہے۔
سکریٹری ادارہ مولانا اشہد جمال ندوی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ "موسوعہ امام یوسف القرضاوی” علوم اسلامیہ کاعظیم انسائیکلو پیڈیا اور ملت اسلامیہ کے لیے عظیم سرمایہ ہے، جس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے اور اس سے خوب خوب استفادہ کیا جائے۔
مقالہ نگاران میں سالم فاروق ندوی ، عبد العزیز سلفی اورانعام الحق قاسمی نے بالترتیب اول ،دوم اورسوم پوزیشن حاصل کی۔
سمینار کا آغاز اسکالر عبدالعزیز کی تلاوتِ قرآن سے ہوا۔ محمد روید خان فلاحی نے کنوینر کےفرائض انجام دیے، ادارہ کے جوائنٹ سکریٹری آفتاب حسن مظہری کے کلمات تشکر پر سمینار کے اختتام کا اعلان ہوا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 دسمبر2023 تا 06 جنوری 2024