علامہ اقبالؔ پردو قومی نظریے کی حمایت کا الزام خلافِ حقیقت
شاعر مشرق وفاق ہندکے اندر ہی مسلم اکثریتی ریاست کی تشکیل چاہتے تھے
خان حسنین عاقب، مہاراشٹر
یوم پیدائش کے موقع پر خاص تحریر
گزشتہ کئی برسوں کی طرح اس سال بھی نومبر کا مہینہ آتے آتے ہر طرف ، فیس بک اور واٹس اپ نیز سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر اقبال کے اصلی اور نقلی اشعار نہایت خوبصورت فریمس اور ڈئزائن کے ساتھ مزین نظر آتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی یہی ہوگا اور ہورہا ہے، اس کا مجھے یقین ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اقبالؔ کے مخلص عاشقوں کی تعداد بہت ہی کم رہ گئی ہو، نہیں! اب بھی بہت سے ذی شعور اور منصف مزاج لوگ اقبال کے کلام اور ان کی شخصیت کی تفہیم کے نئے نئے پہلوئوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ میرا یہ مقالہ ایک نئے موضوع پر ہے جو اقبال کے بارے میں ایک صدی سے چلے آرہے stereotype یعنی لگی بندھی امیج کو توڑنے اور ایک نئے زاویے سے ان کی فکر اور فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔
میں اپنے اس مقالہ کی ابتداء بھارت کے مایۂ ناز سپوت کے ایک خط کے ان الفاظ سے کرتا ہوں۔ ’’ ڈاکٹر اقبالؔ مرحوم کے بارے میں ، مَیں کیا لکھوں؟لیکن اتنا تو میں کہہ سکتا ہوںکہ جب ان کی مشہور نظم’(سارے جہاں سے اچھا ) ہندوستاں ہمارا۔ ‘‘ پڑھی تو میرا دِل بھر آیا۔ اور یارودہ (یروڈہ،پونے) جیل میں تو سینکڑوں بار میں نے اس نظم کو گایا ہوگا۔ اس نظم کے الفاظ مجھے بہت ہی میٹھے لگے اور یہ خط لکھتا ہوں تب بھی وہ نظم میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔‘‘ یہ سپوت تھے بابائے قوم مہاتما گاندھی جنہوں نے اقبالؔ کے انتقال کے بعد مورخہ ۹ جون ۱۹۳۸ کو سیواگرام ، وردھا سے لکھے گئے اپنے ایک خط میں اقبالؔ سے متعلق ان خیالات کا اظہار کیا۔ یہ خط گاندھی جی نے اردو رسم الخط میں ہی لکھا ہے اور یہ اقبالؔ کی ہندوستانیت کو بھر پور خراجِ عقیدت پیش کر تا ہے۔بقول اقبال؎
یہ عقدہ ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں
کہ فیضِ عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش
آج کے میرے اس مقالہ کا عنوان در اصل اِدھر کچھ دنوں سے پھر سے اقبالؔ کو دو قومی نظریہ کا بانی اور قیامِ پاکستان کا ذمہ دار قرار دینے کی تحریک کے پس منظر میں کشید کیا گیا ہے۔کچھ رسائل اور کچھ اخبارات میں پھر یہ بحث چھِڑی ہے اور اس کے منطقی اور تاریخی ردِعمل کے طور پر میں اپنا یہ مقالہ رقم کر رہا ہوں۔ ہمارے بزرگ اور انصاف پسند عاشقِ اردو، قلمکار جناب رام پرکاش کپور صاحب کا ایک مضمون ’’اقبال اور پاکستان‘‘ ماہنامہ ’ ایوانِ اردو‘ کے فروری ۲۰۱۴ کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ موصوف نے اس موضوع کابڑا دیانتدارانہ جائزہ لیا ہے ۔ انہوں نے مسلم لیگ کے 1930میں الہ آباد میں ہونے والے آل انڈیا سیشن میں اقبال کے صدارتی خطبے سے یہ اقتباس نقل کیا ہے۔ ’’اس لیے مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہندوستان قائم کیا جائے، بالکل حق بجانب ہے۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب ، صوبہ سرحد، بلوچستان کو ملاکر ایک ریاست بنادی جائے۔ ہندوستان کے جسدِ سیاسی کے اندر رہتے ہوئے اگر مسلمانوں کو پورا موقع دیا گیا توتو شمالی ہندوستان کے مسلمان بیرونی حملوں کے خلاف ، خواہ وہ سنگینوں سے کیے جائیں یا افکار سے، ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے۔‘‘ بس ، اقبالؔ کا یہی خیال در اصل ان تمام غلط فہمیوں کی جڑ ہے جسے دانستہ طور پر پیدا کیا گیا اور ان کی خوب اشاعت کی گئی۔ اور خصوصی طور پر اقبال کے انتقال کے بعد تو ان عناصر کو کھُل کر کھیلنے کا موقع مل گیا کہ اس کے فوراً یا اسی دوران دوسری عالمی جنگ چھِڑ گئی اور پھر ہندوستان کی تحریکِ آزادی کی گہماگہمی میں ان غلط فہمیوں نے اپنا کردار خوب خوب نبھایا۔ ہم اگر اقبالؔ کے اسی خطبے کی بات کریں تو آئیے، اس کے مختلف اجزاء پر غور کر تے ہیں۔ پہلے اس جملے کو لیتے ہیں کہ ’’ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہندوستان قائم کیا جائے۔‘‘ ایک موٹی عقل والا شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ ہندوستان کے ’اندر‘ سے مراد ہندوستان کے ٹکڑے کرکے یا اسے تقسیم کر کے ‘ نہیں ہوتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ’ ہندوستان کی جغرافیائی، سیاسی اور معاشرتی سالمیت کو بر قرار رکھتے ہوئے، (نہ کہ ایک ملک کو دو ممالک میں تقسیم کر تے ہوئے) ، اسی ایک ملک میں مسلمانوں کے لیے ایک اسلامی ہندوستان قائم کیا جائے۔ یہاں کوئی صاحب پھر اعتراض کرسکتے ہیں کہ اس سے اقبالؔ کا مقصد ہندوستان کو مسلمان ہندوستان بنانا تھا، یا اقبال ہندوستان کو مسلمان ہندوستان بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے تو میں یہ واضح کردینا عین فرض سمجھتا ہوں کہ اس سے مراد یہ ہرگز نہیں ہوتا۔ ہندوستا ن کے ’ اندر‘ کے معنی یہی لیے جاسکتے ہیں کہ ہندوستان کی سالمیت کے ساتھ مشروط، اس کے ایک اٹوٹ حصے کے طور پر۔نہ کہ ہندوستان سے ٹوٹ کر۔چلیے ، ہم فرض کرلیتے ہیں کہ بہت سے سر پھِروں کی خواہش کے عین مطابق اگر آج ۲۰۱۴ میں ہندوستان پاکستان پر حملہ کر کے اسے ہندوستان میں دوبارہ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کی حالت یعنی غیر منقسم ہندوستان کے طور پر ضم کرلیتا ہے، تو پھر یہ پاکستان کیا ہندوستان کی ایک مسلم اکثریتی ریاست ہوگی یا نہیں؟ بالکل یہی صورتِ حال ہوگی اور یہی صورتِ حال اگر اقبال آزادی سے قبل آزاد ہندوستان کی چاہتے تھے تو اس میں کیا غلط تھا؟ اور اقبال کوئی سیاسی آدمی تو تھے نہیں ۔
یہاں ہم مولانا مودودی ؒ کی یہ رائے بڑے احترام کے ساتھ پیش کر تے ہیں کہ ان کی اصابتِ رائے پر تو کسی غیر کو بھی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ مولانا، اقبالؔ کے انتقال کے بعد اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں۔ ’’سیاسیات میں ان کا نصب العین محض کامل آزادی ہی نہ تھا، بلکہ وہ ’’ آزادہندوستان میں ‘‘ دارالاسلام کو اپنا مقصودِ حقیقی بنائے ہوئے تھے۔ ‘‘ یعنی اقبالؔ کا تصور یہ تھا کہ متحدہ اور آزاد ہندوستان میں ہی ایک الگ ریاست قائم ہو جس کی حیثیت وفاقِ ہند کے زیرِانتظام کام کرنے والے صوبے کی ہو۔ مولانا مودودیؒ مزید لکھتے ہیں۔ ’’ اس لیے (اقبالؔ ) ایسی کسی تحریک کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ تھے جو ایک دار الفکر کو دوسرے دارالفکر میں تبدیل کرنے والی ہو۔ صرف یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عملی سیاسیات میں ان لوگوں کے ساتھ مجبوراًنہ تعاون کیا جو برٹش گورنمنٹ کے زیرِ سایہ ہندو راج کے قیام کی مخالفت کر رہے تھے۔ گو مقاصد کے اعتبار سے ان میں اور اس طبقہ میں کوئی ربط نہ تھا۔ مگر صرف اس مصلحت نے ان کو اس طبقے ( مسلم لیگ )کے ساتھ جوڑ رکھا تھا جب تک مسلمان نوجوانوں میں ’ داراالسلام‘ کا نصب العین ایک آتشِ فروزاں کی طرح بھڑک نہ اُٹھے، اور وہ اس کے لیے سر فروشانہ جدوجہد ( تحریکِ آزادیٔ ہند ) کے لیے آمادہ نہ ہوں، اس وقت تک انقلاب ( جدوجہدِ آزادیٔ ہند) کے رُخ کو بالکل دوسری جانب( برٹش حکومت کے کسی سازشی جال میں پھنسنے سے ) پلٹ جانے سے روکے رکھا جائے۔‘‘ یہ ہے وہ حقیقت جس کا اقرار کرنے کی جراء ت کم ہی لوگ کر تے ہیں۔ اگر اقبالؔ پاکستان کے حامی ہوتے تو آزاد ہندوستان کے پہلے صدرِ جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد اقبالؔ کے بارے میں یہ نہ کہتے کہ ’’ ڈاکٹر سر محمد اقبالؔ نے اپنے اشعار سے ہندوستان ( پاکستان نہیں) میں نئی روح پھونک دی اور ان کے کچھ شعر اتنے ہر دل عزیز ہوگئے ہیں کہ ہندوستان کے سبھی حصوں میں گائے اور پڑھے جاتے ہیں۔جو بیداری انہوں نے اپنی شاعری سے پیدا کی ہے اس میں کسی کو کسی طرح کا عذر نہیں ہوسکتا۔ جب آج کی بہت پریشان کُن مشکلات طے ہوجائیں گی اور آج کی بہت سی باتیں لوگ بھول جائیں گے، اس وقت سر محمد اقبالؔ کے اشعار ہندوستان کو ( پاکستان کو نہیں) جگاتے رہیں گے۔ ‘‘ ( ڈاکٹر راجندر پرساد۔ محررہ ۲۲ اکتوبر ۱۹۳۸ ۔ جوہرِ اقبالؔ۔ مرتبہ۔ سید حسنین)
یاد کیجیےکہ ڈاکٹر راجندر پرساد اقبال ؔ کی وفات کے بعد آزاد ہندوستان میں ان کے مقام و کردار کا تعین اور پیش بینی کر رہے ہیں کہ آزاد ہندوستان میں اقبالؔ کے اشعار ہندوستان کو جگاتے رہیں گے۔ الفاظ دیکھیے، ’’ جب آج کی بہت پریشان کُن مشکلات طے ہوجائیں گی اور آج کی بہت سی باتیں لوگ بھول جائیں گے، اس وقت سر محمد اقبالؔ کے اشعار ہندوستان کو ( پاکستان کو نہیں) جگاتے رہیں گے۔ ‘‘ یعنی راجندر پرساد کے دِل میں یہ ذرا سا بھی خیال نہیں تھا کہ اقبالؔ کو کبھی تنگ نظر لوگ پاکستان کا بانی بھی قرار دیں گے۔ اسی لیے وہ ’’ پریشان کُن مشکلات ‘‘ کے طے ہوجانے کے بعد ، جب کہ آج ( یعنی تحریکِ آزادی کی) بہت سی باتوں کو لوگ بھول جائیں گے، اس وقت بھی اقبالؔ کے اشعار ہندوستان کو جگاتے رہیں گے۔ راجندر پرساد نے یہ نہیں کہا کہ اس وقت اقبالؔ کے اشعار ’ پاکستان کو‘ یا دار الاسلام کو یا مسلمانوں کو جگاتے رہیں گے بلکہ یہ کہا کہ ’’ ہندوستان‘‘ کو جگاتے رہیں گے۔
اگر اقبال عاشقِ ہند نہ ہوتے تو گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور، یوں نہ کہتے کہ ’’ ڈاکٹر اقبالؔ اپنی وفات سے ہمارے ادب میں ایسی جگہ خالی کر گئے ہیں جس کا گھائو مدتِ مدید میں بھی مندمل نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان (پاکستان نہیں) کا رتبہ آج دنیا کی نگاہ میں اتنا کم ہے کہ ہم کسی حالت میں ایسے شاعر کی کمی برداشت نہیں کرسکتے جن کے کلام نے عالم گیر مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ ‘‘ اب بتائیے، کیا ڈاکٹر ، سر، رابندر ناتھ ٹیگور کسی بانیٔ پاکستان کے وفات پر ان جذبات کا اظہار کر سکتے تھے؟ اس صورت میں جب کہ اقبالؔ تو اس دنیا سے چلے گئے تھے اور ان کے افکار پر گفتگو کے بعد خود اقبال کی جانب سے ہر قسم کے اعتراض کی مدافعت کا امکان ختم ہوچکا تھا۔ پھر کچھ لوگ دانستہ اقبال کی کردار کشی دو وجوہات سے کرتے ہیں۔ اول تو لاعلمی اور دوم تعصب۔ لاعلمی کی مثال ’’جوہرِ اقبالؔ نامی کتاب کے مرتب عاشقِ اقبال مرحوم سید حسنین صاحب کا یہ جملہ جو اسی کتا ب میں صفحہ ۶۹ پر درج ہے کہ ’’ ( آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ) انہوں نے ہندوستانیوں کے آپس کے مناقشات کو دور کرنے کے لیے پاکستان کی معرکۃالآراء تجویز پیش کی‘‘۔ جب کہ اس اجلاس میں اقبال نے لفظ ’پاکستان ‘ کا ذکر ہی نہیں کیا تھا۔ صرف مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کی بات کی تھی۔ ایک دوسری مثال جنتا پارٹی حکومت کے دوران وزیرِ اعظم مرارجی دیسائی نے اردو گھر میں منعقد ایک تقریب کے موقع پر اقبالؔ کا قومی ترانہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔‘‘ سننے کے بعد کہاتھا ’’ معلوم نہیں علامہ اقبالؔ آزادی کے بعد پاکستان کیوں چلے گئے؟ ‘‘ (بحوالہ رام پرکاش کپور۔ ایوانِ اردو، نئی دہلی) بتائیے کہ ہندوستان جیسے عظیم ملک کے وزیرِ اعظم کی اپنے ملک کی جدوجہد آزادی کی تاریخ سے اتنی لاعلمی نے ہم جیسے ہندوستانیوں کو کس درجہ کوفت میں مبتلا کر دیا ہوگا۔(یا پھر ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ رام پرکاش کپور کا حوالہ معتبر نہیں تھا؟) جب کہ اقبال کا انتقال آزادی سے نو برس پہلے ہوچکا تھا اور وہ کہیں گئے نہیں تھے بلکہ وہ متحد ہندوستان کے جس شہر میں رہتے تھے، وہ آزادی کے بعد تقسیم ہوکر پاکستان بن چکا تھا۔ اب میں دوبارہ اقبال کے اسی اجلاس میں پیش کیےگئے صدارتی خطبے کا اقتباس پیش کرتا ہوں۔ ’اس لیے مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہندوستان قائم کیا جائے، بالکل حق بجانب ہے۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب ، صوبہ سرحد، بلوچستان کو ملاکر ایک ریاست بنادی جائے۔ ہندوستان کے جسدِ سیاسی کے اندر رہتے ہوئے اگر مسلمانوں کو پورا موقع دیا گیا توشمالی ہندوستان کے مسلمان بیرونی حملوں کے خلاف ، خواہ وہ سنگینوں سے کیے جائیں یا افکار سے، ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے۔‘‘ سید حسنین صاحب بھی اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ اقبال ’ ہندوستان کے ’’جسدِ سیاسی‘‘ کے اندر رہتے ہوئے ‘ کہہ رہے ہیں۔ کیا آج پاکستان ہندوستان کے ’’جسدِ سیاسی ‘‘ میں قائم ہے؟ کیا یہ پاکستان وہ ہے جس کا خواب اقبالؔ نے دیکھا تھا؟ دونوں سوالات کے جوابات نفی میں آئیں گے۔ اب آئیے، دوسری وجہ یعنی تعصب کی طرف۔ اقبال کے اس اقتباس کے اس آخری حصے کی طرف نہ اُس وقت توجہ دی گئی اور نہ اب کسی نے توجہ دی ہے۔ یہی جملے تو تقریباً پون صدی سے چلی آرہی اقبال مخالف مہم کی اصلیت کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرکے رکھ دیتے ہیں۔ اقبال کا نظریہ دو قومی نہیں تھا، لیکن اس بے چارے کو ’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘ لکھنے کے باوجود اولین ’ بانیانِ پاکستان میں شمار کیا گیا۔ اور یہ الزام آج تک اس پر لگا ہوا ہے۔ اقبال کے سر دو قومی نظریے کا ٹھیکرا پھوڑنے والوں نے یہ حقیقت کیوں فراموش کر دی کہ اقبال سے بہت پہلے یعنی ۱۹۲۴ کے انگریزی اخبار ٹریبیون میں لالہ لاجپت رائے نے لکھا تھا۔، ’’ پنجاب کو دو صوبوں یعنی مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب میں تقسیم کر دیا جائے۔ مغربی پنجاب میں مسلمانوں کی حکومت ہو اور مشرقی پنجاب میں ہندوئوں کی۔‘‘ اگر ان دونوں محولہ بالا بیانات کا دیانتدرانہ مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ لالہ لاجپت رائے کے یہاں دو قومی نظریہ تو ۱۹۲۴ ہی میں جڑ پکڑ چکا تھا، جس کا سب سے اہم خالق ہندو مہا سبھا کا مینو فیسٹو تھا۔
اگر لالہ جی کے اس دو قومی نظریے کا اقبال کے بیان سے موازنہ کیا جائے تو بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ اقبال تو ہندوستان کے اندر ہی ایک مسلم ریاست کی بات کر رہے تھے، اور وہ بھی مسلم لیگ کے صدارتی پوڈیم سے، اسی مسلم لیگ کے پوڈیم سے جس کے گلے میں دو قومی نظریے کی تخلیق کا طوق باندھا جاتا ہے۔ در اصل دو قومی نظریےاور ملک کی تقسیم کا منصوبہ تو بہت پہلے ہی مہا سبھا تیار کر چکی تھی، مسلم لیگ نے تو بعد کے دور میں اسے گلے لگایا جب مسلمانوں کے خلاف فسادات اور غارت گری کا ماحول تیار کیا گیا تاکہ مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا جاسکے کہ وہ آزاد ہندوستان میں محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔
اس سازش کو مسلم لیگ کی قیادت سمجھ نہیں پائی اور اس نے وہ دو قومی نظریہ جس کی خالق مہا سبھا تھی، اس نظریہ کی وکالت شروع کردی۔
یعنی تقسیم کی سازش تیار تو کہیں اور ہوئی، بندوق کسی اور کی تھی اور اسے کندھے میسر آئے مسلم لیگ کے ۔ ان سطور میں پیش کیے گئے خیالات کو مسلم لیگ کی حمایت پر محمول نہ کیا جائے بلکہ حقیقت کو سامنے لانے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جائے۔ اگر اسلام کے نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو اسلام اگر دوقومی نظریے کی حمایت کرتا تو پھر اقبالؔ، طارق بن زیاد کی زبان سے ان خیالات کا اظہار کیوں کر تے کہ؎
خندید و دست ِ خویش بہ شمشیر برد، و گفت
ہر ملک ، ملکِ ما ست کہ ملکِ خدائے ماست
یہاں تو صاف صاف دو قومی نظریے کو سرے سے خارج کر دیا گیا ہے۔ پھر اقبال کے سر اس جرمِ نا کر دہ کا ٹھیکرا کیو ں پھوڑا جارہا ہے؟ اقبال تو ہندوستان ہی میں ایک مسلم ریاست کے قیام کی بات کر رہا تھا، اور اسی متحدہ ہندوستان کی حفاظت کا ذمہ اس مسلم ریاست کے کندھوں پر رکھنا چاہ رہا تھا جس کی تقسیم کا طوق اس کے سر باندھا گیا ۔ اقبال ملک کی جغرافیائی تقسیم کے قائل تو کبھی نہیں تھے۔ نہ ان کے ذاتی خیالات سے اس کا ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی ان کے کلام میں اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ان کا سارا کلام تو ہر قسم کے اتحاد پر دلیل ہے۔ کیا یہ شعر اس بات پر دلالت نہیں کرتا ؎
نہ سمجھوگے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
کیا اس شعر میں اس کے مخاطب مسلمان ہیں؟ نہیں ! اس کے مخاطب بلا لحاظِ مذہب و ملت، تمام ہندوستانی ہیں۔چاہے وہ مسلم ہوں یا ہندو، سکھ ہوں یا کسی اور مذہب کے پیرو۔ اقبال سے متعلق یہ ساری غلط فہمیاں پھیلی نہیں ہیں، پھیلائی گئی ہیں۔ آخر صلیب کے لیے کوئی عیسی بھی تو چاہئے نا! تو چلیے، صلیب تو بنالی گئی تھی، اب تلاشِ عیسی تھی، تو اس کے لیے اقبالؔ میسر آگئے۔ دسمبر ۲۰۱۳ کے ایوانِ اردو میں بھی رام داس نادار صاحب کا مضمون رام پرکاش کپور صاحب کی طرح میں نے بھی پڑھا تھا لیکن میں نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی۔ کپور صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس نازک موضو ع کو چھیڑا ہے ۔ نادار صاحب نے مسلم لیگ کے کل ہند اجلاس میں اقبال کے صدارتی خطبے کا سنہ ۱۹۰۶ دیا ہے۔ اس برس تو اقبالؔ خود تیس برس سے کم عمر کے شاعر تھے اور یہ دور اقبالؔ کی ملی شاعری کا دور تھا بھی نہیں۔ یعنی اس برس تک تو یہ اقبالؔ وہ اقبالؔ نہیں تھا جو بعد کو بنا۔ اور کیا مسلم لیگ کے پاس سینئر سیاسی رہنمائو ں کی کمی تھی جو وہ ایک نوجوان شاعر کو اس کا صدر بنادیتے؟ اس برس تک تو نہ ہندوستان کی مکمل آزادی کی بات چھِڑی تھی اور نہ ہی جنگِ عظیم اول کا آغاز ہوا تھا جس نے ہندوستان کے سیاسی حالات کے بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور رہی بات 1930میں اقبال کے دو قومی نظریے کو پیش کرنے کی ، تو جیسا میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ اس سے چھ برس پہلے ہی لالہ لاجپت رائے ٹریبیون میں اس دو قومی نظریے کو بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کر چکے تھے۔ اور 1930میں بھی اقبال نے دو قومی نظریہ نہیں پیش کیا تھا، بلکہ ایک ہی ملک ہندوستان کی داخلی جغرافیائی حدود کے اندر ہی اندر ایک مسلم ریاست کے قیام کی بات کی تھی، نہ کہ ایک الگ پاکستان کے قیام کی۔ یہ بات تو آج ایک معمولی فراست کا حامل شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ تقسیم ِ ہند سے کس کو فائدہ پہنچا ہے؟ مسلمانوں کو اس سے کیا مِلا؟ تقسیمِ ہند کے بعد سے ہی نہ پاکستان کے مسلمان چین سے ہیں اور نہ ہی ہندوستان کے مسلمان اندرونی ریشہ دوانیوں سے اپنا پیچھا چھڑاپائے ہیں ۔ جب ایک اوسط ذہن کا شخص یہ بات سمجھ سکتا ہے تو کیا اقبالؔ جیسا دور اندیش مفکر اور دانشور اتنی بات نہیں سمجھ سکتا تھا کہ تقسیم ِ ملک مسلمانوں کے حق میں نہیں ہے؟ یقینا اقبال ؔکو اس کا احساس تھا اسی لیے جب ایڈورڈ تھامس نے اقبال کی زندگی ہی میں ان کے نظریے سے متعلق اپنے مضامین میں غلط فہمیاں پھیلانی شروع کردیں تو اقبال نے مارچ ۱۹۳۴ میں اپنے ایک خط میں اس مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کلکتہ کے راغب احسن کو لکھا کہ ’’براہِ کرم دھیان دیجئے کہ میری اسکیم کو نظریۂ پاکستان سے (ایڈورڈ تھامس) مخلوط کررہا ہے۔ میں تو انڈین فیڈریشن میں ہی ایک مسلم صوبہ کی تشکیل کا حامی ہوں۔ جب کہ نظریۂ پاکستان میں شمال مغر بی ہند کے صوبوں کی ایک الگ فیڈریشن کی بات کہی گئی ہے جو براہِ راست انگلستان سے مر بوط ہوگا۔‘‘ اس خط کا ذکر بھی کپور صاحب کے مذکورہ مضمون میں موجود ہے۔ اب ستم ظریفی دیکھیے کہ اقبال کو اندیشہ یہ تھا کہ اگر پاکستان بن جاتا ہے تو وہ براہِ راست انگلستان سے مربوط ہوگا لیکن انہیں کیا پتا تھا کہ ہوا تو ایسا ہی لیکن انگلستان کی جگہ اب امریکہ نے لے لی ہے۔ اور آج کا پاکستان امریکہ سے جس طرح مربوط ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اسی لیے اقبال نے پاکستان کی حمایت تو دور کی بات ہے، بلکہ اس کے قیام کی مخالفت ہی کی ہے۔ اور ان کے پیشِ نظر جو اندیشے تھے، وہ درست بھی ثابت ہوئے ہیں۔ اقبال نے جب مسلمانوں کے لیے ایک الگ صوبے کی بات کی تو اس وقت تک تو یہ بات بھی واضح نہیں تھی کہ آیا برطانیہ ، ہندوستان کو آزاد بھی کرسکتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے مندرجہ بالا خط میں یہ با ت کہنی بھی ضروری سمجھی کہ ’’ میر ا عقیدہ ہے کہ ہندوستان سے الگ پاکستان نہ ہندوئوں ، نہ مسلمانوں اور نہ ہی برطانوی سامراج کے لیے مفید ہوگا۔ ‘‘ اقبال کے اس عقیدہ کے لیے اس وقت کے عالمی سیاسی ماحول کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ اس وقت تک برطانیہ جنگِ عظیم اول کے نقصانات جھیل چکا تھا، ااور مجلسِ اقوام کی ناکامی نے اس کے وجود کی بساط لپیٹ کر رکھ دی تھی اور دنیا ایک مرتبہ پھر عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہوئی تھی۔بہر حال ، اقبال اور پاکستان کے موضوع پر غلط فہمیوں کا یہ Pandora’s box دانستہ طور پر اور نادانستہ طور پر ، بہ ہر دو لحاظ ، ایک سازش کی تکمیل کا حصہ ہے ۔ مجھے ونڈسر ، کینیڈا میں مقیم پروفیسر سید عاصم علی صاحب کے ایک مضمون ’’دو قومی نظریے کا اصل موجد‘‘ کے مطالعے کا بھی موقع ملا جو ہفت روزہ ’گواہ‘ حیدرآباد میں شائع ہواتھا۔ موصوف دو قومی نظریے کے ضمن میں اقبالؔ کے کردار پر نظر ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔’’ بعض لوگ اس نظریے کا سُراغ علامہ اقبال ؔ کے بعض بیانات سے بھی لگاتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اقبالؔ کے پیشِ نظر ایک ایسی خود مختار سیاسی اکائی کا خیال ٖضرور تھا جہاں اسلام کے آفاقی اصولِ حکمرانی کا تجربہ کیا جاسکے مگر وہ یہ سیاسی تجربہ’’ ہندوستانی وفاق کے اندر‘‘ رہتے ہوئے کرنا چاہتے تھے اور وہ بھی اسلام کے نظامِ عدل کو بروئے کار لانے کی غرض سے۔ اس کے لیے کوئی ایسا کلیہ ان کی عظیم آفاقی اسلامی فکر سے بر آمد نہیں ہوتا جس میں ملک کی جغرافیائی تقسیم تو ہو مگر اسلام کے آفاقی اصولِ عدل و انصاف کی عملی تعبیر سے خالی۔ ‘‘( اور اقبالؔ کے تصور کے عین بر عکس آج کا پاکستان جغرافیائی اعتبار سے ہندوستان سے الگ بھی ہے اور اسلام کے اصولِ حکمرانی و اصولِ عدل و انصاف سے خالی بھی۔یعنی یہ اقبالؔ کا خواب تھا ہی نہیں جس کی تعبیر کو اقبالؔ سے منسوب کیا جارہا ہے۔ حسنین عاقبؔ) پروفیسر عاصم علی مزید لکھتے ہیں۔ ’’ اور ایسی تقسیم جوصرف مراعات یافتہ افراد کے مفادات کی حفاظت کے خیال سے عمل میں لائی جائے، ان کے (اقبالؔ کے) حاشیہ خیال میں بھی نہ تھی۔ اگر تقسیمِ وطن کا ایسا کوئی منصوبہ ان کے سامنے لایا جاتا تو اس کی تائید تو در کنار، شائد وہ اس کے شدید ترین مخالفین میں ہوتے۔ اقبال کے پیشِ نظر تو بر طانیہ کا اخلاقی اور روحانی انحطاط تھا جس کے بارے میں انہوں نے لندن کی کیمبرج یونیورسٹی میں ۱۹۱۳ میں جب وہ دوسری گول میز کانفرنس کے لیے وہاں گئے تھے، کیمبرج کے طلبا کو مخاطب کر تے ہوئے کہا تھا۔
The biggest blunder made by Europe was the separation of Church and State. This deprived their culture of moral soul and diverted it to the atheistic materialism.The European war of 1914 was an outcome of the aforesaid mistakes made by the European nations in the separation of theChurch and the State.
اور اسی کو اقبال نے اپنے اس شعر میں بیان بھی کیا ہے کہ ؎
جلالِ پادشاہی ہو، کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اقبال ہندوستان کو بالعموم اور ہندوستانی مسلمانوں کو بالخصوص دین اور سیاست کی اس علیحدگی سے بچانا چاہتے تھے نہ کہ وہ ایک ملک کو دو ملکوں میں تقسیم کر نا چاہتے تھے۔۲۱ جون ۱۹۳۷ کو ، یعنی اپنے انتقال سے چند ماہ قبل اقبال نے محمد علی جناح کو لکھا۔
A separate federation of Muslim Provinces, reformed on the lines I have suggested above, is the only course by which we can secure a peaceful India. ۔
یعنی اقبال کو اپنے آخری وقت تک یہ خیال نہیں تھا کہ ہندوستان سے الگ کوئی علیحدہ ملک مسلمانوں کے مسئلے کا حل ہوسکتا ہے۔ جناح کو بھی انہوں نے لکھا کہ ’’مسلم علاقوں پر مبنی ایک علیحدہ وفاق کی تشکیل ہی کے ذریعے ہم ایک ’’پر امن ہندوستان‘‘ ( پھر غور کریں کہ پر امن پاکستان نہیں) حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘ اور اقبال ااس علیحدہ مسلم وفاق کی ضرورت کیو ں محسوس کر رہے تھے ، اس کا سبب آگے چل کر انہوں نے پنڈت جواہر لال نہرو کو لکھےگئے ایک خط میں نہرو ہی سے بیان کیا، یہ اقبال کے خدشات تھے جو اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت کا درجہ رکھتے تھے۔ اقبال نے نہرو کو لکھا ۔
In conclusion I must put a straight question to Pundit Jawhar Lal, how is India’s problem to be solved if the majority community will neither concede the minimum safeguards necessary for the protection of a minority of 80 million people, nor accept the award of a third party; but continue to talk of a kind of nationalism which works out only to its own benefit?”
(آخر میں ، میں پنڈت جواہر لال نہرو کے سامنے ایک سوال رکھتا ہوں۔ اگر (ہندو) اکثریت نہ ہی (اس ملک کی ) آٹھ کروڑ اقلیتی نفوس کی سلامتی اور حفاظت کے لیے لازمی اقل ترین اقدامات کا اہتمام کرے اور نہ ہی کسی کی ثالثی قبول کرے ، بلکہ محض اپنی مطلب براری اور اپنے مفادات کے لیے ایک خاص قسم کی ’قومیت‘ کی باتیں کرتی رہے، تو پھر ’ہندوستان‘ کا مسئلہ کیسے حل ہوگا‘‘؟ دراصل یہی وہ خدشات تھے جو آزادی کے حصول سے قبل اقبال کے ذہن میں تھے اور جو آج سو فی صد سے بھی زیادہ درست ثابت ہورہے ہیں ۔ سوچیے کہ اس صورت میں بھی اقبال علیحدہ ملک کی نہیں بلکہ اسی ملک کے اندر ایک ریاست کی بات کر رہے تھے۔ مسلم اکثریتی ریاستوں میں اسلام کے اصولِ عدل و انصاف کا تجربہ ان کے پیشِ نظر ضرور تھا اور شدت سے تھا مگر ہندوستان کو ایسے سیاسی ٹکڑوں میں بانٹ دینا جو ہمیشہ باہم متحارب و متصادم رہیں( جب کہ یہ دونوں ٹکڑے آج ہندوستان اور پاکستان کے نام سے باہم شدید متحارب اور متصادم ہیں)، ان کے سامنے نہیں تھا۔ یہ تو انیس سو بیس اور انیس سو تیس ، ان دو دہا ئیوں کے دوران ہندوستان میں مسلم مخالف فسادات اور ان فسادات کو ہوا دینے میں ہندو انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ کانگریس کے مشتبہ کردار کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم پذیرطلبا کی ایک تنظیم نے ایک پمفلٹ ۱۹۳۳ میں جاری کیا جس کا عنوان تھا۔ NOW OR NEVER اس تنظیم نے مسلم لیگ کے لاہور اجلاس میں اقبال کے پیش کردہ وفاق سے یکسر اختلاف کیا اور چودھری رحمت علی نے لفظ پاکستان وضع کیا۔ یعنی اقبال جس وفاق کی بات کر رہے تھے، پاکستان کے حامی اس معاملے میں اقبال کی تجویز کی مخالفت کر رہے تھے۔ لیکن چونکہ یہ نسبتاً غیر معروف طلبا کا گروہ تھا اس لیے کسی نے ان کو اس بات کا کریڈٹ نہیں دیا اور اقبال کو اس بات کا کریڈٹ دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا جو ان کے ذہن میں نہیں تھی۔ چنانچہ عظیم ہندوستانی مفکر، شاعر اور فلسفی اقبالؔ کو دو قومی نظریے کا موجد قرار دینا ممکن نہیں۔اس گفتگو کی رو سے اقبالؔ کا نظریہ دو منقسم قوموں کا نہیں، بلکہ ایک ہی متحدہ ملک میں دو خود مختار ریاستوں کی تشکیل کا تھا، اور اسی نظریے کے تحت آج ہندوستانی وفاق میں تقریباً ۳۵ خود مختار ریاستیں قائم ہیں۔ وہیں ایک علیٰحدہ مسلم ریاست بھی ہوتی۔ لیکن یہ شائد چند شدت پسند وں کو منظور نہیں تھا۔ اس لیے ایک ہی ملک کے مسلم اکثیریتی حصے کو ناسور کی طرح کاٹ کر پھینک دیا گیا اور اس کا الزام بھی اسی ملت ، اسی قوم پر لگایا گیا جو اس تقسیم سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی تھی۔ٖضرورت تو اس بات کی ہے کہ ہر قولِ اکبر و اصغر پر آنکھ بند کر کے یقین نہ کرتے ہوئے اپنی بصارت کے ساتھ ساتھ اپنی بصیرت سے بھی کام لیا جائے اور جستجو کی جائے کہ سچ کیا ہے اور پروپیگنڈا کیا ہوتا ہے۔ اقبال کے سر سے اس بوجھ کو ہٹا یا جائے جس میں اس کا اپنا کچھ نہیں تھا۔ اقبال تو خود اپنے آپ کو ہندوستان کا ایسا مایہ ناز سپوت مانتے تھے جو خود کو ہندوستان سے الگ محسوس ہی نہیں کر تے تھے اور اپنے بر ہمن زادہ ہونے پر شرمندہ بھی نہیں تھے۔
بقول اقبالؔ ؎
مرا بینی کہ در ہندوستان دیگر نمی بینی
برہمن زادہ و رمز آشنائے روم و تبریز است
؎ماخذات ومنابع :
1۔ کلیات ِ اقبال ؔ
2۔ دو قومی نظریہ کا موجد کون؟ از پرفیسر سید عاصم علی، کینیڈا۔ ہفت روزہ گواہ۔ حیدر آباد)
3۔ اقبال اور پاکستان ۔ رام پرکاش کپور۔ (ماہنامہ ایوانِ اردو، جنوری ۲۰۱۴ )
4۔ The Reconstruction of Religious Thought in Islam. Dr. Mohammad Iqbal. Lahore. 1930
5۔ Iqbal and two nation Theory. widipedia.
6۔ (ww.allamaiqbal.com/webcont/16/Two nation Theory.htm)
7۔ . ( Pakistan Affiars. Online)
8۔ زندہ رود۔ از جسٹس جاوید اقبال۔ سنگِ میل پبلی کیشن۔ لاہور۔
9۔ India wins Freedom. by Maulana Abul Kalam Azad. Orient Longman. India.
10۔ Ten Years To Freedom . Kanji Dwarka Das. Times Publications. 1958
12۔ جوہرِ اقبال۔ محمد حسنین سید۔ ملی پبلی کیشنس۔ نئی دہلی۔
***
اقبال ملک کی جغرافیائی تقسیم کے قائل تو کبھی نہیں تھے۔ نہ ان کے ذاتی خیالات سے اس کا ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی ان کے کلام میں اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ان کا سارا کلام تو ہر قسم کے اتحاد پر دلیل ہے۔ کیا یہ شعر اس بات پر دلالت نہیں کرتا ؎
نہ سمجھوگے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 نومبر تا 19 نومبر 2022