آکسفیم کی رپورٹ2023میں’ نئے بھارت’کی اصل تصویر

بڑھتا ہوا معاشی عدم توازن بھارت کے لیے سنگین چیلنج ۔2018کے مقابلے غذائی قلت میں دوگنا اضافہ

نور اللہ جاوید، کولکاتا

ایک فیصد امیروں کی آمدنی میں محض ایک سال میں 33فیصد اضافہ۔ 30فیصد آبادی ملک کے 90فیصد سرمایے پر قابض
ان ڈائریکٹ ٹیکس میں امیروں کا حصہ صرف 3فیصد۔سب کویکساں ذرائع اور مواقع فراہم کرنے کی تجویز
اسلام کا معاشی نظام ایک بہتر متبادل۔ مساوات کے بجائے عدل کے اسلامی تصورسے استفادے کی ضرورت
بھارت میں معاشی عدم توازن کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے، نہ آکسفیم انڈیا کی رپورٹ میں دولت کے ارتکاز سے متعلق جن حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے وہ پہلی مرتبہ ہمارے سامنے آئے ہیں۔ اس طرح کی رپورٹس متعدد ادارے اور این جی او اور خود حکومتی اداروں کی طرف سے وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں۔ تاہم آکسفیم انڈیا کی رپورٹ میں جو سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ کورونا وبا کے دوران جب پوری دنیا کی معیشت ٹھپ تھی، عالمی کساد بازاری کے خطرات منڈلانے لگے تھے تو اس وقت بھارت کے ایک فیصد دولت مندوں کی دولت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ایک طرف نوکریاں ختم ہورہی تھیں تو دوسری طرف ملک میں ارب پتیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا۔اس رپورٹ میں دوسری چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ بھارت کے دولت مندوں سے کہیں زیادہ وہ پچاس فیصد افراد ٹیکس دیتے ہیں جن کے پاس ملک کی محض دس فیصد دولت ہے۔ سوال یہ ہے کہ معاشی عدم توازن میں سال بہ سال اضافہ کیوں ہو رہا ہے اور ملک میں دولت کے ارتکاز میں تیزی کیوں آرہی ہے؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ معاشی عدم توازن کے خاتمے کے لیے مرکزی حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں اور جو اقدامات کے ہیں کیا وہ کافی ہیں؟ دراصل ہم یہ سوالات اس لیے اٹھا رہے ہیں کہ جنوری کے دوسرے ہفتے میں آکسفیم انڈیا کی رپورٹ آنے کے بعد امید تھی کہ یہ مسئلہ قومی میڈیا میں ہفتوں چھایا رہے گا لیکن اس کے برعکس قومی الکٹرانک میڈیا نے اس خبر کو نظر انداز کر دیا۔ شاہد ہی کسی چینل میں یہ ایشو پرائم ٹائم ڈیبیٹ کا موضوع رہا ہو۔پرنٹ میڈیا نے بھی جس کے بارے میں یہ تصور ہے کہ وہ اس دور میں بھی بڑی حد تک غیر جانبداری اور معروضیت کے ساتھ صحافتی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے اس مسئلے کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے۔ گزشتہ دس دنوں میں ایک دو رپورٹس کے علاوہ کسی بھی انگریزی اخبار نے تفصیل کے ساتھ اس موضوع پر اپنی بات نہیں رکھی ہے۔ ہندی اور اردو میڈیا کا تو ذکر ہی کیا، کم وبیش یہی صورت حال سیاسی جماعتوں کی بھی رہی۔ راہل گاندھی اور کانگریس کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیڈر یا پارٹی صدر نے اس مسئلے پر اپنا موقف پیش نہیں کیا جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن جماعتیں کارپوریٹ ٹیکس میں اضافے اور سماجی ومعاشی عدم مساوات کے خاتمے اور مستحکم سماجی اسکیموں کے لیے تحریکیں چلاتیں مگر انہوں نے اس مسئلے پر خاموشی اختیار کرلی۔ ان حالات میں یہ سوال بہت زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ آیا معاشی عدم توازن یا دوسرے لفظوں میں ملک کا غریب آدمی ہماری قومی بحث کا حصہ ہے بھی یا نہیں؟ دراصل اس کے درپردہ ’کورونالوجی‘ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم جسے قومی میڈیا سمجھ رہے ہیں وہ اس وقت تین چار کارپوریٹ کمپنیوں کے زیر ملکیت ہے اور یہ وہ کمپنیاں ہیں جن کے پاس ملک کی چالیس فیصد سے زائد دولت ہے۔ ایسے میں ان سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ ملک کے پچاس فیصد غریب افراد سے متعلق بات کریں گے۔ چنانچہ قومی میڈیا بالخصوص الکٹرانک میڈیا کی ملک کے حقیقی مسائل سے عدم دلچسپی کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ جہاں تک اپوزیش جماعتوں کی خاموشی کا سوال ہے سیاسی جماعتیں بھی ان ہی کے بل پر چلتی ہیں۔ آخر انہیں چندہ کون دیتا ہے؟ ملک کی نوے فیصد دولت پر قابض تیس فیصد آبادی یا پھر ملک کی چالیس فیصد دولت پر قابض ایک فیصد صنعت کاروں کا یہ طبقہ؟ اگر یہ الیکٹرولر باونڈ کی شکل میں چندہ دینا بند کردیں تو پھر یہ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں کروڑوں روپے کہاں سے خرچ کر پائیں گی۔
آکسفیم انڈیا سے قبل 2017 میں ’لوکاس چانسل و تھامس پیکیٹی‘‘ نے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 1951 سے 1980 کے درمیان بھارت میں فی بالغ اوسطاً آمدنی 1.7 فیصد تھی جو 1980 سے 2015 تک فی بالغ بڑھ کر 3.3 فیصد ہو گئی تاہم یہ اعداد وشمار بھارت کی نصف آبادی سے متعلق ہیں کیونکہ بقیہ پچاس فیصد کی آمدنی 2.2 فیصد سے گھٹ کر 1.9 فیصد تک ہو گئی۔ اس بحث کو آگے بڑھانے سے قبل یہ بات ذہن نشین رہے کہ معاشی عدم توازن اور امیروں وغریبوں کے درمیان آمدنی کا تفاوت صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی ورلڈ سوشل رپورٹ 2020 کے مطابق دنیا کی دو تہائی آبادی معاشی عدم مساوات کی شکار ہے۔ دس سال قبل ہی آکسفیم نے عالمی اقتصادی فورم میں انتہائی سطح کی عدم مساوات کی پیشنگوئی کردی تھی۔ اس کے باوجود ارب پتیوں نے اپنی دولت تقریباً دوگنی کر دی ہے اور حیران کن طور پر 2020 کے بعد سے امیر ترین ایک فیصد نے باقی دنیا کی مجموعی دولت سے تقریباً دوگنی دولت چھین لی ہے۔ سب سے زیادہ امیر ڈرامائی طور پر امیر ہوگئے ہیں اور کارپوریٹ منافع نے ریکارڈ بلندیوں کو چھو لیا ہے، جس کی وجہ سے عدم مساوات کا دھماکہ ہو گیا ہے۔ ارب پتیوں کی تعداد میں اضافہ اور ریکارڈ منافع کے ساتھ ساتھ غربت اور عدم مساوات دونوں بڑھ رہے ہیں۔یہ ناکام معاشی نظام کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
معاشی عدم مساوات کے سوال کو عام طور پر گلوبلائزیشن کے حوالے سے ٹال دیا جاتا ہے۔ عدم مساوات کے شکار ممالک کی حکومتیں اور اس کے حامی ادارے یہ دلیل دیتے ہیں کہ معاشی عدم توازن کی ایک بڑی وجہ گلوبلائزیشن ہے۔ نجکاری اور لبرلائزیشن کے نتیجے میں بھارت ہی نہیں بلکہ ستر فیصد ممالک معاشی عدم مساوات کا شکار ہیں۔ مشہور انگریزی میگزین ’’اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی‘‘ میں سی ایچ ہنمنت راو نے اپنے آرٹیکل ’’ Rising Inequalities in Income in India: The Key Role of Socio political Factors ‘‘ میں لکھا ہے کہ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں معاشی عدم مساوات ناگزیر ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے بلکہ متعدد ممالک نے عالمگیریت کے آغاز کے ساتھ ساتھ عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ لاطینی امریکہ، سب صحارا افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ حصوں میں عدم مساوات میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ ان ممالک نے سماجی اسکیموں کے ذریعہ عدم مساوات کا خاتمہ کیا اور پسماندگی کے شکار غیر ہنرمند و ہنرمندوں کے درمیان تفاوت کو ختم کیا نیز تعلیم و صحت کے شعبے کے بجٹ میں اضافہ کیا۔ چنانچہ اگر بھارت میں گزشتہ تین سالوں میں عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے تو اس کے پیچھے گھریلو عوامل اور پالیسیاں کارفرما ہیں۔ عدم مساوات میں اضافہ کی پشت پر اصل عوامل میں جمہوریت کا کردار، سماجی تحریکوں کا زوال، تعلیم اور سماجی تحفظ کے فنڈ میں کٹوتی،زرعی سیکٹر کا نظرانداز کیا جانا شامل ہے۔ لاطینی امریکہ نے عدم مساوات میں کمی لانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں ان سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ سی ایچ ہنمنت راو نے اپنے مضمون میں ان ممالک کے تجربات کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دنیا کے انہی ممالک میں معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہوتا ہے جو سماجی مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں، جہاں چند دولت مندوں کے مفادات کے تحفظ پر مبنی اقتصادی پالیسیاں اپنائی جاتی ہیں۔
دراصل ’اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی‘ کے اس مضمون کا ذکر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اگر آکسفیم انڈیا کی اس رپورٹ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ مرکزی حکومت کی اقتصادی پالیسیاں چند دولت مندوں و صنعت کاروں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ملک کی جی ڈی پی میں اس طبقے کی حصہ داری سب سے زیادہ ہے اور ان ٹیکس دہندگان کی بدولت ہی تعلیم اور صحت کے شعبے میں غربت و پسماندگی کے شکار افراد کو سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی آمدنی میں زیادہ حصہ داری ڈائریکٹ ٹیکس کے بجائے ان ڈائریکٹ ٹیکس سے ہونے والی آمدنی کی ہے۔ ہمارے نیوز چینل اور اخبارات جی ایس ٹی سے ہونے والی آمدنی میں اضافے کی خبر کو بہت ہی اہتمام سے دکھاتے ہیں لیکن اس بات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ جی ایس ٹی سے ہونے والی آمدنی میں کس کی حصہ داری کتنی ہے اور اس کی قیمت کون چکاتا ہے؟ایک طرف ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ 1991 کے بعد فی کس آمدنی میں چار گنا اضافہ ہوا ہے یعنی اگر 1991میں فی کس آمدنی سو روپے تھی تو اب وہ پانچ سو روپے ہوگئی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک فی کس آمدنی میں اضافے کے ساتھ ڈائریکٹ ٹیکسوں میں اضافہ کرتے ہیں مگر بھارت میں 1991سے اب تک ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی دس فیصد آبادی جس کے پاس ملک کی ساٹھ فیصد دولت ہے ان سے کہیں زیادہ ٹیکس وہ پچاس فیصد آبادی ادا کرتی ہے جن کے پاس ملک کی محض دس فیصد دولت ہے ۔دوسری طرف حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس کو تیس فیصد سے گھٹاکر بائیس فیصد کردیا ہے اور نئے کارپوریٹس کا ٹیکس پندرہ فیصد کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں مرکزی حکومت کو 1.84ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا جس کی بھرپائی ان ڈائریکٹ ٹیکس میں اضافہ، افراط زر میں اضافہ اور سماجی و فلاحی اقدامات میں کمی کے ذریعہ کی جارہی ہے۔ ایک طرف روس سے سستے تیل کی خریداری اور اس کےلیے امریکہ کے سامنے نہ جھکنے کو بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے مگر اس کا فائدہ عام لوگوں کو پہنچانے کے بجائے چند کارپوریٹ گھرانوں کو پہنچایا جارہا ہے۔ چنانچہ 2012 سے 2021 کے درمیان بھارت نے جتنی دولت پیدا کی ہے اس کا چالیس فیصد حصہ صرف ایک فیصد دولت مندوں کے پاس چلا گیا ہےاور پچاس فیصد آبادی کے حصے میں صرف تین فیصد دولت آئی ہے جبکہ ملک کے دس صنعت کار جن میں سے زیادہ تر وزیر اعظم مودی کے دوست اور مداح ہیں ان کی دولت میں تینتیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ وہیں دوسری طرف 2018 کے مقابلے میں 2022میں بھکمری کے شکار کے افراد کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں پینسٹھ فیصد بچوں کی موت غذائی قلت کی وجہ سے ہوئی ہے۔ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ کیا یہی وزیر اعظم نریندر مودی کا وکاس اور سب کا ساتھ ہے۔’’غذائی تحفظ ایکٹ‘‘ سابقہ یو پی اے حکومت کے دور میں ہی نافذ ہو گیا تھا مگر کورونا بحران کے دوران ہر ایک شہری کو پانچ کیلو اناج دیے جانے کا ڈھنڈورا خوب پیٹا گیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فی کس نو کیلو اناج کی ضرورت تھی۔سماجی عدم مساوات کی مثال اس سے بڑھ کیا ہوسکتی ہے کہ محض چند سالوں میں بھارت کا ایک صنعت کار دنیا کے تین امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے جب کہ چند سال قبل تک وہ دنیا کے سب سے زیادہ امیر سو افراد میں بھی شامل نہیں تھا۔دراصل یہ کرونی کیپٹلزم(crony capitalism)کا نتیجہ ہے۔کرونی کیپٹلزم بزنس، بازار کی آزاد قوت کے ذریعہ نہیں چلتا بلکہ سیاستدانوں سے گٹھ جوڑ اور اپنے حق میں نامناسب فیصلے کرواکے ترقی کرتا ہے۔ چنانچہ کورونا وبا کے دوران اگر صنعت کاروں کی دولت میں اضافہ ہوا تو وہ بھی اسی کرونی کیپلٹزم کا نتیجہ ہے کیوں کہ کارپوریٹ ٹیکس یکم مشت آٹھ فیصد کم کردیا گیا ہے۔شرح سود میں بڑی رعایتیں دی گئیں، بڑے پیمانے پر قرضیں معاف کیے گئے ۔المیہ یہ ہے کہ اس دوران وزیراعظم مودی اوران کی سیاسی جماعت نے ’ریوڑی تقسیم‘‘ کا طعنہ دے کر فلاحی اسکیموں پر حملہ کیا۔دوسری طرف ملک کے وسائل اور خزانے کارپوریٹ گھرانوں کے لیے کھول دیے گئے۔ جب ملک کی دولت چند دولت مندوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہوجائے گی تو کسی بھی حکومت کےلیے ان کے مایا جال سے نکلنا آسان نہیں ہو گا۔ بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے اسی کو مڈل انکم ٹریپ یا درمیانی آمدنی کا جال (middle income trap) قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ترقی پذیر ملکوں کی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
آکسفیم انڈیاکی رپورٹ کا خلاصہ
ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کے پہلے دن 16 جنوری کو حقوق انسانی کی تنظیم ’’آکسفیم انٹرنیشنل‘‘ نے اپنے چیپٹر ’’آکسفیم انڈیا‘‘ کی رپورٹ کو بطور ضمیمہ شائع کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت میں معاشی عدم توازن میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ نومبر 2020 میں وبا شروع ہونے کے بعد سے بھارت میں ارب پتیوں کی دولت میں حقیقی معنوں میں یومیہ 121 فیصد یعنی 3,608 کروڑ روپے کا اضافہ ہواہے۔دوسری طرف 2021-22 میں جی ایس ٹی میں کل 14.83 فیصد لاکھ کروڑ روپے کا تقریباً چونسٹھ فیصد حصہ پچاس فیصد آبادی سے آیا ہے جن کے پاس بھارت کی دولت کا محض آٹھ فیصد حصہ ہے جب کہ جی ایس ٹی کا صرف تین فیصد حصہ بھارت کی دس فیصد آبادی سے آیا ہے جن کے پاس ملک کی دولت کا چالیس فیصد حصہ ہے۔آکسفیم کی رپورٹ میں بتایا ہےکہ بھارت میں ارب پتیوں کی کل تعداد 2020 میں 102 سے بڑھ کر 2022 میں 166 ہو گئی۔ بھارت کے سو امیر ترین افراد کی مشترکہ دولت 660 بلین امریکی ڈالر (54.12لاکھ کروڑ روپے) تک پہنچ گئی ہے۔ آکسفیم انڈیا کے سی ای او امیتابھ بہار بتاتے ہیں کہ ملک کے پسماندہ دلت، قبائلی، مسلمان، خواتین اور غیر منظم سیکٹر زراعت اور دیگر شعبے جیسے تعمیراتی کام وغیرہ شامل ہیں، ایسے نظام میں مسلسل مشکلات کا شکار ہیں جو امیر ترین لوگوں کی بقا کو یقینی بناتا ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ کوویڈ-19کے دوران معاشی عدم توازن میں مزید اضافہ ہوا ہے۔اس کے پیچھے ذات پات اور طبقاتی تفریق ایک بڑی وجہ ہے۔ نہ صرف دولت کا بڑا حصہ آبادی کے ایک چھوٹے طبقے کی مجموعی مالیت میں مرکوز ہے بلکہ اس میں وبائی امراض (کورونا) کے دوران بڑی حدتک اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف آبادی کے نچلے پچاس فیصد افراد کی دولت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بھارت میں غریبوں کی تعداد 228.9 ملین ہے جبکہ ارب پتیوں کی تعداد 102 (2020) سے بڑھ کر 166 (2022) ہوگئی ہے۔ اس طرح رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ آمدنی میں صرف عدم مساوات بڑھی ہے۔ معاشی عدم مساوات کی ایک بڑی وجہ جی ایس ٹی میں اضافہ ہے۔ وائرس کی شروعات سے چند ماہ قبل حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس سلیب کو تیس فیصدسے کم کر کے بائیس فیصد کر دیا جس کے نتیجے میں آمدنی میں 1.84 لاکھ کروڑ کا نقصان ہوا۔ اس نقصان کی تلافی کے لیے پٹرولیم اور ڈیزل کی قیمتوں پر ایکسائز ڈیوٹی اور جی ایس ٹی میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔ اس کا سیدھا اثر مہنگائی پر پڑا۔ ایک طرف بے رروزگاری کی مار اور دوسری طرف افراط زر میں اضافہ نے غربت کے شکار افراد کو مزید غربت کے غار میں دھکیل دیا ہے۔ ستمبر 2022 میں شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں افراط زر 7.56 فیصد تھا یعنی دیہی اور شہری علاقوں میں اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں بڑا فرق تھا۔اگرچہ بھارت طبی سیاحت کے ممالک میں سرفہرست ہے لیکن غریب ترین ہندوستانی ریاستوں میں بچوں کی اموات کی شرح صحارا افریقہ کے ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی زچگی کی اموات کا سترہ فیصد اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں اکیس فیصد اموات بھارت میں ہوتی ہیں۔صنفی عدم مساوات کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کارکنان کی آمدنی مرد کارکنان کے مقابلے کافی کم ہے۔ اگر مرد کارکنان کو یومیہ مزدوری سو روپے دی جاتی ہے تو خواتین کارکنان کو محض تریسٹھ روپے۔
درج فہرست ذاتوں اور دیہی علاقوں میں رہنے والے مزدوں کی اجرت میں بہت زیادہ فرق ہے۔ 2018 اور 2019 کے درمیان شہری آمدنی کے مقابلے میں دیہی علاقوں کی آمدنی صرف نصف حد تک تھی۔
عدم مساوات کے خاتمے کے لیے اقدامات
آکسفیم نے ’’سروائیول آف دا ریچسٹ‘‘ کے زیرعنوان اپنی رپورٹ میں بھارتی حکومت کے سامنے عدم مساوات کے خاتمے کےلیے چند تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بھارت کے ارب پتیوں پر ان کی پوری دولت پر ایک بار دو فیصد ٹیکس لگایا جاتا ہے تو اس سے اگلے تین سالوں تک ملک میں غذائی قلت کے شکار افراد کی غذائیت کے لیےدرکار 40,423 کروڑ روپے کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔ ارب پتی گوتم اڈانی پر 2017-2021 کے غیر حقیقی منافع پر ایک دفعہ کا ٹیکس، 1.79لاکھ کروڑ روپے اکٹھا کرسکتا ہے جو کہ ایک سال کے لیے پچاس لاکھ سے زیادہ پرائمری اسکولوں کے اساتذہ کو ملازمت دینے کے لیے کافی ہوگا۔ 2021 میں فائٹ انیکوالٹی الائنس انڈیا (ایف آئی اے انڈیا) کے ملک گیر سروے کا حوالہ دیتے ہوئے، آکسفیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں اسی فیصد سے زائد امیروں اور کارپوریٹ کمپنیوں پر ٹیکس کی حمایت کرتے ہیں۔ اسی فیصد افراد کاماننا ہے کہ کورونا وبا کے دوران ریکارڈ منافع کے باوجود انہیں ٹیکس میں چھوٹ اور دیگر مراعات سے نوازنا بھارت کی ستر فیصد آبادی جن کی آمدنی اوسطا کم ہے کے ساتھ ناانصافی ہے۔نوے فیصد رائے دہندگان کا ماننا ہے کہ معاشی عدم مساوات کا مقابلہ کرنے کےلیے سماجی تحفظ پر مبنی اقدامات ضروری ہے اور اس کےلیے علیحدہ بجٹ لانا چاہیے صنفی و معاشرتی امتیازات کے خاتمے کےلیے ضروری ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبے کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے اور غیر ہنر مندافراد کی ٹریننگ اور انہیں روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔
معاشی عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے آکسفیم نے امیروں پر ٹیکس لگانے کی جو سفارشات کی ہے وہ کافی طویل ہے اس کا خلاصہ یہ ہے :
-1 بھارتی ارب پتیوں پر ایک فیصد ویلتھ ٹیکس بھارت کی سب سے بڑی ہیلتھ کیر اسکیم، نیشنل ہیلتھ مشن کو فنڈ دینے کے لیے کافی ہوگی۔ اس سے تین سالوں کے لیے 36,960 کروڑ روپے کا فنڈ حاصل ہوگا۔
-2 سرفہرست دس ارب پتیوں پر پانچ فیصد ٹیکس لگانے سے قبائلی علاقوں میں صحت کی دیکھ بھال پر آنے والے اخراجات پانچ سال تک کےلیے پورے ہوجائیں گے۔
-3 بھارت کے ارب پتیوں پر دو فیصد ٹیکس لگانے سے سپلیمینٹل نیوٹریشن پروگرام (SNP) کے ذریعے تین سال تک بھارت کے غذائی قلت کے شکار افراد کی غذائیت میں مدد ملے گی۔
-4 بھارت کے ارب پتیوں پر دو فیصد ٹیکس لگانے سے حاصل ہونے والے نتائج کو صحت پر خرچ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
-5 امیر ترین دس ارب پتیوں پر ایک فیصد ٹیکس لگانے سے سماگرا شکشا (اسکول کی تعلیم کے لیے مرکزی حمایت یافتہ اسکیم) کے لیے درخواست کی گئی رقم اور تین سال کے لیے وزارت تعلیم کی جانب سے انہیں دی گئی رقم کے درمیان اس کمی کو پورا کیا جائے گا۔ چار فیصد ٹیکس لگانے سے دو سال کے لیے درخواست کردہ فنڈز کی پوری رقم کا احاطہ کیا جائے گا۔
-6 بھارت کے سرفہرست سو ارب پتیوں کو 2.5 یا ٹاپ 10 کو پانچ فیصد پر لینے سے اتنی رقم ملے گی کہ اسکول سے باہر بچوں کو معیاری تعلیم حاصل کرنے کے لیے واپس لایا جا سکے گا ۔
-7 سرفہرست سو ارب پتیوں پر لگائے گئے دو فیصد ٹیکس دوپہر کے کھانے کی اسکیم کو فنڈ دیں گے جو قومی تعلیمی پالیسی 2020 (NEP 2020) کے ذریعہ تجویز کی گئی تھی۔
-8 ایلیمنٹری اسکولوں میں خالی آسامیوں کو پُر کرنے کے لیے درکار رقم 2040.3 کروڑ روپے دس امیر ترین بھارتی ارب پتیوں پر ایک فیصد ٹیکس لگا کر (تیرہ سال کے لیے فنڈنگ یا) سو امیر ترین بھارتی ارب پتیوں پر ایک فیصد ٹیکس لگا کر چھبیس سالوں کے لیے فنڈنگ حاصل کی جاسکتی ہے۔
آکسفیم انڈیا کی یہ رپورٹ اس دلیل کے ساتھ ختم ہوتی ہے کہ بھارت میں عدم مساوات کا خاتمہ صرف امیروں پر ٹیکس لگانے سے ہی ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی سماجی و معاشرتی ترقی کے لیے بنائی گئی اسکیموں کے لیے درکار فنڈوں کے لیے رقم کی فراہمی ہوجائے گی۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ معاشی عدم مساوات کو کم کرنے میں صرف ایک قدم ہوگا۔
ملک کو معاشی عدم مساوات سے نکالنے کی راہ صرف اسلام کے ذریعہ ہی مل سکتی ہے
امیروں پر ٹیکس عدم مساوات کے خاتمے کے لیے صرف ایک قدم ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ آخر ملک کو معاشی عدم مساوات کے دلدل سے مکمل طور پر نکلنے کی کوئی راہ ہے بھی یا نہیں؟ اس سوال کا جواب دیا ہے جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سید سعادت اللہ حسینی نے اپنی کتاب ’’ہندتو انتہا پسندی:نظریاتی کشمکش اور مسلمان‘‘ میں جس میں انہوں نے سماجی نابرابری، انتظامی اصلاحات اور معاشی عدل کے عنوان سے اس مسئلے پر کھل کر گفتگو کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے ’’اسلام ترقی کا قائل ہے لیکن کچھ شرطوں کے ساتھ، جس طرح کمیونزم کا نعرہ مساوات ہے اور کیپیٹلزم کا نعرہ آزادی اور گروتھ ہے، اسلام کا نعرہ عدل ہے۔ عدل میں آزادی، مساوات اور گروتھ بھی شامل ہیں، لیکن یہ قدریں غیر مشروط نہیں ہیں بلکہ عدل کے تقاضوں کےماتحت ہیں۔ نظام سرمایہ داری، سرمایہ اور معاشی ترقی کو آگے اور انسان کو پیچھے رکھتا ہے جبکہ اسلام کے نزدیک انسان اصل ہے اور سرمایہ اور ترقی محض انسان کی خدمت کے لیے ہیں۔ چنانچہ ترقی اور گروتھ سے پہلے انسانیت اور اس کے تقاضوں مقدم رکھا جاتا ہے۔
معاشی پالیسی کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہونا چاہیے کہ مال دولت مندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرے بلکہ دولت مندوں سے غریبوں کی طرف جائے۔ اسلامی شریعت نے اس کے لیے سود کی حرمت، زکوۃ کی فرضیت اور وراثت کے احکام جیسے طریقے اختیار کیے ہیں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان طریقوں کے علاوہ وہ ٹیکسوں کا نظام، خرچ اور رعایتوں کا نظام اور عمومی ترقیاتی پالیسی کو اس طرح تشکیل دے کہ مال امیروں سے غریبوں کی طرف جائے اور ممکنہ حد تک وسائل اور دولت کی مساویانہ تقسیم ہو۔ اشتراکیت کی طرح مساوات کا غیر فطری تصور اسلام نہیں رکھتا لیکن یہ ضرور چاہتا ہے کہ پالیسی اقدامات کے ذریعہ ممکنہ حد تک نابرابری کم کی جائے۔پالیسی کے بعد بھی جو غربت رہ جائے اس کے ازالے کے لیے اسلام انفاق اور صدقات کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا ہے اور زکوٰۃ کا مہتم بالشان نظام دیتا ہے۔ زکوٰۃ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ غریب لوگوں کے پاس بھی پیسہ رہے اور وہ بھی خرچ کرتے رہیں۔ رمضان میں ہم دیکھتے ہیں کہ غریب لوگ بھی کپڑے خریدتے ہیں اور عید کا سامان خریدتے ہیں۔ اس طرح انفاق فی سبیل اللہ اور زکوۃ کا نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ طلب یعنی ڈیمانڈ ہمیشہ باقی رہے اور اس کے نتیجہ میں معیشت میں کساد کبھی نہ آنے پائے۔ زکوۃ کا نظام اللہ تعالیٰ نے اس طرح تشکیل دیا ہے کہ اس کے اندر خود، نابرابری کو کم کرنے اور آبادی کے تمام حصوں کی قوت خرید بڑھانے کی معجزانہ معاشی صلاحیت موجود ہے۔ چند سال پہلے (2013میں) مشہور فرانسیسی ماہر معاشیات تھامس پکیٹی (Thomas Piketty) نے اپنی ایک کتاب کے ذریعہ معاشیات کی دنیا میں ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ ان کی کتاب ’سرمایہ اکیسویں صدی میں‘ (Capital in the Twenty First Century) بہت مشہور ہوئی اور کئی سال تک دنیا میں سب سے ز یادہ فروخت ہونے والی کتاب بنی رہی۔ اس کتاب میں پکیٹی نے دنیا میں بڑھتی ہوئی معاشی نابرابری کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب سرمائے پر منافع کی شرح (rate of return on capital) ملک کی معاشی ترقی کی شرح (rate of growth) سے بڑھ جاتی ہے تو دولت چند ہاتھوں میں، یعنی ایک فیصد اور دس فیصد امیر ترین لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہونے لگتی ہے۔ منافع کی شرح اور معاشی ترقی کی شرح میں یہ فرق جتنا زیادہ ہوگا، ارتکاز دولت کی رفتار اتنی ہی تیز ہوگی۔ پکیٹی نے عدم مساوات کے عالمی مسئلہ کاجو حل تجویز کیا ہے، وہ زکوۃ ہی ہے۔ اس نے تجویز کیا ہے کہ آمدنی پر مروجہ ٹیکسوں کے علاوہ جملہ اثاثوں (assets)پر ٹیکس لگایا جائے تاکہ منافع کا کچھ حصہ کم ہو اور شرح منافع، شرح ترقی سے قریب تر اور پھر کم تر ہوجائے۔ یہی کام زکوۃ کرتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پکیٹی نے اثاثوں پر ٹیکس کی جو شرح تجویز کی ہے وہ بھی زکوۃ کی شرح سے قریب تر ہے۔ پکیٹی کی تجویز کردہ شرح دو فیصد ہے جبکہ زکوۃ ڈھائی فیصد ہوتی ہے۔‘‘(ہندتو انتہا پسندی )
اگر حکومتیں یہ سمجھتی ہیں کہ جذباتی مسائل میں عوام الجھا کر غربت اور معاشی عدم توازن کے سوال کو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹالنے میں کامیاب رہیں گی تو انہیں تاریخ سے سبق لیے کی ضرورت ہے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ معاشی عدم مساوات اور غربت کی وجہ سے غریبوں میں عدم اطمینان اور مایوسی مختلف سماجی و سیاسی مسائل پیدا کرتے ہیں، خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشی عدم مساوات اور غربت میں اضافہ جیسے مسائل کا حل، سیاسی وابستگی سے اوپر اٹھ کر تلاش کیا جائے اور اس راہ میں سب سے بڑھ کر نمائندگی حکومت اور ملک کے عوام کوئی کرسکتا ہے تو اسلامی تحریک سے وابستہ افراد ہی کرسکتے ہیں مگراس کےلیے ضروری ہے پہلے ہم خود اپنے معاشرے میں ظلم و زیادتی اور نا انصافی کا خاتمہ کریں اور علمی قوت و استدلال کے ساتھ اسلامی اقتصادیات کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا مذہبی انتہا پسندی کا شکار موجود حکومت سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کو سن سکے گی؟
***

 

***

 معاشی پالیسی کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہونا چاہیے کہ مال دولت مندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرے بلکہ دولت مندوں سے غریبوں کی طرف جائے۔ اسلامی شریعت نے اس کے لیے سود کی حرمت، زکوۃ کی فرضیت اور وراثت کے احکام جیسے طریقے اختیار کیے ہیں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان طریقوں کے علاوہ وہ ٹیکسوں کا نظام، خرچ اور رعایتوں کا نظام اور عمومی ترقیاتی پالیسی کو اس طرح تشکیل دے کہ مال امیروں سے غریبوں کی طرف جائے اور ممکنہ حد تک وسائل اور دولت کی مساویانہ تقسیم ہو۔ اشتراکیت کی طرح مساوات کا غیر فطری تصور اسلام نہیں رکھتا لیکن یہ ضرور چاہتا ہے کہ پالیسی اقدامات کے ذریعہ ممکنہ حد تک نابرابری کم کی جائے۔پالیسی کے بعد بھی جو غربت رہ جائے اس کے ازالے کے لیے اسلام انفاق اور صدقات کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا ہے اور زکوٰۃ کا مہتم بالشان نظام دیتا ہے۔ زکوٰۃ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ غریب لوگوں کے پاس بھی پیسہ رہے اور وہ بھی خرچ کرتے رہیں۔ رمضان میں ہم دیکھتے ہیں کہ غریب لوگ بھی کپڑے خریدتے ہیں اور عید کا سامان خریدتے ہیں۔ اس طرح انفاق فی سبیل اللہ اور زکوۃ کا نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ طلب یعنی ڈیمانڈ ہمیشہ باقی رہے اور اس کے نتیجہ میں معیشت میں کساد کبھی نہ آنے پائے۔ زکوۃ کا نظام اللہ تعالیٰ نے اس طرح تشکیل دیا ہے کہ اس کے اندر خود، نابرابری کو کم کرنے اور آبادی کے تمام حصوں کی قوت خرید بڑھانے کی معجزانہ معاشی صلاحیت موجود ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جنوری تا 04 فروری 2023