اخلاقی اقدار: آزادی کی حقیقی بنیاد اور معاشرت کی فلاح

انسانی آزادی اور سماجی ذمہ داریاں اسلام کی روشنی میں

مریم جاوید، پونے

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ و اشرف بنایا اور زمین پر اسے اختیارات کے ساتھ بسایا۔ اس کے استعمال میں انسان کو آزادی عطا کی جس میں سوچ، انتخاب، اور عمل کی آزادی شامل ہے۔ صحیح و غلط کی تمیز سکھانے کے لیے نبی و رسول بھیجے گئے۔ اختیارات کے استعمال کے سلیقے کو ہم اخلاقی اقدار کہتے ہیں۔ انسان کو بتایا گیا کہ جو آزادی اسے دی گئی ہے اس کا استعمال اخلاقی اقدار کے مطابق ہو تو انسانی معاشرہ امن و سکون اور خیر و فلاح سے ہم کنار ہو گا۔
وَاعۡبُدُوا اللٰهَ وَلَا تُشۡرِكُوۡا بِهٖ شَيۡـئًـا‌ ؕ وَّبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَ الۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡجَـارِ ذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡجَـارِ الۡجُـنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَـنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ ۙ وَمَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللٰهَ لَا يُحِبُّ مَنۡ كَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ۞ (سورہ نساء 36)
ترجمہ: اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجنبی ہمسائیوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ اللہ (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔
حقیقی آزادی کے لیے اخلاق ضروری ہے۔ اچھے اخلاق یہ انسانی آزادی میں رکاوٹ نہیں بلکہ انسان کے وجود کی تکمیل کرتے ہیں، اسے بلندی عطا کرتے ہیں اور آزادی بخشتے ہیں۔ اسلام انسان کو ایسی آزادی دیتا ہے جو اضطراب، بے چینی اور فرسٹریشن سے نجات دلاتی ہے۔ اخلاقی اقدار ہماری کارکردگی اور فیصلوں کو انصاف اور راست بازی کی بنیادیں فراہم کرتی ہیں۔ جب افراد اور معاشرے اخلاقی اقدار کو برقرار رکھتے ہیں تو ایسا ماحول تشکیل پاتا ہے جہاں لوگ ہم آہنگی اور باہم احترام کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
انسانی معاشرت میں فرد اور معاشرت کی گہری وابستگی ہے۔ سماجی ذمہ داریوں کو انسانی اخلاق سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا۔ اخلاق کا اعلیٰ تصور فرد کی فلاح اور اجتماعی کامیابی کا راز ہے۔ اعلیٰ اخلاق مشکلیں آسان کرتے ہیں، الجھے ہوئے مسائل حل کرتے ہیں اور دل و دماغ کو سکون و راحت دیتے ہیں۔
جب کوئی شخص اپنی زندگی میں اخلاقی اصولوں پر عمل کرتا ہے تو اس کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے جس سے اندرونی سکون اور جذباتی استحکام ملتا ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جسے بنیادی اخلاقیات کی ضرورت نہ ہو۔ ہماری اخلاقی تعمیر کی بنیادیں خدا، رسول، قرآن اور آخرت پر ایمان ہیں، جو مسلم قوم کی عمارت کی بنیاد بنتی ہیں۔
فرد اور جماعت دونوں سطحوں پر اچھے اخلاق کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اسلام میں اس کا مقام اتنا بلند ہے کہ اس کے آگے کوئی درجہ باقی نہیں رہتا۔ سچ بولنا، دیانت داری، حلال کھانا، کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا، محنت کرنا، مصیبت پر صبر کرنا، اللہ کی نعمت پر شکر ادا کرنا، عدل و انصاف کرنا، پاک دامنی، سچائی، حیا، صلہ رحمی، اطاعت والدین، بڑوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت، نرم خوئی، خوش گفتاری، رحم دلی، غریبوں مظلوموں کی مدد، خلق خدا کے ساتھ احسان کا سلوک، یہ سب چیزیں اخلاق میں شامل ہیں۔ ان اخلاقی اقدار کے مطابق زندگی گزارنا معاشرت میں ہمارے مقام و مرتبے کو بلند کرتا ہے۔
اخلاقیات کا مقصد یہ ہے کہ انسان دوسروں کے ساتھ عزت، انصاف اور نیکی کے ساتھ پیش آئے اور اپنے اعمال کے نتائج پر غور کرے۔ اخلاق ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ کون سا عمل درست ہے اور کون سا عمل غلط ہے۔ یہ انسان کے کردار کو مضبوط بناتے ہیں اور اسے بہتر فرد بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ اخلاقیات انسان کو سماجی فرائض اور دوسروں کے حقوق کی پاس داری سکھاتی ہیں۔
اخلاق کی بلندی پر قائم رہنے کے لیے دین اور ملّی روایات میں ہمیں جو چیزیں ملی ہیں، ان میں حق پسندی، حق شناسی، عدل و انصاف، دیانت و امانت، راست بازی، خیانت، حیا، عفت، مروت، اور تقویٰ شامل ہیں۔ یہ چیزیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے قابل قدر ہونی چاہئیں لیکن ہم نے خوش حالی، شان دار زندگی، غلبہ و اقتدار اور عیش کو قابل قدر ٹھیرا لیا ہے۔
حرام اور حلال کی تمیز جس کی بقا ہمارے اخلاق کی بقا و استحکام پر منحصر ہے، ہم نے اسے بچانے کے بجائے اس کی جڑ کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارا معاشی نظام سود پر چل رہا ہے، شراب نوشی بڑھ رہی ہے، جنسی بداخلاقی میں اضافہ ہو رہا ہے اور عریانی، بے حیائی، اختلاط مرد و زن، فحش لٹریچر، فلمیں، اور گانے فروغ پا رہے ہیں، حالانکہ مسلم معاشرہ اخلاقی اقدار کا حامل تھا۔
"نیکی حسن خلق کا نام ہے” (مسلم)۔
نیکی اور بدی انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ انسان فطری اخلاقی حس کے ساتھ پیدا ہوتا ہے جو اسے صحیح اور غلط میں تمیز کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ اخلاقی خوبیاں جیسے بہادری، سچائی، وفاداری، دیانت داری، مستقل مزاجی، عزم و ہمت، عفت و پاکیزگی، شائستگی اور خوش اخلاقی دنیا بھر میں سراہی جاتی ہیں جو معاشرت میں مساوات، انصاف، اور آزادی کو فروغ دیتی ہیں۔
اخلاقی برائیاں، جیسے بے ایمانی، غداری، خود غرضی، ظلم، تنگ نظری، بے صبری، بے اصولی، بزدلی، غرور، بدتمیزی، نا انصافی، بدنظمی، چوری، قتل، زنا، دھوکہ دہی، اور سوشل میڈیا پر بے حیائی، انفرادی خوشی اور صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں اور پرامن معاشرت کی بنیادوں کو مٹاتی ہیں۔
"اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے” (سورۃ القصص)۔
مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں کہ انسان کی بنیادی اخلاقیات وہ اوصاف ہیں جو انسان کے اخلاقی وجود کی اساس ہیں اور ان میں وہ صفات شامل ہیں جو دنیا میں کامیابی کے لیے ضروری ہیں۔ اخلاقی اور روحانی منازل کو طے کر کے انسان کو ایک صالح اور بہترین معاشرت قائم کرنا ہے۔
اخلاقی اقدار کی عدم موجودگی کی صورت میں سماج برائیوں کا شکار ہوتا ہے۔ اخلاقی قدروں کے ترک سے نظام خاندان تباہ ہوتا ہے، رشتہ داریوں کا تقدس مجروح ہوتا ہے اور بد اعتمادی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارم پر بے حیائی کا فروغ ان مسائل کو مزید بڑھا رہا ہے۔
"اور تم یقیناً عظیم اخلاق پر فائز ہو” (سورۃ القلم – 4)۔
نبی کریم ﷺ کی اخلاقیات ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ آپ کے اخلاق نے لوگوں کے دلوں کو متاثر کیا اور آپ کے اخلاقی مقام نے آپ کو دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ایک رول ماڈل بنا دیا۔ آپ کے اخلاقی نمونہ پر چل کر کروڑوں افراد اپنی زندگیاں سنوار رہے ہیں۔
***

 

***

 اخلاقی اقدار انسانی آزادی کی حفاظت اور انسانیت کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔ اسلام نے سچائی، دیانتداری، اور انصاف کے اصول دیے ہیں جو معاشرتی امن و سکون اور ترقی کی بنیاد ہیں۔ اخلاق کی پاسداری فرد اور معاشرے کے استحکام کو یقینی بناتی ہے، جبکہ ان کی عدم موجودگی انتشار اور بداعتمادی کا سبب بنتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 ستمبر تا 21 ستمبر 2024