اقلیتوں، عورتوں اور مظلوموں کو حق و انصاف دلانے کے لیے ڈٹ جائیں: تیستا سیتلواد

زیادتیوں کے واقعات میں نمایاں اضافہ ۔ متحدہ جدوجہد پر امن و انصاف مورچہ کے قائدین کا زور

ممبئی: (دعوت نیوز ڈیسک)

ملک کی موجودہ صورتحال، مختلف علاقوں خصوصاً ہماچل پردیش، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر کے ناسک، نیا نگر میں مسلمانوں اور پس ماندہ طبقات پر جاری ظلم کے خلاف امن و انصاف مورچہ کا ممبئی مراٹھی پترکار سنگھ میں پریس کانفرنس کا انعقاد۔ جیسا کہ حالیہ برسوں میں معاشی طور پر مسلمانوں، پسماندہ طبقات اور دلتوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف ہمارے آئینی اصولوں کے خلاف ہیں بلکہ معاشی تفاوت کو بھی بڑھا رہے ہیں۔ سماجی اثرات کا جائزہ لینے سے پسماندہ طبقات اور نظام انصاف پر تشدد اور نظامی امتیاز کے گہرے اثرات سامنے آتے ہیں۔
مولانا انیس اشرفی نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے نئی حکومت سے قانونی اور پالیسی اصلاحات پر توجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ مساوی ترقی اور انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔ ڈاکٹر سلیم خان نے اقلیتوں خاص کر مسلمانوں پر جاری ظلم و ستم کے خاتمے اور انہیں مساوی انسانی حقوق فراہم کرنے کا مطالبہ کیا اور عوامی تحریک کی بیداری پر زور دیا۔
ڈاکٹر وویک کورڈے نے کہا کہ نوکریوں کے حصول میں بھید بھاؤ برتا جارہا ہے۔ گودی میڈیا، نیتا اور مذہبی رہنما تمام مل کر شخصی آزادی کی خلاف ورزی کا کام کر رہے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں سیکولرزم کو مضبوط کرنا ہوگا۔ مذہبی معاملے میں حکومت کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔ انٹر فیتھ ڈائیلاگ کو بڑھاوا دینے کی بھی ضرورت ہے۔
عوامی جہد کار تیستا سیتلواد نے کہا کہ الیکشن کے دوران نفرت بھری تقاریر کی گئیں جس کے خلاف کڑی کارروائی ہونی چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ انسانوں کی حق تلفی عام ہوتی جارہی ہے۔ اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا ازحد ضروری ہے۔ حقوق کے لیے ڈٹ جانا بہت ضروری ہے۔ فرید شیخ، ممبئی امن کمیٹی نے کہا کہ امتیازی سلوک کے خلاف میڈیا اور سیول سوسائٹی کے کردار کو اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مولانا محمود دریا آبادی نے کہا کہ پچھلے دس سالوں سے ملک میں گویا ’’غیر اعلان شدہ ایمرجنسی‘‘ نافذ ہے۔موجودہ حکومت نے ایسے ہی مشکل اور نا مساعد حالات پیدا کرکے لوگوں کی خصوصاً اقلیتوں کی حق تلفی کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ مولانا ظہیر عباس رضوی نے کہا کہ یہ ملک ہمیشہ سے امن و امان کا گہوارہ رہا ہے، یہاں مذہب اور زبان کے نام پر ملک کو بانٹنے کا کام ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ ملک کے آئین میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیے گئے ہیں اس کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ شاکر شیخ نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور ایکشن پلان کے ضمن میں کہا کہ بین المذہب کلچرل ایکسچینج ہونا چاہیے، تعلیم اور بیداری پر بات چیت ہونی چاہیے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر بڑھ سکے۔
تمام ہی مقررین نے حکومت کی جانب سے کی جانے والی ناانصافی پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ہم ان ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ عمائدین نے میڈیا سے اس ناانصافی کے خاتمہ کی کوششوں میں حصہ لینے اور تعاون کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ ہم سب کو مل کر ایک انصاف پسند معاشرے کی تشکیل کی طرف بڑھنا چاہیے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جولائی تا 13 جولائی 2024