اخلاقیات اور اس کے نفسیاتی اثرات

جواب دہی کے احساس سے اخلاق کے اعلیٰ مراتب تک رسائی ممکن

خان مبشرہ فردوس

بنیادی طور پر انسان ایک سماجی زندگی گزارنا پسند کرتا ہے۔ انسان سے انسان کا تعلق باعث سکون ہے اسی لیے نفسیاتی طور پر ایک فرد کے نزدیک اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ لوگ اس کے عمل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں آیا یہ سرگرمی سماج میں قبول کی جاتی ہے یا سماج کے پیراڈئم سے مختلف ہے؟ اگر مختلف بھی ہے تو کیا اسے اس کی سوسائٹی سماج یا مذہب یا دین اس بات کی اجازت دیتا ہے؟ یہ تمام باتیں انسان کے لاشعور کا حصہ ہوتی ہیں۔
انسان کا وجود ہی”کل مولود یولد علی فطرہ” ہے، یعنی ہر بچہ اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ یہاں فطرت سے مراد انسان کی سلیم الطبعی ہے،کرہ عرض پر بسنے والا ہر انسان اپنی ذات سے سرزد ہونے والی اچھائی برائی کو بخوبی جانتا ہے:
فَاَلۡهَمَهَا فُجُوۡرَهَا وَتَقۡوٰٮهَا ۞وَنَفۡسٍ وَّمَا سَوّٰٮهَا ۞
اور نفسِ انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی،
یہاں اللہ رب العالمین نے نفس انسانی کو ہموار کرنے کی بات کہی ہے۔ انسانی نفس کو ہموار کر دیا۔ اس طرح اسے لطیف بنایا کہ فطرت کے خلاف گناہ کا بوجھ برداشت نہیں کرتا اور فوراً انسان جان لیتا ہے کہ وہ گناہ کا کام کر رہا ہے۔
چونکہ موجودہ دور نہ صرف ٹکنالوجی کی وجہ سے ہر لمحہ علم کے اعتبار سے بس ایک جنبش کا محتاج ہے بلکہ اسی طرح انسان نے اپنی آزادی کو محسوس کیا اور سہولتوں کی ارزانی حاصل کی ہے۔ نتیجتاً ہماری نسلیں حتیٰ کہ بڑے بھی ایک ان دیکھے حصار میں محصور ہیں جسے ہم ڈیجیٹل حصار کہہ سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انسان ہر قسم کے حدود و قیود سے آزاد بے لگام زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ شادی شدہ بہت بالیدہ نظر شادی شدہ جوڑے بھی اپنی زندگی میں سنجیدہ نہیں ہیں نتیجتاً ایکسٹرا میریٹل افئیرز، نوجوانوں میں لیو اینڈ ریلیشن شپ کے واقعات ہوں یا گھر بھاگ کر شادی کرنے والی طالبات، بے لگام زندگی میں بوائے فرینڈ کے ساتھ چیٹ پر وقت گزارتیں ہوں یا جنسیات کے بے راہ روی ہو اوپن سیکس کے نام پر ان نسلوں کو مادر پدر آزادی کا تصور دے دیا گیا حتیٰ کہ اخلاقیات یا حدود و قیود یا اصول ضوابط سے ہم نسلوں میں بیزاری دیکھتے ہیں ۔
اخلاقیات کے نفسیات پر گہرے اور اہم اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انسان کی اخلاقی اصولوں پر مبنی زندگی اس کی نفسیاتی حالت، جذباتی سکون اور ذہنی توازن کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ اللہ رب العالمین نے ہر شخص کے نفس کو خود اس کے اپنے عمل پر گواہ بنا دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سماج میں ناپسندیدہ عمل ہونے کا احساس ایک فرد کو احساس جرم کے قعر مذلت میں دھکیل دیتا ہے ۔
اخلاقیات دراصل ان اصول و ضوابط کا نام جس میں انسان خود اپنی ذات پر تحدید لگاتا ہے، خود کو پابند کرتا ہے جیسے جب کوئی شخص اپنی زندگی میں اخلاقی اصولوں پر عمل کرتا ہے تو اس کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اندرونی سکون اور جذباتی استحکام محسوس کرتا ہے۔ اس کے برعکس انسان ہر پابندی سے آزاد ہو، جذباتی اعتبار سے کمزور ہو دوسرے کو اپنی ذات کی کمزوری بنا کر حدود کو پامال کرے تو اس کو احساس جرم گھیر لیتا ہے۔احساس جرم نفسیاتی طور پر انسان میں رویہ کی تبدیلی کا سبب بنتا ہے۔
احساس جرم نفسیاتی کمزوری :
احساس جرم انسان کی ایک طرح سے جذباتی کمزوری بھی ہے اعتماد کی کمی کو بھی پیدا کرتا ہے اس کے متضاد رویہ میں جارحیت، حسد، سفاکی بھی پیدا ہوتی ہے۔کبھی کبھی یہی احساس جرم انسان کو خود اذیتی کا شکار بھی بنا دیتا ہے جسے self-harm کہتے ہیں ۔
جذباتی لطافت میں کمی: انسان کے جذبات بہت لطیف ہوتے ہیں لیکن جب یہی جنسیات اور بد اخلاقی کے حوالے سے بے نیاز ہوکر ایک مرتبہ حدود پامال کر دے تو وہ لطافت چلی جاتی ہے۔ اخلاقی ارزانی پیدا ہوتی ہے۔دوسرے کے جذبات کے ساتھ کھیلنا جھوٹ، فریب اور وعدہ خلافی شیوہ بن جاتا ہے۔ اس کی حرمت بھی دل سے چلی جاتی ہے اسی طرح ہمیشہ کے لیے وہ نوجوان چاہے لڑکا ہوں یا لڑکی جنسی لطافت کھو دیتے ہیں بعد کی زندگی میں بھی اپنے زوج کے لیے وفا شعار بن کر رشتہ استوار کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔
اخلاقی زوال اور خود اعتمادی میں کمی:
جو افراد مسلسل اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں، ان کی خود اعتمادی متاثر ہو سکتی ہے۔ وہ خود کو کمتر محسوس کرتے ہیں اور اپنی زندگی میں ایک خالی پن اور ان کی کیفیت کسی چیز سے سکون نہیں پاتی وہ ہر وقت عدم تسکین کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں چھپ کر کسی گناہ میں مبتلا ہیں یہ احساس انہیں ہر کام میں تذبذب کا شکار بنا دیتا ہے وہ ہر وقت کسی راز کے کھل جانے کے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اصول شکنی:
اصول شکنی ایک طرح سے انسان کو سماجی نظام کا جارح بنا دیتی ہے۔جو لوگ اپنے اصولوں اور اخلاقیات پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں، ان کی خود اعتمادی اور عزت نفس عموماً بلند ہوتی ہے۔ وہ اپنی زندگی میں مقصدیت محسوس کرتے ہیں، جو ان کے نفسیاتی توازن کے لیے مفید ہوتی ہے۔ ایک بامقصد زندگی گزارنے والے انسان کے نزدیک دنیا میں بے شمار کام ہیں جو اسے انسانوں کے نفع بخش بنادیتے ہیں ۔
مینٹل ہیلتھ:
دماغی صحت کا انحصار بھی بڑی حد تک جرم کے احساس سے تعبیر ہے غیر فطری عمل کو انسانی روح برداشت نہیں کرتی اور انسان اس جرم سے نکلنے کی کوشش میں اپنی شخصیت تباہ کرلیتا ہے۔ اسی لیے نوجوان نسلیں اپنی دماغی صحت کو تباہ کر رہی ہیں۔جنسی خواہشات کے لیے تنہائی پسند بن جانا،رشتوں سے نگاہ نہ ملا پانا، یا معاشرے میں بے حیائی کو نارمل اور ایکسپٹیبل بنانے کے لیے دوسروں سے گفتگو کرنا یا نشہ کا سہارا لینا جیسی شخصی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
اس کے برعکس دماغ صحت اچھی ہو تو ایک فرد کی شخصیت میں توازن پیدا ہوتا ہے اس میں interpersonal skills اچھی ہوتی ہیں وہ لوگوں سے بہترین تعلق استوار کرسکتا ہے۔اس کا سماجی دائرہ وسیع ہوتا ہے۔پیارے نبی ﷺ کا قول ہے کہ تم میں سے وہ شخص بہتر ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہو۔ یہ بات واضح ہے کہ احساس جرم پر پردہ پڑا رہنے کے لیے انسان گھر والوں کی نگاہ میں خود کو مجروح کرلیتا ہے ۔
کمزور سہاروں پر تعلقات:
اخلاقیات انسان کے پائیدار تعلقات کی بنیاد ثابت ہوتے ہیں جبکہ اخلاقی پستی کے ساتھ انسان کے تعلقات کی بنیاد بھی کمزور اور ہوتی ہے۔ ایسے تعلقات جذبات کی تسکین کے بجائے مادی ضرورتوں سے جڑ جاتے ہیں۔ جبکہ اللہ رب العالمین نے پورے نظام میں توازن کے ذریعہ حسن قائم کیا ہے اور سماج کے لیے قابل قبول اور خدا کا بنایا قانون ہی دراصل انسان کی شخصیت کا توازن ہے۔
اسلام میں اخلاقیات کو زندگی کا بنیادی اور مرکزی جزو سمجھا جاتا ہے۔ قرآن اور سنت کے ذریعے انسان کو ایک اخلاقی اور متوازن زندگی گزارنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلامی اخلاقیات کا مقصد ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جو انصاف، محبت، ہمدردی اور عدل پر مبنی ہو۔ اسلام میں اخلاقیات کے اصول اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور انسانیت کی فلاح کے لیے بنائے گئے ہیں۔
اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو اخلاقیات کے اصول کے ذریعہ سے عزت بخشی اس کے شرف میں اضافہ کیا فرمایا:
وَلَقَد کَرَّمنَا بَنِی آدَم وَحَمَلنَاھُم فِی البَّرِ وَالبَحرِ وَرَزَقنَاھُم مِّنَ الطَّیِّبَات وَفَضَّلنَاھُم عَلَی کَثِیر مِمَّن خَلَقنَا تَفضِیلاً “(بنی اسرائیل آیت70) ترجمہ: اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور خشکی اور تری دونوں میں ان کو سواری عطا کی۔ اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت دی۔
انسان میں جب جواب دہی کا احساس پیدا ہوتا ہے تو وہ انسان کی تربیت اس انداز سے ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات کو اللہ کی امانت خیال کرتا ہے اس کی قدر و منزلت کو پہچانتا ہے اس کی زندگی پر وہ اللہ کا حق سمجھتا ہے۔ بے جا بے راہ روی پر خود کو قادر نہیں سمجھتا۔زندگی کو اللہ کی امانت سمجھنے والا شخص امانت کا پاس و لحاظ رکھتا ہے قرآن کہتا ہے کہ وَالَّذِینّ ھُم لِاَمَانَاتِھِم وَ عَھدِھِم رَاعُونَ (المعارج آیت 32) ترجمہ: اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024