اخلاقی محاسن کیسے آزادی کے ضامن ہو سکتے ہیں؟

سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ایک مکالمہ

جاویدہ بیگم ورنگلی

باجی! یہ عنوان تو میری سمجھ میں ہی نہیں آرہا ہے
کون سا ایسا عنوان ہے جو آپ کے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے؟
’’اخلاقی محاسن آزادی کے ضامن‘‘
’’عنوان ایسا مشکل تو نہیں ہے جو آپ کی سمجھ میں نہ آئے‘‘
’’اخلاقی محاسن جنت کے ضامن تو ہو سکتے ہیں لیکن کیا یہ آزادی کے ضامن بھی ہو سکتے ہیں؟”
’’آپ پہلے یہ بتائیں معاشرے کی اصلاح کے لیے فرد کی اصلاح ضروری ہے یا نہیں‘‘
’’جی بالکل ہے۔ فرد کی اصلاح کے بغیر معاشرے کی اصلاح ہو ہی نہیں سکتی۔ افراد کے ہاتھوں معاشرہ بنتا بھی ہے بگڑتا بھی ہے‘‘۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کی مقدر کا ستارہ
’’آپ ہی بتائیے غیر مسلموں کو اصلاح حال کی ترغیب کس طرح دی جا سکتی ہے؟ کیا ان سے یہ کہا جا سکتا ہے آپ کے اچھے اخلاق آپ کے آخرت کی فلاح وہ کامرانی کے ضامن ہیں؟ جو آخرت کو تسلیم ہی نہ کرتے ہوں ان کے سامنے آخرت کی فلاح و کامرانی کی باتیں کیسے کہی جا سکتی ہیں؟جب ان سے آخرت کی فلاح و کامرانی کی باتیں نہیں کی جا سکتیں تو ان کو اخلاقی برائیوں کو چھوڑنے کی ترغیب کس طرح دی جائے؟
اصلاح کی کوششیں محدود پیمانے پر تو نہیں کی جا سکتیں اور حالات پر گہری نظر رکھے بغیر اصلاح کا کام نہیں ہو سکتا۔ یہ اصلاح کا کام کوئی آسان کام نہیں ہے۔ انسان کوئی بات غور سے اسی وقت سنتا ہے جب وہ اس کی سوچ و فکر کے مطابق ہو۔ یہ آزادی کوئی نیا لفظ نہیں ہے۔ انسان غلامی کی زندگی گزارنا پسند نہیں کرتا، انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جو انتھک کوشش اور قربانیاں دی گئی ہیں اس کی طویل تاریخ ہے۔
مگر آج انسان آزادی کے نام پر انسانیت کے بلند مقام سے گر کر جانوروں کی صف میں شامل ہو رہا ہے‘‘
’’یہ کیا بات ہوئی آزادی کے نام پر آدمی انسانیت کی سطح سے گر رہا ہے؟‘‘
آج کہا جا رہا ہے کہ انسان آزاد ہے اس پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے۔ وہ جس طرح چاہے کھا اور پی سکتا ہے۔ وہ اپنے جسم کو جس طرح چاہے استعمال کر سکتا ہے۔ وہ اپنے جسم کی نمائش جس طرح چاہے کر سکتا ہے۔ کپڑے پہن بھی سکتا ہے اور ننگ دھڑنگ بھی رہ سکتا ہے۔ اپنی جنسی تسکین جس طرح چاہے، جب چاہے جس سے چاہے پوری کر سکتا ہے۔ یعنی آزادی کے نام پر خواہشات نفس کا غلام بن گیا ہے۔ سب سے بدتر غلامی نفس کی غلامی ہے۔ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے جانوروں سے ممتاز کرنے والی اس کو ایک اخلاقی حس دی گئی ہے۔ سوچنے غور و فکر کرنے والا ذہن دیا گیا ہے مگر وہ نفس کا غلام بن گیا ہے۔ اس نفس کی غلامی سے آزادی حاصل کرنا اصل میں آزادی ہے۔
بات تو آپ کی سمجھ میں آئی ہے کہ نفس کی غلامی سے آزادی حاصل کرنا اصل آزادی ہے مگر یہ اخلاق حسنہ کس طرح آزادی کے ضامن ہو سکتے ہیں؟
ایک مثال آپ کے سامنے رکھتی ہوں ایک شخص اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا ائے اللہ کے رسول! میں بہت برا آدمی ہوں مگر کسی برائی کو چھوڑ نہیں سکتا شرابی ہوں ڈاکو ہوں زانی ہوں۔ یہ برائیاں میری زندگی کا لازمی جز بن کر رہ گئی ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا مجھ سے وعدہ کرو کہ جھوٹ نہیں بولو گے۔ وہ شخص یہ وعدہ کر کے چلا گیا۔ رات آئی تو اس کے قدم شراب خانے کی طرف اٹھنے لگتے ہیں تووہ سوچتا ہے کل اللہ کے رسول مجھ سے پوچھیں گے کہ کیا کل تو نے شراب پی؟ تو میں ان کے سامنے اپنے شراب پینے کا کس طرح اقرار کروں؟ چنانچہ شراب خانے کی طرف اس کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں۔ رات جب گہری ہو جاتی ہے سب لوگ نیند کے آغوش میں پہنچ جاتے ہیں تو حسب معمول ڈاکہ ڈالنے کے لیے نکلنا چاہتا ہے لیکن یاد آ جاتا ہے کل صبح اللہ کے رسول پوچھیں گے رات کیسے گزاری؟ تو میں کیسے کہوں کہ میں نے فلاں مقام پر ڈاکہ ڈالا تھا؟ یہ خیال اس کے ڈاکہ ڈالنے کے لیے نکلنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ حسب معمول محبوبہ سے ملنے کی خواہش ہونے لگتی ہے تو فوراً ہی خیال آتا ہے کل اللہ کے رسول سوال کریں گے تو اپنے زانی ہونے کا کیسے اقرار کر سکتا ہوں؟ اس طرح وہ شراب، ڈاکہ زنی اور زنا سے رک جاتا ہے۔ اس طرح ایک اخلاقی خوبی ’’سچ ‘‘ اس کو شراب ڈاکہ اور زنا جیسی بری عادتوں سے آزاد کر دیتی ہے۔
’’جی، آپ کی بات سمجھ میں آگئی۔‘‘ انسان اخلاق حسنہ اختیار کر کے خواہشات نفس کی غلامی سے آزاد ہو سکتا ہے۔ برائیوں کا خاتمہ اخلاق حسنہ اختیار کر کے ہی کیا جا سکتا ہے‘‘۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024