اخلاقی محاسن ہی آزادی کے حقیقی ضامن

نئی نسل کی صحیح تربیت کے لیے مائیں اپنا مطلوبہ کردار ادا کریں

فہمیدہ فردوس

اللہ تعالی نے آدم وحوا علیہم السلام کو جنت میں رکھا اور شجر ممنوعہ کے پاس جانے سے منع کیا لیکن شیطان نے انہیں گم راہ کیا نافرمانی کروائی اور ان کا جنتی لباس اتروا دیا۔ بس یہی تو وہ دشمن ہے جو ہمارے والدین کا تھا ، ہمارا بھی ہے اور ہماری نسلوں کا بھی رہے گا۔ وہ ہمیں دنیا میں صراط مستقیم سے بھٹکانے کی کوشش کرتا ہے ،بے حیائی ،عریانیت اور فحاشی کے تمام راستے اسی کی طرف جاتے ہیں۔
آج ہم جس دہانے پر کھڑے ہیں جدید ٹکنالوجی کا دور ہے ہر طرف ٹکنالوجی کی چمک دمک ہے۔ اگر ہم زمانے کے اعتبار سے نئی ٹکنالوجی سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو ترقی نہیں کر سکتے لیکن اس ٹکنالوجی کے ساتھ چلتے ہیں تو پھسلنے کا ڈر ہے ابلیس کی چالوں میں پھنسنے کا ڈر ہے، جیسا کہ سوشل میڈیا جو آج ہماری ضرورت بن گیا ہے لیکن فحاشی پھیلنے کا بڑا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں آزادی نہیں ہے اور ہم ٹکنالوجی اور جدید تعلیم سے دور ہو کر جہالت کی زندگی گزاریں بلکہ اس کو مؤثر بنانے کے لیے ہم کو اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا۔ شریعت کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہم ترقی کا زینہ چڑھ سکتے ہیں جو کہ اخلاقی اقدار دیتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ اسلامی تعلیمات کی شکل میں ہم پر سخت پابندیاں عائد نہیں کی گئی ہیں بلکہ یہ تو ترقی کا ایسا زینہ ہےجو حفاظت کے ساتھ ہمیں ترقی کی راہوں پر گامزن کرے گا ہمارے نوجوانوں کو بھٹکنے سے روکے گا۔ بقول امیر جماعت اسلامی ہند جناب سعادت اللہ حسینی ’’حقیقی آزادی کے لیے اخلاق ضروری ہیں جو انسان کے وجود کی تکمیل کرتے ہیں اور اسے بلندی عطا کرتے ہیں۔‘‘
اخلاق مومن کا بنیادی وصف ہے حضرت ابو عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے حضور ﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ’حضور نہ تو طبعاً فحش گو تھے اور نہ بازاروں میں چلاتے اور نہ شور مچاتے تھے اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معاف فرما دیتے اور درگزر فرماتےتھے‘
اگر ہم اپنے بچوں کی تربیت بچپن ہی سے اخلاق حسنہ کے مطابق کریں تو چاہے زمانہ پُرفتن ہی نہیں کیوں نہ ہو ہم نئی نسل کی بہترین تربیت کرکے انہیں ترقی کا زینہ چڑھا سکتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے ماں کو بڑا مقام عطا کیا ہے۔ چونکہ ماں کی گود ہی بچے کا پہلا مدرسہ ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی ذمہ داریاں نہ بھولے اور سوشل میڈیا پر بے وجہ وقت برباد نہ کرے اور اپنے آپ کو ماں کے رول میں کامیاب بنائے تاکہ نئی نسل بااخلاق و باکردار بن کر دنیا میں اعلی عہدوں پر فائز ہو، اس کے لیے اخلاق ترقی کا بہترین زینہ ہے مائیں اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں اور انہیں اپنے ساتھ رکھیں۔
اللہ تعالیٰ نے ماں کو بڑا مقام یوں ہی نہیں دیا کہ اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی بلکہ وہ مائیں ہی ہوتی ہیں جو اپنے بچوں کو اخلاقی اقدار پر تربیت کر سکتی ہیں۔ قرآن و سنت پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ موبائل کا مؤثر استعمال بھی ماں کی تربیت ہی کا حصہ ہے۔ بچوں پر سب سے زیادہ اثر ماں کا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے بچوں کو ڈانٹ کر یا مار کر نہیں بلکہ محبت سے سمجھا کر حکمت سے تربیت کرنی چاہیے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول ﷺ مدینہ تشریف لائے تو میری عمر آٹھ سال کی تھی۔ میری والدہ مجھے ساتھ لے کر آپ کی خدمت میں گئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے علاوہ انصار کے تمام مردوں اور عورتوں نے آپ کو کوئی نہ کوئی تحفہ دیا ہے اور میرے پاس تحفے دینے کے لیے اس بیٹے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اس لیے آپ اس کو میری طرف سے قبول فرما لیں جب تک آپ چاہیں گے یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ چنانچہ میں نے آپ کی دس سال خدمت کی اس عرصے میں آپ نے نہ مجھے کبھی مارا نہ مجھے گالی دی اور نہ کبھی تیوری چڑھائی۔
ہمارے نبی کی زندگی ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہے لہٰذا سنت ہی کے مطابق بچوں کی پرورش کرنی چاہیے۔اگر مائیں زیادہ وقت نہیں دے سکتیں تو اپنے بچوں کو کسی بااثر شخصیت کی صحبت میں دیدیں نہ کہ اپنے بچوں کو موبائل کے حوالے کر دیں تاکہ ان کے کام آسان ہو جائیں شاپنگ اچھی ہو جائے یا آرام ہو جائے۔ اس طرح بچے آہستہ آہستہ موبائل کی مرہون منت پرورش پا رہے ہیں۔ پھر کیسے ان کے اندر اچھے اخلاق پروان چڑھ سکتے ہیں؟ کیسے وہ اپنے والدین کے مقام کو سمجھ پائیں گے اور کیسے وہ اسلام کی تعلیمات کو سمجھیں گے؟سمجھنا تو دور کی بات ان کے لیے تو یہ ایک نئی دنیا ہی ہوگی بلکہ ایک امیجنری ورلڈ جو کبھی دیکھی ہی نہیں۔ جن فحش باتوں، کارٹون، ریلوں اور ٹی وی سیریلوں کے ساتھ انہوں نے بچپن گزارا وہی سب تو ان کے اندر پروان چڑھے گا جس سے ان کی فزیکلی اور روحانی زندگی بے انتہا متاثر ہو رہی ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن بد اخلاقیوں کے علاوہ فواحشات کے ساتھ ان کو یہ سب برائیاں، برائیاں ہی نہیں لگیں گیں، محرم غیر محرم اور حلال و حرام کا فرق انہیں نظر نہیں آئے گا۔ اس کے برعکس بچوں کے لیے ماں کی تربیت حسن اخلاق پر ہو اور ماں اپنی ذمہ داریاں نہ بھول کر آئیڈیل ماں کے کردار کو کامیاب بنائے تو وہ دن دور نہیں کہ ہر فرد، گھر اور ہر خاندان ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل دے گا جو کہ ہم کو مطلوب ہے۔
ہماری نئی نسل چاہے وہ تین یا چار سال کے ہوں یا پانچ سے بیس سال کے ہوں یا اس سے زیادہ، سب کے سب موبائل پر گیم میں مصروف ہیں یا سوشل میڈیا پر ریلیں دیکھنے یا بنانے میں مصروف ہیں یا ایک دوسرے کے ساتھ چیٹنگ پر ایکٹیو ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے سماج میں معاشرتی برائیاں جڑ پکڑ چکی ہیں۔ آزادی کے نام پر ہمارے بچے اپنا وجود کھو رہے ہیں وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ میری زندگی میری مرضی، میرا جسم میری مرضی، جیسے خیالات نے جنم لیا ہے۔ انہیں اخلاق،اسلامی شریعت اور دینی احکامات پابندیاں نظر آرہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر تباہے کی دہانے پر کھڑا ہے، اس کا ایک بہترین حل اخلاقی محاسن ہیں، یہی صحیح معنی میں آزادی کے ضامن بھی ہیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اکتوبر تا 12 اکتوبر 2024