اخلاقی محاسن، آزادی کے ضامن

حالات حاضرہ کے تناظر میں سورہ نور کی آیت 19پر دو لڑکیوں کا عمدہ مکالمہ

سمیہ بنت عامر خان

حورین : السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ، کیا حال ہے شانزے آپی؟؟
شانزے : الحمد للہ اللہ کا کرم ہے میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم بتاؤ تمہارے مزاج گرامی اور آج کل کیا مصروفیات ہیں تمہاری؟
حورین : الحمد للہ اللہ کا فضل و کرم‌ اور پیاری آپی آپ کی دعائیں ہیں ، کچھ نہیں آپی قرآن کا تفسیری مطالعہ کر رہی ہوں۔ عربی کلاس میں سورہ النور کی تفسیر شروع ہے ہماری عربی کلاس میں تفسیر کورس شروع کیا گیا ہے جس میں آیت کا تفسیری مطالعہ اور غور و خوص کرنا ہوتا ہے۔
شانزے: اچھا ماشاءاللہ پیاری۔ اللہ تمہیں آسانیاں عطا کرے اور تمہارے علم میں برکت عطا کرے۔ اچھا حورین یہ تو بتاؤ کس آیت کا مطالعہ کر رہی ہو؟
حورین: سورہ النور آیت ١٩ کا مطالعہ کر رہی ہوں۔ اِنَّ الَّذِيۡنَ يُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِيۡعَ الۡفَاحِشَةُ فِى الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌۙ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ‌ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ۞
’جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔‘ حورین بلند آواز کے ساتھ آیت اور ترجمہ دہراتی ہے۔
شانزے: بہت اچھا پیاری تمہاری قرأت ماشاءاللہ بہت دلسوز اور پرسکون ہے۔ اچھا حورین یہ بتاؤ یہاں فاحشہ(بے حیائی) سے کیا مراد ہے؟ کیا تم‌ نے اس کی تفسیر پڑھی؟
حورین: جی آپی یہاں فَاحِشَہ، کے معنی بےحیائی ہیں اور قرآن نے بدکاری کو بھی فاحشہ قرار دیا ہے، (بنی اسرائیل) اور یہاں بدکاری کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے بےحیائی سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے دنیا و آخرت میں عذاب الیم کا باعث قرار دیا ہے۔
شانزے : تمہارے نزدیک بے حیائی اور بدکاری سے کیا مراد ہے؟
حورین: آپی میرے خیال میں بے حیائی سے مراد بہت ہی بے شرم، جس کے اندر حیا نہ ہو، جس میں شرم نہ ہو۔ اور بدکاری سے مراد بدفعلی برے کام، بد چلنی اور ہم جنس پرستی وغیرہ ہے۔
شانزے: اچھا حورین لوط علیہ السلام کی قوم کی بے حیائی کا تم کو علم ہوگا جو ہم جنس پرستی کی ہی ایک شکل ہے۔
حورین: جی آپی سورہ اعراف کی آیت نمبر ٨٠ اور ٨١ میں اس کا ذکر موجود ہے۔ وَلُوۡطًا اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِهٖۤ اَتَاۡتُوۡنَ الۡفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمۡ بِهَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنَ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ۞ اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو بھیجا جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کا تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا۔
اِنَّكُمۡ لَـتَاۡتُوۡنَ الرِّجَالَ شَهۡوَةً مِّنۡ دُوۡنِ النِّسَآءِ‌ ؕ بَلۡ اَنۡـتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ ۞ تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر بلکہ تم تو حد ہی سے گزر گئے ہو۔
شانزے: ماشاءاللہ ماشاءاللہ بہت اچھی پیاری حورین۔ جانتی ہو حورین آج بھی ہمارا معاشرہ آزادی کے نام پر اسی بے حیائی اور بدکاری کا شکار ہوگیا ہے۔ آج کا نوجوان میری زندگی میری مرضی جیسے نعروں سے متاثر ہوکر اصول سے عاری زندگی گزارنے کو آزادی سمجھتا ہے۔ آزادی اور خود مختاری کے نام پر مختلف نظریاتی طاقتیں ہر طرح کی اخلاقی اقدار کی پابندی سے آزادی کی وکالت کرتی نظر آرہی ہیں۔ ڈیجیٹل دور کے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعہ ہماری نسلوں کو ہائی جیک کرلیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں نوجوانوں میں شادی سے بیزاری، لیو اینڈ ریلیشن شپ، بے حیائی و عریانیت ، تبدیلی جنس نے طوفان بد تمیزی مچا رکھی ہے، کالج کیمپس میں نو جوان نسلوں کا میل جول، ناجائز جنسی تعلقات،ٹوٹتی شادیاں، بکھرتے خاندان، منشیات کا استعمال اور عیش پسندی جیسی بد فعلی نے نوجوانوں کو تنہائی پسند، فرسٹریٹ اور تناؤ کا شکار بنا دیا ہے۔ اس بے لگام آزادی کا تباہ کن پہلو یہ سامنے آیا کہ نوجوان نسل رشتوں کے تقدس اور اچھائی برائی کی تمیز کھو بیٹھی ہے ۔
حورین: جی آپی آپ نے بالکل ٹھیک کہا آج ہر طرف بے حیائی کی یلغار نے نوجوان نسلوں کی کار آمد اور تخلیقی صلاحیتوں کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ آج دنیا میں مغربی تہذیب اور جدید لائف اسٹائل کے ٹائیٹل سے معاشرہ محبت و اخوت، مذہبی رواداری، اخلاقی اقدار کی پامالی سے پرے نظر آتا ہے۔ آپی ہمارا اسلامی کلچر ہمیں آزادی سے نہیں روکتا بلکہ اسلام اپنے تصور آزادی کو حقوق وفرائض کے توسط سے عملی جامہ پہناتا ہے ۔اللہ تعالی نے انسان کو بلا کسی تشدد اور ظلم وزیادتی کے اپنے حقوق کی حصول یابی اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے تصرف کی جو قدرت عطا کی ہے،اس کو آزادی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جب کہ مغربی تہذیب میں ہر قید وبند سے آزاد ی اور ہر ضابطہ سے چھٹکارا اورہر طرح کی نگرانی سے نجات پانے کا نام آزادی ہے۔کسی انسانی سماج میں اس قسم کی بے مہار آزادی کیا گل کھلا رہی ہے، اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ اس آزادی کے خطرناک نتیجے ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں ۔ ہمارا اسلامی کلچر آج اسی بے مہار مغربی نظریات کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔ LGBTQ اور Extra Marital Affairs جیسے نظریات کو نوجوان ہی نہیں حتی کہ نو عمر بچے بھی آزادی سمجھتے ہیں۔
حورین : ہمارے معاشرے سے محبت و عزت کا چراغ غل ہوگیا ہے آج اس معاشرے میں ظلم و بربریت کا ڈنکا ہے۔ جہاں ذات پات کی تفریق نہیں تھی آج معاشرے میں ذات پات رنگ و نسل اور مذہب کی تقسیم ہوگئی ہے ہر فرد دوسرے فرد کا دشمن بنا بیٹھا ہے۔ امن، انصاف، محبت، سچائی، رواداری، خیر خواہی، عدم ِتشدد، صبر ،تواضع، عالمی اخوت اور اخلاقی سلوک، وغیرہ۔ یہ اخلاقی اقدار انسانی ترقی کے ضامن ہیں اور آج ہمارا سماج و معاشرہ انہی اقدار سے خالی ہے۔
شانزے: اتحاد و حسن اخلاق یہ ہمارے معاشرے کی بنیاد ہے۔ اور یہی جڑیں کھوکھلی ہوگئی ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ اخلاقی محسن ہی آزادی کے ضامن ہیں۔ آزادی اور اخلاقیات براہ راست متناسب ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ اگر انسان آزادی چاہتا ہے تو اسے اخلاقی اقدار کی پاسداری و پابندی کرنا ضروری ہے نہ کہ آزادی کے نام پر اخلاقیات سے گری ہوئی حرکتیں انجام دے۔ انسانیت کا دارومدار اخلاقیات پر ہے۔ اخلاقیات سے خالی شخص انسانیت کے لیے وحشی درندے سے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ حورین کبھی تم نے سورج کو دیکھا ہے سورج اعلی معیاری اخلاق کی بہترین مثال ہے۔ سورج اپنی روشنی ہر کسی کو فراہم کرتا ہے اپنے اور کسی غیر کے درمیان فرق نہیں کرتا۔ اپنی روشنی کے خزانے سے امیر غریب چھوٹا بڑا، کالا گورا، امیر و غریب غرض ہر کسی کو لٹاتا رہتا ہے۔ یہی کردار ایک مہذب انسان کا بھی ہونا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ دوست ہو یا دشمن ، اپنا ہو یا پرایا، امیر ہو یا غریب ہر ایک کے لیے نفع بخش بنے۔ یہی ایک انسان کے لیے اعلیٰ معیاری اخلاق ہے۔اِنہی اخلاقی اقدار کو اپنانے سے بہتر سماج اور بہتر معاشرہ تخلیق پاتا ہے۔
حورین: آپی آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت بے حیائی جیسے معاشرتی ناسور کو ختم کرنے کے لئے اعلی سطح پر اقدامات کرے۔ لیکن ہماری حکومتیں ان غیر فطری اور نا جائز تعلقات اور بداعمالیوں کے حق میں قانون سازی کر کے ہمت افزائی کر رہی ہے، جس کی وجہ سے یہ وبا تیزی سے سماج میں پھیلتی جارہی ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس اخلاقی اقدار کی پامالی اور نام نہاد آزادی کے چنگل سے انسانوں کو بچا کر فطری آزادی کا تصور واضح کریں تاکہ ہماری نسلیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے بچالی جائیں اور دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہو۔
شانزے: اخلاقیات ہی وہ ہتھیار ہے جو انسان کو ہر طرح کے خسارے سے محفوظ رکھتا ہے۔ اتنا ہی نہیں حورین اخلاق اسلام کا اہم عنصر ہے۔ حضور ﷺ کے حوالے سے قرآن مجید نے فرمایا: وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْم.’’ بلاشبہ آپ ﷺ عظیم الشان اخلاق کریمہ کے حامل ہیں‘‘۔ (القلم، 4: 86)
آپ ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق’’میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘۔(کتاب حسن اخلاق، ج2، ص409) قرآن میں جابجا اخلاقیات پر زور دیا گیا ہے۔ قرآن ایک ایسی بیش بہا قیمتی کتاب ہے جو صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہدایت کی کتاب ہے۔ جس میں زندگی گزارنے کے ایسے منظم طریقے بتائے گئے جو کسی اور مذہب میں نہیں۔ آج بگڑتے ہوئے معاشرہ کے لیے قرآن و سنت ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے آج ایک بہتر و پرسکون معاشرے کے لیے جن بنیادی اصولوں کی ضرورت ہےوہ چودہ سو سال پہلے قرآن مجید کی سورۃ الحجرات میں بیان کیے گئے ہیں۔ جیسے لا یسخر(لوگوں کا مذاق نہ اڑاؤ ہوسکتا ہے وہ اللہ کی نظر میں تم سے بہتر ہو)، و لا تلمزوا (ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو)، فا اصلحوا (اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو)، ولا تنابزوا (ایک دوسرے کو برے القابات سے نہ پکارو)، و لا تجسسوا ( کسی کی ٹوہ میں نہ رہو) ولا یغتب بعضکم بعضا ( ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو)۔ دور جدید کا جائزہ لے تو ہمارا معاشرہ ان بنیادی اصولوں سے عاری ہے جس کی بدولت معاشرہ میں بد امنی، بےسکونی، بڑے چھوٹوں کی بے عزتی، قتل و غارت گری، لڑائی جھگڑا، بد کاری و بے حیائی، نا انصافی کا دور دورا ہے‌۔ صحت مند اور ایک آئیڈیل معاشرے کی تشکیل کے لیے ضرورت ہے اس میں اتحاد و اتفاق، محبت و اخوت، عدل و انصاف، نرمی و احترام جیسے عنصر شامل ہوں جس کی تعلیم ہمارا اسلام دیتا ہے۔
حورین : جزاک اللہ خیر باجی آپ نے بہت اچھی طرح سے مجھے سورہ النور کی آیت ١٩ کو تفصیلی طور پر سمجھایا۔
شانزے: شکریہ تو میں تمہارا ادا کرتی ہوں کہ تم‌ قرآن کی ماشاءاللہ بہت اعلی تعلیم حاصل کر رہی ہو. کیا میں بھی تمہاری اس تفسیری کلاس کا حصہ بن سکتی ہوں حورین ؟
حورین : جی آپی بالکل میری کلاس کا نام ترجمۃ القرآن کلاس ہے جہاں قرآن کا لفظی ترجمہ مع تفسیر سکھایا جاتا ہے اتنا ہی نہیں حفظ قرآن، احادیث، دینی مسائل، اسلامی آداب، کا بھی مطالعہ کرایا جاتا ہے۔ یہ کلاس بالکل مفت ہے یہاں کسی قسم کی کوئی فیس نہیں لی جاتی۔
شانزے: (خوشی سے) ان شاء اللہ ضرور۔ واقعتاًجدید دور میں دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی ضروری ہے۔ حورین تمہاری پیاری پیاری دینی باتیں مجھے بہت پسند آئی۔ یہ دینی تعلیم ہی ہمارا کل اثاثہ ہے۔
ارے ہاں! حورین تمہیں ایک بات بتانا تو میں بھول ہی گئی کہ اخلاقی اقدار کی پاسداری کے لیے ملک گیر پیمانے پر جماعت اسلامی ہند شعبہ خواتین کی جانب سے بعنوان ’اخلاقی محاسن آزادی کے ضامن‘ ایک ماہی مہم کا آغاز 1 ستمبر سے ہوچکا ہے جو 30 ستمبر تک جاری رہے گی۔ اس دوران پریس کانفرنس، انٹرفیتھ سیمینار، پینل ڈسکشن وغیرہ ہو رہے ہیں ۔مہم کے عنوان پر اردو، انگریزی اور ہندی زبانوں میں مضامین کی اشاعت ہوگی۔ پوسٹرز،ریلز، اور ڈاکیومنٹریز بھی تیار کئے جائیں گے۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے درمیان اسکول،کالج اور یونیورسٹی کیمپس میں خصوصی پروگرام اور مقابلے منعقد کیے جائیں گے۔تم بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے اس کا حصہ بننا اور اپنی ساتھیوں کو بھی اس مہم میں شمولیت کی دعوت دینا تاکہ وہ بھی اس مہم کے ذریعے مغربی نظریات کے خول سے باہر آسکیں۔
حورین: جی شانزے آپی میں ضرور اس مہم کا حصہ بنوں گی ان شاء اللہ۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 ستمبر تا 21 ستمبر 2024