اخلاقی محاسن آزادی کے ضامن

مغربی تہذیب سے مرعوب مسلم خواتین!

مہ جبین فلاحی ، جبلپور

اسلامی طرز زندگی میں ہی حقیقی کامیابی کے راز مضمر
اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بخشی تاکہ ہم اس صلاحیت سے اچھے برے کی تمیز کر سکیں اور اللہ نے جو ہمیں اختیار دیا ہے کہ ہم اس آزادی کو بہتر طریقے سے اپنائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب انسانوں نے اپنے اختیار کا صحیح استعمال کیا تو معاشرہ خوش حال و ترقی کی راہ پر گامزن ہوا اور جب جب اس نے اس اختیار کا غلط طریقے سے استعمال کیا تو معاشرہ بدحال اور پستی کی طرف گامزن ہوا۔
اسی طرح دین اسلام کو اللہ تعالی نے مکارم اخلاق کا ذریعہ بنایا ہے اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس دور پر نگاہ ڈالنی ہوگی جب اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں انسان انسانیت سے ناآشا ہو چکا تھا، عزتیں محفوظ نہیں تھیں، ہر طرف فساد اور خون ریزی برپا تھی، یتیموں کے مال محفوظ نہ تھے، بیواؤں کی کوئی قدر نہ تھی، یتیموں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا تھا، مسکین اور محتاج کی حاجت روائی کا کوئی تصور نہ تھا، لڑکی کو اس معاشرے میں بوجھ تسلیم کیا جاتا تھا، اس بےچاری کو جینے کا کوئی حق ہی حاصل نہیں تھا، پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، یعنی انسان بالکل انسانیت سے گری ہوئی زندگی گزار رہا تھا۔ ایسے حالات میں اللہ تعالٰی نے انسانیت کو سرسبز و شاداب کرنے اور اس کو اعلی اخلاق کا مالک بنانے کے غرض سے اپنے رسول کو اعلیٰ اخلاق کا حامل بنا کر بھیجا -سورہ قلم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا’ یقیناً آپؐ عظیم اخلاق کے حامل ہیں‘
حضرت محمد ﷺ نے اپنے اخلاق کے ذریعے ان تمام پھیلی ہوئی برائیوں کو ختم کیا۔ آج اگر ہم اپنے ارد گرد ممالک کا جائزہ لیں تو ہم یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ہمارے ملک کا حال ویسا ہی ہو گیا ہے جیسا قبل از اسلام تھا۔حدیث میں ہے کہ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہو گیا۔
مغربی تہذیب جس آزادی کی علم بردار ہے وہ مادہ پرستی اور مطلق آزادی ہے۔ ان کے یہاں آزادی کا مطلب ہر طرح کے اصول سے آزادی، ایسی آزادی جس میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ دنیا جس تیزی سے ترقی کے منازل طے کرتی رہی اسی تیزی سے نئے نئے طریقے بھی عورت کے استحصال کے غرض سے سامنے آتے گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ عورت کی آزادی اور مساوات کی آواز تو مغرب سے ہی گونجی لیکن اس نے تیزی سے پوری دنیا کی نصف آبادی کو متاثر کیا، بے لگام آزادی کے حامیوں کی وجہ سے جو لوگ مادہ پرستی کے قائل تھے انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ماں اولاد کے لیے قربانی کیوں دے۔ مرد اور عورت کے درمیان مناسب فاصلے کی کیا ضرورت ہے اور عورت اور مرد کے درمیان نکاح کی کیا ضرورت ہے۔ غیر مذاہب میں یہ سمجھا جانے لگا کہ اسلام عورت کو قید کر کے رکھتا ہے حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور عورت اگر گھر کی ذمہ داری اٹھاتی ہے اور مرد باہر کام کرتے ہیں تو لوگوں نے یہی اعتراض کیا کہ عورتوں کو اسلام میں قید کر کے رکھا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ عورتیں مرد کے شانہ بشانہ کاندھے سے کاندھا ملا کر کام کرنے لگیں،دفتروں کالجوں اور مختلف مقامات پر نظر آنے لگیں، جہاں عورت کی عزت محفوظ نہ تھی اور جب عورت نے گھر سے باہر قدم رکھا تو عیاش اور بدکار قسم کے مردوں نے انہیں اپنے ہوس کا شکار بنایا جس کی مثال ہم آئے دن اخبار اور رسائل میں پڑھتے رہتے ہیں کہ فلاں لڑکی کی آبرو ریزی کی گئی فلاں لڑکی کا ہاسپٹل میں ریپ کر دیا گیا یہاں تک کہ معصوم بچیاں بھی اس ہوس کے درندوں سے محفوظ نہ رہ سکیں۔
اسلام جس عورت کو عزت و تکریم فراہم کرتا ہے اسی عورت نے اپنے آپ کو آزادانہ اختیارات کے نام پر پستیوں میں دھکیل دیا ہے۔ اس کو یہ احساس تک نہ ہو سکا کہ وہ کہاں سے چلی تھی اور کہاں پہنچ گئی ’میری زندگی میری مرضی کا نعرہ، ‘’میرا جسم میری مرضی‘ میں تبدیل ہو گیا اور اس نعرے نے اسے گھر کی ملکہ کے مسند سے اٹھا کر قحبہ خانوں میں پہنچا دیا مگر اسے اس بات کا احساس نہ اس وقت ہوسکا اور نہ ہی آج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس قسم کی باتیں سر عام سننے کو ملتی ہیں کہ ’ہم عورت کوئی بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں‘ اور ’اگر دوپٹہ مردوں کو پسند ہے تو وہ اپنے منہ پر ڈال لیں‘ جیسے نعروں کے ساتھ اپنی آواز ملاتی نظر آتی ہے۔ عورت نے اپنے آپ کو اتنا گرا دیا کہ رفع حاجت کے لیے جس طرح سے انسان پبلک ٹوائلٹ کا استعمال چند سکوں کے عوض کرتا ہے بالکل اسی طرح اپنی جنسی دباؤ کی فراغت کے لیے ہر طبقے اور سطح کے لوگوں کے لیے اڈے موجود ہیں جہاں پیشہ ور عورتیں اس کام کے لیے دستیاب ہوتی ہیں۔
پچھلے زمانے میں یہ انتہائی ذلیل پیشہ تھا جب عورتیں اپنے جسم و جان کا رشتہ باقی رکھنے اور پیٹ پالنے کے لیے اپنی عزت کو بیچا کرتی تھیں مگر آج قحبہ خانوں میں یا اعلیٰ ترین ہوٹلوں میں کوئی غریب یا ان پڑھ عورت نظر نہیں آئے گی بلکہ تعلیم یافتہ اور ’نام نہاد ‘اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والی عورتیں دکھائی دیں گی۔
قرآن نے اس طرح کی جنسی بے راہ روی کو جرم قرار دیا ہے اور اس فحش کاری پر حد جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔سورہ نور آیت نمبر دو میں اللہ تعالی فرماتا ہے:’ زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالی اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود ہو‘
لیو ان ریلیشن شپ
یعنی بغیر شادی کے صحبت ایک ایسا انتظام ہے جہاں دو افراد ساتھ رہتے ہیں وہ اکثر طویل مدتی یا مستقل بنیاد پر رومانس یا جنسی طور پر مباشرت کے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے معاش کے نئے میدان وجود میں آتے گئے ویسے ویسے خواتین کے لیے بھی اس میں مواقع میسر آنے لگے جس کے نتیجے میں لڑکیوں کی بڑی تعداد برسر روزگار ہونے لگی۔ آزادانہ ماحول اور میل ملاپ کے بہت سے مواقع نظر آنے لگے۔ مانع حمل تدابیر کی بآسانی فراہمی نے بعض عورتوں کے تصور کو تقویت دی کہ بچوں کو جنم دیے بغیر صرف جنسی لطف اندوزی کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ جب عورت خود برسر روزگار ہونے لگی تو اسے یہ وہم ہو گیا کہ اب اسے خاندان چلانے اور بچوں کو پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب اسے جسمانی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایک مرد کی ضرورت ہے۔ مرد میں بھی جب دین بیزاری خدا بیزاری کے نتیجے میں خود مرکزیت کا مزاج پیدا ہو گیا تو وہ بیوی اور بچوں اور خاندان کا بوجھ اٹھانے کے بجائے اپنی جسمانی خواہشات کی تکمیل کے لیے آسان راہوں کو تلاش کرنے لگے۔ ایسے مزاج کی عورت میسر آنے پر ایک مرد اور عورت طے کر لیتے ہیں کہ وہ بغیر شادی کے ایک ساتھ رہنے لگیں گے۔
عورت کا اعلیٰ تعلیم پانا اور برسر روزگار ہونا ایک ایسا عمل ہے جس کے نتیجے میں عمر بیت جاتی ہے۔ پھر بڑی عمر میں شادی کرنا بچوں کا دیر سے جنم لینا یا لا ولد ہی رہنے کے آپشن کو پسند کرنا جیسے معاملات سامنے آتے ہیں۔اسی لیے آج معاشرے میں آپسی رضا مندی سے جسمانی تعلقات قائم کرنا زنا نہیں مانا جاتا۔ یہاں تک کہ شادی شدہ عورت اپنی مرضی سے اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کے ساتھ بھی بستر شیئر کرے تو اب عدالتوں نے اسے جائز قرار دے دیا ہے یعنی اس کی مرضی کے ساتھ تعلقات رکھنا جرم میں نہیں رہا۔ نعوذ باللہ من ذالک
بندش سے آزاد جنسی رشتہ
یہ ایسا رشتہ ہے جس میں نکاح کی بندش نہیں ہے اس لیے جب چاہیں ایک دوسرے سے رخصت لی جا سکتی ہے۔ اس میں بھی لیو ان ریلیشن شپ کی طرح لڑکا لڑکی ایک دوسرے کے لیے مختص ہوتے ہیں مگر اس رشتے سے باہر بھی جنسی تعلق قائم کرنے پر ایک دوسرے کو اعتراض بھی نہیں ہوتا۔ اس رشتے میں یہ بھی لازم نہیں ہے کہ دونوں ایک ہی جگہ سکونت اختیار کریں دونوں کا اپنا الگ الگ گھر ہو سکتا ہے الگ الگ کمائی ہو سکتی ہے مگر صرف ضرورت کے تحت ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔
دوستی اور فائدے کا تعلق
اس ناجائز رشتہ ازدواج میں یہ طے ہوتا ہے کہ جب بھی ایک دوسرے کو جسمانی ضرورت ہو وہ قریب آئیں گے پھر دور ہو جائیں گے اس کے علاوہ ان دونوں کے درمیان کسی طرح کا تعلق اور رشتہ نہیں ہوگا۔
ایک رات کی مہمان نوازی
اس میں لڑکا لڑکی ایک شام ڈیٹنگ یعنی تفریح پر نکلتے ہیں۔ اس میں ساتھ میں گھومتے پھرتے ہیں،سنیما دیکھتے ہیں،شاپنگ کی جاتی ہے اور ایک رات کا تعلق قائم کرکے اگلی صبح دونوں اپنی اپنی راہ لے لیتے ہیں۔
ان سب حالات پر غورو فکر کرنے کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مغرب میں جو اخلاقی بحران نظر آتا ہے اس سے خاندانی نظام درہم برہم ہو رہا ہے بچوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں عورت کی طرف سے ان پر توجہ صفر کے برابر ہے۔ جبکہ انسانی جوڑے کو بنانے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے سے نوع انسانی کی بقا اور تسلسل ہو۔
قرآن میں اللہ تعالی سورہ نساء میں فرماتا ہے کہ:’ لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورت دنیا میں پھیلا دیے اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو رشتہ و قرابت کے تعلقات بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگران ہے۔‘
آج ہمارا سماج جس اخلاقی تنزلی کا شکار ہے اس کا سبب یہی ہے کہ ہم نے اسلامی معاشرت کو ترک کر دیا ہے اب ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں حقیقت میں ہمارا اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ آج اشتہاروں میگزینوں اور ڈش چینلوں پر عورت کو برہنہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے، نیز بازاروں میں پیکنگ کے ڈبوں پر عورت کی نیم برہنہ تصویر چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ اسمارٹ موبائل اور سیریلز کے ذریعے منصوبہ بند طریقے سے عورتوں کو ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے جس کا نتیجہ آج پوری دنیا بھگت رہی ہے۔
ضرورت ہے کہ ہم اور آپ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اپنے آپ کو اسلامی سانچے میں ڈھالیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزاریں سورہ نور آیت نمبر تیس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’مسلمان مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہی ان کے لیے پاکیزگی ہے۔ لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے باخبر ہے۔ اور مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہو جائے اور اپنے گریبان پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں ‘
ان آیات میں ان خرابیوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے سماج میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے ان خرابیوں سے بچتے ہوئے ہی ہم اپنی زندگی کو اسلامی سانچے میں ڈھال سکتے ہیں۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا

 

***

 آج ہمارا سماج جس اخلاقی تنزلی کا شکار ہے اس کا سبب یہی ہے کہ ہم نے اسلامی معاشرت کو ترک کر دیا ہے اب ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں حقیقت میں ہمارا اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ آج اشتہاروں میگزینوں اور ڈش چینلوں پر عورت کو برہنہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے، نیز بازاروں میں پیکنگ کے ڈبوں پر عورت کی نیم برہنہ تصویر چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ اسمارٹ موبائل اور سیریلز کے ذریعے منصوبہ بند طریقے سے عورتوں کو ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے جس کا نتیجہ آج پوری دنیا بھگت رہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 ستمبر تا 21 ستمبر 2024