اخلاقی اقدار کا زوال: معاشرتی تباہی کا سبب

قرآن اور نبی کریم ﷺ کا اسوہ ایک بہترین انسانی معاشرے کی بنیاد

عارفہ خاتون

عارفہ خاتون
کسی بھی انسانی معاشرے میں تمام افراد یکساں نہیں ہوتے۔ فرشتہ صفت انسان بھی ہوتے ہیں اور شیطان صفت و انسان نما حیوان بھی ہوتے ہیں۔ دنیا میں نور بھی ہے اور ظلمت بھی ۔
ہراچھائی کے بالمقابل برائی ہے اور ہر برائی کے بالمقابل اچھائی بھی ہے۔انسان ہمیشہ سے تغیر پذیر معاشرے کا حصہ رہا ہے۔
ایک منظم اور مہذب معاشرہ اپنے اجتماعی وجود میں یقین، اعلیٰ اصول اور بہترین اخلاق، اجتماعی فرض کا احساس اور ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی کا جذبہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر معاشرے میں اخلاقی گراوٹ آجائے، ہر شعبہ حیات میں بے اصولی عام ہوجائے اور خود غرضی ہر جگہ اپنے ڈیرے ڈال لے، طاقت اور دولت سے مرعوبیت ایک معاشرتی حقیقت بن جائے اور معاشرے میں بزدلی اور ظلم کا چلن عام ہوجائے تو قومی زندگی کے شجر سایہ دار کو گھن لگ جاتا ہے اور پھر نئے نئے حکم رانوں اور حکومتوں کا آنا بھی قوم کی تقدیر نہیں بدل سکتا۔
اخلاقیات کے دم پر ہی انسانیت کا وجود ہے۔ اخلاقی اقدار سے خالی شخص انسانیت کے لیے ایک وحشی درندے سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ میعار اخلاقیات ہی وہ کنٹرولر ہے جو انسان کو ہر طرح کے خسارے اور کشیدگی سے محفوظ رکھتا ہے۔اسلامی تعلیمات نے اخلاقیات کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے کیونکہ انسانی اخلاقیات پر ہی پر سکون معاشرے کا انحصار ہے۔قرآن انسانوں کے لیے وہ قیمتی تحفہ ہے جس میں زندگی بسر کرنے کے ایسے منظم طریقے بتائے گئے ہیں جو کسی اور مذہب میں نہیں ہیں۔
آج جو معیار اخلاق میں مسلسل گراوٹ نظر آ رہی ہے اس کا سبب کچھ اور نہیں بلکہ قرآن و سنت سے دوری ہے۔ہم نے اسلام کے ان بنیادی اصولوں پر زندگی گزارنا چھوڑ دیا ہے جو عظیم شخصیت کا معمار ہیں۔آج بگڑتے ہوئے معاشرہ کے لیے جن اصولوں ضوابط کی ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے وہ اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی ہمارے سامنے پیش کر دیے ہیں۔سورہ الحجرات میں مندرجہ ذیل احکامات بیان کیے گئے ہیں ۔
فتبینوا:
اگر تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کیا کرو
فاصلحوا:
اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو تمام مسلمان بھائی ہیں۔
واقسطوا:
انصاف کا خیال رکھو بے شک اللہ انصاف والوں کو پسند کرتا ہے۔
لا یسخر:
لوگوں کا مذاق نہ اڑاؤ ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کی نظر میں تم سے بہتر ہو ۔
ولا تلمزوا:
ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو۔
ولا تنابزوا:
ایک دوسرے کو برے لقب سے نہ پکارو۔
اجتنبوا کثیرا من الظن:
گمانوں سے بچا کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔
ولا تجسسوا:
سراغ مت لگایا کرو۔
ولا یغتب بعضکم بعضاء:
ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو۔
یہ وہ بنیادی اصول ہیں جو ایک عظیم شخصیت اور پرسکون معاشرے کی تشکیل کی ضمانت دیتے ہیں۔اگر ہم حال کا جائزہ لیں تو منظر مندرجہ بالا اصولوں کے برعکس نظر آتا ہے جس کے سبب معاشرے میں بد امنی اور بے سکونی پھیلی ہوئی ہے۔معاشرہ لڑائی جھگڑا، قتل و غارت گری کی آماجگاہ بن گیا، عدل و انصاف کا تعلق محض نام تک ہی محدود ہو کر رہ گیا، طاقتور غریب و ناتواں کے استحصال کو اپنا حق سمجھنے لگے،بے حیائی عام ہونے لگی ہے،جھوٹ سچ پر غالب آنے لگا،چھوٹے بڑوں کا احترام بھولتے جا رہے ہیں نیز اونچی آواز میں بات کرنے کو confidence (اعتماد)کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔ مختصر یہ کہ بھلے ہی ہم نے آج سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں مثال قائم کرلی ہو مگر معاشرتی لحاظ سے ہم اس دور جہالت کی طرف لوٹ رہے ہیں جس کا برسوں پہلے اسلام نے خاتمہ کیا تھا اور وہ ساری اخلاقی قدریں پامال ہوتی ہوئی نظرآ رہی ہے جو پر سکون معاشرے کا ستون ہیں۔
اسلام ایک پرسکون اور برائیوں سے پاک معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے۔مطلوبہ معاشرے کی تشکیل اس وقت ہی ممکن ہے جب اس میں اتحاد و اتفاق، اخوت، بھائی چارہ، عدل و انصاف، نرمی، محبت و شفقت اور احترام جیسے عنصر شامل ہوں جس کی اسلام تعلیم دیتا ہے۔اخلاقی اقدار ہی وہ جز ہے جو انسان کو تمام مخلوقات سے اشرف بناتا ہے۔ اسلام میں ان تمام ادنٰی سے ادنٰی پہلو مثلاً ہنسنے، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے، آداب مجلس، آداب گفتگو، ملاقات کے آداب بتائے گئے ہیں جو شخصیت کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ہمیشہ سچ بولو کیونکہ سچائی نیکی کی طرف اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، جو شخص ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچائی کی جستجو میں رہتا ہے اسے بالآخر اللہ تعالٰی کے یہاں صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ برائی کی طرف اور برائی دوزخ کی طرف لے جاتی ہے، جو شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے اسے بالآخر اللہ تعالٰی کے یہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
جھوٹ کفر کی اہم ترین بنیاد اور منافقت کی واضح ترین علامت ہے۔اخلاقی اقدار کے زوال اور معاشرتی برائیوں کی جڑ ہے۔جھوٹ اتنی خطرناک معاشرتی بیماری ہے کہ اگر اسے قابو میں نہیں کیا گیا تو امت ایسے تباہ ہوگی کہ پھر کبھی سنبھل نہ سکے گی۔اس کے برعکس سچائی اسلام کا اہم ترین اصول ہے اور نبوی اخلاق کا اعلی ترین وصف،سچائی ملائکہ کی خوبی ہے جبکہ جھوٹ شیطانی خصلت۔معاشرہ اور انسانیت کو برائی کی دلدل سے بچانے کا جو واحد راستہ ہمیں نظر آتا ہے وہ صرف اور صرف قرآنی احکامات اور سنت ہے۔اخلاقی اقدارکی بہتری اور اس کو پروان چڑھانےکے لیے قرآن و سنت پر عمل وقت کی اہم ضرورت ہے۔تمام برائیوں سے پاک معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی اصول و ضوابط کو عام کیا جائے۔ نوجوان نسل کو اس طرف راغب کیا جائے تاکہ آگے چل کر یہ نسل برائیوں سے پاک معاشرے کی بانی بنے۔
انبی کریم ﷺ نے محض 23 برس میں دنیا کی کایا پلٹ دی، دنیا کا ضمیر جگا دیا، نیکی کو شر پر غلبہ مل گیا، انسانوں کو اچھے اور برے کی تمیز ہوگئی، خدا کی بندگی کا راستہ کھل گیا، انسانی طبقات میں ذات پات اور اونچ نیچ دور ہوگئی، زبان و نسل اور رنگ و علاقے کا فرق ختم ہوگیا، قومی اور نسلی غرور ٹوٹ گیا، عورتوں کو ان کے حقوق مل گئے اور کمزور اور بے کسوں کی دلجوئی ہونے لگی۔
ایسے کردار کا حامل انسانی معاشرہ معرضِ وجود میں آیا جس کے افراد دشمن کے ساتھ بھی انصاف کرنے لگے، دوسروں کے آرام کی خاطرمصیبت برداشت کرنے لگے اور کمزور کو طاقتور پر ترجیح دینے لگے۔
اگر انسانی معاشرہ صدیوں کا سفر کرتے کرتے ہوئے پیچھے چلا جائے اور انسانی معاشرے کی تعمیر میں جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے دیا ہے، وہ سب کچھ اس سے واپس لے لیا جائے تو انسانی تہذیب اور انسانی معاشرہ ہر مثبت قدر اور اخلاق سے محروم نظر آئے گا۔
آج دنیا میں جو فتنہ و فساد برپا ہے وہ دین اسلام کی تعلیمات سے دوری اور اسوۂ نبوی کو اپنے کردار و عمل کا حصہ نہ بنانے کے سبب ہے۔ عصر حاضر میں اگر انسانی اقدار اور ارفع انسانی روایات میں کوئی تباہی اور بربادی ہے تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ اس موجودہ زبوں حالی پر ہمارا کردار اس شخص کی طرح ہے جو سارے درخت کاٹ کاٹ کر سایہ تلاش کرتا ہے۔
تمام پیڑ جلا کر خود اپنے ہاتھوں سے
عجیب شخص ہے کہ سائے تلاش کرتا ہے
ہمیں ایمان کے اس شجرِ سایہ دار کی حفاظت کرنا ہوگی، اسے محبت رسول اور تعلیماتِ دین سے سیراب کرنا ہوگا، اسی صورت میں ہم اس شجر سے اعمالِ صالحہ کا پھل حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
مومن ہو یا کافر‘ نیک ہو یا بد‘ مصلح ہو یا مفسد‘ غرض جو بھی ہو‘ وہ اگر کارگر انسان ہوسکتا ہے تو صرف اسی صورت میں جب کہ اس کے اندر ارادے کی طاقت اور فیصلے کی قوت ہو‘ عزم اور حوصلہ‘ صبر و ثبات اور استقلال ہو‘ تحمل اور برداشت ہو‘ ہمت اور شجاعت ہو‘ مستعدی و جفاکشی ہو‘ اپنے مقصد کا عشق اور اس کے لیے ہر چیز پر قربان کردینے کا بل بوتا ہو‘ حزم و احتیاط اور معاملہ فہمی و تدبر ہو‘ حالات کو سمجھنے اور ان کے مطابق اپنے آپ کوڈھالنے اور مناسب تدبیر کرنے کی قابلیت ہو‘ اپنے جذبات و خواہشات اور ہیجانات پر قابو ہو اور دوسرے انسانوں کو موہنے اور ان کے دل میں جگہ پیدا کرنے اور ان سے کام لینے کی صلاحیت ہو۔
پھر ناگزیر ہے کہ اس کے اندر وہ شریفانہ خصائل بھی کچھ نہ کچھ موجود ہوں جو فی الحقیقت جوہرِ آدمیت ہیں اور جن کی بدولت آدمی کا وقار و اعتبار دنیا میں قائم ہوتا ہے۔ مثلاً خود داری‘ فیاضی‘ رحم‘ ہمدردی‘ انصاف‘ وسعتِ قلب و نظر‘ سچائی‘ امانت‘ راست بازی‘ پاسِ عہد‘ معقولیت‘ اعتدال‘ شائستگی‘ طہارت و نظافت اور ذہن و نفس کا انضباط۔
سب سے پہلے ٹھنڈے دل سے اس سوال پر غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول دنیا میں کس غرض کے لیے بھیجے ہیں؟ دنیا میں آخر کس چیز کی کمی تھی؟ کیا خرابی پائی جاتی تھی جسے رفع کرنے کے لیے انبیاء مبعوث کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ کیا وہ یہ تھی کہ لوگ ڈاڑھیاں نہیں رکھتے تھے اور انہیں کے رکھوانے کے لیے رسول بھیجے گئے؟ یا یہ کہ لوگ ٹخنے ڈھانکے رہتے تھے اورانبیاء کے ذریعے سے انہیں کھلوانا مقصود تھا؟ یاوہ چند سنتیں جن کا لوگوں میں بہت اہتمام کیا جاتا ہے‘ دنیا میں جاری کرنے کے لیے انبیاء کی ضرورت تھی؟ ان سوالات پر آپ غور کریں گے تو خود ہی کہہ دیں گے کہ نہ اصل خرابیاں یہ تھیں اور نہ انبیاء کی بعثت کا اصل مقصود یہ تھا۔ پھر سوال یہ ہے کہ وہ اصل خرابیاں کیا تھیں جنہیں دور کرنا مطلوب تھا اور وہ حقیقی بھلائیاں کیا تھیں جنہیں قائم کرنے کی ضرورت تھی؟ اس کا جواب آپ اس کے سوا اور کیا دے سکتے ہیں کہ خدائے واحد کی اطاعت و بندگی سے انحراف‘ خود ساختہ اصول و قوانین کی پیروی‘ اور خدا کے سامنے ذمہ داری و جواب دہی کا عدم احساس‘ یہ تھیں وہ اصل خرابیاں جو دنیا میں رونما ہوگئی تھیں۔ انہیں کی بدولت اخلاقِ فاسدہ پیدا ہوئے‘ غلط اصول زندگی رائج ہوئے اور زمین میں فساد برپا ہوا۔ پھر انبیاء علیہم السلام اس غرض کے لیے بھیجے گئے کہ انسانوں میں خدا کی بندگی و وفاداری اور اس کے سامنے اپنی جواب دہی کا احساس پیدا کیا جائے‘ اخلاقِ فاضلہ کو نشوونما دیا جائے اور انسانی زندگی کا نظام ان اصولوں پر قائم کیا جائے جن سے خیر و صلاح ابھرے اور شر و فساد مٹے۔ یہی ایک مقصد تمام انبیاء کی بعثت کا تھا اور آخر کار اسی مقصد کے لیے حضرت محمد ﷺ مبعوث ہوئے۔
[email protected]

 

***

 آج جو معیار اخلاق میں مسلسل گراوٹ نظر آ رہی ہے اس کا سبب کچھ اور نہیں بلکہ قرآن و سنت سے دوری ہے۔ہم نے اسلام کے ان بنیادی اصولوں پر زندگی گزارنا چھوڑ دیا ہے جو عظیم شخصیت کا معمار ہیں۔آج بگڑتے ہوئے معاشرہ کے لیے جن اصولوں ضوابط کی ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے وہ اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی ہمارے سامنے پیش کر دیے ہیں۔سورہ الحجرات میں مندرجہ ذیل احکامات بیان کیے گئے ہیں ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024