اخلاقی اقدار ہی حقیقی آزادی کے ضامن، بہتر سماج کی تعمیر برائیوں کے خاتمے سے ممکن

اخلاقی بحران کے سنگین نتائج کے تعلق سےعوامی بیداری ضروری ۔ خواتین کے خلاف جرائم اور نوجوانوں میں راہ روی پر اظہار تشویش

نئی دلّی/حیدرآباد: (دعوت نیوز ڈیسک)

جماعت اسلامی ہند ، شعبہ خواتین کی ’ اخلاقیات مہم‘ کے تحت ملک بھر میں مختلف النوع پروگرام اور عوامی رابطہ
جماعت اسلامی ہند شعبہ خواتین نے ’’اخلاقی محاسن آزادی کے ضامن‘‘ کے زیر عنوان اپنی ملک گیر مہم کے ذریعہ مسلم برادری کے ساتھ ساتھ ابنائے وطن کو یہ پیغام دیا ہے کہ انسان اخلاقی حدود میں رہ کر ہی حقیقی آزادی کا لطف حاصل کر سکتا ہے۔ آج طاقتور طبقہ، کمزور طبقے پر ظلم و زیادتی کو اپنا حق سمجھتا ہے اور مذہب کے بارے میں ناقص تصورات کے باعث انسانیت کا جذبہ کمزور ہو چکا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقی انحطاط گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
خواتین پر مظالم اور جنسی حملوں میں اضافہ، طلباء و نوجوانوں میں بے راہ روی، بے حیائی و عریانی، کرپشن اور بدعنوانیاں، نفرت اور عدم رواداری جیسے مسائل اسی اخلاقی بحران کا مظہر ہیں۔ ایسے سنگین حالات میں ہم ایک اچھے اور پرامن سماج کی تعمیر نہیں کر سکتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک اور سماج کی فلاح و بہبود کے لیے اخلاقی اقدار کو فروغ دیا جائے اور ہر قدم پر برائیوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
جماعت اسلامی ہند شعبہ خواتین کی جانب سے اس مہم کا مقصد اخلاقی بحران کے سنگین نتائج کے تعلق سے عوام میں بیداری پیدا کرنا اور اصلاح حال کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ اس ایک ماہ طویل مہم کا آغاز ملک کے گوشے گوشے میں شعبہ خواتین ، جماعت اسلامی ہند کی مرکزی، ریاستی اور ضلعی ذمہ داران کی پریس کانفرنسوں سے ہواجبکہ وسیع تر عوامی بیداری کے لیے سیمینار ، سمپوزیمس ،ویبینارز، انٹرفیتھ ڈائیلاگ،تعلیمی اداروں میں لکچرز، پینل ڈسکشنز، پوسٹرز، ریلز، ڈاکیومنٹریز اور عوامی رابطہ کی سرگرمیاں انجام دی جارہی ہیں ۔ہفت روزہ دعوت کو دہلی، اترپردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، گجرات ، تلنگانہ ، کرناٹک، گوا،مغربی بنگال، راجستھان اور دیگر مقامات سے موصولہ رپورٹس کے مطابق پریس کانفرنسوں میں خصوصیت کے ساتھ اس پہلو کو اجاگر کیا گیاکہ مہم کا مقصد فرد کو اس آزادی کی طرف راغب کرنا ہے جو اللہ کی بندگی کے تابع ہوتی ہے۔ جبکہ آج کل جو آزادی کا تصور پیش کیا جاتا ہے وہ بے لگام آزادی ہے جو انسان کو اپنے نفس کا غلام بناتی ہے جسے اخلاقی حدود اور دوسروں کے حقوق کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ حقیقی آزادی وہی ہے جو انسان کو ہر قسم کی ذہنی، فکری اور سماجی غلامی سے آزاد کرے، اور وہ صرف ایک اللہ کی بندگی میں ہی ممکن ہے۔شعبہ خواتین ، جماعت اسلامی ہند کی قائدین نے بتایا کہ ہندوستانی سماج کو مغربی کلچر کی تباہ کاریوں اور اباحیت پسندی کے نقصانات سے آگاہ کیا جارہا ہے۔ ساتھ ہی ملت کے اندریہ شعور بیدار کرنا مقصود ہے کہ مغربی تقلید کی وجہ سے ہم اپنے دینی اقدار اور اخلاقی روایات کو کھو رہے ہیں ۔
جماعت اسلامی ہند شعبہ خواتین کی قومی سکریٹری رحمت النساء اورامیر حلقہ ڈاکٹر مسیح الرحمن نے کولکاتہ پریس کلب میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ سماجی عدم مساوات ، غلط برتاو اور ان کے حقوق کے تئیں لا پروائی نےایک سنگین صورت حال پیدا کردی ہے۔ خاص طور حاشیے پر کھڑی ہوئی خواتین ، آدی واسی اور اقلیتی خواتین کے خلاف جنسی تشدد کا معاملہ تو اور بھی سنگین ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو اور نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ خواتین کے خلاف جرائم میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔ اس رپورٹ میں تو صرف وہ اعداد بتائے گئے ہیں جن کی رپورٹنگ ہوئی ہے، ورنہ نہ جانے کتنے معاملے درج ہی نہیں ہوئے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو انصاف پانے کے لیے کتنی جدو جہد کرنی پڑتی ہے اس کا اندازہ بلقیس بانو کیس سے لگایا جاسکتا ہے جس کی 2002 ء کے گجرات قتل عام میں اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی۔
ساجدہ بیگم، ریاستی سکریٹری جماعت اسلامی ہند، تلنگانہ نے پریس کلب، سوماجی گوڑہ حیدرآباد میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ اخلاقی اقدار کے بغیر ایک بہتر سماج کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ بھارتی سماج کے لیے یہ امر بے حد تشویش ناک ہے کہ ہمارے معاشرے میں اخلاقی بحران تیزی سے گہرا ہو رہا ہے۔ بھارت جیسے کثیر مذہبی ملک کے باشندوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہر مذہب نے اخلاقیات کو اہمیت دی ہے اور انسانیت کو ترجیح دی ہے۔ لہٰذا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر مذہب کے لوگوں میں اخلاقیات کے بارے میں شعور پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر بیداری لائی جائے تاکہ انسان کوحقیقی آزادی نصیب ہو سکے۔ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئےشعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند ، تلنگانہ ایک ملک گیر مہم ’’اخلاقی محاسن ، آزادی کے ضامن ‘‘ کے عنوان سے منارہی ہے ۔ اس پریس کانفرنس سے خدیجہ مہومین، ریاستی سکریٹری جماعت اسلامی ہند، حلقہ تلنگانہ، ڈاکٹر اسریٰ محسنہ، تلنگانہ اسٹیٹ کوآرڈینیٹر اور خنسہ صدف، آرگنائزنگ سکریٹری گرلز اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا، تلنگانہ نے بھی خطاب کیا۔
محترمہ ساجدہ بیگم نے ملک میں خواتین اور لڑکیوں پر ہونے والے جنسی حملوں، تشدد اور قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک میں خواتین کے ساتھ سماجی عدم مساوات، تحفظ کی عدم فراہمی اور امتیازی سلوک نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ خاص طور پر حاشیہ پر کھڑی دلت، آدیواسی، اقلیتی اور معذور خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات سنگین صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔
انہوں نے نشان دہی کی کہ حالیہ واقعات میں کولکاتا کے آرجی کر اسپتال میں ایک ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل، گوپال پور (بہار) میں ایک چودہ سالہ دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت دری اور قتل، اودھم سنگھ نگر (اتراکھنڈ) میں ایک مسلم لڑکی کی عصمت دری کے بعد بہیمانہ قتل اور بدلا پور (مہاراشٹر) کے ایک اسکول میں دو کنڈرگارٹن لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے واقعات شامل ہیں۔ یہ واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ذہنیت اور رویے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر اسریٰ محسنہ نے مہم کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ نوجوان نسل کو اخلاقی اقدار سے روشناس کرانا اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ مہم کا پیغام یہ ہے کہ حقیقی آزادی صرف اخلاقیات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
اس موقع پر مہم کا پوسٹر اور رحمت النساء کے تحریر کردہ کتابچے "Morality is Freedom” کی رونمائی بھی کی گئی۔ اس مہم میں ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور ادارے شامل ہو کر معاشرتی اصلاحات کی طرف اہم قدم اٹھا سکتے ہیں، تاکہ معاشرتی بہتری اور ترقی کا خواب حقیقت بن سکے۔
جماعت اسلامی ہند، گوا شعبہ خواتین کی جانب سے مہم کےضمن میں ایک شان دار تقریب زیڈ اسکوائر میں منعقد کی گئی۔ رفسلہ خان نے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے زور دیا کہ اخلاقیات ایک منصفانہ اور پرامن معاشرے کی بنیاد ہیں۔ انہوں نے ایک ماہی اخلاقیات مہم کے منصوبے کی تفصیلات بھی بیان کیں۔ تلولا ڈی سلوا نے اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں بتایا کہ ہر انسان فطری طور پر بھلائی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور اسے اخلاقی اقدار کو اپنانا چاہیے۔پرتیبھا بورکر نے ہندو صحیفوں کی روشنی میں خلوص اور دوسروں کے ساتھ تعاون پر زور دیا، جبکہ شرمین خان نے ڈارون کے نظریۂ ارتقاء پر تنقیدی روشنی ڈالی اور کہا کہ اخلاقی تعلیم کو اسکولوں میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانا چاہیے۔ تقریب کے اختتام پر ایڈن آفریڈا خان نے جذباتی انداز میں کہا کہ یہ محض ایک رسمی تقریب نہیں تھی بلکہ ہم خیال لوگوں کا ایک اجتماع تھا جو نیکی اور بھلائی میں پختہ یقین رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس مہم میں گوا میں خواتین کی حفاظت کے بگڑتے ہوئے حالات اور سماجی اقدار کے زوال کو اجاگر کیا جائے گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 ستمبر تا 21 ستمبر 2024