اخلاق باختہ سماج: خواتین کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ

عصمت دری کے واقعات کی سماجی نفسیات: تشویش کی جڑیں اور اصلاح کی تدابیر

نوراللہ جاوید، کولکاتا

مغربی اور اسلامی نظریات کا تقابل۔ خواتین کے حقوق اور اخلاقیات کا تجزیہ
کولکاتا کے سرکاری اسپتال میں خاتون جونیئر ڈاکٹر کی بہیمانہ انداز میں عصمت دری اور قتل کے واقعے پر ابھی احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ ملیالم فلم انڈسٹری میں خواتین اداکاراؤں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے انکشافات نے بھارتی سماج کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہیما کمیشن کی رپورٹ کے کئی حصے انتہائی حیران کن اور صدمے کا باعث ہیں کہ کام کی جگہوں پر کس طرح اور کس انداز میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔ یہ سوال اپنے آپ میں بہت اہم ہے کہ آخر ہیما کمیشن کی رپورٹ کو چار سالوں تک سرکاری فائلوں میں دباکر کیوں رکھا گیا۔ ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ حکومت نام نہاد شرفا کے چہرے کو بے نقاب کرنے سے کیوں ہچکچا رہی تھی۔ ابھی بھی ہیما کمیشن کی رپورٹ کے تیس سے زائد صفحات کو عام نہیں کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ان صفحات میں چند مشہور ملیالم اداکاروں، ڈائریکٹروں اور پروڈیوسروں کے خلاف خواتین اداکاراؤں نے براہ راست سنگین الزامات لگائے ہیں۔ یہ بحران صرف ملیالم فلم انڈسٹری کا نہیں ہے بلکہ ماہرین بتاتے ہیں کہ ملک کی تمام فلم انڈسٹریوں جیسے ملیالم، تیلگو، تمل، ٹالی ووڈ اور بالی ووڈ میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ چنانچہ تیلگو اور بنگالی فلم انڈسٹریوں سے آوازیں بلند ہونے لگی ہیں کہ ملیالم کی طرح یہاں بھی کسی جج کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا جائے۔ بنگلہ فلمی ادارہ بھارتی نے تو یہاں تک الزام عائد کیا کہ 9 اگست کو جونیئر ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کے واقعے کے خلاف 14 اگست کی نصف رات کو جو تاریخی احتجاج "ری کلیم دی نائٹ” کیا گیا تھا، اس میں بنگلہ فلموں کے وہ اداکار بھی موم بتیاں لے کر احتجاج کر رہے تھے جو اپنے ساتھی اداکاراؤں کے ساتھ مختلف طریقوں اور بہانوں سے جنسی زیادتی کی کوشش کرتے ہیں۔ مہاراشٹر کے بدلا پور کے ایک اسکول میں معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ تعلیمی ادارے جو شعور و فکر آگاہی کے مراکز ہیں، وہاں بھی بچیاں اور خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ یہ صرف چند واقعات نہیں ہیں بلکہ کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کرنے، جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے اور امتیازی سلوک کی رپورٹیں ملک میں بہت عام ہیں۔ چاہے شہری مراکز ہوں یا دیہی علاقے، خواتین کو اکثر مختلف قسم کے تشدد اور دھمکیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے نہ صرف خواتین کی جسمانی حفاظت کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ وہ ذہنی و نفسیاتی طور پر بھی ٹوٹ جاتی ہیں اور ان کی پیشہ ورانہ زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ یہ واقعات نہ صرف جنسی زیادتی کے ہیں بلکہ کام کی جگہوں اور سڑکوں پر خواتین کی حفاظت کے حوالے سے بھی بہت اہم سوالات اٹھاتے ہیں۔
جنسی زیادتی کی صورت حال کس قدر سنگین اور بھیانک ہے، اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2016 سے 2022 کے درمیان بچوں سے زیادتی کے واقعات میں 96 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2016 میں 19,765 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 2017 میں یہ تعداد 27,616 تھی۔ 2021 میں یہ تعداد بڑھ کر 36,381 ہو گئی، اور 2022 میں یہ 38,919 ہو گئی۔ صرف 2021 میں، بھارت میں فی گھنٹہ خواتین کے خلاف 49 جرائم درج کیے گئے تھے۔ فیمنزم کی تمام تحریکات کے باوجود، خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کی شرح انتہائی کم ہے۔ کام کی جگہوں پر خواتین کے ساتھ پیش آنے والے ہولناک واقعات آئے دن خبروں کی زینت بنتے ہیں۔ ایک طرف دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جدید دور میں خواتین کو اختیارات حاصل ہیں اور وہ شیشے کی چھت کو زیادہ آسانی سے توڑنے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کی طاقت رکھتی ہیں، لیکن زمینی حقیقت سورج کی روشنی اور قوس قزح سے بہت دور ہے۔ Deloitte’s 2024 Women Work رپورٹ، جس کام کی مختلف جگہوں پر خواتین کو پیش آنے والے حالات کا جائزہ لیا گیا ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ کام کرنے والی خواتین کی نصف تعداد اپنی سیکیورٹی حوالے سے فکر مند ہیں۔ آدیتی فاؤنڈیشن نے POSH (جنسی ہراسانی کی روک تھام ایکٹ) کے تحت کام کی جگہوں پر امتیازی سلوک کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ POSH کے تحت مالی سال 2022-23 میں 1,780 شکایات درج ہوئیں جو 2023-24 میں بڑھ کر 2,325 تک پہنچ گئی ہیں، یعنی 29 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان معاملات کے حل کی شرح بھی انتہائی کم ہے۔
تعلیمی اداروں میں خواتین اور بچیوں کو کن حالات کا سامنا ہے؟ میڈیکل کالج کے ڈاکٹروں کی ایک تحقیق کے مطابق شہر چنئی کے سرکاری ہائر سیکنڈری اسکولوں میں دس میں سے ایک طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے۔ ان میں سے پانچ فیصد طالبات نے بتایا کہ ان کے ساتھ ان کے باپ، دوست، پڑوسی یا رشتہ دار نے جنسی زیادتی کی ہے۔ کمیونٹی میڈیسن کے شعبے کے زیر اہتمام شائع ہونے والے پبلک ہیلتھ کے ریاستی جریدے میں شائع تحقیق میں کلاس نو دس اور گیارہ سال کی تین سو نوعمر لڑکیوں کی اسکریننگ کی گئی۔ ڈاکٹروں نے ذاتی انٹرویوز کیے۔ مطالعہ کے دوران کم از کم تیرہ فیصد طلباء نے بدسلوکی کی شکایت کی ہے، ان میں سے تقریباً بہتر فیصد نے جسمانی زیادتی کی شکایت کی۔ جن بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، ان میں سے تقریباً اٹھارہ فیصد نے کہا کہ یہ ان کے ساتھ ایک سے زائد مرتبہ ہوا ہے۔
15 اگست 1947 کی صبح سے قبل نصف رات میں ملک کی آزادی کا اعلان کرتے ہوئے پنڈت نہرو نے اپنی تاریخی تقریر میں اس عزم کو دہرایا تھا کہ وہ ملک کو کامل آزادی عطا کریں گے، مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ ستتر برس بعد اسی تاریخ کی نصف رات میں ملک بھر کی خواتین ’’ری کلیم دی نائٹ‘‘ کے نعرے کے ساتھ کامل آزادی کا نعرہ لگا رہی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ستتر برس بعد بھی ملک کامل آزادی سے محروم کیوں ہے؟ آزادی اور جمہوریت محض انتخابات کے انعقاد اور پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کا نام نہیں ہے، بلکہ آزادی نام ہے ہر ایک شہری اپنی ضمیر اور فکر و خیال کی آزادی کے ساتھ ملک کے کسی بھی حصے اور کسی بھی وقت میں بے خوف ہو کر جا سکے اور کام کر سکے۔ ’’کولکاتا عصمت دری جیسے سنگین جرم کی حساسیت کو انتظامیہ نے یہ کہہ کر کم کرنے کی کوشش کی کہ نصف رات میں خاتون ڈاکٹر کو سیمینار روم میں جانے کی ضرورت کیا تھی؟ سوال یہ ہے کہ خاتون ڈاکٹر کو لگاتار چھتیس گھنٹے ڈیوٹی پر کیوں تعینات کیا گیا، اس کے آرام کے لیے کمرہ مختص کیوں نہیں تھا اور سب سے بڑھ کر ہسپتال میں سیکیورٹی کا فقدان کیوں تھا؟ ’’ری کلیم دی نائٹ‘‘ تحریک کے تحت پورے ملک میں خواتین کا یوم آزادی کی صبح تک احتجاج اور اس کے شانہ بشانہ کھڑے سِول سوسائٹی اور شہری اشرافیہ مردوں کی شمولیت یقیناً بھارت کی تاریخ کا قابل یادگار لمحہ ثابت ہوسکتا تھا اگر اس احتجاج میں 11 اگست کو بہار کے مظفر پور میں ایک دلت نابالغ لڑکی کی اجتماعی عصمت دری اور قتل اور 12 اگست کو اتر پردیش کے بلند شہر میں چھ سالہ دلت لڑکی عصمت دری کی بھی گونج شامل ہوتی۔ 14 اگست کی رات ہونے والے احتجاج میں "We Want Justice” کے نعروں میں عصمت دری کا شکار ہونے والی دلت لڑکیوں کے لیے انصاف کی کوئی فریاد نہیں تھی۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہونا یقینی ہے کہ کیا ملک میں عصمت دری جیسے گھناونے جرم کے خلاف غم و غصہ متاثرہ کی سماجی حیثیت پر منحصر ہوتا ہے؟ خواتین کے خلاف تشدد گھناؤنا اور ناقابل معافی جرم ہے۔ قوم کا اجتماعی ضمیر اس وقت کیوں نہیں جاگتا ہے جب متاثرہ کا تعلق دلت، پسماندہ طبقات، قبائلی، مسلم یا عیسائی طبقات سے ہوتا ہے؟ منی پور میں قبائلی کوکی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کو عصمت دری کے بعد عریاں حالت میں پریڈ کرایا گیا، اس وقت قوم کا اجتماعی ضمیر کیوں نہیں جاگا؟ دہلی کے انڈیا گیٹ، ممبئی کے گیٹ آف انڈیا اور کولکاتا کے فائن آرٹس کے سامنے شہروں میں رہنے والی ایلیٹ کلاس کی خواتین "We Want Justice” کے نعروں کے ساتھ کیوں نہیں جمع ہوئیں؟ جموں کے کھٹوعہ میں معصوم آصفہ کی آبروریزی کے مجرمین کی حمایت میں جلوس نکالنے والوں کا تعلق کس جماعت سے تھا؟ المیہ یہ ہے کہ آج اس جماعت کا دعویٰ ہے کہ خواتین انہیں سب سے زیادہ ووٹ دیتی ہیں۔ یہ واضح تفاوت ہمارے سامنے ایک پریشان کن سچائی پیش کرتا ہے۔ جب متاثرین دلت خواتین ہوں تو غم و غصہ غائب ہو جاتا ہے۔ قوم کا اجتماعی ضمیر نہیں جاگتا۔ پہلوان خواتین کشتی سنگھ کے صدر اور بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ برج موہن پر جنسی ہراسانی کے الزامات لگاتی ہیں اور احتجاج کرتی ہیں تو ان پہلوانوں کو یہی پولیس سڑکوں پر گھسیٹتی ہے۔ اس وقت شہری اشرافیہ کی خواتین کا ضمیر نہیں جاگتا۔ گجرات فسادات میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی بلقیس بانو کے مجرموں کو قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قبل از وقت نہ صرف رہا کیا جاتا ہے بلکہ ان کا استقبال کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ شرفا ہیں کیونکہ یہ برہمن ہیں۔ یہ اس بات کی شرمناک عکاسی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ذات پات اور امتیازی سلوک کی جڑیں کس قدر گہری ہیں۔ ذات پات اور امتیازی سلوک پر مبنی مزاج کا ہی نتیجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے صف میں شامل ہونے کے منتظر بھارت میں خواتین کی سیکیورٹی آج بھی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
16 دسمبر 2012 کو ہونے والے اجتماعی عصمت دری کے ہولناک واقعے کے بعد خواتین کی حفاظت اور سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے بڑے اقدامات کے وعدے کیے تھے مگر ان برسوں میں تمام وعدوں کو بڑی حد تک منہ کی کھانی پڑی ہے۔ 2024-25 کے لیے نربھیا فنڈ کے بجٹ میں سو فیصد اضافہ قابل تعریف ہو سکتا ہے لیکن اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2013 (جبکہ اسے قائم کیا گیا تھا) اور 2022 کے درمیان، مختص فنڈ کا نصف سے بھی کم استعمال کیا گیا تھا۔ آر جی کار میڈیکل کالج و ہسپتال میں ٹرینی ڈاکٹر کی عصمت دری کے بعد پہلے مرحلے میں انتظامیہ نے الگ رنگ دینے کی کوشش کی۔ یہ صورت حال پہلی مرتبہ نہیں ہوئی ہے۔ افسوس کہ ملک کے تقریباً ہر ادارے کا یہی حال ہے۔ جنسی تشدد کے ہر واقعے کے بعد انتظامیہ اور حکم راں جماعت کا پہلا ردِ عمل یہی ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا ہے۔ پوری کوشش کی جاتی ہے کہ معاملے کو دبا دیا جائے اور ثبوتوں کو مٹا دیا جائے۔ اس طرح کے واقعات آئے دن اسکولوں، اسکول بسوں، کالج کیمپسوں اور کام کی جگہوں پر رونما ہوتے ہیں۔ جھوٹ پھیلانے، متاثرہ کو بدنام کرنے اور ان کی ساکھ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوششیں اس سے بھی بدترین صورت ہیں۔ جانچ کے نام پر دراصل پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ ہمیں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اس ریکارڈ کو بھی دیکھنا چاہیے کہ عصمت دری کے مجرمین کی سزا کی شرح کیا ہے؟ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ عصمت دری جیسے سنگین جرم کے مجرموں کو سزا سماجی حیثیت کے اعتبار سے دی جاتی ہے۔ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ اتراکھنڈ جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں ایک اسی پیشہ سے وابستہ ایک مسلم لڑکی تسلیم جہاں (قانون کے اعتبار سے عصمت دری کی شکار لڑکی کی شناخت کو ظاہر نہیں کیا جانا چاہیے، مگر چونکہ نام میڈیا میں آگیا ہے اس لیے ہم نے بھی نام درج کیا ہے) دھرمیندر نامی شخص نے عصمت دری کرنے کے بعد قتل کر دیا۔ اس واقعے پر نہ قومی میڈیا میں خبریں ہیں اور نہ خواتین احتجاج کر رہی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جب سیاست، ذات اور برادری کی بنیاد پر عصمت دری جیسے جرائم کے خلاف غم و غصہ کا مظاہرہ کیا جائے گا تو پھر ملک میں خواتین کو آزادی کہاں نصیب ہوگی؟
این آر سی بی کی رپورٹ کے مطابق 2018 سے 2022 کے درمیان عصمت دری کے مجرمین کو سزا کی شرح 27-28 فیصد کے درمیان رہی۔ اس جرم کے زمرے میں سزا سنانے کی شرح سب سے کم ہے۔ قتل کی سزا کی شرح 43.8 فیصد، چوٹ (تیزاب کے حملے سمیت) 35 فیصد اور اغوا اور تاوان کے مجرم کو سزا سنانے کی شرح 33.9 فیصد ہے۔ یہ بھارت کے عدالتی نظام کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے جو نہ صرف مقدمات کے بوجھ تلے دب چکا ہے بلکہ ادارہ جاتی خامیوں سے بھی بھرا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسے ادارے میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں طاقت سے محروم افراد کے لیے انصاف کا حصول ناممکن ہوگیا ہے۔ درجنوں لڑکیوں کو بندھک بنا کر جنسی ہراسانی کا شکار بنانے والے مجرم بابا رام رحیم کو عدالت سال میں کئی بار پیرول پر رہا کر دیتی ہے، مگر عمر خالد، شرجیل امام جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان جنہیں حکومت کے بعض اقدامات کے خلاف بولنے کی پاداش میں سلاخوں کے پیچھے بند کیا گیا ہے، ان بے چاروں کی درخواست ضمانت پر سماعت تک مہینوں نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ ایک طرف دعویٰ یہ ہے کہ نربھیا واقعہ کے بعد عصمت دری کے قوانین کو انتہائی سخت کردیا گیا ہے تو پھر سخت سزا اور سزا کی شرحوں کے درمیان ربط کیوں نہیں ہے؟ سخت سزاؤں کو ادارہ جاتی شکل دینے کے بجائے سزا سنانے کی شرح میں اضافے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ملک میں عصمت دری کی پیچیدگیوں کو سائنسی طور پر سمجھنے کے لیے بہت کم علمی کوشش کی گئی ہے، جبکہ عصمت دری اور خواتین کے خلاف جرائم بھارت کے معاشرے میں گہری جڑیں رکھتے ہیں۔ دلتوں اور آدیواسیوں کی سِول سوسائٹی کی تنظیموں، برادریوں، رہنماؤں اور کارکنوں کے مشترکہ پلیٹ فارم ’’این سی ایس پی اے‘‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واضح آئینی دفعات اور رہنما خطوط کے باوجود ملک میں دلتوں اور آدیواسی برادریوں کی تکالیف بدستور بدترین ہیں۔ یہ کمیونٹی نہ صرف ذات پات کے نظام کا شکار ہے بلکہ اسے ادارہ جاتی امتیاز اور سماجی اخراج کا بھی سامنا ہے۔ اس تنظیم کا خیال ہے کہ دلت لڑکیوں کی عصمت دری کے چند واقعات ہی مین اسٹریم میڈیا کی توجہ حاصل کر پاتے ہیں۔ تاہم، یہ تعداد بھی بہت زیادہ ہے، یہاں تک کہ 2021 کے جرائم کے اعداد و شمار بھی تشدد میں اضافے کے اسی طرح کے رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔ دلتوں اور آدیواسی عورتوں اور بچوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔
ملک میں 2017 اور 2022 کے درمیان روزانہ اوسطاً 86 ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے، اور 82 کیسوں میں ریپ کرنے والے کو خاتون جانتی تھی۔ ملک میں ہر گھنٹے میں ریپ کے تقریباً چار واقعات درج ہوئے اور ان میں سے تین سے زیادہ میں، عصمت دری کرنے والا متاثرہ شخص سے واقف تھا۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، 2017 سے 2022 کے درمیان، بھارت میں ریپ کے کل 1.89 لاکھ واقعات رپورٹ ہوئے۔ کم از کم 1.79 لاکھ کیسوں میں عصمت دری کرنے والا ایک جانا پہچانا شخص تھا، اس کے علاوہ بھارت میں عصمت دری کے متاثرین کی سب سے زیادہ تعداد اٹھارہ سے تیس سال کے درمیان ہے۔ روزانہ ریکارڈ کی جانے والی چھیاسی عصمت دری کا شکار باون عورتوں میں سے اٹھارہ سے تیس سال کے درمیان کی عمر کی ہیں۔ تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ باقی کیسز، روزانہ پینتیس عورتیں کسی بھی عمر کی ہو سکتی ہیں۔ 2014 اور 2022 کے درمیان، کام یا دفتر کے احاطے میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے کم از کم 4,231 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ ابتدائی طور پر دفتر کے احاطے میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کی تعداد کم تھی، لیکن کام سے متعلق دیگر جگہوں پر یہ تعداد زیادہ تھی۔ 2017 کے بعد ہر سال چار سو سے زائد کیسز کلبڈ کیٹیگری کے تحت رپورٹ ہوئے۔ دلتوں کی تنظیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 میں درج فہرست ذاتوں (SCs) کے خلاف مظالم یا جرائم میں 2.1 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اتر پردیش میں SCs کے خلاف مظالم کے سب سے زیادہ واقعات 25.82 فیصد ہوئے، اس کے بعد راجستھان میں 14.7 فیصد اور مدھیہ پردیش میں 14.1 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2021 میں درج فہرست قبائل (ST) کے خلاف مظالم میں 6.4 فیصد اضافہ ہوا ہے، اس کے ساتھ مدھیہ پردیش میں سب سے زیادہ 29.8 کیس رپورٹ ہوئے ہیں، اس کے بعد راجستھان میں 24 فیصد اور اڈیشہ میں 2021 میں 7.6 فیصد کے ساتھ سرفہرست ہے۔ چونکہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو مقدمات کا تجزیہ مذہب کی بنیاد پر نہیں کرتا، اس لیے ہمارے سامنے اس کے ریکارڈز نہیں ہیں۔ تاہم، یہ حقیقت ہے کہ جب بھی عصمت دری سے متاثرہ کا تعلق اقلیتی طبقے سے ہوتا ہے تو رد عمل اور میڈیا کے رویے میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔
یہ اعداد و شمار سنگینی کو واضح کرتے ہیں کہ بھارت میں عصمت دری کے واقعات محض اتفاقی یا شرپسند عناصر کی شرانگیزی کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ خواتین کو ہراسانی، عصمت دری، اور قتل جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب تعزیری اقدامات کے طور پر بھی کیا جاتا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات میں ایک مخالف گروپ کے خلاف ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ 2002 میں گجرات فسادات اور 2013 میں مظفر نگر فسادات کے دوران سیاسی پشت پناہی سے مسلم خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ اسی طرح دلت خواتین کی عصمت دری کے پیچھے انہیں نفسیاتی طور پر پسماندہ اور کمزور رکھنے کی پالیسی کارفرما ہوتی ہے۔ آرجی کار میڈیکل کالج، ہسپتال میں عصمت دری کے واقعے کے بعد قوم کا اجتماعی ضمیر جاگ گیا ہے، تو اسے ایک موقع کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ خواتین کے خلاف جنسی زیادتی اور عصمت دری جیسے سنگین سماجی اور معاشرتی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے سائنسی طرز پر غور و فکر کیا جانا چاہیے اور اس بیماری کی جڑ تک پہنچنا چاہیے۔ یہ ضرورت اس لیے بڑھ گئی ہے کہ ایک طرف انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی آسان فراوانی اور آزادی کے نام پر شرم و حیا سے عاری مواد نے نئی نسل کے دل و دماغ کو جنس زدہ کر دیا ہے۔ جنسی لذت کو انسانی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ آج ہمارے سنیما بالخصوص او ٹی ٹی جیسے پلیٹ فارم نے پورے معاشرے کو جنس زدہ کر دیا ہے۔ دوسری طرف ہماری نسل گجرات فسادات اور مظفر نگر فسادات میں جنسی زیادتی کے مجرموں کی سیاسی پشت پناہی کرتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ کھٹوعہ کی آصفہ کی آبروریزی کے مجرموں کی حمایت میں باضابطہ جلوس نکالا جاتا ہے اور اس میں بی جے پی کے لیڈر شریک ہوتے ہیں اور جے شری رام کے نعرے لگاتے ہیں۔ آخر ایک عصمت دری کے مجرم کی حمایت کوئی صحت مند سماج کیسے کر سکتا ہے؟
گجرات فسادات کا کلیدی مجرم بابو بجرنگی، جس کے تعلقات آج کے اعلیٰ حکم رانوں سے گہرے تھے، فخریہ کہتا ہے کہ ’’جب وہ مسلم خاتون کی عصمت دری کر رہا تھا اور اسے اپنی تلوار سے چیر رہا تھا تو اسے رانا پرتاب جیسے بہادر ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔‘‘ سوال یہ ہے کہ بابو بجرنگی کی ذہنیت اس قدر پراگندہ کیوں ہوئی؟ کیا اس کے پیچھے کوئی سماجی عوامل کارفرما نہیں ہیں؟ کیا یہ منوسمرتی کی سوچ کا نتیجہ نہیں ہے جو دنیا کے وسائل پر چند افراد کے حق کو تسلیم کرتی ہے اور باقی طبقات کو نیچ قرار دیتی ہے؟ منوسمرتی کی ہی سوچ کا نتیجہ تھا کہ وی ڈی ساورکر نے اپنی موت سے چند ماہ قبل "Six Glorious Epochs of Indian History” نامی مراٹھی زبان کی کتاب میں لکھی، جس میں انہوں نے مسلمانوں کے خلاف عصمت دری کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی پرزور وکالت کی۔ اس کتاب میں انہوں نے بے بنیاد پروپیگنڈے کی بنیاد پر دعویٰ کیا کہ مسلم حکم رانوں نے بھارت میں ہندو مذہب پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ہندو خواتین کا اغوا اور ان کے ساتھ جبراً شادی کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندوؤں کو بھی اسی طرح کے حربے آزمانے کی ضرورت ہے۔ وہ شیواجی کی تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے فتح کے بعد مسلم خواتین کو باعزت لوٹا دیا۔ ساورکر لکھتے ہیں کہ شیواجی نے کلیان کے مسلم گورنر کی بہو کو باعزت واپس بھیج دیا۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ جب انہوں نے ایسا کیا تو نہ شیواجی مہاراج اور نہ ہی چماجی اپا کو یہ یاد رکھنا چاہیے تھا کہ ہندو خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ محمود غزنی، محمد غوری، علاء الدین خلجی اور دیگر نے عصمت دری اور چھیڑ چھاڑ کے مظالم کیے ہیں؟ ساورکر آگے لکھتے ہیں: ’’مہاراج چھترپتی شیواجی مہاراج اور چماجی اپا سے لاکھوں غم زدہ خواتین کی روحوں نے شاید کہا ہو گا کہ ہم پر مسلم سلطانوں، رئیسوں اور ہزاروں چھوٹے بڑے مسلمانوں کے ذریعہ کیے گئے ناقابل بیان ظلم و ستم کو نہیں بھولنا۔ یہ عہد کیا جانا چاہیے کہ ہندوؤں کی فتح کی صورت میں مسلم خواتین سے ہماری چھیڑ چھاڑ اور گھناؤنی حرکت کا بدلہ لیا جائے گا۔ ہندوؤں کے غالب آنے کے بعد ایک بار جب مسلم خواتین بھی اس خوفناک واقعے سے دوچار ہو جائیں گی تو مستقبل کے مسلم فاتحین ہندو عورتوں کے ساتھ اس طرح کی چھیڑ چھاڑ کے بارے میں سوچنے کی جرات نہیں کریں گے۔‘‘
یہی وہ تھیوری ہے جس نے عصمت دری جیسے سنگین جرم کو بھی سماجی اور معاشرتی انتقام کا رنگ دے دیا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران خواتین کی عصمت دری سب سے عام ہو جاتی ہے۔ طاقتور اپنی کمزوروں پر غالب آنے کے لیے ان کی خواتین کے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔ جنوبی ہند میں آج بھی دلت طبقے میں مندروں میں داسی کے طور پر اپنی خواتین کو پیش کرنے کا رواج ہے۔ جب تک اس طرح کی سوچ اور تھیوری پر قابو نہیں پایا جائے گا، تب تک ملک میں عصمت دری جیسے سنگین جرائم پر قابو پانا مشکل ہے۔
المیہ یہ ہے کہ آرجی کار میڈیکل عصمت دری کے خلاف ممبئی میں واقع ہیرانندانی کمپلیکس کے رہائشی تقریباً اسی خواتین، جن میں چند مرد بھی شامل تھے، رات گیارہ بجے کے قریب جمع ہوئے۔ عالی شان ہاؤسنگ کمپلیکس سے کچھ ہی فاصلے پر واقع جئے بھیم نگر کی کچی آبادی میں رہنے والی بہت سی خواتین، جوان اور بوڑھے اس احتجاج کا حصہ بننے کے لیے آگئے تو ہیرانندانی کمپلیکس میں رہنے والی ایلیٹ کلاس کی خواتین کو یہ بات ناگوار گزری کہ ان کے احتجاج میں یہ لوگ کیوں شامل ہو رہے ہیں؟ کچی بستی سے آنے والی خواتین سے کہا گیا کہ ’’یہ صرف ہیرانندانی کمپلیکس کے رہائشیوں کے لیے ایک خصوصی احتجاج ہے۔‘‘ چند ماہ قبل ہی مانسون کے موسم میں کئی دہائیوں سے رہنے والے جئے بھیم نگر کے مکانات توڑ دیے گئے۔ ان رہائشیوں کا الزام ہے کہ ہیرانندانی ڈیولپرز کے کہنے پر ہی انہدامی کارروائی کی گئی ہے۔ جئے بھیم نگر کی رہائشی ریشما کہتی ہیں کہ ’’ہیرانندانی کمپلیکس کے باہر احتجاج میں شامل ہونے کا تجربہ اتنا ہی ظالمانہ تھا جتنا کہ اپنا گھر مسمار ہوتے ہوئے دیکھنا۔‘‘ ایسا نہیں ہے کہ جئے بھیم نگر کی خواتین کا آس پاس کے پرتعیش رہائشی احاطے والوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیکیورٹی گارڈز سے لے کر گھریلو ملازمین تک، ورک فورس انہی بستیوں سے آتی ہے۔ یہ رشتہ ایک اہم سماجی متحرک کو نمایاں کرتا ہے۔ اعلیٰ درجے کے کمپلیکس کی فلاح و بہبود اور فعالیت غریب حالات میں رہنے والوں کی محنت پر منحصر ہے۔ اگر یہ کارکن رک گئے تو بلند و بالا عمارتوں کے روزمرہ کے کام ٹھپ ہو جائیں گے۔ مگر بھید بھاؤ اور سماجی تفریق کی ذہنیت اس قدر مضبوط ہے کہ یہ بھی گوارا نہیں ہے کہ یہ طبقات ان کے ساتھ انصاف کی جدوجہد کا حصہ بنیں۔
جب انصاف کی جدوجہد ہی سماجی تفریق اور بھید بھاؤ کا شکار ہوجائے تو ایسے میں سدھار کی کیا امید کی جا سکتی ہے؟ اگر 14 اگست کی طویل رات کے احتجاج کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں حکومت سے، سماج سے اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ سے سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ عصمت دری کا سوال سیاست کے نذر کیوں ہوجاتا ہے؟ عصمت دری کے واقعات کو سیاسی نفع و نقصان کے تناظر میں ہی کیوں دیکھا جاتا ہے؟ آخر سیاست دانوں کو اس کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ عصمت دری کے واقعات منی پور میں ہوں، اتر پردیش میں ہوں، گجرات میں یا پھر مہاراشٹر یا بنگال میں، اس کی سنگینی کم نہیں ہوتی۔ سماج اور خود سے بھی سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح سے سماج کی تشکیل کر رہے ہیں۔ ہم اپنے گھروں اور معاشرے میں خواتین کا احترام کس طرح کرتے ہیں؟ صدر جمہوریہ جیسے اہم عہدہ فائز شخصیت سے کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ جب اس سنگین مسئلے پر بولیں گی تو صرف ان واقعات کی نشان دہی کریں گی جو اپوزیشن کے زیر اقتدار ریاستوں میں پیش آئے ہیں؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات عصمت دری کے واقعات کو کس تناظر میں دیکھتی ہیں۔
آخری بات
فیمنزم تحریک کی پوری تاریخ 140 برس سے زیادہ پرانی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ صدی میں اس تحریک نے خواتین کو سماجی و معاشرتی حقوق دلانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور مختلف ممالک میں سماجی و معاشرتی عوامل کے پیش نظر مختلف نعروں کو اجاگر کیا ہے۔ فیمنزم تحریک کا بنیادی عنصر مردوں کے غلبے کے خلاف جدوجہد ہے۔ یہ تحریک خواتین کے قانونی، معاشی اور سیاسی حقوق کے حصول کے لیے برپا ہوئی تھی، مگر گزشتہ تین چار دہائیوں میں اس تحریک کے کچھ نعروں جیسے ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘ نے سماج و معاشرتی اقدار کو متاثر کیا ہے۔ مرد و زن کے بے مہار اختلاط اور جنسی ہیجان برپا کرنے والے مواد کی آسان دستیابی، خاص طور پر او ٹی ٹی پلیٹ فارم نے سماجی اقدار پر سوال اٹھایا ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں تو یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ یہ اخلاقیات سے عاری اور بے مہار آزادی کی نحوست کا نتیجہ ہے۔اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ خواتین کو یکساں مواقع اور آزادی کا سب سے بڑا داعی ہے۔ 1880 میں فرانس میں برٹائن آکلرٹ نامی خاتون نے خواتین کی ملکیت کے حقوق کے لیے فیمنزم تحریک کی شروعات کی تھی، لیکن اسلام نے کئی صدیوں قبل حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ خواتین کو ملکیت کا حق دیا اور والدین کی جائیداد میں وراثت دی۔ حضرت خدیجہؓ دنیا کے لیے نمونہ عمل ہیں، جن کا تجارتی امپائر کئی ممالک میں پھیلا ہوا تھا، مگر وہ سماجی اور مذہبی اقدار کے ساتھ بھی تھیں۔ حضرت عائشہؓ نہ صرف ام المومنین تھیں بلکہ اپنے وقت کی بڑی عالمہ بھی تھیں، جن سے صحابہ کرام اور تابعین نے علم حاصل کیا۔ اختلاف رائے کی صورت میں انہوں نے داماد رسول کے مقابلہ میں میدان جنگ میں بھی حصہ لیا اور بعد میں واپس ہوئیں۔مغربی دانشور مسٹر اینی بیسنٹ نے لکھا ہے: ’’ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عورتوں کے متعلق اسلام کے قوانین ابھی حالیہ زمانے تک انگلینڈ میں اپنائے جا رہے تھے۔ یہ سب سے زیادہ منصفانہ قانون تھا جو دنیا میں پایا جاتا تھا۔ جائیداد، وراثت کے حقوق اور طلاق کے معاملات میں یہ مغرب سے کہیں آگے تھا اور عورتوں کے حقوق کا محافظ تھا۔ لیکن یک زوجگی اور تعدد ازدواج نے لوگوں کو مسحور کر دیا ہے اور وہ مغرب میں عورت کی اس ذلت پر نظر نہیں ڈالنا چاہتے جسے اس کے اولین محافظ سڑکوں پر صرف اس لیے پھینک دیتے ہیں کہ ان سے ان کا دل بھر جاتا ہے، اور پھر اس کی کوئی مدد نہیں کرتا۔‘‘ (Annie Besant: The Life and Teaching of Muhammad – 1932, p.3)فیمنزم اور جدت پسندی کی تحریکوں کے باوجود اگر آج بھارت یا دنیا کے دیگر ممالک میں خواتین محفوظ نہیں ہیں تو یہ اخلاق باختہ سماج اور معاشرتی عوامل کا نتیجہ ہے۔ تقریباً تین صدیوں کے بعد بھی خود برطانوی اہل فکر و نظر کے مطابق دنیا بھر کی خواتین مساوی حقوق اور باوقار مقام سے محروم ہیں اور دفاتر و کارگاہوں میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک معمول کی بات ہے۔ دنیا کو اگر خواتین کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنانا ہے تو صارفیت، بے مہار آزادی اور اخلاق باختہ تہذیب و تمدن سے آگے بڑھ کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مرد و عورت کے بے باکانہ اور آزادانہ اختلاط نے پورے معاشرے میں جنسی آوارگی پیدا کردی ہے، فحاشی اور بدکاری کا چلن عام ہو گیا ہے اور عورت کی آزادی سے ایسی ننگی اور بے حیا تہذیب نے جنم لیا ہے کہ اس کی عفونت اور سڑاند سے شرم و حیا کا دم گھٹنے لگا ہے۔ اس کے سنگین نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اس لیے خواتین کی عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے قانون سازی کے ساتھ ساتھ نئی نسل کی تربیت اور خواتین کے تئیں فکر و نظر میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اظہار خیال کے نام پر عورتوں کو سامان تلذذ پیش کرنے والے فلمی اور تفریحی مواد پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔

 

***

 فیمنزم تحریک کا بنیادی عنصر مردوں کے غلبے کے خلاف جدوجہد ہے۔ یہ تحریک خواتین کے قانونی، معاشی اور سیاسی حقوق کے حصول کے لیے برپا ہوئی تھی، مگر گزشتہ تین چار دہائیوں میں اس تحریک کے کچھ نعروں جیسے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ نے سماج و معاشرتی اقدار کو متاثر کیا ہے۔ مرد و زن کے بے مہار اختلاط اور جنسی ہیجان برپا کرنے والے مواد کی آسان دستیابی، خاص طور پر او ٹی ٹی پلیٹ فارم نے سماجی اقدار پر سوال اٹھایا ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں تو یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ یہ اخلاقیات سے عاری اور بے مہار آزادی کی نحوست کا نتیجہ ہے۔اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ خواتین کو یکساں مواقع اور آزادی کا سب سے بڑا داعی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024