
سفیان احمد
سماجی بیداری کے اقدامات کو تنگ نظری سے جوڑنا فکری انحراف کے مترادف
گجرات میں عورتوں کی حفاظت سے متعلق ٹرافک پولیس کی تنبیہات کی غلط تاویل،چہ معنی دارد؟
حال ہی میں ملک کے ایک ممتاز قومی ہندی روزنامے نے خواتین کی حفاظت سے متعلق ایک حساس اور قابلِ بحث مسئلے پر توجہ مبذول کرتے ہوئے ایک مؤثر اداریہ شائع کیا ہے۔ اس میں سخت الفاظ میں حکومتوں اور متعلقہ اداروں کو خواتین کی حفاظت کے معاملے میں کٹہرے میں کھڑا کیا گیا تھا۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس بحث کا مرکز گجرات کے احمدآباد میں چلائی گئی ایک حفاظتی بیداری مہم بنی، جس میں ٹریفک پولیس کی جانب سے عوامی مقامات پر کچھ پوسٹرز لگائے گئے تھے۔ ان پوسٹروں میں خواتین کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ ’دیر رات پارٹی میں نہ جائیں‘ یا ’اندھیرے اور سنسان جگہوں پر اپنے دوست کے ساتھ اکیلی نہ ہوں‘۔ ان پیغامات کو لے کر خاصا تنازع کھڑا ہو گیا۔ ہے اداریے میں اس بات پر تشویش ظاہر کی گئی کہ ایسے انتباہات نہ صرف خواتین کے حقوق کو محدود کرتے محسوس ہوتے ہیں بلکہ بالواسطہ طور پر انہیں جرم کا ذمہ دار بھی ٹھیراتے ہیں۔
پوسٹر لگانے والی ٹریفک پولیس اور متعلقہ تنظیم کو غیر حساس، ناسمجھ یا مجرمانہ ذہنیت کا دفاع کرنے والا قرار دیا گیا۔ اداریے میں خواتین کے خلاف ہونے والے سنگین جرائم کے تئیں اس سوچ کو انتہائی جامد، تنگ نظر اور رجعت پسندانہ قرار دے کر اس نقطۂ نظر پر افسوس کا اظہار بھی کیا گیا۔
خواتین کی حفاظت کے سوال پر بحث جتنی ضروری ہے، اتنا ہی ضروری ہے کہ اس سمت میں کی جانے والی کوششوں کی غیر جانب دارانہ تفہیم اور تنقیدی شعور کے ساتھ تشریح بھی ضروری ہے ۔ احمدآباد میں ٹریفک پولیس اور ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے لگائے گئے ان پوسٹروں کو لے کر جو تنازع کھڑا ہوا وہ کسی نہ کسی طور پر ہمارے سماجی طرز فکر کی اس ستم ظریفی کو اجاگر کرتا ہے جہاں حساسیت اور ذمہ داری کے نام پر اٹھائے گئے کچھ ضروری احتیاطی اقدامات کو بھی تنگ نظری اور جرم کی حمایت کے زمرے میں رکھ دیا جاتا ہے۔
درحقیقت، جن پوسٹروں پر سوالات اٹھائے گئے ان کا بنیادی مقصد خواتین کو موردِ الزام ٹھیرانا نہیں ہے بلکہ انہیں ممکنہ خطرات سے باخبر کرنا تھا۔ اگر کسی پوسٹر میں یہ کہا گیا کہ ’دیر رات پارٹی میں نہ جائیں‘ یا ’سنسان جگہوں پر اپنے دوست کے ساتھ اکیلی نہ ہوں‘، تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اگر کوئی خاتون ایسا کرتی ہے تو وہ جرم کی ذمہ دار ہے، اور نہ ہی یہ کہ اس سے مجرموں کو کوئی جواز ملتا ہے۔ یہ محض ایک احتیاطی تدبیر ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ ’سڑک پار کرتے وقت دونوں طرف دیکھیں‘، ’مسافر اپنے سامان کی حفاظت خود کریں‘ یا ’اجنبی افراد سے بات نہ کریں‘ وغیرہ۔
احتیاط کو تنگ نظری نہیں کہا جا سکتا:
ایسے پیغامات کو تنگ نظری یا جامد ذہنیت کی پیداوار قرار دینا خود ایک مبالغہ آمیز بات ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ خواتین کی حفاظت صرف قانونی سزاؤں سے ہی نہیں بلکہ سماجی شعور اور ذاتی احتیاط سے بھی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ جس طرح دنیا بھر میں سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے نوجوانوں کو سکھایا جاتا ہے کہ ’اپنے پاس ورڈ کسی سے شیئر نہ کریں‘ یا ’فشنگ لنکس سے بچیں‘، کیا اسی انداز میں خواتین کی حفاظت کے لیے کچھ عملی مشورے دینا مجرمانہ سوچ ہے؟
پیغامات کا مقصد خوف نہیں، صرف انتباہ :
خواتین کو دیر رات اکیلے باہر جانے سے منع کرنا ان کے حقوق چھیننے کے مترادف نہیں۔ یہ ایک حقیقت پسندانہ مشورہ ہے جس میں نہ کوئی قانونی پابندی ہے اور نہ ہی کوئی سماجی رکاوٹ۔ بھارت جیسے ملک میں جہاں بہت سے علاقوں میں ابھی بھی مناسب اسٹریٹ لائٹنگ، عوامی گشت اور قابلِ اعتماد ٹرانسپورٹ کی سہولتیں نہیں ہیں وہاں خواتین کو غیر محفوظ علاقوں سے آگاہ کرنا ایک ذمہ دارانہ عمل ہے۔
کیا یہ مجرموں کا دفاع ہے؟
اداریے میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ایسے انتباہات ’مجرمانہ ذہنیت کا دفاع‘ ہیں۔ یہ ایک سنگین الزام ہے جسے حقائق کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہے۔ کیا خواتین کو محتاط رہنے کا مشورہ دینا واقعی مجرموں کو تحفظ دینا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اگر کوئی ڈاکٹر کہے کہ ’مچھروں سے بچنے کے لیے جسم کو ڈھانپ کر رکھیں‘، تو اس کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ وہ حکومت کو مچھر کنٹرول کرنے کی ذمہ داری سے بری کر رہا ہے۔ اسی طرح، کسی ادارے کا خواتین کو عملی تحفظ کے بارے میں آگاہ کرنا اس ادارے کی ذمہ داری اور حساسیت کو ظاہر کرتا ہے، نہ کہ مجرموں کے لیے ہمدردی کو اجاگر کرتا ہے۔
ہر حفاظتی کوشش کا خیر مقدم ہو، تنقید نہیں!
مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب ہر انتباہ کو متاثرہ فرد کو قصوروار ٹھیرانے کے نظریے سے دیکھا جانے لگتا ہے۔ سماجی علوم کےاصول کے مطابق کسی بھی سماجی مسئلے کے حل کے لیے کثیر الجہتی نقطۂ نظر ضروری ہوتا ہے۔ جرائم کی روک تھام صرف سزا کے نظام سے نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے ساتھ سماجی بیداری، ذاتی احتیاط اور اجتماعی تعاون بھی ضروری ہوتا ہے۔
پوسٹروں میں جو باتیں لکھی گئیں وہ اخلاقی وعظ نہیں بلکہ عملی انتباہات تھیں۔ یہ کہنا کہ خواتین کو دیر رات اندھیرے علاقوں میں نہیں جانا چاہیے، ایسا ہی ہے جیسے کسی کوہ پیما سے کہا جائے کہ برفباری کے دوران چڑھائی نہ کرے۔ کیا یہ کوہ پیما کی صلاحیتوں کی توہین ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ ایک ذمہ دارانہ مشورہ ہے۔ اگر یہ پوسٹرز ٹریفک پولیس یا کسی غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے لگائے گئے تھے تو یہ ضروری تھا کہ ان کے ارادوں اور مقاصد کو جانچا جائے، نہ کہ صرف سطحی زبان کی بنیاد پر انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کی حفاظت پر بات کرتے وقت ہم حقوق اور ذمہ داریوں کے درمیان توازن قائم کریں۔ ایک طرف یہ یقینی بنایا جائے کہ کسی بھی صورت میں متاثرہ خاتون کو جرم کا ذمہ دار نہ ٹھیرایا جائے تو دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ انہیں عملی زندگی کے چیلنجوں اور ممکنہ خطرات سے بھی آگاہ کیا جائے۔ اگر کوئی ادارہ یہ کام کر رہا ہے تو اسے تنگ نظری کی علامت قرار دینا نہ صرف غیر مناسب ہے بلکہ یہ خواتین کی حفاظت کے لیے کیے جانے والے وسیع تر اقدامات کو بھی کمزور کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تحفظ صرف نعروں اور وعدوں سے نہیں ہو جاتا بلکہ سمجھ داری، بیداری اور تعاون سے ہوتا ہے۔ اگر کوئی ادارہ یہ کام کر رہا ہے تو ایسے اقدامات کو سماجی تعاون کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے، نہ کہ اسے شک اور تنقید کی نگاہ سے دیکھا جائے؟
***
خواتین کی حفاظت کے سوال پر بحث جتنی ضروری ہے، اتنا ہی ضروری ہے کہ اس سمت میں کی جانے والی کوششوں کی غیر جانب دارانہ تفہیم اور تنقیدی شعور کے ساتھ تشریح بھی ضروری ہے ۔ احمدآباد میں ٹریفک پولیس اور ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے لگائے گئے ان پوسٹروں کو لے کر جو تنازع کھڑا ہوا وہ کسی نہ کسی طور پر ہمارے سماجی طرز فکر کی اس ستم ظریفی کو اجاگر کرتا ہے جہاں حساسیت اور ذمہ داری کے نام پر اٹھائے گئے کچھ ضروری احتیاطی اقدامات کو بھی تنگ نظری اور جرم کی حمایت کے زمرے میں رکھ دیا جاتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 جولائی تا 23 اگست 2025