
!اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔
متنازعہ وقف ترمیمی قانون مسلمانوں سے غداری اور سیکولرزم کا دوغلا چہرہ
سمیر بلڈانوی
تاریخی پس منظر اور وقف کا تصور
وقف ایک ایسا اسلامی فلاحی ادارہ ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی اجتماعی بھلائی، تعلیم، صحت اور عبادت گاہوں کا تحفظ رہا ہے۔ صدیوں سے مسلم حکم رانوں، علماء، صوفیاء اور عوام نے اپنی املاک و دولت کو امت مسلمہ کے لیے وقف کیا ہے۔ یہ ایک دینی، اخلاقی اور تہذیبی ذمہ داری مانی جاتی ہے، جس کا تحفظ ہر مسلم معاشرے پر لازم ہے۔لیکن آج جب ہم جمہوریت اور سیکولرازم کے نعروں سے مزین بھارت کی طرف دیکھتے ہیں، تو یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ اسی وقف کو نشانہ بنا کر مسلمانوں کے مذہبی، تعلیمی، ثقافتی اور معاشی ڈھانچے کو کمزور کیا جا رہا ہے۔
وقف ترمیمی بل: فلاح کے نام پر سازش
حال ہی میں پیش کیا گیا وقف ترمیمی بل (Waqf Amendment Bill) ظاہری طور پر شفافیت اور بہتر انتظام کی بات کرتا ہے، لیکن اس کی گہرائی میں جھانکنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ بل دراصل مسلمانوں کی مذہبی آزادی، ان کے اداروں کی خودمختاری اور ان کے وسائل پر حملہ ہے۔
یہ بل وقف املاک کی تحقیقاتی ایجنسیوں، حکومتوں، حتیٰ کہ عدالتوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی وقف پراپرٹی کی ملکیت یا حیثیت پر سوال اٹھا سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وقف بورڈز کی خودمختاری ختم، اور حکومت کا مکمل کنٹرول نافذ ہو سکتا ہے۔
جمہوریت کے نام پر دوغلا پن اور اقلیت دشمن سیاست
بھارت میں جمہوری نظام کو ایک مثالی ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جہاں ہر مذہب، زبان، طبقے اور علاقے کو مساوی حقوق دیے جانے کا وعدہ ہے۔ مگر جب ہم زمینی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جمہوریت اب صرف اکثریتی طبقے کے مفادات کے گرد گھومتی ہے، اور اقلیتوں کا محض ووٹ بینک کے طور پر استحصال کیا جاتا ہے۔
اسی استحصال کا مرکز ہیں وہ پارٹیاں جو بظاہر سیکولر یا علاقائی شناخت کے ساتھ سامنے آتی ہیں، مگر درپردہ فسطائی قوتوں کی حلیف بن جاتی ہیں۔ بی جے پی، جے ڈی یو، ٹی ڈی پی، ایل جے پی اور ان جیسی کئی جماعتیں آج اسی دوغلے پن کی علامت بن چکی ہیں۔
بی جے پی فسطائیت کی مرکزی نکیل
بی جے پی کا اصل چہرہ اب کسی سے چھپا نہیں۔ یہ پارٹی نہ صرف ہندتوا کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، بلکہ ملک کی تمام جمہوری، آئینی اور اخلاقی اقدار کو روندتے ہوئے ایک مذہب پر مبنی قوم کی تشکیل کے درپے ہے۔ مسجدیں ہو یا مدرسے، یونیورسٹیاں ہوں یا مسلمانوں کی روزمرہ زندگی ہر جگہ اس نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بی جے پی کی اکثریت بنانے میں کچھ سیکولر یا علاقائیہ جماعتیں بھی برابر کی شریک رہیں۔
جے ڈی یو نتیش کمار کا سیاسی ارتداد
نتیش کمار جب بی جے پی کے خلاف بولتے ہیں تو لگتا ہے جیسے کوئی سیکولر انقلابی کھڑا ہو۔ لیکن جب اقتدار کی بھوک جاگتی ہے، تو وہ اسی بی جے پی کی گود میں بیٹھ جاتے ہیں۔ جے ڈی یو نے بارہا مسلمانوں کے اعتماد کو بیچا، کبھی سیکولر اتحاد میں، تو کبھی بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملا کر۔یہی وہ دوغلا پن ہے جو مسلمانوں کو سیاسی لحاظ سے بے وزن اور بے وقعت بناتا ہے ،کیونکہ وہ جس پر بھروسہ کرتے ہیں، وہی سودے بازی کر لیتا ہے۔
ٹی ڈی پی ،آندھرا کا موقع پرست اتحاد
ٹی ڈی پی (تلگو دیشم پارٹی) بھی اسی قبیلے کی ایک سیاسی شاخ ہے۔ جب مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوتا ہے تو بی جے پی سے الگ ہو جاتی ہے، اور جب اقتدار کی خوشبو آتی ہے، تو وہی دشمن دوست بن جاتا ہے۔ ٹی ڈی پی کی یہ سیاسی قلابازیاں ریاستی مفادات کے نام پر کی جاتی ہیں، لیکن ان کے نتیجے میں اقلیتوں کو ایک بار پھر کنارے لگا دیا جاتا ہے۔
ایل جے پی رام ولاس پاسوان کا وارث اور اقتدار کی بھوک
ایل جے پی (لوک جن شکتی پارٹی) کو دلتوں کی آواز کہا جاتا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جماعت نے بھی ہمیشہ اقتدار کی چابی بی جے پی کو تھمائی ہے۔ دلت ہو یا مسلمان، ایل جے پی نے صرف اپنے مفاد کو ترجیح دی۔ پاسوان خاندان کی سیاست ایک نمائش سے زیادہ کچھ نہیں وہ جس کے ساتھ بھی کھڑے ہوتے ہیں، وہاں صرف اپنا فائدہ دیکھتے ہیں، اصول نہیں۔
یہ اتحاد نہیں، منافقت ہے
ان جماعتوں کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ وہ بی جے پی سے اتحاد کرتے ہیں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ عوام کے سامنے کچھ اور پیچھے کچھ اور ہوتے ہیں۔ انتخابات سے پہلے اقلیتوں کے دروازے پر آ کر ووٹ مانگتے ہیں، اور بعد میں انہیں انہی دروازوں سے دھکیل دیا جاتا ہے۔یہ سیاست صرف منافقت نہیں، بلکہ جمہوریت اور انسانیت دونوں کے ساتھ غداری ہے۔سچ کہا تھا شاعر نے :
حاکمِ وقت نے مسند کے نشے میں آکر
امن و انصاف کی مورت کا گلا گھونٹ دیا
اقلیتوں کے لیے پیغام
اب وقت ہے کہ مسلمان اور دیگر اقلیتیں ان نام نہاد سیکولر اور علاقائی جماعتوں کے چکروں میں آنا بند کریں۔ اگر کوئی جماعت واقعی ہمارے ساتھ ہے، تو وہ بی جے پی کے ساتھ کسی بھی قیمت پر اتحاد نہیں کرے گی۔ ورنہ وہ جو بھی ہو، نام بدل لے، لباس بدل لے، نعرے بدل لے وہ بی جے پی کی ایک ہی شاخ ہے۔
"جنہوں نے بیچا ہے ہمیں، وہی ہم سے دعوے کر رہے ہیں! “
"یہ سیاست نہیں، سودے بازی ہے — ہماری شناخت کی قیمت لگا دی گئی ہے!”
عدالتیں اور وقف: انصاف یا مجرمانہ خاموشی؟
سپریم کورٹ اور دیگر عدالتیں، جنہیں انصاف کا منبع سمجھا جاتا ہے، وہ بھی وقف سے متعلق فیصلوں میں جانبداری کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں۔ کئی بار واضح شواہد اور تاریخی ریکارڈ ہونے کے باوجود وقف املاک پر ناجائز قبضے کو قانونی تحفظ دیا جاتا ہے، اور اصل حق داروں کو عدالتوں کی دہلیز پر سسکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔وقف کی زمینیں، جن کی مالیت ہزاروں کروڑ میں ہے، انہیں اب نیا قانونی جواز دے کر چھیننے کی تیاری ہو رہی ہے۔ یہ صرف ایک زمین یا جائیداد کا مسئلہ نہیں، یہ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے، مساجد، درگاہیں، یتیم خانے اور ثقافتی ورثے کا مسئلہ ہے۔
جب وقف کی زمین چھین لی جائے گی، تو جامعہ، علی گڑھ، دارالعلوم، مدارس، یتیم خانے، سب متاثر ہوں گے۔ اور اس کے بعد مسلمانوں کو صرف اقلیت نہیں، بلکہ بے بس اقلیت میں بدلنے کا منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔
ہماری خاموشی، ہماری شکست
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلمان خود بھی اس سازش کو مکمل طور پر نہیں سمجھ پا رہے، یا سمجھ کر بھی خاموش ہیں۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ اگر آج ہم نہیں جاگے، تو کل ہم صرف تاریخ کے صفحے پر ایک محکوم قوم کے طور پر پڑھے جائیں گے۔
نتیجہ: اب بھی وقت ہے
وقف ترمیمی بل مسلمانوں سے غداری ہے۔ یہ سیکولر آئین کی روح کے خلاف ہے۔ یہ اقلیتوں کے حقوق پر حملہ ہے۔ ہمیں اس کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کرنی ہوگی۔ عدالتوں، سڑکوں، سوشل میڈیا، تعلیمی اداروں، ہر پلیٹ فارم پر ہمیں یہ پیغام دینا ہوگا کہ:
"تم وقف چھین سکتے ہو، ہماری غیرت نہیں “
"تم قانون بدل سکتے ہو، ہماری شناخت نہیں!”
"تم بل پاس کر سکتے ہو، لیکن قوم کے شعور کو شکست نہیں دے سکتے!”
یہ وقت ہے بیداری کا۔ یہ وقت ہے شعور، اتحاد، احتجاج اور جدوجہد کا۔ ورنہ کل ہم صرف کف افسوس ملتے رہ جائیں گے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2025