اے جی نورانی: قانون کے نکتہ رس اور عوامی زندگی کے عظیم دانشور
نئی دلی: ( دعوت نیوز ڈیسک)
نئی دلی میں معروف محقق و مصنف کو ممتاز دانشوروں کا خراج عقیدت
ہندوستانی قانون اور عوامی زندگی کے ایک عظیم دانشور اور فکرمند رہنما، اے جی نورانی جنہوں نے بھارت آئینی معاملات پر اپنے گہرے تجزیے اور بے مثال شراکت کے ذریعہ اپنی ایک منفرد شناخت بنائی تھی، ان کے انتقال پر 20 ستمبر کو نئی دلی میں ایک تعزیتی اجلاس منعقد ہوا جس میں معروف اسکالروں نے قانون اور تحقیقی صحافت کے میدان میں اے جی نورانی کی بے مثل خدمات کو یاد کیا اور انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ وہ سماج میں بھید بھاؤ، نا انصافی اور حقوق شکنی کے خلاف بے خوف آواز اٹھاتے رہے۔ ان کی یاد میں انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں منعقدہ ایک تعزیتی اجلاس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ممتاز دانشوروں کی ایک کہکشاں موجود تھی۔ بھارت کے سابق نائب صدر، حامد انصاری نے اپنی صدارتی تقریر میں اے جی نورانی کو ایک منفرد شخصیت اور عزیز دوست کے طور پر یاد کیا۔
حامد انصاری نے پرانی دلی کی تاریخی گلیوں کے لیے اپنی باہمی محبت کو یاد کیا جہاں روایتی لذیذ کھانوں کے شوق نے آپسی قربت میں اضافہ کیا تھا۔ سابق نائب صدر نے کہا ’’ان سے مل کر ہمیشہ خوشی ہوتی تھی اور بھارت-چین تعلقات، بھارت-پاکستان تعلقات، کشمیر کے مسئلے یا وسیع عالمی مل امور پر ان کی رائے طلب کرنا اچھا لگتا تھا۔ چند لوگوں کو علم ہے کہ جب بھارت-امریکہ کے ساتھ تعلقات میں چیلنجنگ دور تھا، نورانی صاحب کا مشورہ طلب کیا گیا جو انہوں نے عوامی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کیے بغیر دیا‘‘۔
اے جی نورانی کی میراث کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے، انہوں نے کہا ’’ان کے انتقال سے ہم نے ایک عظیم شخصیت کو کھو دیا جو نہ صرف اپنی وسیع کتابوں کے مجموعے کے ذریعے بلکہ عوامی زندگی میں اپنے انمول کردار کے لیے یاد رکھی جائے گی۔‘‘
سابق مرکزی وزیر اور ایم پی منی شنکر ائیر نے اے جی نورانی کو ایک انسائیکلوپیڈیائی شخصیت کے طور پر بیان کیا۔ انہوں نے کہا ’’اے جی نورانی سے بات کرنا زندہ انسائیکلوپیڈیا سے بات کرنے جیسا تھا۔ ان کی معلومات کی گہرائی و گیرائی اور تواریخ کو یاد رکھنا، اور گفتگو کی باریکیوں کے لیے ان کی یادداشت حیرت انگیز تھی۔ ان سے ہم جب بھی رجوع ہوتے ہمیشہ عاجزی اور حتیٰ کہ کمتر ہونے کے احساس کے ساتھ رجوع ہوتے، کیونکہ ہماری دانست میں کوئی ان کے علم کی وسعت اور گہرائی کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔”
این۔ رام، سابق ایڈیٹر ان چیف روزنامہ ’دی ہندو‘ نے بھی آن لائن تسلیم کرتے ہوئے کہا "اے جی نورانی ہمیشہ کے لیے صحافیوں کے صحافی تھے۔ علم سے بھر پور، کئی موضوعات پر ماہرانہ، دلیرانہ اور آزادانہ رائے دیتے تھے اور ان مسائل پر ان کی کارکردگی کا مظاہرہ حیرت انگیز اور اہمیت کا حامل تھا۔ وہ بھارت کی جمہوریت اور آئین پر گہرا یقین رکھتے تھے اور وکیل اور صحافی کی حیثیت سے شہریوں کے بنیادی حقوق کے دفاع میں مضبوطی سے کھڑے رہتے تھے۔
سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید نے اے جی نورانی کی بے مثال علمی استعداد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحقیق حتیٰ کہ پری انٹرنیٹ دور میں بھی مکمل تھی۔ وہ ایک غیر معمولی صلاحیت کے حامل اسکالر تھے، اپنی تحقیق میں مکمل اور اپنی تحریروں میں بےباک مسائل کی جڑ تک پہنچنے کا ان کا جذبہ ان کی وسیع و متنوع تحریروں میں نمایاں تھا، جو صرف ان کے دور ہی میں نہیں بلکہ آج بھی بے نظیر ہے۔‘‘
سینئر صحافی اور سابق ایڈیٹر ان چیف ’دی ٹریبیون‘ ہریش کھیر نے نورانی کو اپنے آپ میں ایک ادارے کے طور پر بیان کیا اور کہا ’’کئی بار سیکیورٹی ادارے اور یہاں تک کہ نام نہاد آزاد خیال لوگ بھی نورانی سے خفا رہتے تھے جو قانونی اصولوں اور آئینی رہنمائی کی بنیاد پر اپنے دلائل تحریر کرتے تھے۔‘‘
سدھارتھ ورد راجن، سینئر صحافی جو ’دی وائر‘ کے بانیوں میں سے ایک ہیں، انہوں نے اے جی نورانی کی غیر معمولی قوتِ ادراک کی تعریف کرتے ہوئے کہا، ’’اے جی نورانی کی عوامی معاملات میں شفافیت اور بحث پر زور کا کوئی اور مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔‘‘
سینئر وکیل کولین گونسالویس نے حراست، انسداد تبدیلی مذہب قوانین، آزادی اور انسانی حقوق پر اے جی نورانی کی تحریروں کو سراہا، خصوصاً جب عدالتیں ان معاملات کو سنجیدگی سے لینے میں پس و پیش کرتی تھیں۔اس تعزیتی اجلاس کا اہتمام سینیئر صحافی قربان علی نے کیا، جنہوں نے اے جی نورانی کی ہمہ جہتی شخصیت اور ان کے قریبی تعلقات کو اجاگر کیا۔ کے این شریواستو، آئی آئی سی کے ڈائریکٹر، نے کلمات تشکرادا کیے اور یوں بھارت کے سب سے معتبر قانونی اذہان میں سے ایک کو بھرپور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ جذباتی اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اکتوبر تا 12 اکتوبر 2024