افسانہ:روح کی ہجرت

ابو فہد ندوی

جس دن اس کی بیوی کا انتقال ہوا اس دن وہ اس کی قبر کے پاس بیٹھ کر بہت رویا تھا، حالانکہ زندگی میں اس سے بات بے بات لڑتا جھگڑتا رہتا تھا۔ اسے بچوں کی طرح روتا بلکتا دیکھ کر اس کے دوست یہ سوچ کر بہت حیران ہوئے کہ کیا کوئی آدمی اسی چیز کے نہ ہونے پر اتنا بے تاب ہو سکتا ہے، جس کے ہونے پر بھی اسے تکلیف رہی ہو؟آخر یہ کس طرح کی زندگی ہے کہ آدمی کے لیے ایک چیز کا نہ ہونا بھی اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا کہ اس کا ہونا۔ کیا زندگی کے بے شمار نادیدہ عناصر میں راحت نام کا کوئی عنصر نہیں؟
راحت اس سے صرف پانچ سال چھوٹی تھی مگر وہ اس کے لیے ہمیشہ جوان ہی تھی کہ وہ اس کے لیے چاروں ہاتھ پیروں سے دن رات بنا رُکے کام کرتی تھی۔ بڑھاپے کی اس دہلیز پر آکر اسے یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اس کی بیوی کی حیثیت اس کی زندگی کے انجن کی سی ہے۔ اگر وہ نہ رہے تو وہ مزید ایک دن بھی نہیں گزار پائے گا۔ راحت کے انتقال کے بعد ایسا تو نہیں ہوا کہ وہ اگلے ہی دن مرگیا، وہ زندہ ضرور رہا مگر اس کا جینا گویا مرمر کر جینے جیسا تھا۔
آج جب وہ نہیں رہی تھی تو خود اسے بھی یہ احساس قتل کیے دے رہا تھا کہ جب وہ اس کے پاس تھی تب اسے اس کے ہونے کا احساس اتنی شدت کے ساتھ کیوں نہ ہو سکا جتنی شدت کے ساتھ آج ہو رہا ہے، جب کہ وہ اس کے پاس نہیں ہے۔ راحت سچ مچ راحتِ جاں تھی۔ مگر یہ بات اس نے زندگی کے آخری پڑاؤ پر آکر جانی تھی جب راحت کی ضرورت اس کے سامنے بہت بڑی ضرورت بن کر آن کھڑی ہوئی تھی۔
موت صرف جسم پر واقع ہوتی ہے، روح پر نہیں۔ روح صرف انتقال کرتی ہے۔ جب تمہاری روح بھی تمہارے جسم سے خدائے لم یزل کی جنتوں کی طرف ہجرت کرے گی تو دونوں روحوں کا ایک بار پھر ملن ہو گا۔ اٹھو اور رونا دھونا چھوڑو، صبر کرو اور انتظار کرو۔ کسی دانا شخص نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے تسلی دینے کی کوشش کی مگر اسے کسی بھی صورت قرار نہیں آرہا تھا۔ وہ بے تحاشا روئے جارہا تھا، اس نے اپنا چہرہ بھی خاک آلود کرلیا تھا۔
ایک روح عالم بالا میں مقیم دوسری روحوں سے جا ملی ہے اور پیچھے رہ جانے والوں پر صبر کے سوا کچھ اور فرض نہیں۔دانا شخص نے اس کے شانے پر پھر سے ہاتھ رکھا مگر وہ اس بار بھی بے حس رہا۔
بیوی کی قبر پر جب وہ جی بھر کر رو چکا اور روتے روتے تھک گیا، پیاس کی شدت اس سے تقاضا کرنے لگی کہ اب اسے دوسری حالت کی طرف پھرنے کی ضرورت ہے، تو اس نے آنسو پونچھ لیے۔ اگر وہ جسم کے مطالبات سے مجبور نہ ہوتا تو خدا جانے ابھی اور کتنی دیر تک روتا رہتا۔ جب وہ قبر سے اٹھنے لگا تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اسے احساس ہوا کہ اب وہ بھی جلد یا بدیر اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہے۔ کچھ دیر کے لیے وہ بے جان سا ہو گیا۔ اسے خیال گزرا کہ اس نے بیوی کی موت کی صورت میں گویا اپنی مقروض زندگی کی پہلی قسط ادا کی ہے کہ وہ اس کی جان سے الگ ہونے کے باوجود بھی اس کی جان کا حصہ تھی۔
بیٹا یہ تو چھوٹی ہجرت ہے، ہر انسان کو اس سے بڑی ہجرت بھی کرنی ہے۔ جب وہ چھوٹا تھا تو اس کی ماں نے اسے اس کے ایک پریشان کن سوال پر بتایا تھا، مگر اس وقت وہ اس کا مطلب نہیں سمجھ سکا تھا۔ اس کے والدین کو اپنے وطن سے ہجرت کرنی پڑی تھی، جب وہ پگڈنڈیوں اور ناہموار راستوں پر چلتے چلتے تھک گیا تھا تو اس نے اپنی ماں سے سوال کیا تھا، ماں! ہم کہاں جا رہے ہیں اور ہم نے اپنا گھر کیوں چھوڑ دیا ہے؟ تو ماں نے جواب دیا تھا بیٹا! ہم ہجرت کر رہے ہیں، اور یہ چھوٹی ہجرت ہے جو بڑی ہجرت کی تیاری کے طور پر ہے۔اسے دانا شخص کی باتوں سے ماں کی باتیں یاد آنے لگیں۔ اسے اس بات پر بھی حیرانی ہوتی تھی کہ ماں تو پڑھی لکھی نہیں تھی پھر بھی اتنی گہری باتیں وہ کیسے جانتی تھی؟
بوڑھے حبیب کو جب جب بھی یہ خیال شدت کے ساتھ ستاتا تھا کہ اس کی تمام ذہنی و جسمانی صلاحتیں ایک ایک کر کے اس کا ساتھ چھوڑتی جارہی ہیں تو وہ کانپ کر رہ جاتا اور بھرائی ہوئی آواز میں خدا سے ہم کلام ہوتا۔ ’اے خدا! کیا تو مجھے قسطوں میں مار رہا ہے؟‘ مگر دوسری طرف سے اسے کبھی کوئی آواز سنائی نہیں دی۔ پھر وہ سوچنے لگتا کہ خدا تو سب سنتا ہے لیکن نجانے کیوں مجھے اپنے اضطراب کا جواب نہیں مل رہا ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کا یہ احساس شدت اختیار کرتا جا رہا تھا کہ دنیا اس سے دور بھاگتی جا رہی ہے۔
وقت گزرتا رہا اور وہ اپنے جسم کے حصے موت کے فرشتے کو قسط وار ادا کرتا رہا۔ ابتدا میں قسطوں کی ادائیگی کا وقفہ طویل تھا بعد میں جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا گیا قسطوں کی ادائیگی کا فاصلہ گھٹتا چلا گیا۔ اب تقریبا ہر روز ہی کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا تھا جو اس کی زندگی سے ایک قسط وصول کر کے موت کے حصے میں ڈال دیتا تھا۔ اب ہر واقعے کی حیثیت موت رخی ہوگئی تھی، بالکل اسی طرح جس طرح سورج مکھی کے کھیت میں سورج مکھی کے ہر پھول کا رخ سورج کی طرف ہوتا ہے۔ زندگی میں پیش آنے والا ہر چھوٹا بڑا واقعہ اسے موت کی طرف ایک قدم دکھیل دیتا تھا۔ زندگی جب عروج کے رخ پر ہوتی ہے تو زندگی کے تمام کَل پُرزے عروج کرتے ہیں اور زندگی جب زوال آمادہ ہوتی ہے تو اس کے تمام کَل پُرزے زوال کی طرف سفر کرتے ہیں۔
ایک رات جب اسے اس بات کا احساس ہوا کہ اب وہ کھانے پینے اور وصل وملاقات کی لذتوں کا بھی متحمل نہیں رہا کیونکہ اب وہ لذتیں بہم پہنچانے والی قوتوں سے محروم ہو گیا تھا۔ اگر معدہ درست کام نہ کرے تو کھانے پینے کی کیا لذت؟ اور جسم میں موجود عناصر کا توازن بگڑنے لگے تو شبِ وصل وشب ہجراں میں فرق کیسا؟ یہ سب جان کر اسے شدید رنج ہوا، اسے ایسا لگا جیسے اس صورت میں بھی اس نے اپنے جسم کی کئی قسطیں موت کے فرشتے کو ادا کی ہیں۔
قسطوں کی ادائیگی کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور وہ ستر کی دہائی کو عبور کر گیا۔ پہلے بال گئے، پھر دانت گئے اور پھر بینائی نے طوطا چشمی اختیار کرلی۔ دل کا کیا تھا وہ تو بس ایسے ہوگیا تھا جیسے بہتے پانی میں ڈوبتا ابھرتا کوئی بے کس انسان۔ جب بھی کوئی اسے بتاتا کہ آج کل دل کے امراض بہت بڑھ گئے ہیں تو وہ رنجیدہ خاطر ہو جاتا، اسے لگتا جیسے وہ بھی دل کا مریض ہے۔
جب اس کا آخری وقت آیا تو وہ ہڈیوں کے ایک پنجر کے مانند تھا۔ اب دماغ اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ اپنے ماتحت تمام اعضاء کو حکم دے سکے۔ اگر وہ کسی عضو کو حکم کرتا بھی تو اس میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ اس حکم کی بجا آوری کرسکے۔ ایک بار اس نے داہنے ہاتھ کو حکم دیا کہ اس کی ناک پر بھنبھناتی ہوئی مکھیوں کو بھگائے، ہاتھ نے حکم سنا اور حکم بجالانے کی کوشش میں سرہانے رکھے تکیے سے اٹھنے کے جتن کیے، ناک کے محاذات تک آیا مگر پھر بے جان ہو کر گر گیا اور پھر دوبارہ اٹھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ ایک بار اس نے ڈوبتے ابھرتے دل کو قرار کی حالت میں رہنے کو کہا، دل نے سنا بھی اور بہت چاہا بھی کہ وہ حالت قرار میں رہ سکے، کیونکہ وہ اپنے صاحب کی حکم عدولی نہیں کرنا چاہتا تھا، اس کوشش میں وہ بار بار ابھرا.. اور پھر ابھر کر قرار پانے کی جان توڑ کوشش میں ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔
دل کے جانے کی صورت میں یہ آخری قسط تھی جو اس نے موت کے فرشتے کو اس طرح ادا کی کہ اب اس کا سارا حساب بے باق ہوگیا تھا۔ جب روح نے محسوس کیا کہ یہ مکان اس کے لیے موزوں نہیں رہا تب وہ بھی دبے پاؤں گوشت پوست اور ہڈیوں کا ڈھانچہ چھوڑ کر دوسری روحوں کے دیس کی طرف پرواز کر گئی۔
آدمی تاحیات سامان اٹھائے پھرتا ہے مگر اس کے ساتھ تو خود اس کا جسم بھی نہیں جاتا، سامان تو دور کی بات ہے۔ یہ بات اس کی امی کہا کرتی تھیں مگر اس نے اس طرف کبھی دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ جب روح جو زندگی کا جوہر ہے وہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئی تو اس کے باقی ماندہ جسم کو مٹی میں دفن کر دیا گیا اور اس طرح جو مٹی کا قرض تھا وہ مٹی کو واپس کر دیا گیا اور جو چیز راست طور پر خدا کے اَمر سے تھی یعنی روح، وہ خدا کی وشال نگری کی طرف ہجرت کر گئی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جنوری تا 04 فروری 2023