
افسانہ: میری پینشن
مختار احمد قریشی
بڑی سی گاڑی بینک کے دروزاے پر رکی۔ اندر سے دو نوجوان باہر نکلے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا۔ گاڑی کے اندر ایک ضعیف شخص بیٹھا تھا، جھریوں سے بھرا چہرہ، کمزور ہاتھ، کانپتی انگلیاں اور نظروں میں ایک گہری اداسی۔ وہ چلنے سے قاصر تھا، سننے اور دیکھنے کی طاقت بھی ماند پڑ چکی تھی، مگر پھر بھی ایسا لگتا تھا جیسے وہ پورے گھر کا دلارا اور پیارا ہے۔
یہ کریم چاچا تھے، جو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو بینک آتے تھے، جہاں ان کے ساتھ گھر کے افراد احترام اور ادب سے چلتے، جیسے وہ سب کے حاکم ہوں۔ مگر حقیقت کچھ اور تھی۔
کریم چاچا کا اپنا وقت تھا، جب وہ جوانی میں مضبوط ہاتھوں سے محنت کرتے، اپنے بیوی بچوں کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لیے دن رات ایک کرتے۔ وہ سرکاری نوکری میں تھے، زندگی کی تمام تر خواہشیں پس پشت ڈال کر انہوں نے بچوں کی پرورش کی، انہیں تعلیم دلوائی، ان کے خوابوں کو پورا کیا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے گئے، بچے جوان ہوئے، نوکریاں مل گئیں، شادیاں ہو گئیں اور پھر آہستہ آہستہ وہ کریم چاچا کے لیے مصروف ہونے لگے۔
کریم چاچا کی پنشن ہی وہ واحد چیز تھی جو اب ان کے لیے اہم تھی۔ مہینے کی پہلی تاریخ آتی تو گھر میں ہلچل مچ جاتی۔ بڑے احترام کے ساتھ انہیں بینک لے جایا جاتا، ایک بڑی گاڑی میں، تاکہ وہ سب کی نظروں میں اہم لگیں۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ صرف پیسے کے احترام کے مستحق سمجھے جاتے، نہ کہ اپنے وجود کے۔
آج بھی وہی دن تھا۔ بینک کے اندر لوگوں کا ہجوم تھا، بڑی لمبی قطاریں تھیں، کچھ لوگ اپنے والدین یا دادا دادی کے ساتھ آئے تھے، مگر زیادہ تر ضعیف لوگ خود ہی آتے، جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔
کریم چاچا کو ان کے پوتے بینک کے دروازے تک سہارا دے کر لے گئے اور پھر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ وہ خود بینک میں کھڑے رہے، نہ انہیں وڈراول فارم بھرنے میں مدد دی گئی، نہ کوئی قطار میں ان کے لیے جگہ بنانے کو تیار تھا۔ لوگ آتے جاتے رہے، مگر کسی نے ان کی بے بسی کو محسوس نہ کیا۔
ابو جی، بس آپ کھڑے رہیے، ہم ابھی آتے ہیں، بڑا پوتا کہہ کر باہر نکل گیا، چھوٹا بھی اس کے ساتھ تھا۔
وقت گزرتا گیا، مگر وہ دونوں واپس نہ آئے۔ کریم چاچا ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اپنے کانپتے ہاتھوں سے جیب سے ایک کاغذ نکالنے لگے مگر انگلیاں لرز رہی تھیں، فارم ٹھیک سے پکڑ نہیں پا رہے تھے۔ قریب کھڑے ایک نوجوان نے یہ منظر دیکھا تو آگے بڑھ کر بولا:
چاچا، دیجیے، میں بھر دیتا ہوں۔
یہ سن کر کریم چاچا کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔ بیٹا، اللہ تمہیں خوش رکھے۔
نوجوان نے چند منٹوں میں فارم بھر کر ان کے ہاتھ میں تھما دیا اور کہا، اب آپ صرف دستخط کر دیجیے، میں آپ کے لیے قطار میں لگ جاتا ہوں۔
کریم چاچا نے ہاتھ بڑھایا، مگر انگلیاں دستخط کرنے کے قابل نہ تھیں۔ قلم بار بار لڑکھڑا رہا تھا، ہاتھوں کی لرزش روکنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر کمزوری آڑے آ رہی تھی۔ نوجوان نے فوراً ایک افسر کو بلایا اور کہا:
سر، کیا کریم چاچا انگوٹھا لگا سکتے ہیں؟ وہ دستخط نہیں کر پا رہے۔
افسر نے ہمدردی سے سر ہلایا اور فوراً انگوٹھے کے نشان کی اجازت دے دی۔ نوجوان نے کریم چاچا کا ہاتھ تھاما، انگوٹھا پیڈ پر لگوایا اور کاغذ پر ثبت کروا دیا۔
کچھ دیر بعد کریم چاچا کی پنشن کے پیسے ان کے ہاتھ میں آ چکے تھے، صرف ایک ہزار روپے۔
یہ وہی کریم چاچا تھے جن کے نام پر بڑی گاڑیاں چلتی تھیں، جو گھر کے سربراہ کہلاتے تھے، جنہیں ہر ماہ بڑی عزت کے ساتھ بینک لایا جاتا تھا۔ مگر آج جب پتہ چلا کہ ان کی پنشن کم ہو گئی ہے، تو گھر کے کسی فرد نے انہیں یہاں تک لانے کی زحمت نہیں کی۔ آج وہ بینک میں دو گھنٹے کھڑے رہے، مگر کوئی اپنا نظر نہیں آیا۔
بینک کے دروازے پر وہی نوجوان ان کے پاس آیا اور بولا، چاچا، آپ کو گھر تک چھوڑ دوں؟
کریم چاچا نے ایک نظر ادھر اُدھر دیکھا، گاڑی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ ایک ٹھنڈی سانس لی اور سر جھکا لیا۔
ہاں بیٹا، لے چل مجھے گھر۔
نوجوان نے انہیں سہارا دیا، ایک رکشہ بلایا اور کریم چاچا کو اس میں بٹھا دیا۔
جب وہ گھر پہنچے، تو دروازے پر کوئی کھڑا نہیں تھا۔ وہ خود رکشے سے اترنے لگے، مگر ہاتھوں کی کمزوری کی وجہ سے ٹھیک سے پکڑ نہ سکے اور گرنے لگے۔ رکشے والے نے فوراً انہیں تھاما اور دروازے تک لے گیا۔
دروازہ کھلا، اندر سے ان کا بڑا بیٹا باہر آیا۔ کریم چاچا کو رکشے میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔
ابا، آپ رکشے میں؟ کہاں گئے تھے؟
کریم چاچا نے ایک نظر اپنے بیٹے کو دیکھا، آنکھوں میں گہری چبھن تھی۔
وہیں، جہاں ہر ماہ جاتا ہوں، بینک۔ مگر آج مجھے لے جانے والا کوئی نہیں تھا۔ تم لوگ مجھے بینک اس لیے لے جاتے تھے کہ وہاں سے زیادہ پیسے ملتے تھے، مگر آج جب پینشن کم ہو گئی، تو تم لوگوں کو میرا ساتھ لے جانا بوجھ لگنے لگا۔
بیٹے کا چہرہ شرمندگی سے جھک گیا، مگر کچھ بول نہ سکا۔
اسی وقت دوسرے بیٹے کی بیوی بولی، ابا جی، وہ گاڑی خراب تھی، اس لیے نہیں جا سکے۔
کریم چاچا نے ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، گاڑی خراب تھی یا تمہاری محبت؟
یہ سنتے ہی سب خاموش ہو گئے۔ گھر کے ہر فرد پر ایک گہرا سکوت طاری ہو گیا۔
کچھ دیر بعد کریم چاچا کے پوتے جو بینک میں انہیں چھوڑ کر چلے گئے تھے، وہ بھی آ گئے۔ ان کے ہاتھ میں شاپنگ بیگز تھے، جو انہوں نے بازار سے خریداری کے دوران بھرے تھے۔
دادا جی، کچھ لائیں آپ کے لیے؟ بڑے پوتے نے خوشی سے پوچھا۔
کریم چاچا نے ایک گہری نظر ان پر ڈالی، پھر اپنا پرس کھولا، جس میں وہی ایک ہزار روپے رکھے تھے۔ ان میں سے سو کا نوٹ نکالا اور پوتے کے ہاتھ میں رکھ دیا۔
یہ لو بیٹا، یہ میری پینشن کا حصہ ہے، جو تمہیں چاہیے، لے لو۔
یہ الفاظ سنتے ہی پورے گھر میں سنّاٹا چھا گیا۔ سب کو احساس ہو چکا تھا کہ عزت پیسوں سے نہیں، دل سے ہوتی ہے۔
کریم چاچا خاموشی سے اپنے کمرے میں چلے گئے، مگر ان کے قدموں کی آہٹ پورے گھر میں گونجتی رہی۔
(کالم نگار مصنف ہیں اور پیشہ سے ایک استاد ہیں ان کا تعلق بونیار بارہمولہ سے ہے ان سے [email protected] 8082403001 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025