رئیس صِدیقی
کمار ایک سرکاری دفتر کے اکاؤنٹ سیکشن میں کلرک تھا۔ پہلی بیٹی کی پیدائش کے بعد وہ ہیڈ کلرک بن گیا تھا۔وہ بہت خوش تھا کہ بیٹی کی پیدائش کے بعد اس کی ترقی ہوئی۔ بیٹی کی پیدائش اس کے لیے مبارک ثابت ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد اسے ایک اور بیٹی ہوئی اور حسن اتفاق کہ وہ مزید ترقی پاکر سیکشن آفیسر بن گیا تھا۔ اب جس ڈپارٹمنٹ میں اس کی تقرری ہوئی تھی وہاں پہلے سے کہیں زیادہ اضافی آمدنی کے مواقع میسر تھے۔ وہ یہ سوچ کر بہت خوش تھا کہ اب وہ اپنی دونوں بیٹیوں کو کسی بڑے کالج میں پڑھائے گا۔ وہ خوش تھا کہ وہ ان کو اعلیٰ تعلیم دلوائے گا، وہ یہ سوچ کر خوش تھاکہ مالی اعتبار سے اس کا اور اس کے بچوں کا معیارِ زندگی بہتر ہوگا اور اپنی دونوں بیٹیوں کو افسر بنائے گا۔ وہ اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ مختلف طریقوں سے اپنے اور اپنی بیٹیوں کے مستقبل کے لیے بچانے لگا اور اضافی آمدنی سے اپنے گھر کے لیے مہنگی اشیا خریدنے لگا۔کچھ دنوں کے بعد اس نے ایک کار اور پھر گھر بھی خرید لیا۔ اب اس کی زندگی آسودہ ہونے لگی تھی۔ آسودگی تو حاصل تھی لیکن اطمینان اور سکون ندارد تھا۔
پہلے وہ آفس سے وقت پر سیدھا اپنے گھر پہنچتاتھا۔پہلی بیٹی کی پیدائش کے بعد تو وہ چار بجے کے بعد سے ہی بے قرار ہونے لگتا۔ وہ بار بار دیوار پر آویزاں گھڑی پر نظر ڈالتا اور آفس کا وقت پورا ہونے پر سیدھا اپنے گھر پہنچ کر سب سے پہلے اپنی بیٹی کو اپنی گود میں لیتا، اس کے ساتھ کھیلتا اوراس طرح اس کی ساری تھکن دور ہوجاتی تھی۔مگر اب افسر بننے کے بعد آہستہ آہستہ اس کی زندگی کا طرزِ عمل بدل گیا تھا۔ اب وہ آفس ٹائم کے بعد اپنے چندخاص ساتھیوں کے ساتھ دیر تک بیٹھنے لگا۔ اس کے ساتھی خصوصی قسم کی شراب کے ساتھ اعلیٰ قسم کے بھنے ہوئے کاجو اور بہترین قسم کے مختلف نمکین کا اہتمام کرتے۔ دھیرے دھیرے یہ محفل تاش اور قماش بازی میں تبدیل ہو جاتی۔
اس محفل میں کوئی اپنی بیوی کے تو کوئی اپنی سسرال کے تو کوئی اپنے بچوں کے تو کوئی اپنی بہو کے تو کوئی اپنے داماد کے قصے سناتا۔ ان قصوں میں درد، کرب، مایوسی، محرومی، شکایت، خواہش، آرزو اور امیدکی تڑپ ہوتی۔
اسی طرح وقت بہت تیزی سے گزر رہا تھا۔ اس کی بیٹیاں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہی تھیں۔ اب کمار بھی اپنی بیٹیوں کی شادی کی فکر اور مستقبل میں تنہائی کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔ وہ کہتا کہ ماں باپ اپنی پوری زندگی اپنی بیٹی کے لیے جیتے ہیں ، ان کو اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں، افسر بنانے کا خواب پورا کرتے ہیں اور کسی اچھے گھر، اچھے شوہر کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔اورایک وقت ایسا آتا ہے کہ بیٹی اپنے گھر کی ہو جاتی ہےاورماں باپ اکیلے رہ جاتے ہیں۔ ایسے میں ایک بیٹے کی کمی محسوس ہونے لگتی ہے جو اس کے ساتھ رہے، اس کے بڑھاپے میں اس کا ساتھ دے۔وہ اپنے بیٹے، بہو اور پوتے پوتیوں کے ساتھ خوش گوار بڑھاپا گزار سکے ۔
ایسے موقع پر اس کے ساتھی مشورہ دیتے ہیں کہ ابھی بھی بیٹے کے لیے کوشش کر سکتے ہو۔ اس پر وہ اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتاتا کہ میں نے ایسے کئی گھر دیکھے ہیں جہاں بیٹے کی چاہت میں چار چار بیٹیاں پیدا ہو گئیں اور ماں باپ کسی کے ساتھ بھی وہ انصاف نہ کر سکے جو ان کا حق تھا۔ یہ سن کر اس کا دوسرا ساتھی تسلی دیتے ہوئے کہتا کہ آج کل بیٹی بیٹے میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ بیٹی بھی نام کماتی ہے اور کسی بیٹے کی طرح ہی بیٹی بھی خیال رکھتی ہے۔ کمار ہوں کہتے ہوئے اپنا خیال ظاہر کرتا: لیکن میں اپنی بیٹی کے گھر میں دخل نہیں دینا چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ بار بار اپنا گھر چھوڑ کر ہماری خدمت کے لیے آئے اور وہ دو گھروں کے درمیان چکی کے دو پاٹوں کی طرح پستی رہے۔ اس کا تیسرا ساتھی اسے یاد دلاتا کہ بوڑھا ہونے میں ابھی کافی وقت ہے۔
کمار کسی فلسفی کی طرح اپنا تجربہ اور مشاہدہ بیان کرتا کہ دیکھتے ہی دیکھتے وقت بہت تیزی سے گزر گیا۔ہمارے بڑھاپے کا وقت بھی بہت جلد آجائے گا۔میں نے کئی بڑے بڑے افسروں کو دیکھا کہ ان کا بڑھاپا گھور تنہائی میں گزر رہا ہے۔ دھیرے دھیرے ان کی یہ تنہائی نفسیاتی بیماری میں بدل جاتی ہے۔ میں یہ سوچ کر خوف زدہ ہو جاتا ہوں کہ اگر میری بیوی مجھ سے پہلے اس دنیا سے چلی گئی تو میرا کیا ہوگا۔ میں تنہا نہیں رہ سکتا۔ میں اپنی بیٹی اور داماد کے گھر میں بھی نہیں رہ سکتا۔ ایسی صورت میں میرا کیا ہوگا؟ یہ کہتے ہوئے وہ سنبھل کر اٹھتا اپنی کار کی طرف بہکے قدموں کو جما کر رکھتا، کار چلاتے وقت سڑک کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھتا اور آہستہ آہستہ اپنے گھر پہنچ جاتا ہے۔
یہ اس کا روز کا معمول بن گیا تھا۔ درحقیقت، اب اس کی سوچ کا یہ کرب، اسکی زندگی کا لازمی حصہ بن گیا تھا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 دسمبر2023 تا 06 جنوری 2024