افسانہ

فرض شناس

حمید سہروردی

  ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ میں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں مگر میرے ذہن اور قلم میں ایک جیسی رفتار پیدا نہیں ہو رہی۔ کبھی وہ بھوت میرے سر پر سوار رہتا ہے کہ وہ ہر جگہ گھوم پھر رہا ہے جو مختلف انداز اور مختلف فکر اور تند وتیز لہجہ کے ساتھ۔ سنا ہے کہ اُس کے سر راون کے سروں سے بھی زیادہ ہیں۔ اِدھر جب سے ملک کی تقسیم عمل میں آئی اس کے سروں میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ وہ تو ہر جگہ ہے اور میں تو سوچتا رہتا ہوں کہ کہیں اُنگشت ششم تو نہیں ہوں زمین اور آسمان کے درمیان معلق! پھر کیا میرا شمار اس دنیا کی مخلوق سے الگ ہوتا جا رہا ہے؟ ایسا کیوں ہو رہا ہے……..ہر طرف دھواں، دھول، تیز رفتار زندگی کے آخر معنی کیاہیں۔یہی دھواں دھول چاروں اور بس ایک منظر……. ہر منظر میں سنگھاسن پر بیٹھا ہوا بھوت، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں۔ چہرہ پر بھوتی کرّ وفر اور جسم پر بھبھوت۔ کوئی تو دیکھے۔ وہ بھوت کیوں اس طرح ایک بے نام راستہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ کہیں میں خواب  سے تو نہیں گزر رہا ہوں۔ نہیں ہرگز نہیں خواب دیکھنا ترک کردیا ہے کب سے، جب شہر اور گلیاں خون کی ہولی سے رنگی ہوئی تھیں۔ کیوں تم خواب سے چھٹکارا پانا چاہتے ہو۔ کیا فرار سے تمہارے سامنے نظر آنے والا بھوت بھاگ جائے گا۔ نہیں میں یہ نہیں کہوں گا۔ وہ تو ہمارے مقدر کے ساتھ ہے۔ کیوں کہ ہم اپنے آپ سے ایمان دار اور دیانت دار ہونے کے وعدے سے مکر کر رہ گئے ہیں۔ہاں یہ سچ ہے کہ ہمارے نورانی چہرے اور کٹھن عبادتیں اور نیک باتیں فرقوں میں بٹ کر رہ گئی ہیں۔ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ ہم ایک ہیں پھر انیک کیوں کر ہوئے؟
  آسمان سے بھی بجلی گرجتی ہے۔ طوفانی بارش کے آثار چاروں طرف نظر آرہے ہیں اس وسیع وعریض میدان میں، میں اکیلا کیوں رہ گیا ہوں۔ میری ہر بات پر میرے دوست تمسخرانہ انداز میں کہتے ہیں گیا وہ زمانہ جب خلیل خاں فاختے اُڑایا کرتے تھے۔ اُترو میدان میں، تمہیں ہی کرنا ہوگا۔ کیوں میدان سے بھاگ کر کیا بادل میں کود کر جان دے دوگے۔ یہاں کوئی کسی کا ساتھی نہیں، تم چاہے کتنے ہی بہادر ہو مگر اکیلا آدمی کیا کر سکتا ہے ہم تو ایک سے انیک اُسی طرح ہوگئے جس طرح بھوت کے سر ایک ہوکر بھی انیک ہی نظر آتے ہیں۔
  وہ چلچلاتی ہوئی دھوپ اور گرم ریت کے میدانوں میں سفر کرنے کے لیے بس ایک ہی راستہ ہے تم چپ رہوگے۔مگر میں یہ طریقہ کیوں اختیار کروں۔ میں چیخوں گا اور بلند آواز سے چیخوں گا۔ میں اپنا حق لے کر رہوں گا چاہے اس کے لیے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
  بادل پھر گرجتے ہیں چاروں طرف بارش ہی بارش کے آثار نظر آرہے ہیں۔ بارش کیوں نہیں برستی، پھر وہ بھیانک منظر اور میرے کانوں میں گونجتی زمین کی آواز جو ایک ہی پل میں کہیں سے کہیں ڈولتی جارہی ہے۔ ہزاروں مکان زمین سے اُکھڑ گئے کئی انسانی جانیں تباہ و برباد ہوگئیں۔ لاشوں کی پہچان بھی اس طرح ہوگی جس طرح گزشتہ برسوں سے ہم تشخص کی کوشش میں بے شناخت ہوتے جا رہے ہیں۔ہم اپنی تہذیب، ثقافت، اپنی زبان سے آہستہ آہستہ کاٹے جارہے ہیں۔ مگر زمین میں زلزلہ کیوں پیدا ہوا۔ زلزلہ ہوا۔ یہ تو قدرت کی طاقت کا مظاہرہ ہے مگر ابھی سنبھلا نہیں۔ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ زمین پیروں کے نیچے سے سرک رہی ہے اور اب آسمان سے بارش اور زمین سے پانی اُبل رہاہے کہیں کوئی جائے اماں نہیں۔
  پھر یہ وسیع وعریض میدان، سردی سے جسم ٹھٹھرتا جا رہا ہے، بھوت کے سر جیسے کے دیے میں وہ ہلتے بھی نہیں۔
  دیکھو لوگو سامنے دیکھو کوئی آرہاہے۔ شاید اب زمین پر امن ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فساد بھی ہو۔ خدشات کے درمیان زندگی گزارنا کس قدر کٹھن ہے۔ تم جانو، ہم سب لبِ بام ہوتے جارہے ہیں۔ تو سوچو کہ کون سا راستہ تمہارے لیے سلامتی کا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بھوت کے سر غائب ہوگئے۔ ہم نے اپنی شناخت ہی نہیں رکھی کیا ہم انیک سے ایک بھوت کیسے ہوگئے۔
چاروں طرف بارش…….
میں نے دیکھا……کیا تم نے بھی دیکھا………
میں نے بہت پہلے ہی دیکھا……جو تم دیکھ رہے ہو…..!
شاید میرے اندر کا حیوان، حیوانیت کو بے پردہ کرنے کے درپے ہے۔ پھر وہ ’’صحیفہ‘‘ میں لکھا ہوا حرف، حُب، حُب، حُب…..
ہم اپنے ہی فرقوں میں مست ہوگئے۔
پھر اس کی سزا بھگتو……
میں تھکتا جا رہا ہوں۔ میرے چاروں طرف دھول،دھواں،خون ہی ہے….میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں۔
نہیں تھکنا نہیں ہے…..تمہیں پورے عزم واستقلال کے ساتھ’ مقدس صحیفہ‘ کے ساتھ چلنا ہے وہی تمہارا مقدر بنائے گا مگر کیسے؟
کہو جو لکھا گیا ہے۔ کہو….کہو اس طرح سے تمہاری گونج سارے ماحول میں گونجتی رہے۔ ایک ہو یا کئی…..گونج کیا یہ ممکن ہے؟
کیا ممکن نہیں!
میرے سامنے تو بھوت ہے۔
نہیں تمہارے سامنے ’مقدس صحیفہ‘ ہے۔
اِنَّ اللہ تَوابٌ رَحِیمٗ
پھر آگے بڑھو……
آگے بڑھو……
آگے بڑھو……
بارش موسلا دھار بارش کوئی چہرہ نظر نہیں آرہاہے۔ مگر تم کون ہو…..میں کون ہوں…..!
آسمان میں ایک تیز بجلی چمکتی ہے…..
تم کون
میں کون ہوں
تم…….
میں………..
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 اکتوبر تا 21 اکتوبر 2023