افسانہ

شب خون

فاضل شفیع بٹ، کشمیر

’’جج صاحب میں یتیم ہوں۔ یہ میرے باپ کی زمین ہے اور گاؤں کے لوگ میری زمین کو ہڑپ کرکے عید گاہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں‘‘ ساحل جج صاحب کے سامنے انصاف کی بھیک مانگ رہا تھا۔
’’نہیں۔۔۔۔ جج صاحب، یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ زمین سرکاری ہے اور ہمیں وہاں عید گاہ تعمیر کرنے کا پورا حق ہے‘‘۔ گاؤں کا مکھیا چودھری خضر اپنی آواز بلند کر کے بولا۔
’’چودھری صاحب، زمین سرکاری ہے یا اس بچے کی، اس کا فیصلہ کرنے کے لیے میں بیٹھا ہوں۔ آپ اس معاملے میں اپنی دخل اندازی بند کریں تو بہتر رہے گا‘‘ ۔۔ جج صاحب نے قدرے سخت انداز میں حکم دیا۔
پچیس سالہ ساحل دنیا میں قدم رکھتے ہی اپنے باپ کلیم الدین کے سائے سے محروم ہوا تھا۔ کلیم الدین نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنی جمع پونجی سے لبِ سڑک ایک زمین کا ٹکڑا خرید لیا تھا اور اس کی موت کے فوراً بعد مکھیا چودھری خضر اس پر ناجائز طریقے سے قبضہ کر کے وہاں مسجد کے لیے دکانیں تعمیر کرنے کی ترکیب سوچنے لگا، جس میں وہ ناکام رہا۔ ساحل کی زمین پر کبھی قبرستان تو کبھی عید گاہ کا بورڈ چڑھا دیا گیا۔
مکھیا کے قریبی ساتھیوں میں وہی لوگ شامل تھے جنہوں نے ساری عمر سرکاری نوکری کر کے رشوت کی حرام کمائی سے اپنے اپنے گھروں کو آباد کیا تھا۔ نوکری سے سبکدوش ہوتے ہی انہوں نے مکھیا کے ساتھ مل کر گاؤں کے اہم فیصلے لینے شروع کیے۔ جس آدمی نے اپنی زندگی میں تیس پنتیس سال تک مسلسل رشوت کی کمائی سے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالا ہو، اس سے کیسے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اس کے فیصلے شفاف اور انصاف پر مبنی ہوں گے۔
ساحل اور اس کی بیمار ماں کو مکھیا گینگ نے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا۔ مکھیا گینگ کے علاوہ گاؤں میں اسجد کی سرپرستی میں ایک اور گینگ سرگرم تھی۔ اسجد چند جواں سال لڑکوں کی مدد سے گاؤں کے لوگوں کو مذہب کے نام پر اکسانے کا کام بخوبی انجام دیتا تھا۔ اسجد ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا اور اس کا باپ گاؤں میں ایک معزز شہری کی حیثیت رکھتا تھا۔ اسجد کا گینگ گاؤں میں ہمیشہ نت نئے فتنے پیدا کرتا اور مذہب کے نام پر لوگوں کو بلیک میل کرتا تھا۔
ساحل کی زمین کو لے کر اسجد کے گینگ نے لوگوں کو کافی اکسایا یہاں تک کہ انہوں نے ساحل کا جینا حرام کر دیا تھا۔ اسجد اور اس کے ساتھیوں سے تنگ آکر ساحل نے اسجد کے والد سے شکایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ بے بس ساحل بوجھل قدموں کے ساتھ اسجد کے گھر پہنچ گیا۔ اسجد کے گھر کے حالات دیکھ کر ساحل چونک گیا۔ اس نے ایک کمرے میں اسجد کے والد، اس کی ماں اور بھائی کو زار و قطار روتے ہوئے دیکھا۔ وجہ دریافت کرنے پر پتا چلا کہ اسجد نے ان لوگوں کی خوب مار پیٹ کی تھی۔ اس نے اپنے بزرگ باپ کو بھی نہیں بخشا تھا۔
ساحل حیران و پریشان یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ جو شخص لوگوں کو اپنے والدین کی عزت کرنے کی ترغیب دیتا ہے، جو ہمیشہ دین اسلام کی تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کراتا ہے، جو گاؤں کے لوگوں کے لیے ایک نیک انسان کی حیثیت رکھتا ہے، بھلا ایسا شخص اس درجہ خود غرض اور مردہ ضمیر کیسے ہو سکتا ہے؟
ساحل، اسجد کی اصل حقیقت جان چکا تھا۔ دراصل اسجد سیاست میں اپنے قدم سنبھالنے کے لیے کوئی گہری چال چل رہا تھا۔ ساحل نے اسجد کا پردہ فاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اس کی باتوں کا مذاق اڑایا گیا۔ مذہب کے اس کھیل میں اسجد نے واقعی لوگوں کو اندھ بھکت بننے پر مجبور کیا تھا۔
ساحل نے وقت کے سیاست دانوں سے مدد طلب کی۔ سیاست دانوں کے لیے یہ ایک دلچسپ موضوع تھا۔ ایک طرف ساحل تن تنہا اپنے حق کی لڑائی لڑنے میں سر گرداں تھا اور دوسری جانب پورے گاؤں پر ساحل کی زمین پر عید گاہ تعمیر کرنے کا بھوت سوار تھا۔ سیاست دانوں نے ہمیشہ کی طرح حق کا ساتھ نہ دیتے ہوئے اکثریت کا ساتھ دینے کا روایتی فیصلہ کیا۔
کسی یتیم کا حق مار کے عید گاہ تعمیر کرنا اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ کیا کسی یتیم کی زمین ہڑپ کر اس جگہ ایک بھی سجدہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو سکتا ہے؟ کیا چودھری خضر اور اسجد خود سے پہل نہیں کرسکتے؟ کیا وہ اپنی تھوڑی سی زمین اس نیک کام کے لیے نہیں دے سکتے تھے؟ آخر وہ کس چیز کو جدوجہد کا نام دے رہے تھے؟ دین اسلام نے یتیموں کو جا بجا حقوق سے نوازا ہے۔ چودھری خضر اور اسجد جیسے لوگ جو خود کو دین اسلام کے ٹھیکیدار سمجھتے ہیں، وہ ہمیشہ اپنی جھوٹی اور من گھڑت باتوں کو حق سے تشبیہ دیتے اور گاؤں کے لوگ بھی آنکھ بند کر کے ان پر بھروسہ کرتے تھے۔
ساحل کی شکستگی کے لیے گاؤں سے چندہ جمع کرنے کا حکم صادر کیا گیا۔ آناً فاناً چار لاکھ روپے کا چندہ جمع ہوا۔ مسجد کے خزانے سے بھی دو لاکھ روپے اس کام کے لیے لیے گئے جس کو حق بجانب قرار دے کر مولوی صاحب نے بھی فتویٰ جاری کردیا۔
لاچار ساحل اندر سے ٹوٹ چکا تھا۔ دن بھر مزدوری کر کے ایک تو اپنی بیمار ماں کا خیال رکھتا اور باقی پیسہ کیس کی سماعت پر خرچ ہوتا۔ ساحل اپنی قسمت سے بیزار تھا۔ اگر اس کا مرحوم باپ زندہ ہوتا تو شاید آج اس کو یہ مصیبت کے دن نہ دیکھنے پڑتے۔ کیس کی سماعت کا خرچہ دھیرے دھیرے ساحل پر بوجھ بننے لگا۔
چودھری خضر اور اسجد بالآخر ساحل کے وکیل کو اپنے جال میں پھنسانے میں کامیاب ہو گئے۔ وکیل نے چھ لاکھ روپے کے عوض حق کی لڑائی کو چھوڑ کر دنیاوی زندگی کو آباد کرنے کو ترجیح دی۔
گاؤں والوں نے شرعی ہلاّ بول کر ساحل کی زمین پر قبضہ کیا اور وہاں ایک خوبصورت عید گاہ تعمیر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ چودھری خضر نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور اسجد گاؤں کا نیا مکھیا بننے میں کامیاب ہو گیا۔
ایک سال بعد چودھری خضر کی نماز جنازہ اسی عید گاہ میں ادا کی گئی۔ آج ساحل کی نظر جب عید گاہ پر پڑتی ہے، تو اسے اپنے یتیم ہونے پر افسوس ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ اسی سوچ میں گم رہتا ہے کہ ایک یتیم کی اراضی پر دین کے نام پر شب خون مار کر کیا اس عیدگاہ میں لوگوں کی نماز اللہ کے حضور قبول بھی ہوتی ہوگی؟
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اگست تا 26 اگست 2023