افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے بھارت کی پہل

طالبان 2.0 کے ساتھ رابطہ، خطے میں نئی سفارتی حکمت عملی کا آغاز

اسد مرزا

گزشتہ ہفتے بھارت کی قیادت نے ایک غیر معمولی سفارتی پیش رفت کے تحت ملک کے اعلیٰ ترین سفارتی افسر، خارجہ سکریٹری وکرم مصری کو 8 جنوری 2024 کو دبئی میں افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کے ساتھ ایک ملاقات کے لیے بھیجا۔
یہ ملاقات پاکستان اور افغانستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں ہوئی ہے اور بہت سے لوگ اسے افغانستان کی سیاست سے پاکستان کو باہر نکالنے کے لیے بھارت کے اقدام کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے کبھی بھی افغانستان یا طالبان سے اپنے تعلقات ختم نہیں کیے۔ درحقیقت غیر سرکاری طور پر بھارتی انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ 1996 میں طالبان 1.0 کے افغانستان کے سیاسی منظر نامے پر ابھرنے کے بعد سے ان کے ساتھ رابطے کا سلسلہ مسلسل قائم رکھا ہے۔
عملی طور پر بھارت نے طالبان کو بالکل نظر انداز نہیں کیا ہے۔ 2017 کے ماسکو ڈائیلاگ اور 2020 میں دوحہ میں ہونے والے انٹرا افغان امن مذاکرات میں بھارتی نمائندے موجود تھے، مزید قطر میں بھارت کے سفیر نے طالبان کے نمائندوں سے ان کے دوحہ دفتر میں ملاقات کی تھی۔ جون 2022 میں پاکستان، افغانستان اور ایران کے جوائنٹ سکریٹریوں نے کابل میں بھارتی سفارت خانے میں ایک تکنیکی ٹیم بھیجنے کے لیے اہم طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اس کے بعد بھارت نے طالبان کو ممبئی میں افغان قونصل خانے میں نیا قونصل جنرل تعینات کرنے کی اجازت بھی دے دی۔
کابل اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات میں حالیہ گرم جوشی کوئی اچانک پیش رفت نہیں ہے بلکہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے خاموش سفارت کاری کا نتیجہ ہے اور بھارت نے طالبان حکومت کے ساتھ غیر رسمی بات چیت شروع کی ہے۔
اگرچہ نئی دہلی کی طرف سے ابھی تک طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے لیکن بھارت نے غیر جانب دارانہ اور غیر فیصلہ کن انداز اپنا رکھا ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت نے اس عدم مداخلت کو سراہا ہے جس سے باہمی رضا مندی کی سمجھ پیدا ہوئی ہے۔
مزید برآں، پاکستان کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کی سلامتی اور تزویراتی مفادات کی صف بندی بھی اتنی ہی اہم ہے۔ سیکیورٹی حکام اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ بھارت نے ماضی کے تجربات سے سیکھا ہے اور اب وہ پڑوسی ریاستوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی اہمیت کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے، جب تک کہ تعلقات منسوخ کرنے کی واضح اور معتبر وجوہات نہ ہوں۔ اس تناظر میں نئی دہلی ایک ایسے وقت میں اپنے قومی سلامتی کے مفادات کو محفوظ بنانے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے جب خطے میں جغرافیائی سیاست عروج پر ہے۔
اطلاعات کے مطابق خارجہ سکریٹری نے میٹنگ میں افغان عوام کے ساتھ بھارت کی دیرینہ دوستی اور دونوں ممالک کے درمیان گہرے ثقافتی اور سماجی تعلقات کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے افغانستان کو اپنے لوگوں کی فوری ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھارت کی حمایت اور عزم کا بھی یقین دلایا ہے۔
بات چیت میں افغانستان میں جاری بھارتی انسانی امداد کے پروگراموں کا جائزہ شامل تھا۔ افغان وزیر نے افغان عوام کے ساتھ غیر متزلزل حمایت اور حکومتی تبادلوں پر بھارت کا شکریہ ادا کیا ہے۔ موجودہ ترقیاتی چیلنجوں کو تسلیم کرتے ہوئے دونوں فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بھارت اپنی موجودہ انسانی کوششوں کی تکمیل کرتے ہوئے جلد ہی اضافی ترقیاتی پروجیکٹوں کی نشان دہی کرے گا۔
2021 سے افغانستان کے لیے بھارت کی انسانی امداد وسیع اور متنوع ہے۔ افغانستان کی درخواست کا جواب دیتے ہوئے بھارت نے مزید مادی امداد، خاص طور پر صحت کے شعبے اور پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے عہد دہرایا اور دونوں فریقین نے کھیلوں میں اپنے تعاون کو مضبوط بنانے پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے تجارت کو بڑھانے اور افغانستان کو انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے چا بہار بندرگاہ کے استعمال کو فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے۔
درحقیقت چا بہار بندر گاہ کئی وسطی ایشیائی جمہوریہ کے علاوہ ایران اور افغانستان دونوں کے ساتھ کثیرالجہتی دوستی کو فروغ دینے کا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔ چا بہار سے زاہدان کے راستے کابل کا فاصلہ سڑک یا ریل کے ذریعے صرف 1196 کلومیٹر ہے۔ اس طرح یہ بندرگاہ افغانستان کے ساتھ ایک اہم رابطے کے طور پر کام کر سکتی ہے جب کہ پاکستان بھارت کو بار بار اپنے سڑک یا ریل نیٹ ورک کا استعمال کرنے کی اجازت دینے سے گریز کرتا رہا ہے۔ چا بہار بندرگاہ پاکستان کو شامل کیے بغیر زاہدان کے راستے افغانستان کو براہ راست راستہ فراہم کرتی ہے۔ نتیجتاً اس سے تجارت کے لیے افغانستان کا پاکستان پر انحصار بھی کم ہوتا ہے اور بھارت کے ساتھ مضبوط اقتصادی تعلقات استوار کرنے میں مدد ملتی ہے جس کے ذریعے تجارت کو ہموار اور زیادہ موثر بنایا جا سکتا ہے۔
تزویراتی طور پر طالبان کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات سے بھارت کو چین کے BRI پروجیکٹ کے ذریعے افغانستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک میں چینی دباؤ کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ مزید یہ کہ بات چیت کا بڑھتا ہوا طریقہ کار بھارت کو افغانستان سے کام کرنے والے مخالف عناصر جیسے لشکر طیبہ (LeT) جیش محمد (JeM) اور اسلامک اسٹیٹ خراسان صوبہ (ISKP) کو روکنے کے لیے طالبان پر اثر انداز ہونے میں مدد کر سکتا ہے۔
اس سلسلے میں یہ بھارت کے لیے زیادہ بہتر ہوگا اگر وہ شیر محمد عباس ستانکزئی جیسے طالبانی رہنماؤں کے ساتھ مل کر طالبان 2.0 کے سینئر عہدے داروں اور رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے نیا طریقہ وضع کرے۔ ستانکزئی کو کافی بڑی حد تک بھارت نواز مانا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے بطور ایک ملٹری افسر انڈین ملٹری اکیڈمی میں تربیت حاصل کی تھی، بالکل اسی طرح جیسے بھارت کے پرانے دوست حامد کرزئی نے بھی بھارت میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ایک اور ادارہ جو بھارت اپنے فائدے کے لیے طالبان رہنماؤں پر کسی قسم کا مذہبی دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے، وہ ہے دارالعلوم دیوبند۔ بہت سے پرانے طالبان رہنماؤں کو پاکستان میں دیوبندی مدارس اور افغانستان-پاکستان کے سرحدی علاقے میں قائم مدرسوں سے تربیت حاصل ہوئی ہے۔ جنہیں کئی سابق دیوبندی طالب علم چلا رہے ہیں۔ تاہم، اس سلسلے میں بھارت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ دارالعلوم کے سیاسی رہنماؤں سے نہیں بلکہ مذہبی رہنماؤں سے اس سلسلے میں مدد حاصل کرے، کیونکہ ایسے سیاسی رہنماؤں کا طالبانی رہنماؤں کے ساتھ نہ تو کوئی ربط ہے اور نہ ہی ان کا کوئی مؤثر اثر۔
نومبر 2024 میں ممبئی میں افغان قونصل خانے میں اکرام الدین کامل کو قائم مقام قونصل کے طور پر تعینات کر کے طالبان کی قیادت نے بھی اسی طرح کا نقطہ نظر ظاہر کیا ہے جس طرح بھارت میں طالبان کی جانب سے پہلی تقرری۔ حامد کرزئی کی طرح کامل نے بھی سات سال تک بھارت میں رہ کر تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے نئی دہلی میں ساؤتھ ایشیا یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔
لہٰذا اگر طالبان رہنما ایسے لوگوں کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں جن کا بھارت سے کوئی تعلق ہے، اسی طرح بھارت بھی ایسے لوگوں کو استعمال کر کے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے جن کا طالبان قیادت سے تعلق ہو۔ یہ دونوں کے لیے اپنے مشترکہ دشمن پاکستان کو پیچھے چھوڑ کر جیت کی صورت حال بنانے میں اور افغانستان کی تعمیرِ نَو کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج
ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)
***

 

***

 ’’ حکومتِ ہند کا طالبان 2.0 کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ نہ صرف خطے میں بلکہ خاص طور پر پاکستان، جو ان دونوں ممالک کا مشترکہ حریف ہے، اور مغربی دنیا کی قیادت کے لیے حیرت کا باعث بنا ہے۔ یہ جرأت مندانہ اقدام بھارت کے علاقائی سلامتی کے خدشات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک مضبوط علاقائی رہنما کے طور پر ابھارنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 جنوری تا 01 فروری 2025