اہل غزہ کو وطن بدر کرنے کا منصوبہ
اسرائیل کے لیے 2000 پاونڈ کے بموں سمیت مہلک ہتھیاروں کی فراہمی بحال
مسعود ابدالی
قیدیوں کا سراغ لگانے کے لیے غزہ پر امریکی اور برطانوی ڈرونوں کی 60ہزار پروازیں
بے گھر اہل غزہ اور جنوبی لبنان کے لوگوں کے اپنے گھروں کی طرف جلوس
پولینڈ میں اسرائیلی وزیر تعلیم پر نسل کشی کے الزام میں مقدمہ ۔ایک تہائی سے زیادہ امریکی نوجوان غزہ مزاحمت کاروں کے حامی
غزہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے کا ایک ہفتہ مکمل ہونے پر 25 جنوری کو اسرائیل کی چار خاتون فوجی رہا کر دی گئیں۔ معاہدے کے تحت ہر زندہ خاتون فوجی کے عوض 50 فلسطینی رہا ہونے ہیں، چنانچہ اس ہفتے رہا کی جانے والی خواتین فوجیوں کے بدلے 200 فلسطینیوں کو آزادی مل گئی۔ ‘سنگین جرائم’ میں ملوث سزا یافتہ افراد کو اسرائیل بدر کر دیا گیا ہے۔ باقی 130 افراد غرب اردن، غزہ اور مشرقی بیت المقدس میں اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں۔ توقع ہے کہ آگے مزید قیدیوں کا تبادلہ ہوگا۔
ابتدا میں معاہدہ امن کے ضامن کے حیثیت سے امریکہ مخلص نظر آرہا تھا۔ حلف اٹھانے کے بعد اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے زور دیا کہ پہلے مرحلے کے ختم ہونے سے پہلے ہی پائیدار امن کے لیے کوششیں تیز کر دی جائیں۔ لیکن اب واشنگٹن کی نیت مشکوک لگ رہی ہے۔ جمعرات 23 جنوری کو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فون پر اسرائیلی وزیر اعظم سے گفتگو کی جس میں انہوں نے نیتن یاہو کو یقین دلایا کہ اسرائیل کی مستقل حمایت صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی اولین ترجیح ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے مطابق روبیو نے حماس اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی کامیابیوں پر نیتن یاہو کو مبارکباد دی اور غزہ میں قید باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے انتھک محنت کرنے کا عہد کیا۔ اسی کے ساتھ صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے لیے 2000 پاونڈ کے بموں پر سے پابندی ہٹالی۔ غزہ میں شہری نقصانات کے پیش نظر سابق صدر بائیڈن نے اسرائیل کے لیے ان ہلاکت خیز بموں پر پابندی عائد کردی تھی۔ امریکہ کی آن لائن خبر رساں ایجنسی Axios کے مطابق لاک ہیڈ مارٹن کے تیار کردہ 1800 کے قریب MK-84 بم اگلے چند روز میں اسرائیل روانہ کر دیے جائیں گے۔
دوسری جانب غزہ کے مستقبل کے بارے میں سفارتی و سیاسی سطح پر جس قسم کی گفتگو ہو رہی ہے اس سے فلسطینی عوام اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ 22 جنوری کو نشریاتی ادارے NBC نے خبر دی کہ امریکہ اہلِ غزہ کی ایک بڑی تعداد کو انڈونیشیا منتقل کرنے پر غور کر رہا ہے۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ تباہ حال غزہ کی تعمیر نو کے دوران انتقال آبادی ضروری ہے اور تعمیر مکمل ہونے پر ان لوگوں کو غزہ واپس بلا لیا جائے گا۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ اس حکمت عملی کے اصل محرکات غزہ کے ساحل کو دنیا کا سب سے بڑا Beachfront اور مشرقی حصے میں میکانیکی زراعت کے ذریعے زیتون و کھجور کا مرکز بنانے کے منصوبے ہیں۔عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ خالی ہو جانے کے بعد اس پٹی پر قبضہ بستیاں تعمیر کرکے اسرائیل کا قبضہ مکمل کر لیا جائے گا۔
اس ‘انکشاف’ کے دوسرے دن امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنے انڈونیشی ہم منصب جناب سوجیونو (Sugiono) سے فون پر گفتگو کی اور انڈونیشیا کے مشرق وسطیٰ امن بات چیت کا ‘حصہ’ بننے پر خوشی کا اظہار کیا۔ دو دن بعد ‘انخلا بلکہ تطہیر غزہ’ منصوبے کا اظہار امریکی صدر ٹرمپ نے خود کیا جب 25 جنوری کو لاس ویگاس سے میامی واپس آتے ہوئے اپنے صدارتی طیارے میں انہوں نے اس معاملے پر صحافیوں سے گفتگو کی۔ صدر ٹرمپ نے انڈونیشیا کے بجائے عرب ممالک کو اس ‘کار خیر’ میں حصہ لینے کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا ‘وہ چاہتے ہیں کہ اردن، مصر اور دوسرے ممالک زیادہ سے زیادہ اہل غزہ کو اپنے یہاں محفوظ و آرام دہ جگہ فراہم کریں تاکہ جنگ سے متاثرہ علاقے کو ‘صاف’ کیا جاسکے’، امریکی صدر کے اس بیان پر قطر سے مزاحمت کار قیادت کا شدید رد عمل سامنے آیا۔ ان کے ایک رہنما نے کہا ‘فلسطینی اپنی مقدس سر زمین سے بے دخلی کی کئی سازشوں کو ماضی میں ناکام بنا چکے ہیں اور نسل کشی و نسلی تطہیر کی اس مہم کو کچل دینے کے لیے بھی اہل غزہ پر عزم ہیں۔
قیدی خواتین کی رہائی کے مناظر اسرائیل میں بہت دل چسپی اور شوق سے دیکھے گئے۔ ہزاروں کے مجمع میں ان جنگی قیدیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا، جن کی بدن بولی، چہرے بشرے اور وضع قطع سے شادمانی ٹپک رہی تھی۔ قیدیوں کی ‘میزبان’ خواتین نے سفر کے لیے ان کے کپڑے دھو کر استری کیے اور انہیں خوشبویات فراہم کی گئیں۔ خاتون سپاہیوں کو نئی فوجی وردی اور خوبصورتی سے فریم کی گئی ‘سندِ حراست عطا کی گئیں۔ ہر سپاہی کو فلسطینی پرچم سے مزین ڈوری والا شناختی کارڈ پہنایا گیا۔ دوران حراست لی گئی ان کی تصاویر اور مقام گرفتاری کی تمام معلومات کو ایک گفٹ بیگ میں رکھ کر انہیں پیش کیا گیا۔ آزادی فلسطین کی جدوجہد کے بارے میںبصری رپورٹ اور قرآن کریم کا عبرانی نسخہ بھی تحفے کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں اسرائیلی جیلوں سے جو قیدی رہا ہوئے، ان میں اکثر کی حالت خراب تھی۔ ان کے چہروں سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ دوران حراست انہیں مناسب غذا نہیں فراہم کی گئی۔ لباس بوسیدہ، بال بکھرے ہوئے اور بہت سے قیدی نقاہت کے باعث لاٹھیوں کے سہارے یا ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چل رہے تھے۔
انتہائی پر شکوہ انداز میں جنگی قیدیوں کی حوالگی سے جہاں اہل غزہ نے اپنی اخلاقی برتری ثابت کر دی وہیں پندرہ ماہ تک ان قیدیوں کا سراغ لگانے میں نا کامی پر اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کے خفیہ ادارے خود اپنے حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ سراغ رساں اداروں کے مطابق غزہ کے چپے چپے پر وحشیانہ اسرائیلی بمباری کے ساتھ برطانوی اور امریکی فضائیہ کے جدید ترین ڈرون اور دوسرے حساس ترین جاسوس طیاروں نے اوسطاً ہر روز ڈیڑھ سو سے زیادہ فضائی مشن داغے۔ امریکی وزارت دفاع المعروف PENTGON کے ترجمان بریگیڈیر جنرل پیٹرک رائیڈر نے نومبر 2023 میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ جدید ترین M-9 Reaper ڈرون سارے غزہ میں قیدیوں کا سراغ لگانے کے لیے مسلسل پرواز کر رہے ہیں۔ خفیہ سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے سراغ رساں صحافتی ادراے Declassified UK کے مطابق اس مقصد کے لیے قبرص کے برطانوی اڈے اکروتیری (Akrotiri) پر ایک خصوصی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم کیا گیا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق برطانوی اور امریکی ڈرونوں نے مجموعی طور پر بالترتیب 16000 اور 40000 پروازوں کے ذریعے غزہ کا ایک ایک مربع گز چھانا، کھنگالا بلکہ سونگھا۔ اس مقصد کے لیے طلائی گولیاں بھی بہت مہارت سے استعمال کی گئیں۔ ایک ایک قیدی کی نشان دی کے لیے کروڑوں ڈالر ‘انعام’ تجویز ہوا لیکن فضائی ٹیکنالوجی، جاسوسی کتے، تشدد کے کوڑے، اشرفیوں کے توڑے، مصنوعی ذہانت اور شیطانی فطانت سب ہی قیدیوں کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔
وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے انتہا پسند ساتھی ابھی تک ‘فلسطینیوں کو کچل دو’ کے نعرے الاپ رہے ہیں لیکن عسکری سطح پر بے چینی بہت واضح ہے۔ ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل ہرزی حیلوی نے استعفیٰ دیدیا اور دوسرے روز جنوبی کمان کے سربراہ جنرل ہارون فننکلمین ( Yaron Finkelman) بھی مستعفی ہوگئے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوے حزب اختلاف نے سوال اٹھایا کہ وزیر اعظم کب استعفی دیں گے؟
دوسری جانب اہل غزہ، غرب اردن اور جنوبی لبنان کے لوگوں کے حوصلے بلند ہیں۔ شدید بمباری سے بے دخل ہونے والے شمالی غزہ کے لوگوں نے اپنے گھروں کو واپسی کا سفر شروع کر دیا ہے۔ ہزاروں لوگوں کا یہ قافلہ ساحلی شاہراہ پر شمال کی جانب رواں دواں ہے۔ گود میں بچے اٹھائی ہوئی خواتین اس مارچ کی قیادت کر رہی ہیں۔ جب کسی صحافی نے نعرہ زن خاتون سے پوچھا ‘بی بی تمہارے گھر تو مٹی کے ڈھیر ہوگئے واپس کہاں جارہی ہو؟ تو اس نے بے دھڑک کہا ہمیں اپنے گھروں کے ملبے پر ہی رہنا ہے۔ اتوار 26 جنوری کو جنوبی لبنان میں اپنے گھروں کو لوٹنے والے بے گھر لوگوں پر اسرائیلی فوج نے فائرنگ کر دی جس سے 15 افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوگئے لیکن اس کے باوجود قافلہ واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ غرب اردن میں جنین ایک ماہ سے اسرائیلی فوج کے نرغے میں ہے۔ جمعہ کو فائرنگ سے ایک دو سالہ بچی لیلیٰ الخطیب اسرائیلی فوج کی فائرنگ میں میں جان بحق ہوگئی۔ قریبی فاصلے سے لیلیٰ کے سر کو نشانہ بنایا گیا۔ ان وحشیانہ کارروائیوں کی نہتے فلسطینی مزاحمت بھی کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے جنصافوط اور الفندق کے مکین مقابلے پر کھڑے ہوگئے اور غلیل کے ڈھیلوں سے مار کر کئی سورماؤں کو زخمی کیا۔ طمون کے قریب اسرائیلی فوج کی ایک بکتر بند گاڑی اڑا دی گئی جس میں 31 سالہ سپاہی ایویاتر بن یہوداہ ہلاک دو فوجی جھلس کر شدید زخمی ہوگئے۔
نسل کشی کے ذمہ داروں کا تعاقب بھی جاری ہے۔ پولینڈ کے فلسطینیوں نے ملک کے دورے پر آئے ہوئے اسرائیل کے وزیر تعلیم یعقوب کِش Yoav Kisch کی گرفتاری کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یعقوب کِش اسرائیلی Reserve فوجی دستے کے رکن اور غزہ میں جنگی جرائم کے شرکت دار و سہولت کار ہیں۔
پروپیگنڈے اور امریکی حکومت کی اسرائیلی کے لیے غیر مشروط حمایت کے باوجود غزہ کے مزاحمت کار امریکہ میں مقبول ہو رہے ہیں۔ ہارورڈ ہیرس (Harvard/Harris) کے تازہ ترین جائزے کے مطابق امریکہ کے 25 فیصد ڈیموکریٹس، 19 فیصد ریپبلکن اور 20 فیصد آزاد ووٹر مزاحمت کاروں کے حامی ہیں۔ جائزے کا دل چسپ پہلو یہ ہے کہ پچیس سے 34 سال کے امریکیوں میں مزاحمت کاروں کی مقبولیت 34 فیصد جبکہ 65 سال اور اس سے معمر صرف 10 فیصد امریکی مزاحمت کاروں کے حامی ہیں۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025