ایڈورڈ سعید کا استشراق پر نقد اور مسئلہ فلسطین

مغرب کے سامراج اور اس کے علمی و فکری تعصبات پر ایک بے باکانہ تنقید

0

ڈاکٹر مجتبیٰ فاروق
سنٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ ،نئی دہلی

ایڈورڈ سعید (2003-1935) کا شمار دنیا کے مشہور و معروف مفکرین میں ہوتاہے۔ آپ 1935ء میں فلسطین کے ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ جب 1947ء میں فلسطین کا مسئلہ پیش آیا تو ایڈورڈ سعید اپنے خاندان کے ہمراہ پہلے قاہرہ اور اس کے بعد 1950ء میں امریکہ منتقل ہوئے۔ انہوں نے1957ء میں پرنسٹن یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں ایم اے کیا۔ پھر 1962ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد ایڈورڈ سعید نے امریکہ کی کئی مشہور یونیورسٹیوں میں پڑھایا اور مہمان پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ انہیں ممتاز یونیورسٹیوں نے بیس اعزازی ڈگریوں سے نوازا اور ’لائنل ٹریلنگ بک ایوارڈ‘ بھی دیا گیا۔ مغربی استعمار ان کی خصوصی دلچسپی کا موضوع تھا۔ اس کے علاوہ وہ استشراق کے ماہر تھے اور استشراقی فکر کے زبردست ناقد بھی۔ انہوں نے استشراقی فکر اور اس کے منصوبوں کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔ انہوں نے اس تعلق سے 1978ء میں Orientalism کے عنوان سے کتاب لکھی جو استشراقی فکر پر ایک بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک فکر ساز کتاب ہے اور اس میں انھوں نے اکیڈیمک انداز میں مغربی فکر اور اس کے اپروچ پر کھل کر تنقید کی۔ یہ تنقید ایسی ہے کہ ہر صاحب علم کے لیے ریفرنس کا ذریعہ بن گئی ہے اور یہ اپنے موضوع پر نادر اور بنیاد گزار کتاب ہے۔ استشراق پر علمی اور تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک بہترین اور نادر تحفہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ایڈورڈ سعید نے اس میں اکیڈمک انداز میں مغربی اپروچ پر کھل کر تنقید کی ہے ۔نیز استشراقی فکر اور منہج کو ڈی ویلیو کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی۔ ایڈورڈ سعید نے استشراق کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
"Any one who teaches, writes about, or researches the orient- and this applies whether the person is an anthropologist, sociologist, historian or philologist- either in its specific or its general aspects, is an orientalist, and what he or she says or does is Orientalism.” (Orientalism Western Conceptions of the Orient , Penguin Random House India, 2001, 2.)
ایڈورڈ کا کہنا ہے کہ مغربی مصنفین اور مستشرقین نے مشرقی دنیا کی تصویر نسلی امتیاز اور سامراجی فکر اور نظریہ کی بنیاد پر کھینچی ہے اور مغرب کی نو آبادیاتی ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کا نقشہ پیش کیا ہے ۔انہوں نے مزید لکھا ہے کہ تحریکِ استشراق نظریاتی اور تہذیبی سطح پر یورپ اور مغرب کی نمائندگی کرتا ہے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
"In short Orientalism as a Western style for dominating, restructuring and having authority over the Orient.”(Orientalism Western Conceptions of the Orient ,3)
ایڈورڈ کا کہنا ہے کہ استشراق محض سیاسی اداروں کے مطالعہ کا نام نہیں ہے اور نہ ہی یہ مشرقی دنیا کو دبانے کے لیے کچھ مذموم مغربی سامراجی سازش کی نمائندگی کا نام ہے بلکہ یہ جمالیاتی ، علمی ، اقتصادی سماجی اور تاریخی طور پر جغرافیائی سیاسی بیداری کا نام ہے۔انہوں نے آگے چل کر استشراق کی اصطلاح کومختلف سطح پر تین معنوں میں استعمال کیا ہے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
"The term can be used in three different senses .It can refer to an academic discipline, the study of the Orient, secondly to a style of thought based up on a distinction for dealing with orient for describing controlling it.”(Orientalism Western Conceptions of the Orient :2)
ایڈورڈ کا کہنا ہےکہ یہ نظریہ کہ اسلام انسانیت کے لیے ایک خطرناک مظہر ہے اور یہ خیال عیسائیوں کے دل میں ڈال دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں پر واضح کر دیں کہ اسلام ، عیسائیت کا ایک گمراہ کردہ پر تو ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ
"To place Islam in an inferior position "(Orientalism Western Conceptions of the Orient :129)
ایڈورڈ سعید نے استشراق یا مستشرقین یا مغربی مصنفین کو مشرق کے تئیں پھر سے سوچنے پر مجبور کیا۔استشراق یا مستشرقین جس طرح سے اسلامی مطالعات یامشرق کے تئیں تعصب اور جانب داری کے شکار رہے ،اس پر ایڈورڈ سعید نے شدید تنقید کی ۔انہوں نے اپنی کتاب میں واضح کیاہے کہ مغربی مصنفین اور مستشرقین نے مشرقی دنیا کی تصویر نسلی امتیاز اور سامراجی سوچ اور نظریہ کی بنیاد پر کھینچی ہے اور مغرب کی نوآبادیاتی ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کانقشہ پیش کیا ہے ۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ استشراق یا اورنٹلازم یورپ کی مادی تہذیب اور ثقافت کا حصہ ہے۔استشراق نظریاتی اور تہذیبی طور پر یورپ اور مغرب کی نمائندگی کرتا ہے۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ
Orientalism as a western style for dominating, restructuring and having authority over the Orient.(P:3)
تحریک استشراق مغرب کی استعماری قوموں کےسیاسی عزائم کو بروئے کار لانے کےلیے بھی کام کر رہا ہے ۔اس کے لیے انہوں نے سب سے پہلے اسلام کے بنیادی نصوص کو ہدفِ تنقید بنایا۔تحریک استشراق کا اثر دنیا کی ہر زبان اورہر نظریہ اور ہر خطے میں میں پایا جاتا ہے ۔
ایڈورڈ سعید نے مسئلہ فلسطین کو علمی اسلوب میں دنیائے انسانیت کے سامنے پیش کیا ۔ سعید کا کہنا ہے کہ مغربی میڈیا نے مسلم دنیا یا مشرقی دنیا کی نہایت منفی تصویر پیش کی ہے اور اس حوالے سے انہوں نےCovering Islam کے نام سے کتاب لکھی جس میں انہوں نے ان تمام غلط فہمیوں کا جائزہ لیا جو اسلام، عرب دنیا اور فلسطین کے بارے میں پھیلائے گئے تھے ۔انہوں نے اس کتاب میں اسلام اور اہل اسلام کی بہترین نمائندگی کی۔ایڈورڈ سعید اکثر اسلامی مطالعات یا عربوں کو مغربی انداز سے سوچنے پر تنقید کرتے تھے اور مسئلہ فلسطین کے تعلق سے نہایت متحرک رہتے تھے۔ انہوں نے مغربی دنیا میں مسئلہ فلسطین بہترین انداز میں اجاگر کیا اور اس تعلق سے The Question of Palestine کے عنوان سے کتاب بھی لکھی جس میں انہوں نے صیہونیت اور یہودیوں کی تاریخ بیان کرکے ان کے ناپاک عزائم کو تشت ازبام کیا۔صیہونی تحریک کا مقصد فلسطینی سرزمین کا قبضہ کرنا اور پھر وہاں یہودی حکومت قائم کرنا ہے۔ فلسطین ایڈورڈ سعید کے لیے دل کی مانند تھا اور اس دل کی وہ ہمیشہ آب یاری کرتے تھے۔ وہ ان نام نہاد عرب حکم رانوں ،ان ہزاروں مسلمان دانشوروں اور پرفیسروں سے لاکھ درجہ بہتر تھےجو ہر مہینے لاکھوں میں حکومتوں سے تنخواہ وصول کرتے ہیں لیکن امت کے لیے ان کے پاس دل نہیں ہے کہ وہ امت کے مسائل کے لیے بے چین رہتے اور امت کو سامراجی منصوبوں سے آگارہ رکھتے تھے۔بقول انور سعید، ایڈورڈ سعید مشرق کی قوموں کو یہ درس دیتے ہیں کہ وہ سامراجی آئیڈیالوجی کو رد کردیں ، اپنے ماضی کی مسخ شدہ تصویروں کو قبول نہ کریں اور اپنے ماضی کی بازیافت خود کریں ۔‘‘ایڈورڈ سعید نے فلسطینی کاز کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا تھا۔ انہوں نے اس کاز کے تعلق سے جو باتیں بھی کیں وہ دل کی عمیق گہرائیوں سے عالم انسانیت کے سامنے پیش کیں ۔۔چناچہ ایک جگہ لکھتے ہیں :’’ہمیں جس طریقے سے فلسطین سےبے دخل کیا گیا اور جس طرح ہمارا وجود مٹانے کی کوشش کی گئی، کیا یہ باتیں محض اس وجہ سے جائز تھیں کہ ان یہودیوں کو، جو نازیت کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئے تھے؛ سہارا دیا جاسکے؟ (یہودیوں کو سہارا دینا قابل تعریف بات سہی لیکن) اس عمل میں ہم میں سے قریبَاَ دس لاکھ فلسطینیوں کو اپنا وطن چھوڑنے پرمجبور کردیا گیا اور ہمارے معاشرے کو نا موجود بنا دیا گیا۔ وہ کون سا اخلاقی یا سیاسی معیار ہے جس کی بنا پر ہم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ہم اپنے قومی وجود، اپنے وطن اور اپنے انسانی حقوق اور آزادی سے دست بردار ہوجائیں؟ جب ایک پوری قوم کو یہ ’’مژدہ‘‘ سنایاجاتا ہے کہ وہ قانونی اعتبار سے غیر حاضر ہے بلکہ اس کے خلاف فوجیں بھی استعمال کی جاتی ہیں تاکہ اس کا نام و نشان مٹایا جاسکے۔ اس کے نام کے خلاف مہمیں چلائی جاتی ہیں، اس کی تاریخ تبدیل کی جاتی ہے تاکہ دنیاکو یہ باور کرایا جاسکے کہ اس کا تو کوئی وجود ہی نہیں، تو پھر ہمیں یہ بتایا جائے کہ وہ کون سی دنیا ہے جہاں اس قسم کی باتوں اور ہتھکنڈوں کے خلاف کوئی دلیل کام نہیں آسکتی؟‘‘(مسئلہ فلسطین؛ص:18)
ایڈورڈ سعید صاحبِ دل انسان تھے۔ ان کے متعلق یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ لبنان کے بارڈر پر اسرائیل کے خلاف احتجاج کے دوران اسرائیلی فورسز پر پتھر بھی پھینکا تھا۔اس پر انہوں نے بعد میں تردید بھی کی تھی، ہو سکتا ہے وہ تردید کسی مصلحت کی بنا کی پر ہو ۔ایڈورڈ کی اصل فکر کو سمجھنے کے لیے ان کی تحریروں کا براہ راست مطالعہ ہونا چائیے۔ انہوں نے فلسطینی کاز اور صیہونیت کے اصل چہرہ کو گہرائی سے مطالعہ کیا اور سمجھا تھا اور اس کو انہوں نے مدلل انداز میں تحریروں کی شکل میں منصئہ شہود پر لایا تھا۔ایڈورڈ سعید کوئی عام مفکر نہیں تھے بلکہ فکری اور اکیڈمک سطح پر قابل تحسین کام کیا جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے Deconstruction کی تھیوری کو بشریات میں متعارف کروایا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ Post Modernism کی اصطلاح کے خالق بھی ہے۔ استشراقی پس منظر اور فلسطینی کاز کو سمجھنے کے لیے ڈاکٹر ایڈورڈ سعید کی تحریروں کا ضرور مطالعہ کیا جانا چاہیے۔

 

***

 ایڈورڈ سعید صاحبِ دل انسان تھے۔ ان کے متعلق یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ لبنان کے بارڈر پر اسرائیل کے خلاف احتجاج کے دوران اسرائیلی فورسز پر پتھر بھی پھینکا تھا۔اس پر انہوں نے بعد میں تردید بھی کی تھی، ہو سکتا ہے وہ تردید کسی مصلحت کی بنا کی پر ہو ۔ایڈورڈ کی اصل فکر کو سمجھنے کے لیے ان کی تحریروں کا براہ راست مطالعہ ہونا چائیے۔ انہوں نے فلسطینی کاز اور صیہونیت کے اصل چہرہ کو گہرائی سے مطالعہ کیا اور سمجھا تھا اور اس کو انہوں نے مدلل انداز میں تحریروں کی شکل میں منصئہ شہود پر لایا تھا۔ایڈورڈ سعید کوئی عام مفکر نہیں تھے بلکہ فکری اور اکیڈمک سطح پر قابل تحسین کام کیا جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے Deconstruction کی تھیوری کو بشریات میں متعارف کروایا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ Post Modernism کی اصطلاح کے خالق بھی ہے۔ استشراقی پس منظر اور فلسطینی کاز کو سمجھنے کے لیے ڈاکٹر ایڈورڈ سعید کی تحریروں کا ضرور مطالعہ کیا جانا چاہیے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 مئی تا 31 مئی 2025