ایڈویکیٹ پرکاش امبیڈکر کا مندروں کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ!
ونچیت بہوجن اگھاڑی کے لیڈر کے اندیشوں سے سیاسی حلقوں میں ہلچل۔
عام انتخابات سے قبل گڑبڑی کے تعلق سے خدشات
مہاراشٹر کی سیاست میں بھی چھوت چھات کا موضوع زیر بحث
مہاراشٹر اور ملک کی سیاست میں فرقہ وارانہ نوعیت کے ہنگامہ خیز موضوعات ابھر ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔ ریاستی اور قومی انتخابات کے تناظر میں مہاراشٹر کے ایک اہم سیاسی قائد پرکاش امبیڈکر نے بعض مراٹھی چینلوں کو انٹرویو دیے ہیں جس میں انہوں نے سناتن دھرم، چھوت چھات اور بعض دیگر اہم امور پر بے لاگ باتیں کہی ہیں۔ قارئین دعوت کے لیے کچھ نمایاں نکات پیش ہیں ۔
پرکاش امبیڈکر جو بابا صاحب امبیڈکر کے پوتے ہیں، ایک بھارتی سیاست دان، مصنف اور وکیل ہیں۔ وہ مہاراشٹر میں بھاریپ بہوجن مہاسنگھ نامی سیاسی جماعت کے صدر ہیں اور تین مرتبہ رکن پارلیمنٹ (ایم پی) رہ چکے ہیں۔اور ایڈوکیٹ شیوسینا (ادھو ٹھاکرے گروپ) کے سیاسی حلیف بھی ہیں ۔
گزشتہ دنوں انہوں نے ٹویٹر پر لکھا تھا ’’سناتن دھرم چھو چھوت کو مانتا ہے۔ ہم اسے کیسے قبول کریں؟‘‘ ان کے اس بیان پر مختلف گوشوں سے تبصرے کیے گئے۔ اسی پس منظر میں ایک ویڈیو انٹرویو میں انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت کی۔
میڈیا میں اس وقت سناتن دھرم کے بارے میں بہت سے بحثیں چھڑی ہوئی ہیں۔ سناتن دھرم پر تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ کے بیٹے اودے ندھی اسٹالن کے دیے گئے بیان کے تناظر میں انہوں نے یہ ردعمل ظاہر کیا ہے۔
سناتن دھرم کی تشہیر مختلف ذریعے سے کی جا رہی ہے۔ سناتن دھرم کے خیالات و نظریات پر تنقیدیں بھی کی جارہی ہے۔
پرکاش امبیڈکر نے اپنے انٹرویو میں کہا ’’سناتن دھرم اس وقت پرچارک یا شہرت دینے والے کے روپ میں ابھر رہا ہے۔ پرانے سناتن دھرم میں چھوت چھات یا ان ٹچ ابلیتی تھی۔ انہوں نے سناتن دھرم کے حامیوں سے سوال کیا کہ کیا آپ میں اب بدلاؤ آیا ہے۔ کیا اب سناتن دھرم کی نئی شکل پیش کی جارہی ہے۔ ان بنیادی باتوں پر اب تک موجودہ ہندوتوادی جو سناتن دھرم کے حمایتی ہیں ان کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں آئی ہے کہ آیا وہ پرانی چھوت چھات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ صرف ٹرول آرہا ہے اور گالیاں آرہی ہے اس سے مجھے مطلب نہیں ہے۔ سناتن دھرم کے حمایتوں کی جانب سے کوئی وضاحت نہ آنے کے بعد اب اس کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ سناتن دھرم کے مبلغین کے ذہن سے ابھی بھی شودرتا یا چھوت چھات گئی نہیں ہے۔‘‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ سناتن دھرم کے خلاف ہے تو انہوں نے کہا کہ ’’مہاتما پھلے سے لے کر آج جو لڑائی ہے وہ سناتن دھرم کے خیالات کے خلاف ہے۔ کسی بھگوان کے خلاف نہیں ہے۔ منوسمرتی کے نظریات کے خلاف ہے۔ منوسمرتی چھوت چھات کی انتہا ہے۔ ذات پات اور چھوت چھات کو اس میں بہت اہمیت دی گئی ہے‘‘۔
چھوت چھات سے باہر آنا چاہیے۔ مساوات اور سب کے لیے مواقع کی بات کرنا چاہیے۔ ملک میں بدلاؤ آنا چاہیے۔ اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’’بعض لوگ سناتن دھرم سے باہر آگئے ہیں۔ جو برہمنوں میں سماج وادی، انسانیت نواز، امبیڈکر کی فلاسفی، گاندھی کی فلاسفی، کمیونسٹ کی فلاسفی سے متاثر ہوکر سناتن دھرم کے چھوت چھات کے نظریات کو ترک کرچکے ہیں۔ لیکن آر ایس ایس برہمن سناتن دھرم کے چھوت چھات کے نظریات میں سدھار نہیں لا رہا ہے۔ وہ اس میں پھنسا ہوا ہے۔ اس لیے ہم آر ایس ایس اور اس کے سناتن دھرم کے نظریات کو نہیں مانتے۔ وہ اپنے خیالوں اور نظریات میں بدلاؤ نہیں لا رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ ملک کو بھی اسی ڈگر پر لے جانا چاہتا ہے‘‘
سیکولر ہندوؤں نے پرانے خیالات کو چھوڑ دیا ہے، وہ چھوت چھات کو بھول رہے ہیں۔ منوسمرتی کی بھی مخالفت کی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں ملک کی ترقی کے لیے خیالات میں تبدیلی لانا چاہیے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ سناتن دھرم کی فلاسفی کی وجہ سے کیا ملک میں ترقی کی رفتار میں کمی ہوئی ہے۔ تو ان کا کہنا تھا ’’ترقی ٹھپ ہوچکی ہے۔ آج ہم میڈ اِن انڈیا کی بات نہیں کرتے بلکہ میک اِن انڈیا کی بات کرتے ہیں۔ یعنی دنیا کا چھڑاؤ یہاں بناؤ۔ سماجی طور پر اگر اس کے اثر کا مشاہدہ کریں تو ناراضگی دکھائی دیتی ہے ۔ اس ناراضگی کی وجہ سے سماج کے اندر ناکامی آگئی ہے۔ عدم اعتمادی، مذہب اور ذات کے نام سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اس سے ملک نہیں بنتے۔ اس کی وجہ سے بدامنی کو دوبارہ ابھرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کی مثال منی پور ہے۔ لوگوں کو بھڑکانے کے بعد غصہ کا اظہار کیا جاتا ہے‘‘ غصہ کی وجہ سے فساد برپا ہوتا ہے۔ مساوات اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی وجہ سے امن پیدا ہوتا ہے۔
سناتن دھرم کے تعلق سے بیان کے علاوہ انہوں نے مندروں کو فوج کے حوالے کرنے کی بھی بات کی ہے۔ لوک شاہی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کے مندروں کو فوج کے حوالے کرنا چاہیے۔ انتخابات کے بعد اسے دوبارہ انتظامیہ کے حوالے کر دیا جانا چاہیے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ایسا نہ کرنے سے کچھ گڑبڑ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے خاص طور پر متھرا کی مندر، گیان ویاپی مندر، وارانسی کے مندرکا بھی نام لیا۔
انہوں نے واضح نہیں کیا کہ ان کا مقصد کیا ہے۔ کیا کوئی دہشت گرد حملہ مندروں پر ہونے والا ہے یا کچھ اور کہنا چاہتے ہیں۔
مہاراشٹر بی جے پی کے ترجمان کیشو اپادھیائے نے پرکاش امبیڈکر کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا بیان عوام میں دینے کے بجائے پولیس کو معلومات دینی چاہیے ورنہ عوام میں غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے۔ جس کی کوئی اصل نہ ہو اس طرح کی باتیں نہیں کرنا چاہیے۔ پرکاش امبیڈکر کی بات کا ایک مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ مذہبی شدت پسندی کو روکنا چاہیے۔ لیکن کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا جاسکتا ہے۔ تشار بھوسلے کا کہنا ہے کہ یہ مضحکہ خیز ہے۔ ہندوستانی منادر آج جس طرح محفوظ ہیں اس طرح پہلے کبھی محفوظ نہیں تھیں۔
ستیش ساونت کانگریس ترجمان نے پرکاش امبیڈکر کی رائے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں حکومت قائم کرنے کے لیے بی جے پی کسی بھی سطح تک گر سکتی ہے۔ یہ گزشتہ 9 سال سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں موجودہ صورتحال میں اقتدار ان کے ہاتھ سے نکلتا ہوا نظر آرہا ہے۔ سماجی ماحول غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ کئی لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ہے۔
مندروں کو فوج کے حوالے کرنے کے تعلق سے ان کے خدشات تو واضح نہیں ہیں لیکن ان کی بات سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ وہ اسے دہشت گردی سے بھی جوڑ سکتے ہیں یا پھر فسادات کے پھیلانے کا سبب بھی بنا سکتے ہیں۔ پرکاش امبیڈکر نے واضح طور پر کچھ نہیں کہا ہے۔ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ انتخابات سے قبل ہوا گرمائی جا رہی ہے۔ ہندوتوا اور سیکولر محاذوں میں جاری کشمکش کا نتیجہ کیا ہوگا یہ تو آنے والے انتخابات کے نتائج پر ہی معلوم ہوگا۔ تب تک مختلف نظریات اور شبہات و خدشات ظاہر ہوتے رہیں گے۔
ڈاکٹر محمد کلیم محی الدین (مراٹھی زبان سے ترجمہ و تلخیص)
***
***
’’بعض لوگ سناتن دھرم سے باہر آگئے ہیں۔ جو برہمنوں میں سماج وادی، انسانیت نواز، امبیڈکر کی فلاسفی، گاندھی کی فلاسفی اور کمیونسٹ کی فلاسفی سے متاثر ہو کر سناتن دھرم کے چھوت چھات کے نظریات کو ترک کرچکے ہیں لیکن آر ایس ایس برہمن سناتن دھرم کے چھوت چھات کے نظریات میں سدھار نہیں لا رہا ہے۔ وہ اس میں پھنسا ہوا ہے۔ اس لیے ہم آر ایس ایس اور اس کے سناتن دھرم کے نظریات کو نہیں مانتے۔ وہ اپنے خیالوں اور نظریات میں بدلاؤ نہیں لا رہا ہے۔ ساتھ ہی وہ ملک کو بھی اسی ڈگر پر لے جانا چاہتا ہے۔ ‘‘(پرکاش امبیڈکر)
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 ستمبر تا 23 ستمبر 2023