عدلیہ ، انصاف کی حکم رانی کو یقینی بنانے کی بنیادی ذمہ داری کی اہمیت سمجھے

عاملہ اور عدلیہ کے درمیان حدّ فاصل کا احترام ضروری۔ورنہ مقدمات کا متاثر ہونا لازمی

0

شہاب فضل، لکھنؤ

بھارتی عدلیہ ،حکومت و منتظمہ سے نہ صرف مکمل طور پر آزاد رہے بلکہ آزاد نظر بھی آئے
وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی ایک مخصوص مذہبی تقریب میں شرکت ۔دانشوران ہند کے لیے کسی اچنبھے سے کم نہیں
نئی دلی میں اتوار 8 ستمبر کو وشو ہندو پریشد کے ’ودھی پرکوشٹھ‘ (قانونی سیل) کے زیر اہتمام ایک میٹنگ میں سپریم کورٹ آف انڈیا اور ملک کے مختلف ہائی کورٹوں کے متعدد سبکدوش ججوں کی شرکت نے آئین و قانون کی حکم رانی کی فکر رکھنے والوں کے کان کھڑے کردیے ہیں۔ حالانکہ وشو ہندو پریشد، آرایس ایس یا سنگھ کی دیگر تنظیموں سے ملک کی انتظامیہ و عدلیہ سے جڑے رہے لوگوں کی دورانِ ملازمت یا عہدے سے سبکدوشی کے بعد وابستگی کی اطلاعات وقتاً فوقتاً آتی رہی ہیں مگر وزیر اعظم نریندر مودی کے تیسرے دورِ حکومت میں جس تواتر کے ساتھ سنگھ کے ایجنڈے پر عمل درآمد یا اسے آگے بڑھانے کے اشارے دینے والے واقعات و اقدامات سامنے آرہے ہیں وہ نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونِ ملک بھی لوگوں کو چونکارہے ہیں اور اس خیال کو تقویت دے رہے ہیں کہ ایک سیکولر جمہوری ملک ’اکثریت نواز نام نہاد جمہوریت‘ میں تبدیل ہوتا جارہا ہے ، جہاں آئین کی قدروں اور اصولوں کے بجائے عملی طور سے منوسمرتی/برہمنی نظام کی حکم رانی ہوگی۔ یہ واقعہ اس لیے بھی لوگوں کے لیے باعث تشویش بنا ہے کیونکہ سنگھ پریوار کے ایجنڈے میں شامل کئی امور فی الوقت عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور اس طرح کی میٹنگوں کے دیر پا اثرات ہوں گے جو ملک میں آئینی نظام کی بالادستی کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی عوام کی اکثریت میں آئینی اصولوں سے بغاوت کے رویہ کی حوصلہ افزائی بھی کریں گے جس سے ملک برائے نام ہی ایک جمہوریت رہ جائے گا اور لاقونونیت کا بول بالا ہوگا یا قانون کااطلاق بے حد جانب دارانہ انداز سے ہوگا ۔ اس میٹنگ میں مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال بھی موجود تھے جس سے یہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کئی سطحوں پر سنگھ پریوار اور قانون و انصاف کے نظام سے وابستہ ذمہ داروں کے درمیان افہام و تفہیم کے عمل میں اب زیادہ تیزی آگئی ہے۔
خیال رہے کہ وارانسی کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ اور کچھ ریاستوں کے تبدیلی مذہب مخالف قوانین مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اس طرح کی افہام و تفہیم کا عمل عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوگا۔ اسی احساس کے باعث مختلف حلقوں نے اس پیش رفت پر اپنی تشویش کا کھل کر اظہار کیا ہے۔
مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے اس میٹنگ کی تصویر اپنے ایکس ہینڈل سے شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’سبکدوش ججوں، ماہرین قانون، سینئر وکلاء اور دانشوروں کے اجتماع میں عدالتی اصلاحات پر تفصیلی بات چیت ہوئی جس کا مقصد ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانا ہے‘۔انڈین ایکسپرین کے مطابق وشو ہندو پریشد کے عہدیداروں نے اس سلسلہ میں کہاکہ ججوں کا کردار سبکدوشی کے بعد ختم نہیں ہوجاتا اور انہیں ’’راشٹر نرمان‘‘ میں شامل ہوکر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
جہاں تک میٹنگ کی تفصیلات کا تعلق ہے تو اس خبر کو سب سے پہلے شائع کرنے والے انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق سپریم کورٹ کے سابق جج آدرش کمار گوئل اور ہیمنت گپتا ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے وی ایچ پی کی تقریب میں شرکت کی۔
جسٹس گوئل نے 2018 میں سپریم کورٹ سے سبکدوش ہونے کے بعد گزشتہ سال تک نیشنل گرین ٹریبونل کے چیئرپرسن کے طور پر خدمات انجام دیں۔وہ 2014 میں سپریم کورٹ میں ترقی پانے سے پہلے اڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ وہ اس بنچ میں شامل تھے جس نے 2018 میں درج فہرست اقوام اور درج فہرست قبائل (مظالم کی روک تھام) ایکٹ 1989کے تحت بعض معاملات میں ملزمین کو پیشگی ضمانت دی تھی۔ اس عدالتی فیصلے کو بڑے پیمانے پر ایکٹ کو بے اثر کرنے والا فیصلہ قرار دیا گیا اور دلت اور آدی واسی تنظیموں نے اس کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ بعد میں 2019 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو پلٹ کر واپس لے لیا تھا۔
دوسری طرف جسٹس گپتا 2018 میں سپریم کورٹ میں تعینات ہونے سے قبل مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور پٹنہ ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس رہے۔ انہیں 2022 میں سپریم کورٹ سے سبکدوشی کے بعد انڈیا انٹرنیشنل آربیٹریشن سنٹر (ثالثی مرکز) کا چیئرپرسن مقرر کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں اپنے دور میں انہوں نے کئی اہم فیصلے سنائے، جن میں 2022 میں کلاس روموں میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کرنے والے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھنا بھی شامل ہے۔ کرناٹک حجاب کے معاملے پر دو ججوں کے متضاد فیصلے کے باعث اس معاملہ کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کو ابھی ایک بڑی بنچ کی تشکیل کرنی ہے۔
ججوں کے ذہنی رویے عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہونا ممکن!
نیوز پورٹل دی وائر ، دی کوئنٹ اور انڈین ایکسپریس نے مذکورہ بالا دونوں ججوں کے دو فیصلوں کا ذکر کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ججوں کے ذہنی رویے ان کے عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور جس طرح کی میٹنگ میں سابق ججوں نے شرکت کی ہے اس کے مزید منفی اثرات سامنے آئیں گے۔
غیر جانب دار افراد اور تنظیموں کے لیے یہ تشویش کی بات ہے کہ اگر عدلیہ اور مقننہ و منتظمہ کے درمیان جو حدّ فاصل ہے یا دونوں کو جدا کرنے والی جو باریک لکیر ہے اگر وہی مٹ گئی تو عدالتیں کیسے غیر جانب دار رہ پائیں گی ، ملک کے تمام شہریوں کو انصاف کیسے مل پائے گا اور قانون و انصاف سرکاروں کے چشم و ابر و کے حوالے نہیں ہوجائیں گے؟
اپوزیشن کے رہنماؤں کا چراغ پا ہونا لازمی تھا، چنانچہ ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ اور لوک سبھا میں اپنی دھار دار تقریروں کے لیے مشہور مہوا موئترا نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں طنز کرتے ہوئے لکھا: یقیناً می لارڈ، آپ کو کہیں بھی شرکت کی آزادی ہے! ریٹائرمنٹ کے بعد منفعت کے عہدے پر فائز ہوجائیں، راجیہ سبھا میں نامزد رکن بن جائیں، بھگوانوں کو کچھ بھی کرنے سے کون روک سکتا ہے؟ ہم عام لوگ کون ہوتے ہیں آپ سے سوال کرنے والے ؟
مہوا موائترا نے جسٹس ہیمنت گپتا کی جانب سے وی ایچ پی کی میٹنگ میں اپنی شرکت کے دفاع میں کہی گئی باتوں کے بعد یہ طنزیہ پوسٹ کیا اور عدلیہ و حکومت کے نازک رشتوں کی تعلق سے کئی چبھتے ہوئے سوالات اٹھائے۔
چیف جسٹس کے گھر پر پوجا میں وزیر اعظم کی شرکت اور اس کے معانی و مطالب
ابھی یہ معاملہ گرم ہی تھا کہ وزیر اعظم نریند مودی نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کے گھر پر گنپتی پوجا میں اپنی شرکت کی تصویر عام کردی جس میں وہ مراٹھا ٹوپی پہنے پوجا کرتے نظر آرہے ہیں اور ساتھ میں چیف جسٹس اور ان کے اہل خانہ کھڑے ہیں۔ اس کی جو ویڈیو وائرل ہوئی وہ بڑی مہارت سے تیار کی گئی تھی ، چنانچہ اس کا گہرائی سے تجزیہ کیا گیا اور اس کے کئی معانی و مطالب نکالے گئے ۔ معروف صحافی رویش کمار نے اپنے یوٹیوب چینل پر ایک ایپیسوڈ میں کہاکہ مہاراشٹر میں اسی سال اسمبلی انتخابات متوقع ہیں، پی ایم کے سر پر مراٹھا ٹوپی غالباً اسی لیے نظر آرہی ہے۔
رویش کمار نے صحافی سورو داس کا بھی حوالہ دیا جنہوں نے لکھا کہ یہ واقعہ عدلیہ کی تمام سطحوں پر مستقبل کے چیف جسٹسوں کو ایک ’’خطرناک پیغام‘‘ دیتا ہے۔ رویش کمار نے بھارتی عدلیہ میں اعلیٰ ترین اصولوں کے زوال کا موازنہ ایک ندی سے کیا جو آہستہ آہستہ اپنے کناروں کو کھا جاتی ہے اور اس اندیشہ کا اظہار کیاکہ اگر چیف جسٹس اور وزیر اعظم ایک دوسرے کے گھر آجاکر ایسے ہی ملنا جلنا شروع کر دیں گے تو دونوں اداروں کے درمیان جو فاصلہ قائم کیا گیا ہے وہ مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔
عدلیہ میں احتساب و اصلاحات کے لیے کام کرنے والی تنظیم دی کیمپین فار جوڈیشیئل اکاؤنٹیبلیٹی اینڈ ریفارم (مہم برائے عدالتی احتساب و اصلاحات- سی جے اے آر) نے اپنے ایک بیان میں گنپتی پوجا کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی رہائش گاہ پر جانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ تنظیم نے ایک بیان میں کہا کہ اس طرح کے دورے سے عدلیہ کی آزادی و خود مختاری اورمنتظمہ کی علیحدہ ہونے کے سلسلہ میں عوام میں بہت غلط پیغام جائے گا ۔
عدلیہ اور ایگزیکیٹو یعنی منتظمہ کے درمیان تعلقات درست ہونے چاہئیں نہ کہ خوشگوار
سی جے اے آر نے یاد دلایا کہ وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے دور میں اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا ایم این وینکٹاچلیانے ان سے کہا تھا کہ عدلیہ اور ایگزیکیٹو یعنی منتظمہ کے درمیان تعلقات درست ہونے چاہئیں، نہ کہ خوشگوار۔ عدالت اور حکومت کے درمیان ہم آہنگی یا خوشگوار تعلقات کے لیے ہمارے چیک اور بیلنس کو قائم رکھنے والے آئینی نظام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
تنظیم نے منتظمہ اور حکومت سے عدلیہ کی آزادی کے اصول کو برقرار رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کو متنظمہ سے فاصلہ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایسی ملاقاتوں اور دعوتوں کو اختیارات کی علیحدگی اور عدلیہ کی غیر جانب داری کے اصولوں کو مٹانے کے لیے ایک غلط نظیر کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔’’عدلیہ کو، جس پر آئین کی حفاظت اور بغیر کسی خوف و حمایت کے انصاف کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ہے، ایگزیکیٹو سے مکمل طور پر آزاد نظر آنا چاہیے‘‘۔
سی جے اے آر نے ماضی کے کئی ایسے واقعات کا حوالہ بھی دیا ہے جہاں ’’ضابطہ اخلاق کو ترک کرکے ایک الگ راہ‘‘ اپنائی گئی جو درست نہیں ہے۔ اس میں 2019 کی ایک مثال پیش کی گئی ہے جب اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی (موجودہ وقت میں راجیہ سبھا رکن) نے جنسی ہراسانی کے الزامات سے متعلق اپنے ہی کیس کی سربراہی کی۔ اسی طرح سبکدوش ہونے کے فوراً بعد گورنر اور راجیہ سبھا کے رکن کے طور پر ججوں کی تقرری بھی غلط نظیر قائم کررہی ہے اور حال ہی میں کلکتہ ہائی کورٹ کے جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے تو استعفیٰ دے کر باقاعدہ بی جے پی میں شامل ہوگئے ہیں ۔
سی جے اے آر نے اس بات کا بطور خاص ذکر کیا کہ حکومت ہند اور متعدد ریاستی حکومتیں مختلف عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں یا تو فریق ہیں یا انہوں نے خود مقدمات دائر کررکھے ہیں لہذا عدلیہ اور سیاسی لیڈروں کے درمیان اس طرح کا ’قریبی تعلق‘ عدلیہ کی آزادی کو سنگین نقصان پہنچا سکتا ہے۔
نجی تقریبات کی عوامی تشہیر سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش!
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے ججوں پر زور دیتے ہوئے کہ وہ اس طرح کی غلط نظیریں نہ قائم کریں، سی جے اے آر نے 1997 میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے بیان کردہ عدالتی زندگی کی اقدار کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے: انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ نظر بھی آنا چاہیے کہ انصاف ہورہا ہے اور ایسا کوئی بھی عمل جو اس اعتبار کو مجروح کرے اس سے گریز کیا جانا چاہیے۔ نجی تقریبا ت میں ایک دوسرے کے یہاں شرکت غیر جانب داری کے اصول کو کم زور کرتی ہے اور خاص طور سے جب سیاسی شخصیات اپنے حکومتی کردار میں موجود ہوں اور اس کے بعد ترسیل و ابلاغ کے سرکاری ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے ایسی تقاریب یا ملاقاتوں کی تصاویر اور ویڈیو عوام میں شیئر کریں تب معاملہ زیادہ تشویش ناک ہوجاتا ہے ۔
راشٹریہ جنتا دل کے ممبر پارلیمنٹ منوج جھا نے کہاکہ چیف جسٹس کے یہاں وزیر اعظم کی آمد اور نجی مذہبی تقریب کی ویڈیو شیئر کرنے سے لوگوں میں غلط پیغام گیا ہے۔ اسی طرح ڈی ایم کے کے ترجمان ایلنگوون نے کہا کہ ججوں کو یہ بات یقینی بنانا چاہیے کہ وہ غیر جانب دار رہیں اور غیر جانب دار نظر آئیں۔
دوسری طرف بی جے پی کے رہنما اور راجیہ سبھا کے نامزد رکن قانون داں مہیش جیٹھ ملانی نے کہاکہ چیف جسٹس کے یہاں وزیر اعظم کا جانا کچھ بھی غلط نہیں، اس پر سوال اٹھانا درست نہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس سے پہلے ایک چیف جسٹس ،وزیر اعظم کی طرف سے دی گئی افطار پارٹی میں جاچکے ہیں، لہٰذا پوجا کے لیے بھی وزیر اعظم چیف جسٹس کے یہاں جاسکتے ہیں۔
شیوسینا کے ایم پی میلند دیورا نے کہاکہ 2009میں اس وقت کے چیف جسٹس کے جی بالا کرشنن ، وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی افطار پارٹی میں شریک ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج اجے رستوگی نے بھی کہا کہ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
معروف وکیل پرشانت بھوشن نے ایکس پر اس معاملے کو اٹھاتے ہوئے عدلیہ کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلائیں اور معاملے کی نزاکت کو سمجھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے جسے اکثر حکومت و منتظمہ کی جانب سے سلب کیا جاتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ’’ ججوں کو اپنے عہدے کے اعتبار سے منتظمہ سے دور نظر آنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے بلایا اور وزیر اعظم وہاں پہنچ گئے اور اس کی ویڈیو عوامی طور سے شیئر بھی کی ۔سپریم کورٹ کو سیکولرزم کا تحفظ کرنا ہے، چنانچہ میرے لیے یہ حیرت انگیز بات ہے،یہ ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے‘‘۔
حقوق انسانی کے لیے وقف ’ٹرائبل آرمی‘ نے ایکس پر لکھا کہ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کا پی ایم مودی کے ساتھ گنپتی پوجا میں حصہ لینا سیکولرزم اور عدالتی غیرجانب داری پر سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔ حکومت کے سرکردہ سیاسی افراد کے ساتھ مذہبی تقاریب میں شامل ہونا عدلیہ کی آزادی اور اعتبار کو کم زور کرتا ہے۔
راجیہ سبھا کے رکن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کپل سبّل نے اپنے رد عمل میں کہا کہ اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز افراد کو نجی تقریبات کی تشہیر نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کسی ذمہ دار شخص کو ایسی صورت حال نہیں پیدا کرنی چاہیے جس سے لوگ ادارے (عدلیہ) کے ہی بارے میں قیاس آرائیاں شروع کردیں۔ ’’میں سوشل میڈیا پر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ خاص طور پر اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز افراد جیسے صدر، وزیر اعظم اور چیف جسٹس آف انڈیا کو کسی نجی تقریب کی تشہیر نہیں کرنی چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ شاید چیف جسٹس آف انڈیا کو معلوم نہیں ہوگا کہ اس کی تشہیر کی جا رہی ہے، یہ افسوس ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ انفرادی نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے کلپ کا لوگوں کے ذہنوں پر کیا اثر پڑتا ہے‘‘۔
کپل سبل نے اس پہلو کا بھی ذکر کیا کہ مذہب اور آستھا کے معاملے نجی ہوتے ہیں۔ ان کی تشہیر کرنا اور عوام میں مخصوص اشارے بھیجنا افسوس ناک ہے۔
مذہبیت کی عوامی نمائش سے عدلیہ کے وقار پر سوال
سینئر وکیل اور قانونی خدمت گار اندرا جے سنگھ نے انڈین ایکسریس میں اپنے ایک کالم میں اس معاملے پر سوال کرتے ہوئے لکھا: ’’چیف جسٹس آف انڈیا ’آئین کے ساتھ وفاداری اور تابع داری‘ کا حلف لیتا ہے ، لہٰذا مذہبی ایقان کی عوامی نمائش اس حلف کی خلاف ورزی تو نہیں؟‘‘ انہوں نے زور دیا کہ سیکولرازم آئین کی ایک بنیادی خصوصیت ہے اور ایس آر بومئی کیس کا حوالہ دیا جس میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ریاست/حکومت کسی مذہب کی حمایت یا قیام یا اس پر عمل نہیں کرے گی۔ ان کے مطابق ’’چیف جسٹس اور وزیر اعظم نجی طور پر مذہبی آزادی کے اپنے حق کا استعمال کرنے کے لیے آزاد ہیں تاہم، ان کے عقیدے کا عوامی اظہار ان کے عہدے کے حلف کی خلاف ورزی ہے‘‘
جے سنگھ نے اس واقعہ کے علامتی پہلو پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی عدلیہ کی تاریخ میں یہ پہلا معروف واقعہ ہے جب ایک موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا نے ایک موجودہ وزیر اعظم کو مذہبیت کی اس طرح کی عوامی نمائش کے لیے مدعو کیا ۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ چیف جسٹس مہاراشٹر کے سیاسی منظر نامہ سے متعلق کئی مقدمات کی سماعت کرنے والے ہیں ، ایسے موقع پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اور آئینی عہدوں پر فائز دو افراد کے ذریعہ عوامی طو ر پر پوجا سے یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا عدلیہ میں مذہب کو داخل کیا جارہا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 ستمبر تا 28 ستمبر 2024