عدل و انصاف، اصولوں کی بنیاد پر، نہ کہ جنس کی بنیاد پر

دفعہ A-498 کا ناجائز استعمال۔خواتین کا تحفظ یا مردوں کا استحصال؟

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

انصاف برائے فروخت؟ اتل سبھاش کی خود کشی اور عدلیہ پر رشوت خوری کا الزام
قانون کے محافظ ہی قانون کے قاتل۔یہ موضوع سنجیدگی سے غور و فکر کا متقاضی
ہر شادی شدہ جوڑے کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ یہاں تک کہ یہ اولاد جوان ہو جاتی ہے۔اس موقع پر والدین کی خواہش بھی ہوتی کہ اب ان کی اولاد کے ذریعہ وہ دادا، دادی یا نانا، نانی بن جائیں۔ اس طرح ان کی نسل آگے بڑھے اور دنیا میں ان کے وراثت برقرار رہے۔ لیکن ایک لمحہ کے لیے سوچیے کہ کسی ماں باپ کو یہ الم ناک خبر موصول ہوکہ اس کی اولاد نے خود کشی کرلی ہے تو یہ خبر کتنی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہو گی؟ اس کے باوجود ہمارے ملک میں ہر 25 منٹ میں ایک خود کشی کا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ ہندوستان میں خود کشی کی کئی وجوہات ہیں جن میں مالی حیثیت سے دیوالیہ ہو جانا یا اچانک معاشی حیثیت میں تبدیلی کا رونما ہونا ہیں۔ منشیات کی لت یا ایسی بیماریاں لاحق ہو جانا جن میں ناقابل برداشت تکلیف ہو، بعض اوقات نہ معلوم وجوہات اور بڑی تعداد میں خاندانی مسائل اہم وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تقریباً 19 فیصد حصہ مالی دیوالیہ پن یا معاشی حالت کا اچانک خراب ہوجانا ہے جبکہ 30 فیصد واقعات ایسے ہیں جو خاندانی مسائل سے پریشان اور مایوس ہونے کے نتیجہ میں لوگوں کو خود کشی کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں اتل سبھاش نام کے ایک شخص کی خود کشی نے جہیز کے قانون کے غلط استعمال پر ایک بار پھر بحث چھیڑ دی ہے۔بحث کا مرکز ایک خصوصی قانون، بی این ایس کی دفعہ 498-A ہے جس کا استعمال کسی خاتون کے خلاف اس کے شوہر یا اس کے اہل خانہ کی طرف سے کی جانے والی زیادتی کے معاملات میں استعمال کیا جاتا ہے۔دفعہ 498-A کے تحت "ظلم” سے مراد ایسا رویہ جو عورت کو شدید ذہنی یا جسمانی چوٹ پہنچاتا ہو یا اس کی زندگی کو خطرے میں ڈالتا ہو یا خود کشی کا باعث بنتا ہو۔ کسی جائیداد یا قیمتی سامان کے غیر قانونی مطالبات کو پورا کرنے میں ناکامی پر کسی عورت یا اس کے کسی رشتہ دار کو ہراساں کرنا بھی ظلم کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 میں 1,40,019 مقدمات درج کیے گئے ہیں جو خواتین کے خلاف درج ہونے والے کل جرائم کا 30 فیصد سے زیادہ ہے۔خواتین کے حقوق کے علم بردار گروپ کا خیال ہے کہ یہ وہ معاملات ہیں جن میں خواتین آگے آنے اور پولیس سے شکایت کرنے کی ہمت پیدا کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ جب کہ ایسی خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر پولیس کے پاس جانے سے قاصر ہے۔ وہیں واقعات کی روشنی میں یہ بات بھی کہی جاتی رہی ہے کہ دفعہ 498-A کا غلط استعمال ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ اور فی الوقت ہم جس واقعہ اتل سبھاش کی بات کر رہے ہیں اس میں بھی اِس دفعہ کے غلط استعمال کے کئی واقعات سامنے آئیں ہیں، جنہیں تفصیل سے خود اتل سبھاش نے خود کشی کرنے سے پہلے لکھے اور ویڈیو کی شکل میں پیش کیے ہیں۔
اتل سبھاش کی خود کشی کے بارے میں جاری بحث کے درمیان سپریم کورٹ نے گیارہ دسمبر کو ایک اور کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ اس قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس پی وی ورالے کی بنچ نے طلاق کے ایک دیگر کیس میں گزارہ بھتے کی رقم کا تعین کرتے ہوئے ملک کی تمام عدالتوں کو مشورہ دیا کہ وہ اس طرح کے کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کچھ اہم نکات کو مد نظر رکھیں۔ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں آٹھ نکات کا ذکر کیا ہے۔ ان میں میاں بیوی کی سماجی اور معاشی حیثیت، مستقبل میں بیوی اور بچوں کی بنیادی ضروریات، دونوں فریقوں کی اہلیت اور ملازمت، آمدنی کے ذرائع اور جائیداد، سسرال میں رہتے ہوئے بیوی کا معیار زندگی، کیا بیوی نے خاندان کی دیکھ بھال کے لیے اپنی نوکری چھوڑ دی ہے؟ کام نہ کرنے والی بیوی کے لیے قانونی چارہ جوئی کے لیے معقول رقم اور دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ کفالت کی صورت میں شوہر کی مالی حیثیت کیا ہوگی وغیرہ شامل ہیں۔عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ یہ نکات کوئی فارمولا نہیں بلکہ رہنما خطوط ہیں۔ اور یہ یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ مستقل طور پر گزارہ بھتے کی رقم شوہر پر جرمانہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ بیوی کے لیے اچھے معیار زندگی کو یقینی بنانے کے مقصد سے لیا جانا چاہیے۔
قانون کی دفعہ 498-A خواتین پر جہیز جیسی لعنت اور اس کے پس پردہ خاندانی مظالم کے خلاف 1983 میں بنائی گئی تھی۔ لیکن اس قانون کے بننے کے بعد جہاں ایک جانب مظلوم خواتین کے حقوق کی باز یابی کے لیے کوششیں ہوئیں تو دوسری جانب اس کے غلط استعمال پر توجہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے27 جولائی2017 کو اس کے غلط استعمال اور اس کے تحت آنے والے کیسز میں مردوں کی فوری گرفتاری پر روک لگائی تھی اور جانچ کے لیے فیملی ویلفیئر کمیٹی کے قیام کا حکم دیا تھا۔ یعنی جو گرفتاریاں فوری ہو جایا کرتی تھیں ان پر روک لگی اور خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کے حقوق اور 498-A کے غلط استعمال سے متاثرین کو کچھ راحت ملی۔ اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور اتل سبھاش کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
اس سلسلے میں جسٹس ذکی اللہ خان، ریٹائرڈ جج، الٰہ آباد ہائی کورٹ کہتے ہیں کہ ہمارا قانونی نظام اینگلو سیکسن ٹریڈیشن پر مبنی ہے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ نہ وہ ٹریڈیشن اپنائی جاتی ہے اور نہ اتنا ہائی اسٹینڈرڈ رکھا جاتا ہے بلکہ ایسے لوگ بیچ میں آجاتے ہیں جو غلط رائے دیتے ہیں اور غلط طریقہ سے قانون کا دفاع کرتے ہیں، اس کی وجہ سے گڑبڑیاں ہوتی ہیں نیز، اِس میں بہت سارے ifs and buts ہیں۔ اگرچہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگ جہیز مانگ رہے ہیں، جہیز کے نام پر مظالم کر رہے ہیں لیکن وہیں ایسی بہت سی باتیں بھی ہیں جو غلط ہوتی ہیں، جیسے اتل سبھاش نے خود کشی کی۔ تو اس خود کشی ایسے ہی نہیں کی، کوئی نہ کوئی وجہ رہی ہوگی۔ دوسری جانب ہمارا سوشل اکنامک سسٹم کا تانا بانا بھی بگڑ چکا ہے اور اس میں سیاست دانوں کا بڑا کردار ہے۔ وہ قانون بنانے کا کام نہیں کرتے بلکہ لڑانے کا کام کرتے ہیں۔اگر وہ ہم سے رابطہ کریں،مشورہ کریں تو ہم انہیں بتا سکتے ہیں کہ قوانین کو کیسے بہتر کیا جائے۔
سماجی کارکن رنجنا کماری کہتی ہے کہ فیملی کورٹ ملک میں صرف 812 ہیں جن میں 1.14 ملین کیسس زیر التوا ہیں۔ہم لوگ جب سڑکوں پر آئے تھے اور قانون بنایا گیا تھا تو اس کا مقصد یہی تھا کہ خاندانی مسائل،خصوصاً خواتین پر ہونے والے گھریلو تشدد کا حل ہو۔ ہمارے ملک کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں ایک فریج اور چند چیزوں کے لیے گھروں میں شادی شدہ عورتوں کی جان لے لی جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کا حل یہی ہے کہ جہیز لینا اور دینا بند ہونا چاہیے۔
دوسری جانب اتل سبھاش نے الزام لگایا ہے کہ اس کی بیوی کا خاندان بار بار کئی لاکھ کی رقم کا مطالبہ کرتا تھا۔ جب اس نے مزید رقم دینے سے انکار کر دیا تو اس کی بیوی 2021 میں اپنے بیٹے کے ساتھ گھر چھوڑ کر بنگلورو چلی گئی۔سبھاش کے بھائی نے میڈیا کو بتایا کہ نکیتا کے خاندان نے شروع میں ماہانہ 40،000 روپے کا مطالبہ کیا، جسے بعد میں دوگنا کر دیا۔ آخر کار انہوں نے ایک لاکھ روپے مانگے۔ نیز اتل کی بیوی اور اس کے خاندان نے کیس کو واپس لینے کے لیے پہلے ایک کروڑ روپے کا مطالبہ کیا،بعد میں اسے بڑھا کر تین کروڑ کر دیا۔بیٹے کے نام اپنے آخری خط میں، جو اب وائرل ہو چکا ہے، اتل نے دعویٰ کیا کہ وہ یہ تک نہیں جانتا کہ اس کا بیٹا کیسا لگتا ہے کیونکہ اس نے اسے آخری بار اس وقت دیکھا تھا جب وہ ایک سال کا تھا۔اتل نے لکھا ہے، "بیٹا جب میں نے تجھے پہلی بار دیکھا تھا تو میں نے سوچا تھا کہ میں تیرے لیے اپنی جان بھی دے سکتا ہوں۔ لیکن افسوس کہ میں تیری وجہ سے اپنی جان دے رہا ہوں۔ مجھے اب تیرا کا چہرہ بھی یاد نہیں جب تک کہ میں تیری تصویریں نہ دیکھوں”۔ اتل نے اپنے بیٹے کو لکھا، "جب تک میں زندہ ہوں اور پیسے کما رہا ہوں، وہ تجھے تیرے نانا نانی اور ماموں مجھے ہراساں کرنے کے لیے، مجھ سے مزید پیسے بٹورنے کے لیے استعمال کرتے رہیں گے۔ میں اپنے والد، والدہ اور بھائی پر یہ سب غیر ضروری بوجھ نہیں ڈال سکتا۔ تیرے لیے بھی نہیں۔ میں اپنے باپ پر تیرے جیسے سو بیٹے قربان کر دوں گا۔ میں تیرے لیے ایک ہزار قربان کر دوں گا، لیکن میں اپنے والد کے دکھ کا سبب نہیں بنوں گا”۔ خود کشی نوٹ میں، اتل سبھاش نے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے 24 صفحات کے نوٹ کے ہر ایک صفحے پر لکھا کہ "انصاف واجب الادا ہے”۔ اتل کے بھائی کا کہنا ہے کہ "میں اپنے بھائی کے لیے انصاف چاہتا ہوں۔ مردوں کے لیے بھی قانون بنائے جائیں کیونکہ وہ بھی ہراساں ہوتے ہیں۔ حکومت ہند کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ایک مرد کی زندگی بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی ایک عورت کی اہم ہے”۔
اتل سبھاش نے خود کشی کی وجوہات کا تذکرہ کرتے ہوئے عدلیہ پر بھی سوال اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ شادی کے بعد مسائل کے حل اور علیحدگی و قانونی چارہ جوئی کے درمیان جونپور میں جس جج، ریتا کوشک سے سابقہ پیش آیا اس نے پہلے بلا واسطہ اور بعد میں راست مسئلہ کو حل کرنے کے لیے رشوت مانگی۔سبھاش نے اپنے ویڈیو میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ کورٹ میں 50 روپے سے کرپشن شروع ہوتا ہے اور فرد کی مالی حیثیت کے پیش نظر اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ سبھاش کہتا ہے کہ کورٹ میں ایک پیش کار ‘مادھو’ ہے۔ یہ جج ریتا کوشک کے پاس میں بیٹھتا ہے اور تمام طرح کے لوگوں سے رقم لیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ 21 مارچ 2024 کو دوپہر کھانے کے بعد جب مجھے بلایا گیا تو پہلے سے ہی میری بیوی بیٹھی ہوئی تھی، جج نے کہا کہ تم یہ کیس سیٹل کیوں نہیں کرلیتے؟ میں نے جج سے کہا "میم بیوی نے آپ کا جو انٹر مینٹنینس کا آڈر ہے، اس کے پہلے یہ ایک کروڑ مانگ رہی تھی اب تین کروڑ مانگ رہی ہے” اس پر جج کا جواب تھا "اس کا مطلب تمہارے پاس ہوں گے تب ہی تو یہ مانگ رہی ہے”۔ وہ کہتا ہے، اس کے بعد میں نے کہا "اس نے میرے ماں، باپ بھائی، سب پر مجھ پر اتنے سارے مقدمے ڈال رکھے ہیں، سارے غلط الزامات لگائے ہیں”۔ اس پر جج کا کہنا تھا "تو پھر کیا ہوگیا تمہاری پتنی ہے، اگر تم پر غلط کیسز ڈال بھی دیے تو کیا ہوگیا، ایسا ہی ہوتا ہے”۔ "میں نے پھر کہا کہ میم اگر آپ کو پتہ نہیں کہ لاکھوں لوگ ان غلط کیسز کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں”۔ اس وقت میری بیوی بولی "تم کیوں نہیں کر لیتے؟” اور یہ سن کے وہ جج ہنس دیتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس موقع پر میں چپ چاپ کھڑا تھا۔ جج نے میری بیوی کو باہر جانے کے لیے کہا۔ جب وہ باہر چلی گئی تو کہا "دیکھو یہ کیسز ایسے ہی چلتے ہیں، سارے کیسز ایسے ہی ڈالے جاتے ہیں، جھوٹے ہوتے ہیں، سب کو پتہ ہے لیکن سسٹم ہی یہی ہے، تم اسے سیٹل کرلو، میں تمہارا کیس سیٹل کروادوں گی، تم مجھے پانچ لاکھ روپے دو، میں تمہارے کیسز کورٹ میں سیٹل کروادوں گی۔ نہیں تو زندگی بھر تم اور تمہارے خاندان والے اسی کورٹ کے چکر لگاتے رہو گے”۔ وہ کہتا ہے کہ یہ سننے کے بعد میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی کہ جج کھلے عام مجھ سے رشوت مانگ رہی تھی۔
اتل سبھاش کے اس واقعہ اور عدالت میں جج کی جانب سے رشوت خوری کے مطالبے نے نہ صرف اتل سبھاش کو عدالتی نظام اور قانونی چارہ جوئی پر بھروسے کو کمزور کیا جو آگے چل کے خود کشی میں تبدیل ہوگیا بلکہ ملک کے عدالتی نظام میں رشوت خوری اور کرپشن کے نظام کی بھی پول کھول کے رکھ دی ہے۔ جج کی رشورت خوری کا یہ واقعہ معمولی نہیں بلکہ حد درجہ سنگین اور تشویش ناک ہے۔ قانون کی ماہر وکیل اور خواتین کے تحفظ کے لیے سرگرم رہنے والی این ودیا کا کہنا ہے کہ دفعہ 498-A کا اس قدر غلط استعمال کیا جا رہا ہے کہ یہ اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کا زیادہ تر غلط استعمال شہروں میں پڑھی لکھی خواتین کر رہی ہیں، دوسری جانب دیہی علاقوں یا شہری علاقوں میں کم تعلیم یافتہ خواتین کو اب بھی ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور وہ شکایت کرنے کے قابل نہیں ہیں”۔ وہیں بنگلورو میں قائم ودھی سنٹر فار لیگل پالیسی کے شریک بانی ‘آلوک پرسنا’ دفعہ 498-A کے غلط استعمال کے بارے میں کہتے ہیں کہ بھارت میں تقریباً تمام فوج داری قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شہریوں کو پولیس سے بچانے کے بجائے ہمارا نظام شہریوں سے پولیس کی حفاظت کرتا ہے۔ دہلی میں مقیم ایک سینئر ایڈووکیٹ وکاس پاہوا کا کہنا ہے کہ 498-A کے ممکنہ غلط استعمال کو مد نظر رکھا جانا چاہیے اور قانونی عمل کی اصلاح پر زور دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ یہ دفعہ چند خواتین کے لیے پیسے بٹورنے کا آلہ بن گیا ہے۔ یعنی ماہرین قوانین خود اس دفعہ کے غلط استعمال سے نہ صرف واقف بلکہ اس میں سدھار کے خواہاں بھی نظر آتے ہیں۔ان حالات میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ حکومت اور اعلیٰ قانون ساز ادارے اس جانب توجہ نہیں دے رہے ہیں؟

 

***

 اتل سبھاش کے اس واقعہ اور عدالت میں جج کی جانب سے رشوت خوری کے مطالبے نے نہ صرف اتل سبھاش کو عدالتی نظام اور قانونی چارہ جوئی پر بھروسے کو کمزور کیا جو آگے چل کے خود کشی میں تبدیل ہوگیا بلکہ ملک کے عدالتی نظام میں رشوت خوری اور کرپشن کے نظام کی بھی پول کھول کے رکھ دی ہے۔ جج کی رشورت خوری کا یہ واقعہ معمولی نہیں بلکہ حد درجہ سنگین اور تشویش ناک ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 دسمبر تا 28 دسمبر 2024