اڈانی کا وارنٹ: ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے
رشوت، فراڈ اور امریکی الزامات کے تحت اڈانی بزنس پر خطرے کے بادل
ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
وزیر اعظم مودی اور گوتم اڈانی؛ سیاسی دوستیاں عالمی اسٹیج پر کیسے پھیل گئیں؟
گوتم اڈانی کے تنازع پر رویش کمار کا تبصرہ ضرب المثل بن گیا ہے کہ موصوف پورا ہندوستان تو خرید سکتے ہیں مگر امریکہ جانے کا ٹکٹ نہیں خرید سکتے۔ یعنی وہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے بے شمار اڈانی گروپ کے زیر انتظام ہوائی اڈوں کے باوجود کسی سے امریکہ جانے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں قدم رکھتے ہی ان کا استقبال گجرات کے روایتی رقص ’گربا‘ سے نہیں بلکہ ہتھکڑیوں پہنا کر عدالت میں پہنچایا جائے گا اور اگر کوئی فرد عدالت پہنچ جائے تو اس سے جیل کا دروازہ دور نہیں رہتا۔ مودی کے چہیتوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل امریکہ میں مقیم خالصتان نواز گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش میں قومی سلامتی کے مشیر اور مودی کے ’ہٹ مین‘ اجیت ڈوول سمیت وزیر داخلہ امیت شاہ کے خلاف بھی سمن جاری ہو چکا ہے۔ امیت شاہ کے لیے امریکہ جانا تو دور منی پور جانا بھی مشکل ہے لیکن اجیت ڈوول دنیا بھر میں مودی کے ساتھ سایہ کی مانند گھومتے رہے ہیں۔ پچھلی مرتبہ یہ سایہ وزیر اعظم سے ہٹ چکا تھا یعنی مہا شکتی مان ڈر گئے تھے۔ مودی اپنے ہمنواؤں کے کرب کو اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں کیونکہ ایک زمانے میں وہ اس سے گزر چکے ہیں۔
بھارت میں چونکہ رشوت خوری عوام کے ڈی این اے شامل ہوگئی ہے اور عام شہریوں کے رگوں میں خون کے ساتھ دوڑتی ہے اس لیے انہیں حیرت ہے کہ ایک ہندوستانی سرمایہ کار سرزمین ہند پر اپنے ہی ملک کے سرکاری اہلکاروں کو رشوت دے تو اس پر امریکہ کو اعتراض کیوں ہے؟ اڈانی کی کمپنی میں اگر امریکی سرمایہ کاری نہ ہوتی تو یہ منطق درست ہوتی۔امریکی محکمۂ انصاف کے مطابق اڈانی گروپ نے تین بلین ڈالر کے قرض اور بانڈز حاصل کرنے کے لیے امریکی سرمایہ کاروں سے اپنی بدعنوانی کو چھپایا۔ کیس کی تفصیلات میں کہا گیا کہ ملزمین نے امریکی سرمایہ کاروں کو جھوٹے دعوؤں کے ذریعے راغب کیا اور رشوت کی ادائیگی کو پوشیدہ رکھا۔استغاثہ نے الزام عائد کیا کہ اڈانی اور دیگر ملزمین نے امریکی سرمایہ کاروں سے فنڈس اکٹھا کرنے کے منصوبے کی بابت کذب گوئی کی۔ مودی یگ میں جھوٹ کو عیب نہیں بلکہ خوبی سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ میں بھی اس کا بول بالا ہے لیکن وہاں کوئی پکڑا جائے تو اسے سزا دی جاتی ہے جبکہ یہاں پر پہلے اسے عدلیہ سے کلین چٹ ملتی ہے۔ اس کے بعد مہوا موئترا یا راہل گاندھی جیسے لوگوں کو معتوب کیا جاتا ہے اور بالآخر ملزم کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے اور گوتم اڈانی کے ساتھ ایسا کئی بار ہوچکا ہے۔
امریکہ کا معاملہ ہندوستانی عدلیہ سے مختلف ہے۔ وہاں تحقیق و تفتیش کے بعد جب ثبوتوں پر اطمینان ہو جائے تبھی قدم بڑھایا جاتا ہے۔ اسی لیے اڈانی کے خلاف کارروائی میں کئی ماہ لگے۔ وہاں ایسا نہیں ہوتا کہ عمر خالد گرفتار تو ہو جائے مگر مہینوں تک فردِ جرم ہی داخل نہ ہو۔ یہ بھی نہیں کہ کوئی اوٹ پٹانگ الزام لگا کر ای ڈی کسی کو گرفتار کرلے اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ذمہ داری خود ملزم کے سر تھوپ دی جائے۔ امریکی شہر بروکلین کی عدالت میں محکمہ انصاف اور قومی پراسیکوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے دائر کئے گئے اس مقدمے میں اڈانی اور ان کے ساتھیوں پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے ہندوستانی حکومت سے شمسی توانائی کے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے پچیس کروڑ ڈالر (تقریباً دو ہزار ایک سو کروڑ روپے) رشوت دی۔ امریکہ میں سرمایہ دار کھلے عام سیاست دانوں پر روپیہ لٹاتے ہیں۔ بل گیٹس کھلم کھلا کملا ہیرس کی حمایت کرتے ہیں جبکہ ایلون مسک ڈونالڈ ٹرمپ کو چندہ دیتے ہیں۔ سرمایہ داروں کی اس شفاف حصے داری کو برا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ یہ ڈھکی چھپی رشوت نہیں ہے۔ اڈانی یہ کام کھل کر نہیں بلکہ ڈھکے چھپے انداز میں غیر قانونی تعاون حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں اس لیے امریکی انتظامیہ کو اس پر شدید اعتراض ہے۔
امریکی معاشرہ اس معنیٰ میں بھی ہندوستانی سماج سے مختلف ہے کہ وہاں معاشی جرائم کو بھی فوج داری کی مانند نہایت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ امریکہ میں یہ کتنا مہا پاپ ہے اس کا اندازہ اینرون کی بدعنوانی کے معاملے سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کمپنی کے مالک کینیتھ لے اور اڈانی میں کمال کی مشابہت ہے نیز دونوں کا گھوٹالا بجلی کی پیداوار یعنی توانائی کے شعبے سے ہے۔ کینتھ بھی اڈانی کی طرح ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے اور اپنی محنت سے سامراج کھڑا کیا تھا۔ اڈانی گروپ کی طرح اینرون کا نام بھی نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں مشہور تھا۔ حکومت کے ساتھ مسٹر لے کے گہرے تعلقات تھے۔ انہوں نے امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سے اپنے تعلقات استوار رکھے تھے۔ یہی بات اڈانی کے بارے میں کہی جا رہی کہ ان کے بی جے پی کے علاوہ کانگریسی وزرائے اعلیٰ سے بھی مراسم ہیں۔ 1990 کی دہائی میں ان کی کمپنی اینرون نے دونوں سیاسی پارٹیوں کو لابی کرنے والی کمپنیوں کےتوسط سے تقریباً ساٹھ لاکھ ڈالر عطیہ دیا تھا۔ اڈانی نے مرکزی و صوبائی حکومتوں کو کتنی رشوت دی یہ باتیں چھن چھن کر باہر آ رہی ہیں۔
کینتھ لے سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے ساتھ گولف کھیلتے تھے اور ان کے بعد آنے والے جارج بش انہیں قربت کے سبب ’کینی بوائے‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئےگوتم اڈانی بھی سیاسی سرمایہ کاری کرکے نریندر مودی کے منظور نظر بن گئے۔ بعید نہیں کہ آگے چل کر اڈانی اور راہل میں دوستی ہو جائے۔ بیس سال کے اندر کینتھ نے اینرون کو امریکہ کی ساتویں اور دنیا میں توانائی کی خرید و فروخت کرنے والی سب سے بڑی کمپنی بنا دی تھی۔ اڈانی کا ارتقاء بھی اس سے کم نہیں ہے۔دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں نے اینرون کے حصص خریدے تھے اور ہزاروں نے اپنے مستقبل اور ریٹائرمنٹ کی امیدیں اس سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ ایک زمانے میں ہندوستانی سرمایہ کار اینرون کے شیئر خریدتے تھے اب امریکی لوگ اڈانی کی کمپنی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ آگے چل کر یہ انکشاف ہوا کہ کینیتھ لے اور جیفری سکلنگ اپنے چیف فائنانشل افسر اینڈریو فیسٹو کے ساتھ مل کر کمپنی کے کھاتے میں گھپلا کر کے اس کے خسارے کو چھپا رہے ہیں۔اڈانی پر بھی اسی قسم کے الزامات ہیں مگر پکڑے جانے پر اینرون دیوالیہ ہو گئی۔ سرکار یا سرکاری ادارے اس کی مدد کے لیے آگے نہیں آئے جیسا کہ ہندوستان میں ہوتا ہے۔
اینرون کے دیوالیہ پن نے چار ہزار لوگوں سے ان کی نوکریاں چھین لیں اور اس کے حصص میں سرمایہ لگانے والے ہزاروں لوگ اپنی جمع پونجی کھو بیٹھے۔ ذاتی طور پر کینیتھ لے ایک کے بعد ایک کئی مقدمات میں پھنستے چلے گئے یہاں تک کہ گرفتار بھی ہوئے مگر اپنے جرائم کا اعتراف نہیں کیا بلکہ خود کو ہمیشہ بے قصور بتاتے رہے، یہی حال اڈانی کا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اڈانی کب گرفتار ہوتے ہیں۔ بڑے مراسم کے باوجود کینیتھ لے کو امریکی عدالت سے کلین چٹ نہیں ملی بلکہ انہیں دھوکہ دہی کا مجرم قرار دے کر فیصلہ محفوظ رکھ دیا گیا۔ ان کو اپنے جرائم کے عوض پچیس سے پینتالیس سال قید کی سزا سنائی جانے والی تھی کہ ان کی موت ہو گئی۔ اس عبرت ناک داستان میں گوتم اڈانی کے لیے سبق ہے۔ اینرون کی مثال دینے کا مقصد یہ ہے کہ اس معاملے کو ہندوستانی عدلیہ کی مانند ہلکے میں نہ لیا جائے۔
فی الحال امریکی عدالت میں دائر کردہ پانچ نکاتی فرد جرم میں گوتم اڈانی کے فرزند و ارجمند ساگر اڈانی، وینیت ایس جین اور دیگر افراد پرسنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ امریکہ، سنگاپور، آسٹریلیا اور ہندوستان میں مقیم ہیں۔ عدالتی دستاویزات میں ’فارین آفیشل ون‘ کے طور پر آندھرا پردیش کے ایک سرکاری اہلکار کی شناخت کی گئی ہے۔ ان سب پر امریکی وفاقی قوانین کے تحت انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے الیکٹرانک شواہد مٹانے اور جسٹس ڈپارٹمنٹ، سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) اور ایف بی آئی کے نمائندوں سے جھوٹ بولنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس معاملے میں ایس ای سی نے ایک علیحدہ دیوانی مقدمہ بھی دائر کیا ہے۔ پراسکیوٹرز کا کہنا ہے کہ اڈانی گروپ اور اڈانی گرین اینرجی کے سابق سی ای او وینیت جین نے قرضوں اور بونڈس کی شکل میں تین بلین ڈالر سے زیادہ رقم اکٹھا کی جبکہ اپنی بدعنوانی کو قرض دہندگان اور سرمایہ کاروں سے چھپایا۔فرد جرم کے مطابق ’بِگ مین‘ جیسے کوڈ نام سے جانے جانے والے گوتم اڈانی کے بیٹے ساگر اپنے موبائل فون کے ذریعے رشوت سے متعلق معاملات پرنگاہ رکھتے تھے۔
امریکہ کی جانب سے اڈانی گروپ پر یہ تیسرا میزائل ہے۔ اس سے پہلے امریکی شارٹ سیلر ہنڈن برگ ریسرچ نے اڈانی پر اپنی جعلی کمپنیوں کی مدد سے خود ہی شیئر خرید کر ان کے بھاو بڑھانے کا الزام لگایا تھا۔ اس اولین حملے میں اڈانی کا بہت نقصان ہوا اور دنیا میں وہ دوسرے نمبر سے گر کر بائیسویں پر پہنچ گئے۔ اس وقت ان پر ٹیکس چوری کرنے کا الزام بھی لگایا گیا تھا جو وطن عزیز میں عام بات ہے۔ اس لیے جب اڈانی گروپ نے اس کی تردید کی تو اس پر کسی نے یقین نہیں کیا۔ ہنڈنبرگ ایک نجی کمپنی ہے اور ان انکشافات سے اس نے معاشی فائدہ اٹھایا تھا اس لیے اسے ہلکے میں لیا گیا۔ دوسری بار اس نے اڈانی کے سیبی کی سربراہ مادھوی بچ اور ان کے شوہر سے اقتصادی روابط کا بھانڈا پھوڑ کر تحقیقات کے نہ ہونے کی وجہ بتائی۔ اس کو تو ہندوستانی حصص بازار کے لوگوں نے پوری طرح نظر انداز کر دیا اور بازار پر بھی اس کا کوئی خاص اثر نہیں مگر یہ معاملہ ایف بی آئی کی تحقیق کے بعد امریکی انتظامیہ کا ہے اس لیے سرمایہ کاروں نے اس کو بہت سنجیدگی سے لیا ۔
امریکی عدالت میں گوتم اڈانی کے خلاف تحقیقات کی خبر کے بعد اڈانی گروپ کے شیئرز میں فروخت کا رجحان تیزی کے ساتھ شروع ہوگیا۔ اڈانی گرین کے حصص میں پہلے دن سب سے زیادہ گراوٹ آئی۔ قومی حصص بازار این ایس سی پہلے دن 1,085 روپے فی شیئر پر کھلا اور 10.21 روپے فی شیئر کی کم ترین سطح کو چھو گیا۔ اس کے بعد اگلے دن تک اس میں تقریباً اٹھائیس فیصد کی کمی آئی۔ اڈانی انرجی سلوشنز کے حصص بھی این ایس ای پر 658.15 روپے فی حصص سے نیچے کھلے اور 637.55 روپے فی حصص کی کم ترین سطح کو چھو کر تقریباً ستائیس فیصد کی کمی تک پہنچے۔اس معاملے میں نام آنے کے بعد اڈانی گروپ نے امریکہ میں چھ سو ملین ڈالرس کے بانڈز منسوخ کر دیے۔ ان سنگین الزامات کے بعد اڈانی گروپ کے دیگرحصص میں بھی اوسطاً بیس فیصد تک کی کمی دیکھی گئی جبکہ بامبے اسٹاک ایکسچینج میں اڈانی گرین کے حصص میں اٹھارہ فیصد کی کمی واقع ہوگئی۔ اس طرح اڈانی کی دولت میں ایک دن میں دس بلین ڈالرس سے زیادہ کی گراوٹ درج کی گئی جو اب تک کا ریکارڈ تھا۔
گوتم اڈانی کے وارنٹ نے اپوزیشن رہنما راہل گاندھی کو گوتم اڈانی کو گھیرنے کا نادر موقع عنایت کردیا۔ انہوں نے وزیر اعظم مودی سے اڈانی کی گرفتاری کا مطالبہ کرکے سوال کیا کہ اتنے سنگین الزامات کا سامنا کرنے کے بعد بھی وہ جیل سے باہر کیوں ہیں؟ راہل نے پی ایم مودی کو چیلنج دیا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے کے نتیجے میں وہ خود بھی پھنس جائیں گے۔ راہل گاندھی نے اس کی یہ وجہ یہ بتائی کہ مودی کی پارٹی بی جے پی کو اڈانی چندہ دیتے ہیں۔ راہل گاندھی نے اڈانی گروپ کے خلاف تحقیقات کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے قیام کے مطالبہ بھی کیا۔ راہل گاندھی کے مطابق یہ واضح ہو چکا ہے کہ اڈانی نے امریکی اور ہندوستانی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں کئی وزرائے اعلیٰ اور عام افراد کو معمولی الزامات میں گرفتار کیا جا چکا ہے لیکن اڈانی پر ہندوستانی حکام کو ڈھائی سو ملین ڈالر یعنی تقریباً دو ہزار کروڑ روپے کی رشوت دینے کا منصوبہ بنانے کا سنگین الزام ہے اس کے باوجود وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔
عام آدمی پارٹی کے لیڈر سنجے سنگھ نے کہا کہ مودی جی کے دوست گوتم اڈانی نے پوری دنیا میں ہندوستان کو شرمندہ کیا ہے۔ اڈانی نے حکام کو رشوت میں ہزاروں کروڑ روپے دے کر ہندوستان میں بارہ ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی کا ٹھیکہ لیا ہے۔ امریکی کمپنیوں نے بھی اس میں پچیس ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ امریکی عدالت نے تفتیش کی ہے تاکہ امریکی سرمایہ کاروں کا پیسہ نہ ڈوبے۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ گوتم اڈانی کے بھتیجے ساگر اڈانی نے اتنی بڑی رشوت دی ہے اور اس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔ ایک امریکی عدالت نے گوتم اڈانی اور ساگر کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔ سنجے سنگھ کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے دوستوں نے پوری دنیا میں ہندوستان کو جو شرمندہ کیا ہے وہ نہایت افسوس ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک فلم کا گانا سنا تھا، تو جہاں جہاں چلے گا، میرا سایہ ساتھ ہوگا۔ سنجے سنگھ نے الزام لگایا کہ کہ وزیر اعظم مودی بھی اڈانی کے لیے یہی گانا گاتے ہیں۔ وہ جس ملک میں جاتے ہیں، جس پروگرام میں جاتے ہیں، جس اسکیم کو شروع کرتے ہیں، انہیں ہندوستان کا فائدہ نہیں بلکہ اڈانی کا فائدہ نظر آتا ہے۔
سنجے سنگھ کا الزام ہے کہ مودی نے اپنے دوست کے لیے ریاستی حکومتوں پر دباؤ ڈالا کہ آپ مہنگی بجلی خریدیں تاکہ دوست کو فائدہ ہو۔ سنجے سنگھ نے اس معاملے کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں تحقیقات، وزیر اعظم سے پوچھ گچھ اور گوتم اڈانی، ساگر اڈانی اور رشوت لینے والے اہلکاروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے مگر مودی یُگ میں ایسا ہونا نا ممکن ہے۔ سوشل میڈیا میں بہت سارے لوگ اسے اڈانی کے ذریعہ ٹرمپ کو مبارکباد سے ناراض بائیڈن کا انتقام کہہ رہے ہیں حالانکہ یہ معاملہ دو سال سے چل رہا ہے۔ آٹھ ماہ قبل یہ معلومات ذرائع ابلاغ میں آگئی تھیں کہ امریکہ میں اڈانی گروپ کے خلاف رشوت اور فراڈ کے الزامات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ بلومبرگ نے بتایا تھا کہ تحقیقات کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا اڈانی گروپ کی کسی کمپنی یا اس سے وابستہ کسی شخص نے توانائی کا منصوبہ حاصل کرنے کے لیے بھارتی حکام کو رشوت دی ہے یا نہیں۔
نیویارک میں مشرقی ضلع کے لیے امریکی اٹارنی کے دفتر اور واشنگٹن میں محکمہ انصاف کا فراڈ یونٹ اس کی تحقیقات کرتا رہا۔ امریکی قانون وفاقی پراسیکیوٹرز کو اگر امریکی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری شامل ہو تو غیر ملکی بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کرنے کی اجازت دیتا ہے بلکہ مودی سرکار کے ذریعہ نیا فوج داری قانون بیرون ملک ہندوستانیوں کی گھپلے بازی پر اقدام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ ہندوستان میں ایسے قوانین تو موجود ہیں مگر ان کا اطلاق صرف حزب اختلاف پر ہوتا ہے۔ اڈانی جیسی "مقدس گائے” کے خلاف اس کا تصور بھی ناممکن ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اڈانی کے ذریعہ چلائے جانے والے مندرا بندرگاہ میں ایک سے زیادہ مرتبہ ہزاروں کروڑ کی منشیات پکڑی گئی مگر کسی کا بال بیکا نہیں ہوا لیکن امریکہ میں اندھیر نگری نہیں ہے۔ فی الحال تو ایسا لگتا ہے کہ اڈانی خود اپنے ساتھ مودی کو بھی لے ڈوبیں گے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 دسمبر تا 7 دسمبر 2024