اڈانی اور جارج سوروس، حکومت جانچ کیوں نہیں کرواتی؟

پارلیمانی اجلاس کے موقع پر دیگر مسائل پر زور لیکن جواب دہی سے راہ فرار

ہفت روزہ دعوت بیورو

پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس سے قبل امریکی ایجنسی کے ذریعہ رشوت معاملے میں اڈانی گروپ کے خلاف سمن جاری ہونے کی خبر سامنے آئی، اس کے بعد کانگریس اور راہل گاندھی برسر اقتدار پارٹی پر حملہ آور ہوئے، نتیجے میں پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے دو ہفتے ہنگامہ آرائی کے نذر ہو گئے۔ پھر اچانک بی جے پی لیڈر سدھانشو ترویدی نے فورم فار ڈیموکریٹک لیڈرز آف ایشیا پیسفک اور کانگریس کی سینئر لیڈر سونیا گاندھی کے درمیان روابط کا الزام لگایا۔ بی جے پی کا الزام ہے کہ اس فورم میں بھارت مخالف اور پاکستان نواز باتیں ہو رہی ہیں۔ بی جے پی نے الزام عائد کیا کہ اس فورم کو جارج سورس کی فاؤنڈیشن نے فنڈ فراہم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں سے یہ اتفاق ہے کہ بھارت میں جب بھی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوتا ہے، پیگاسس رپورٹ، کسانوں کی تحریک، منی پور تشدد اور ہنڈن برگ جیسے واقعات سامنے آجاتے ہیں۔
مرکزی وزیر کرن رجیجو نے دعویٰ کیا کہ کانگریس لیڈر سونیا گاندھی اور ہنگری کے امریکی تاجر جارج سوروس کے درمیان مبینہ روابط ایک ’’سنگین تشویش کا باعث‘‘ ہیں۔ رجیجو نے کہا کہ اس طرح کے معاملات کو ’’سیاسی عینک‘‘ سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے ’’بھارت مخالف طاقتوں‘‘ کے خلاف متحدہ محاذ پر زور دیا اور کہا کہ سونیا گاندھی اور جارج سورس کے درمیان روابط سنجیدہ ہیں۔ ہم اسے سیاسی گھماؤ کے ذریعے نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی نے الزام لگایا ہے کہ سونیا گاندھی کے جارج سوروس کی فاؤنڈیشن سے مالی تعاون کرنے والی تنظیموں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ حکم راں جماعت کا دعویٰ ہے کہ ان اداروں نے متنازعہ موقف کی حمایت کی ہے مثلاٌ کشمیر کو ایک الگ ادارہ سمجھنا۔ بی جے پی نے راجیو گاندھی فاؤنڈیشن اور سوروس سے منسلک تنظیموں کے درمیان شراکت داری کو گھریلو معاملات میں غیر ملکی اثر و رسوخ کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔
طرفہ تماشا دیکھیے کہ بی جے پی نے راجیہ سبھا میں رول 267 کے تحت اس معاملے میں بحث کا مطالبہ کیا اور کل 11 نوٹس دیے گئے مگر حکم راں محاذ کے تئیں جانب دارانہ رویہ برتنے کے الزام کا سامنا کرنے والے راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکر نے اس نوٹس کو رد کردیا۔ ایک طرف کانگریس کے مطالبے پر نہ اڈانی پر بحث کی جا رہی ہے اور نہ کانگریس و جارج سوروس کے تعلقات پر بحث کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اڈانی اور جارج سوروس پر حقائق قوم اور ملک کے سامنے کب آئیں گے؟ جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کے غیر ملکی تنظیموں سے تعلقات اور ملک کو کمزور کرنے کی بات ہے تو یہ کوئی نیا الزام نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ حکم راں جماعت کی یہ سوچ انتہائی خطرناک ہے کہ جب بھی کسی سیاسی پارٹی اور لیڈر کی جانب سے حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی جاتی ہے تو غیر ملکی طاقتوں سے ساز باز کرنے کا الزام عائد کر کے انہیں خاموش کر دیا جاتا ہے۔
بی بی سی ہندی کی ایک رپورٹ کے مطابق جارج سوروس ایک متنازع کردار رہا ہے۔ امریکی ارب پتی صنعت کار جارج سوروس کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ اس نے 1992 میں بینک آف انگلینڈ کو شارٹ سیلنگ کے ذریعے برباد کر دیا۔ ہنگری کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والے جارج سوروس ہٹلر کے نازی جرمنی میں جب یہودی مارے جا رہے تھے تو وہ کسی نہ کسی طرح بحفاظت فرار ہو گیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہنگری ایک کمیونسٹ ملک بن گیا۔ بعد میں وہ وہاں سے چلا گیا اور مغربی ملک آ گیا۔ سوروس نے اسٹاک مارکیٹ میں پیسہ لگایا، اسٹاک مارکیٹ سے تقریباً 44 بلین ڈالر کمائے۔ اس رقم سے اس نے ہزاروں اسکولس اور ہسپتال بنائے۔ سوروس نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے لڑنے والی تنظیموں کی مدد کی۔ 1979 میں سوروس نے اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی جو اب تقریباً 120 ممالک میں کام کرتی ہے۔ اپنے کام کی وجہ سے وہ ہمیشہ دائیں بازو کے لوگوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔ انہوں نے 2003 کی عراق جنگ پر تنقید کی اور ڈیموکریٹک پارٹی آف امریکہ کو لاکھوں ڈالرز کا عطیہ دیا۔ اس کے بعد امریکی دائیں بازو کی طرف سے ان پر حملے مزید ہونے لگے۔ 2019 میں ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک ویڈیو کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سوروس نے ہونڈوراس سے ہزاروں پناہ گزینوں کو امریکی سرحد عبور کرنے کے لیے رقم ادا کی تھی۔ جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا اس کے پیچھے سوروس کا ہاتھ ہے تو ٹرمپ کا جواب تھا کہ بہت سے لوگ ایسا کہتے ہیں اور اگر ایسا ہے تو وہ بھی اس پر حیران نہیں ہوں گے۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ سوروس نے کسی کو کوئی رقم نہیں دی تھی اور ٹرمپ نے جو ویڈیو شیئر کی تھی وہ بھی جعلی تھی۔
صرف امریکہ میں ہی نہیں، جارج سوروس کے خلاف مہم آرمینیا، آسٹریلیا، روس اور فلپائن میں بھی چلائی جاتی ہے، یہاں تک کہ ترک صدر طیب ایردوان نے کہا تھا کہ سوروس ایک یہودی سازش کے مرکز میں ہے جو ترکی کو آپس میں تقسیم کرکے تباہ کرنا چاہتا ہے۔ برطانیہ کی بریگزٹ پارٹی کے نائجل فاریج کا دعویٰ ہے کہ سوروس مہاجرین کو یورپ میں پھیلنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ان کے مطابق سوروس پوری مغربی دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
جارج سوروس کبھی بھی وزیر اعظم نریندرمودی کے مداحوں میں نہیں رہے ہیں۔ گزشتہ سال کے شروع میں جرمنی کے شہر میونخ میں ڈیفنس کانفرنس میں جارج سوروس نے کہا تھا کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی جمہوری نہیں ہیں اور مودی کے تیزی سے بڑا لیڈر بننے کی سب سے بڑی وجہ ہندوستانی مسلمانوں پر ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کو قرار دیا تھا ۔سوروس نے صنعت کار گوتم اڈانی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ’’مودی اور ارب پتی اڈانی کے قریبی تعلقات ہیں‘‘۔ دونوں کا مستقبل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ اڈانی پر اسٹاک میں ہیرا پھیری کا الزام ہے اور مودی اس معاملے پر خاموش ہیں لیکن انہیں جواب دینا پڑے گا۔ سوروس کے بیان پر اس وقت وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ سوروس کے تبصرے ایک عام یورو اٹلانٹک نقطہ نظر کے تھے۔ جے شنکر نے کہا تھاکہ ’’سوروس ایک بوڑھا، امیر اور کٹر آدمی ہے جو نیویارک میں بیٹھا ہے اور سوچتا ہے کہ اس کے خیالات کو پوری دنیا کی رفتار کا تعین کرنا چاہیے۔ اس سے قبل جنوری 2020 میں ڈاوس میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم کے ایک پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے سوروس نے کہا تھا کہ ہندوستان کو ہندو قوم پرست ملک بنایا جا رہا ہے۔
جارج سوروس بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں یا نہیں یہ تحقیق کا موضوع ہے اس کی جانچ ہونی چاہیے۔مگر سوال یہ ہے کہ جانچ کی ذمہ داری کس پر ہے؟ تمام ایجنسیاں کس کے اشارہ پر کام کرتی ہیں۔ اس کے برعکس اڈانی کے معاملے میں اب یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہونی چاہیے کہ مودی اور اڈانی کے تعلقات ویسے ہی ہیں جو ڈونالڈ ٹرمپ اور ایلن مسک کے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ ٹرمپ کھلے عام اور واضح طور پر ایلن مسک کو شخص کے طور پر پیش کرتے ہیں جو ان کی بار بار دہرائی جانے والی ’’امریکہ فرسٹ‘‘ پالیسی میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ ٹرمپ یہ بات ہرگز نہیں چھپاتے کہ ایلن مسک عالمی سطح پر اہم ٹیکنالوجیز میں امریکہ کی موجودگی کو بنانے اور مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ ٹرمپ واضح کرتے ہیں کہ جب بھی عالمی سطح پر بڑے اقتصادی شراکت داروں کے ساتھ اہم تجارتی/سرمایہ کاری اور معاہدے کی بات آئے گی تو ایلون مسک ان کے عالمی سفیر ہوں گے۔ شراکت دار ممالک کے لیے اس کا دہرا اثر ہو سکتا ہے۔ مگر وزیر اعظم مودی نے اڈانی سے تعلقات پر کبھی بولنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے حالانکہ ان کی حکومت کے اقدامات اور عالمی سطح پر حکومت کی اقتصادی سفارت کاری میں اڈانی گروپ کا خاص کردار ہوتا ہے۔ وزیر اعظم مودی کے لیے اقتصادی ڈپلومیسی آؤٹ ریچ کا اڈانی ایک لنچ پین  ہے، پوری دنیا میں چاہے وہ بنگلہ دیش، سری لنکا، افریقہ، میانمار، اسرائیل، یورپ، امریکہ یا حال ہی میں چین میں ہو جہاں اڈانی نے سپلائی کھولی ہے، یا پھر اڈانی نے امریکہ میں 10 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ایک اہم منصوبے کا بھی جو اعلان کیا تھا وہ سب مودی کی سر پرستی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اڈانی کے ذریعہ بھارت کی موجودگی کو پھیلانے سے متعلق آخر وزیر اعظم کچھ کیوں نہیں کہتے یہ سوال ہی اہم ہے۔یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ آر بی آئی کی رپورٹ کے مطابق ملک میں جہاں عام لوگوں کی آمدنی اور قوت خرید میں کمی آئی ہے وہیں کارپوریٹ گھرانوں کی آمدنی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ بھارت میں بڑھتی ہوئی اقتصادی نا ہمواری نے مودی اور صنعت کاروں کی دوستی اور تعلقات کو سوالوں کی زد میں کھڑا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کے ساتھ جارج سوروس کے تعلقات کے ذریعہ بھارت کے مفادات پرحملے کی تھیوری اڈانی کا دفاع نہیں کر پا رہی ہے۔ بہرحال اڈانی اور جارج سوروس کے نام پر ہنگامہ آرائی کی وجہ سے سرمائی اجلاس میں اہم ایشوز تو غائب ہوگئے اور اس کا فائدہ حکم راں محاذ کو مل گیا۔ حکم راں جماعت کی خواہش بھی یہی ہے کہ کسی طرح اسے جواب دہی سے بچایا جائے ۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 دسمبر تا 28 دسمبر 2024