ادب میں اخلاقی اقدار

محاسن اخلاق کی آبیاری تعمیری ادب کا امتیاز

ڈاکٹر فاطمہ تنویر
(معاون سکریٹری شعبہ خواتین، جماعت اسلامی ہند)

افکار کی دنیا میں انقلاب پیدا کرنے کے لیے ادباء و شعراء پر معیاری ادب کے فروغ کی ذمہ داری
اس عنوان پر قلم اٹھانے سے پہلے وہ المناک منظر نگاہوں کے سامنے ہے جہاں ہماری تہذیب و تمدن نیزاخلاقی قدریں پامال ہوتی نظر آرہی ہیں زندگی میں کسی تعمیری اور صحت مند تبدیلی کے لیے مثبت پیش رفت کے آثار کہیں سے نظر نہیں ارہے ہیں لیکن بقول علامہ اقبالؒ
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ہر دور میں ادباء کا اپنے زمانے کے حالات سے باخبر رہنا ماحول پر نظر رکھنا ملک و قوم کی ترقی و زوال کی وجوہات کا اندازہ لگانا، اس کے اسباب کو جاننا ضروری ہوتا ہے یہ شعور انہیں اپنے عہد کے لوگوں سے قریب کرتا ہے اور وہ اپنے علم و فن کے ذریعے ان کے دکھ درد میں شریک ہو کر اپنے دور کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں وہ الفاظ کو فن ترتیب کے سانچے میں ڈھال کر خیالات و احساسات سے اسے آراستہ کرکے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ ادب بن جاتا ہے بقول ڈاکٹر سید عبدالباری
’’ادب کے بارے میں وہ نظریات عرصہ دراز سے قائم ہیں کہ نظریہ عقیدہ اور تہذیبی اقدار سے بے پرواہ ہو کر محض الفاظ کی طلسم بندی کر کے لوگوں کی تفریح طبع کا سامان مہیا کرنا چاہیے۔ دوسری جانب ہماری ادبی تاریخ کے معتبر اہل قلم نے ادبی تخلیق کو بادام یا انار کی مانند قرار دیا جس کا وجود محض خوشنما چھلکے سے نہیں قائم ہے اس کا اصل جوہر یعنی مغز یا دانہ اس کے اندر پوشیدہ ہے‘‘
( روشنی بھی کرتی ہے صفحہ نمبر 27 ,28)
ایک اچھے ادیب کی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنی بات کو اس طرح بیان کریں کہ سننے اور پڑھنے والا اس کی تاثیر میں غرق ہو جائے اور غرق ہی نہیں بلکہ ادیب کے خیالات کی گہری وادیوں میں اس طرح کھو جائے کہ وہاں سے گوہر نایاب لے کر واپس ہو یہی اچھے ادیب و شعراء کی پہچان ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ادب جیسا کہ ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ احساسات و خیالات کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر اسے صفحۂ قرطاس پر بکھیرنے کا نام نہیں بلکہ ادب انسانوں کی تعمیر و تخلیق کا نام ہے
ادب کو ہم کتنے خانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں؟ جہاں تک میں سمجھ سکی ہوں کہ ایک تو وہ ادب جو تخریبی ذہن کی پیداوار ہوتا ہے جہاں سے بے حیائی، بے حسی، بے ترتیبی اور تہذیبی گراوٹ شروع ہوتی ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ادب جس پر مادہ پرستی اور مغربیت کی چھاپ ہو جہاں خود غرضی، بے رخا پن اور اکیلا پن موجود ہو۔۔۔‌ میرا قلم میری مرضی ۔میں کچھ بھی لکھوں مجھے کون روکے گا؟ جیسی سوچ ہو لیکن دوسری جانب یہ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ادب کا اخلاقی قدروں سے کیا رشتہ ہے؟ اور وہ کون سا ادب ہے جو انسان کے دل و دماغ میں ایک صالح اور مثبت تبدیلی پیدا کرتا ہے؟ جو عوام کے ذہن کو بیدار کرکے حالات کے دھارے کو صحیح رخ پر موڑنے کا کام انجام دے سکے۔
ہم کسی ادیب یا شاعر کو اس کے خیالات کے برعکس مجبور نہیں کرسکتے یہ ادب کی روایت کے خلاف ہے اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ ادب کی دنیا میں صحیح اور غلط جائز و ناجائز اسلامی و غیر اسلامی ادیبوں کی لمبی فہرست موجود ہے ۔ ان کے خیالات کا ادب پر گہرا اثر پڑا۔ ترقی پسند تحریک کے شعراء نے انسانیت کے لیے، مزدوروں کے لیے، پسماندہ طبقات کے لیے بہت کچھ لکھا لیکن ان کے یہاں اشتراکیت کا رجحان پایا گیا۔ اگرچہ نیشنلزم و سیکولرزم سے متاثر ادیبوں اور شعراء نے آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن وہ خدا سے بیزار تھے۔ انسانیت اور انسان دوستی کے وہ ہم نوا تھے ان کی تحریروں میں اس کی فکر اور جھلک صاف طور پر نظر آتی ہے لیکن خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے قائل نہ تھے۔ ادب میں اخلاقی قدروں کے بغیر کسی صالح اور تعمیری تبدیلی کا تصور ناممکن ہے اور ادب اس کے لیے ایک بہت بڑا ذریعہ ہے یہاں ہم جب اخلاقیات کی بات کریں گے تو وہ اسلامی اخلاقی قدریں ہوں گی۔۔ ورنہ ہر قوم کی کوئی نہ کوئی اخلاقی قدریں (مورل ویلیوز )ہوتی ہیں جس پر اس قوم کے رسوم رواج ترتیب پاتے ہیں اور یہ قدریں ان کی تہذیب و کلچر کی پہچان بن جاتی ہیں. اسلامی تعلیمات میں اخلاقی قدریں کیا ہیں؟ انہیں کیا مرکزیت حاصل ہے ؟یہ بہت اہم سوال ہے اسے اپنے ذہن میں واضح طور پر فٹ کیے بغیر ہم اخلاقی قدروں کی اہمیت اور اس کے مثبت رول کو سمجھ نہیں سکیں گے۔ انسان جو کہ خود اپنا ایک طبعی و حیوانی وجود رکھتا ہے دوسری حیثیت سے وہ ایک انسان ہونے کے ناطے کچھ اخلاقی قدروں کا بھی پابند ہوتا ہے یہ دونوں چیزیں یعنی انسانی فطرت اور اس کی تربیت میں اخلاقی اقدار کا رول دونوں مل کر ایک کامل انسان کی تخلیق کرتے ہیں یہی اسے کامیابی و ناکامی عروج و زوال کی طرف لے جاتی ہیں بقول مولانا مودودی علیہ الرحمہ
’’انسان کی بنیادی اخلاقیات سے مراد وہی اوصاف ہیں جن پر انسان کے اخلاقی وجود کی اساس قائم ہے اور ان میں وہ تمام صفات شامل ہیں جو دنیا میں انسان کی کامیابی کے لیے بہرحال شرط لازم ہیں خواہ وہ صحیح مقصد کے لیے کام کر رہا ہو یا غلط مقصد کے لیے‘‘
ادب کا کام یہ ہے کہ وہ انسانی وجود کو حیوانی عناصر سے پاک کر کے اسے اس بلندی تک لے جائے جہاں وہ روحانی و اخلاقی منازل کو طے کر کے اپنی زندگی کو بامقصد بنائے ۔
موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے اس میں عمل کو وہی مقام حاصل ہے جو کسی بلندی وہ اعلیٰ نصب العین کے لیے لازمی ہے اور جہاں اخلاقی قدروں کا تعین ضروری ہے اور یہ بلند نصب العین اور اخلاقیات سے آراستہ اقدار اسلام کی تعلیمات میں بحسن و خوبی اور بالترتیب ہمیں نظر اتی ہیں۔ بقول طیب عثمانی
’’ ادب و فن کا اقتضا یہ ہے کہ وہ انسانی تہذیب کو حیوانی عناصر سے پاک کر کے انسان کو روحانی بلندی تک پہنچانے کے لیے ایک اچھا ادیب اور فنکار اپنے اپ کو اخلاق کی ہمہ گیری اور روحانی پاکیزگی سے کبھی بے نیاز نہیں کر سکتا اور اس کے لیے شرط لازم ہے کہ وہ ضابطہ اخلاق کا پابند ہو اور اپنی تخلیقی آزادی کو ہر قیمت پر برقرار رکھے اس طرح اظہار خیال کے معاملے میں مشرقی ادب کی روایات میں زندگی کے اخلاقی محرک کی خاصی اہمیت رہی ہے ایسا ادیب جو زندگی میں خیر و شر کی آویزش کو جانتا ہو اور اخلاقی قدر و قیمت کو مانتا ہو وہ اخلاقی محرکات و اقدار سے کبھی چشم پوشی نہیں کر سکتا اس کی روح ہمیشہ آزاد رہتی ہے، اس کے نزدیک ادب میں اظہار خیال کی ازادی کا مطلب زندگی میں غلاظت بکھیرنا یا دوسروں کے جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہوتا بلکہ زندگی کی اعلیٰ قدروں کو ابھارنا اور اپنے سے ماورا ہو کر کسی بالاتر وجود یا اعلی تر مقصد کا جو یا رہنا ہے۔‘‘
( طیب عثمانی ، روشنی بکھرتی ہے صفحہ نمبر 58)
ادب میں اسلامی قدروں کی شمولیت اور اس کی ابیاری جسے ہم اسلامی ادب کا نام دیتے ہیں اس ادب کی ضرورت ، قدر و قیمت اور ادبا و شعرا کی ذمہ داری سماج میں اتنی زیادہ اہم ہے کہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے ادیب اور فنکاروں کی ضرورت کو آج شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے جبکہ انسانیت کی قبا تار تار ہو چکی ہے۔ ناروا و نازیبا بھدی اور گندی چیزیں ادب کے ذریعے پروان چڑھ رہی ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے فواحش کا ایک انبار لگا ہوا ہے ۔یہاں ایسے ادب کی ضرورت ہے جو انسان کو حیوانی وجود کے ساتھ ساتھ ایک حسین و جمیل اور متناسب و متوازن انسان بنائے۔ اسے بامقصد زندگی سے آگاہ کرائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسے ادیبوں کو تیار کیا جائے جو مقصد زندگی کو پہچان کر حیات و کائنات کی حقیقت کو سمجھ کر اپنی روح کو بالیدگی وعرفان کی منزلوں تک لے جائیں اور انسانی وجود کو اس سے روشناس کرائیں، کائنات میں انسان کے وجود اور اس کی حیثیت کو ایک جزوی نہیں بلکہ کلی حیثیت سے باور کرانے کی کوشش کریں۔
ادب کی دنیا کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو صحیح و غلط، جائز و ناجائز، اسلامی و غیر اسلامی ادیبوں کی ایک لمبی فہرست موجود پاتے ہیں۔ ان کے افکار و خیالات کا ادب پر گہرا اثر تو ضرور پڑا ہے لیکن ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک نے رہی سہی کسر پوری کر دی ۔ خدا سے بیزاری نیشنلزم اور سیکولرزم کا بھوت اس پر ایسا سوار ہوا کہ اس تحریک نے انسان کو ایک بے قید اور بے لگام و آزادی کا تصور دیا ۔ آزادی کا یہی وہ تصور ہے جو آج سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ ’’ میرا قلم میری مرضی۔ میرا جسم میری مرضی ۔۔‘‘ لیکن بیسویں صدی میں جب اسلام کی نشآۃ ثانیہ کا دور آیا تو ایسے اہل قلم ادباء و شعراء سامنے آئے جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے عوام کے ذہن کو ایک خاص تعمیری رخ پر موڑنے کی کوششیں کی۔ ان میں علامہ اقبال علیہ الرحمہ، مولانا مودودی علیہ الرحمہ کے علاوہ مولانا ماہر القادریؒ، نعیم صدیقیؒ، عامر عثمانیؒ اور پھر اگے چل کر میم نسیم، ابوالمجاہد زاہد، سہیل احمد زیدی، ڈاکٹر سید عبدالباری وغیرھم اوراسی طرح سے بہت سے اہل علم و فن، ادیب و شعرا نے اپنے کلام اور تعمیری مضامین کے ذریعہ ایک بامقصد ادب کو جلا بخشی۔ انہوں نے فحش اور لغو کلام دل لگی، ذہنی پراگندگی، سے نیز بے ربط اور بے سمت زندگی سے رخ کو موڑ کر عوام کو بامقصد زندگی کا عادی بنایا ان کے اندر اخلاقی اقدار کو موتی کی طرح پرونے کا کام کیا۔ انہیں اخلاقی اقدار (مورل ویلیوز )کا پابند بنایا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ ’’زندگی بے بندگی شرمندگی ہے ‘‘۔ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ انہیں مایوسی سے نکال کر امید کی فضا میں جینے کا عادی بنایا جیسا کہ مولانا مودودیؒ اسلامی ادب کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’وہ ادب ناجائز ادب کی تعریف میں آتا ہے جو انسان کو مایوس کرے اسے یاس اور قنوت کی حالت میں مبتلا کر دے‘‘۔
چنانچہ ادب کے ذریعے برے جذبات خیالات ،نسل پرستی قوم پرستی کی فضا کو ختم کر کے انسان کو اعلی وکمتر کی تفریق سے باہر نکالنے کی کوششیں کی گئیں یہ بات بتائی گئی کہ وہ ادب جو ان چیزوں کو فروغ دے جس کے ذریعے برائی اور بھلائی کی تمیز ختم ہونے لگے اور بد اخلاق اور بد کردار لوگ سماج میں جگہ پانے لگیں انہیں اس عزت و عہدہ حاصل ہونے لگے اور وہ لوگوں کے ائیڈیل اور سلیبرٹی بن جائیں تو ایسا ادب، ادب برائے ادب یا ادب برائے زندگی بن کر رہ جائے گا اور وہ تخریبی ادب کہلاے گا وہ کسی صالح و تعمیری معاشرے کا محرک نہیں ہوگا اس کے ذریعے اخلاقی قدروں کی پامالی ہوگی اور مورل ویلیوز کا جنازہ نکل جائے گا چنانچہ اب ادب اور اخلاقی قدروں کی ترسیل و اشاعت کے باب میں اضافہ کرتے ہوئے ہم یہ کہنا چاہیں گے ادب کو اخلاقی قدروں سے آراستہ کرنے اور اسے ایک صالح فکر سے جوڑنےکی ذمہ داری ادیبوں کی ہے۔
۔ادب میں اسلامی ادب اور تحریک اسلامی سے متاثر ادباء و شعرا کا تصور اس سے مختلف تھا وہ انسان کو ایک افضل اور اشرف مخلوق سمجھتے تھے پوری انسانیت ایک اکائی ہے اس میں کوئی تفریق نہیں انسان کے اندر یہ اخلاقی حس خالق و مالک کی ودیعت کی ہوئی ایک نعمت ہے۔ اس کا بہتر استعمال اور عمدہ نہج پر اسکی تربیت کی جائے تو انسان اپنے اشرف المخلوق ہونے کا کردار بخوبی نبھا سکتا ہے ۔
آخر میں یہ بات کہنا مقصود ہے کہ ادب میں اخلاقی اقدار کا شامل ہونا ادیب و فنکار کے افکار و خیالات پر منحصر ہے چنانچہ موجودہ صدی کی سب سے بڑی ضرورت ایسے ادباء کو تیار کرنا انہیں اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کرانا ضروری ہے۔
خواجہ غلام سیدین کے اس مشورہ کو سامنے رکھ کر ہم ادب اور اخلاقیات کے تناظر میں ایک اچھے ادیب و فنکار کی تصویر کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔
’’تعمیر اخلاق یا اچھی قدروں کے اشاعت ادب کا ایک اہم زاویہ ہے اور جو ادیب اظہار خودی کی آڑ میں اپنا دامن چھڑاتے ہیں انہوں نے ادب کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ میرا روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اقدار صالح کے گویا سرے سے منکر ہیں جو لوگ ان قدروں کو عملاً اور نظری طور پر محض اظہار خودی کے نام پر رد کرتے ہیں۔ وہ ادب اور آرٹ کی کوئی نمایاں خدمت انجام نہیں دیتے۔ ادب تعمیر اخلاص کے فرض سے دست کش نہیں ہوسکتا‘‘۔
مضمون نگار سے رابطہ:8320242493
[email protected]

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024