ابو عبداللہ محمد بن جابر البتانی فلکیاتکی دنیا کا دمکتا نام
مسلم سائنسداں جنہوں نے بطلیموس کی تحقیقات کے بعض غلط نتائج کی اصلاح کی
ڈاکٹر غلام قادر لون
حدی پورہ، بارہمولہ کشمیر
دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے درمیان جو خطہ واقع ہے، اسے میسوپوٹامیا کہتے ہیں۔یہ نام اسے یونانیوں نے دیا تھا جس کے معنی ہیں ’دو دریاؤں کے بیچ‘ کی زمین اس خطے میں دنیا کی کئی تہذیبیں تھیں۔ بعض مؤرخوں کے مطابق دنیا کی پہلی تہذیب کا گہوارہ بھی یہی خطہ رہا ہے۔ عام لوگ میسوپوٹامیا کو عراق تک محدود سمجھتے ہیں حالانکہ میسوپوٹامیا میں عراق اور شام کے علاوہ ایران اور ترکی کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں۔ میسوپوٹامیا میں شام کے سرحد سے پچیس کلومیٹر دور شمال مشرقی ترکی میں ایک شہر حران کے نام سے ہے جو یونانیوں کے زوال کے بعد علوم و فنون کا مرکز بنا۔ صابئین بھی یہیں آباد تھے جو مہر وماہ اور کواکب سے عقیدت رکھتے تھے۔ حران کے نواح میں ایک بستی کا نام ’بتان‘ تھا یہاں صابی رہتے تھے۔ ان میں سے بہت خاندانوں نے اسلام قبول کیا جس میں سے ایک خاندان جابر بن سنان کا تھا۔ جابر فلکیات کے آلات بنانے کے ماہر تھے۔ انہوں نے ایک کروی اصطرلاب بھی ایجاد کیا۔ ان کا انتقال 291ھ/904ء میں ہوا ہے۔ الفہرست میں حران کے ایک اور حساب داں سنان بن فتح کا نام آیا ہے جنہوں نے خوارزمی کی ایک تصنیف ’’الجبر والمقابلہ‘‘ کی شرح ’’شرح الجبر والمقابلہ‘‘ کے علاوہ حساب میں کئی کتابیں لکھی ہیں۔ اغلب یہ ہے کہ یہ وہی سنان ہے جو جابر کے والد ہیں جن کا سال وفات معلوم نہیں اس لیے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جابر بن سنان کے گھر میں 244ھ/858ء یا اس سے کچھ قبل ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام محمد رکھا گیا جو کہ خاندان حران کے نواحی بستی بتان سے شام کے دوسرے شہر ’’الرقہ’’منتقل ہوا تھا۔ اسی لیے آگے چل کر بچہ ابو عبداللہ محمد بن جابر بن سنان البتانی الحرانی الرقی کے نام سے چار دانگ عالم میں مشہور ہو گیا۔ تاہم اصل مرزوبوم بتان کی نسبت دوسری تمام نسبتوں پر غالب آ گئی یہاں تک کہ آج یہ عظیم سائنسدان مشرق میں البتانی اور یورپ اور امریکہ میں ‘Albatenius’ ‘Albategni’, ‘ Albategnius’, کے ناموں سے علمی مصادر کے صفحات کی زینت بنا ہوا ہے۔ البتانی نے فلکی مشاہدات ’الرقہ‘ یا ’رقہ‘ میں کیے جو شام کا مشہور شہر ہے۔ یہ وہی رقہ ہے جو گزشتہ دس بارہ برسوں سے عالمی میڈیا کی سرخیوں میں چھایا ہوا ہے کیوں کہ یہ داعش کی سرگرمیوں کا گڑھ رہا ہے۔
البتانی کی تعلیم و تربیت کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ اس قدر واضح ہے کہ ان کے والد فلکیاتی آلات کے کاریگر تھے۔ گھر میں علمی ماحول تھا اس لیے اغلب یہ ہے کہ ان کی علمی تربیت گھر ہی میں ہوئی ہو گی۔ ان کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فلکیات حساب، ہندسہ اور جغرافیہ میں مہارت رکھتے تھے۔ مغربی ماخذوں میں البتانی وہ عرب شہزادہ سردار خلیفہ کا کمانڈر بتایا گیا ہے مگر دستیاب تاریخی شواہد کی روشنی میں اس بارے میں وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ البتانی کے نام کے ساتھ الصابئی کی نسبت بھی موجود ہے۔ ان کی زیج بھی ’’زیج الصابی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ مستشرق سی اے نالینوے ان کی زیج مرتب کر کے شائع کی ہے۔ اس کا عنوان کتاب ’’الزیج الصابی’’ ہے۔ اس سے تذکرہ نگاروں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ صابی تھے۔ چناں چہ ابن الندیم (المتوفی 438ھ/1047ء) اور ابن القفطی ( المتوفی 646ھ/ 1248ء) نے انہیں صابی کہا ہے۔ ابن خلکان (المتوفی 681ھ/1282ء) نے لکھا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ اسلام لائے تھے مگر ان کا نام ان کے اسلام کی دلیل ہے۔ اس میں دورائے نہیں کہ البتانی کے اجداد صابی تھے مگر دوسرے صابئین کی طرح ان کا خاندان بھی مسلمان ہو گیا۔ رہی یہ بات کہ ان کے نام کے ساتھ صابی کی نسبت کیوں باقی رہی تو ایسی سینکڑوں مثالیں ہے کہ جب کسی شخص نے اپنا آبائی مذہب ترک کیا تو متروکہ مذہب کی نسبت اس کے نام کے ساتھ بلکہ اس کی کئ پشتوں کے ناموں کے ساتھ جڑی رہی وطن مذہب اور پیشےکی نسبت بڑی مشکل سے چھوٹی ہے جس کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
کتنے حکماء اور سائنس داں ہیں جن کے ناموں کے ساتھ صابی اور مجوسی یا ان کے متروکہ مذہبوں کی نسبتیں لگی ہوئی ہیں۔ البتانی کے مسلمان ہونے کے تاریخی اور دوسرے شواہد موجود ہیں۔ جارج سارٹن نے لکھا ہے کہ وہ صابی الاصل تھے اور خود وہ مسلمان تھے صابی الاصل ہونے کا مطلب ایسا ہی ہے کہ جیسا کہ علامہ اقبال نے اپنے بارے میں کہا ہے میں اصل کا خالص سومناتی آبا میرے لاتی و مناتی یا جیسے وہ اپنے آپ کو ’ہرمن زادہ‘ کہتے ہیں۔ البتانی کے مسلمان ہونے کی سب سے ناقابل تردید شہادت ان کی شاہکار ’کتاب الزیج الصابی‘ سے ملتی ہے جو ہمارے پیش نظر ہے۔ کتاب الزیج کا سر عنوان ’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ ہے۔ اس کے بعد حضرت رسالتمآب حضرت محمد ﷺ پر درود و سلام ہے۔ کتاب کے آغاز میں پہلے باب میں حمد و ثناء اور خاتم الرسل پر صلاۃ و سلام کے بعد قرآن حکیم کی تین آیات دی ہیں۔ اس کے ان دونوں شہادتوں کا اقرار کیا ہے جن سے آدمی مسلمان ہو جاتا ہے یعنی اللہ تعالی کے معبود ہونے کا اقرار اور حضرت محمد ﷺ کے بندہ اور رسول ہونے کا اقرار؛ البتانی نے رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے ساتھ سورۃ توبہ کی آیت 33 بھی دی ہے اس کے بعد اجرام سماوی کے علم کی قدر و منزلت بیان کی ہے اور اپنے بیان کو قرآن حکیم کی چھ آیات سے مدلل کیا ہے۔ کتاب کا یہ پہلا باب ان کے راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے زیج میں ایک پکے مسلمان کی طرح دینی کلمات بھی استعمال کیے ہیں۔ البتانی نے زندگی رقہ میں گزاری۔ فلکیاتی مشاہدات بھی انھوں نے اسی شہر میں دریائے فرات کے بائیں کنارے پر واقع ایک مقام پر کئے۔ رقہ کے باشندوں بنو زیات کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی تھی جس کے لیے وہ بغداد گئے۔ وفد میں البتانی بھی شامل تھے۔ بغداد سے جب یہ لوگ واپس آرہے تھے تو راستے میں قصرالحضر کے مقام پر جسے آج عربابا کہتے ہیں البتانی نے انتقال کیا۔ یہ سال 317 ھ /929ء کا واقعہ ہے۔
ایک بیان میں آیا ہے کہ البتانی ایک مال دار اور دولت مند شخص تھے۔ انہوں نے اپنے سرمایہ سے ایک رصد گاہ تعمیر کرائی تھی جس میں آلات رصدیہ نصب کرائے تھے ۔ انہوں نے اپنے ساتھ کئی لوگوں کو بھی شامل کر لیا تھا جن میں ابو محمد العدلی القائی (المتوفی 377ھ) بھی تھے جنہوں نے آلات نصب کرنے میں مدد کی تھی۔ ابن الندیم کے مطابق شاہی خاندان کے ایک فاضل جعفر بن المکتفی (المتوفی 377ھ/987ء) کو البتانی نے بتایا تھا کہ میں نے مشاہدات کا کام (264ھ/877ء) میں شروع کیا جو (306ھ/918ء) تک جاری رہا۔ زیج میں بعض مشاہدات (267ھ/880ء) اور 287ھ/900ء میں کیے گئے ہیں۔ ساکن سیاروں کی فہرست بنانے کے لیے البتانی نے (299ھ/911ء) کا سال چنا تھا۔ البتانی اکتالیس سال تک مشاہدات کرتے رہے۔ انہوں نے سبعہ سیارہ کی حرکات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا جن کو دو روشن اجرام (نرین، اعظم) سورج اور چاند اور خمسہ متحیرہ یعنی زحل، مشتری، زہرہ، مریخ اور عطارد شامل ہیں۔ البتانی نے ان سات سیاروں کے کوائف پر تحقیق کی۔ بار بار مشاہدات کے دوران ان پر جو حقائق کھلے ان سے انہیں پتہ چلا کہ مشہور ہیئت داں بطلیموس (المتوفی 168ء) سے فلکیات میں بعض دریافتوں اور تخمینوں میں غلطی ہوئی ہے۔ چناں چہ انہوں نے ان کی دریافتوں اور مقداروں کو تحقیق کی کسوٹی پر جانچا، جو چیز تحقیق کے خلاف تھی اسے رد کر دیا جس میں اصلاح کی ضرورت تھی اس میں اصلاح کی غلط تخمینوں کی جگہ درست تخمینے دیے یا کم ازکم ایسے تخمینے دیے جو حقیقت سے زیادہ قریب ہیں۔ انہوں نے اپنے مشاہدوں کے نتائج کو پورے احتیاط اور کمال دیانت داری کے ساتھ زیج میں درج کیا ہے۔ ان کے یہی تحقیقی ثمرات فلکیات کی تاریخ کا انمول سرمایہ ہیں۔ البتانی نے بطلیموس کی دریافتوں اور ان کی مقداروں کو درست کیا ان کے دعوؤں کی اصلاح کی اور صحیح تخمینے دیے۔ انہوں نے بطلیموس کی سولہ غلطیوں کی نشان دہی کی ہے اور آج وہ بطلیموسی فلکیات کی درستی اور اصلاح کے لیے سائنس کی دنیا سی مشہور ہیں۔ چنانچہ انہیں عربوں کا بطلیموس کہا جاتا ہے۔
البتانی نے فلکیات میں جو دریافتیں کی ہیں اور جو مقداریں دی ہیں ان میں چند ایک یہ ہیں:
1 – بطلیموس نے سورج کے مدار کے لیے خروج مرکز کی جو قیمت دریافت کی تھی البتانی نے اس میں اصلاح کر کے جو نئی قیمت دریافت کی وہ آج کل کی بول چال کے مطابق 0۔017326 تھی۔ ان کی قیمت اور اصل قیمت میں صرف 0۔000555 کا فرق ہے
ب – بطلیموس نے سال شمسی کی اوسط طول مدت 365 دن 5 گھنٹے 55 منٹ 12 سیکنڈ بتائی تھی جو اصل مقدار سے 6 منٹ 28۔7 سیکنڈ زیادہ ہے۔ البتانی نے سال کی اوسط طول مدت 365 دن 5 گھنٹے 46 منٹ 24 سیکنڈ دریافت کی جو سال کی اوسط طول مدت سے صرف 2 منٹ اور 24۔7 سیکنڈ کم ہے۔
ج – بطلیموس نے طریق الشمس کے جھکاؤ کے اویہ کی قیمت 20۔51۔ 23 دریافت کی تھی۔ البتانی نے یہ مقدار 35-23 دریافت کی جو بالکل درست اور صحیح ہے۔
البتانی نے ان کے علاوہ بھی فلکیات میں اہم دریافتیں کی ہیں جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے۔
البتانی نے فلکیات میں جو کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں :
(1) معزمتہ مطالع البروج فیمبین ارباع الفلک (2) شرح اربع مقالات بطلیموس (3) تحقیق اقدار الاتصالات (4) کتاب الزیج الصابی
ان سب میں کتاب الزیح الصابی ان کی شہ کار مانی جاتی ہے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ زیج الصابی کے دو ایڈیشن تھے۔ دوسرا ایڈیشن زیادہ عمدہ ہے۔ زیج فارسی لفظ ہے ‘زیگ’ کا معرب ہے جو جدول یا آسمانی جنتری کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ زیج الصابی کے تین حصے ہیں اور یہ ستاون ابواب پر مشتمل ہے۔ قرون وسطیٰ کے دوران اس کتاب نے یورپ کی فلکیات کو بے حد متاثر کیا ہے۔ فلکیات کے علاوہ زیج الصابی نے تکونیات کے علم کو بھی اگے بڑھایا ہے۔
ان کی زِیج کا تیسرا حصہ تکوینیات کے بارے میں ہے۔ انہوں نے جیوب sines کو یونانیوں کے وتر پر فوقیت دی۔ نیز انہوں نے تکوینیاتی نسبتوں Trigometrical Ratios کی جدول تیار کی جس طرح ہم آج استعمال کرتے ہیں۔ ایک مغربی فاضل اور ریاضی داں کے بقول البتانی نے جس فارمولے کی وضاحت کی ہے وہ ہمیں اس مرحلے سے دور لے آتی ہے جہاں یونانی پہنچ گئے تھے اور جو فی الواقع جدید سائنس کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ البتانی کی زِیج نے یورپ والوں کے خیالات کو حد درجہ متاثر کیا۔ رابرٹ بریفالٹ (المتوفی ۱۹۴۸ء) کے مطابق البتانی کی تصنیف کی بنیاد پر ہی ایجیونٹیس وہ نقشے بنائے جن کی مدد سے
کولمبس (المتوفی 1506ء) نے بحری سفر کیا تھا۔
البتانی کی زیج کا ترجمہ بارہویں صدی میں لاطینی میں ہوا جو 1116ء کے لگ بھگ ہوا تھا۔ اس کے بعد دوسرا ترجمہ لاطینی میں بارہویں صدی کے نصف اول کے اور ان افلاطون طیغولی (المتوفی بارہویں صدی) نے کیا جو 1537ء میں نیوزبرگ اور 1645ء بولونیا سے شائع ہوا۔ زِیج کا اسپینی ترجمہ الفالنودہم ( 1282ء) کے حکم سے تیرہویں صدی میں کیا گیا ۔ 1899ء ہیں اطالوی مستشرق سی اے تالینو نے اسے ایڈٹ کرکے شائع کیا۔ اس کے بعد اس کے لاطینی ترجمے بھی شائع ہوئے۔ گزشتہ سو سال کے دوران اس کے بے شمار ایڈیشن نکلے۔ 1969ء تک اس کے بیس ایڈیشن شائع ہوئے تھے۔ آج فلکیات کی یہ اہم کتاب دنیا کے تمام بڑے کتب خانوں کی زینت بن ہوئی ہے۔
مشرق اور مغرب کے سائنس دانوں اور علماء نے ہر دور میں البتانی کی زِیج کی داد دی ہے۔ علی بن احمد النسوی (المتوفی 1040ء) نے ان کی زِیج کو درست ترین زِیج کہا ہے۔ البیرونی (المتوفی ھ1048/440ء) جیسے بلندیایہ سائنس داں نے الآثار الباقیہ میں زِیج البتانی کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے جلاءالاذھان في ربج البتانی کے عنوان سے زِیج البتانی کے بارے میں ایک مستقل تصنیف تحریر کی ہے۔ عظیم مورخ ابن خلدون (المتوفی1406ء) نے زیج البتانی کی تعریف کی ہے۔ فلکیات کے دوسرے مسلم ماہرین نے بھی البتانی کی زِیج سے استفادہ کیا ہے۔ یہودی علماء میں ابراہیم بن برخیاء (المتوفی1136ء) اور ابراہم بن عزرا ( المتوفی 1167ء) نے البتانی کی زِیج سے استفادہ کر کے ان کی تعریف کی ہے۔ موسی بن میمون (المتوفی 1604ء) سے البتانی کی دی ہوئی مقداریں اپنی تصنیف میں استعمال کی ہیں۔
لاطینی مصنفین میں التبانی سے استفادہ کرنے والوں اور ان کے حوالے دینے والوں کی ہنری بیٹ (المتوفی 1310ء) جیرارڈ آف سیبونیٹا (1259ء) اور ابرٹس میگنس (المتوفی 1680ء) اور لاوی بن جرسون (چودھویں صدی عیسوی) ربحیو منونٹیں (المتوفی1476ء ) نے زِیج البتانی کے لاطینی ایڈیشن پر حواشی تحریر کیے جو نیورمبرگ ( 1537ء) اور بولونیا (1645ء) کے ایڈیشنوں میں ضمیمے کے طور پر شائع ہوئے ۔
مشہور ہیئت دانوں میں کپلر (المتوفی 1630ء) اور گلیلیو (المتوفی 1642ء) البتانی کے مشاہدات کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ کوپرنیکس (المتوفی 1543ء) ٹایکو برا ہے (المتوفی 1601ء) اور جی بی ربچوئی (المتوفی 1671ء ) جیسے بڑے سائنس داں البتانی سے متاثر رہے ہیں اور انہوں نے قدم قدم پر البتانی کے حوالے دیے ہیں۔
فرانسی کے سائنس دانوں میں لائندے ( المتوفی 1807ء) نے البتانی کی تعریف کی ہے۔ ڈی لامبر (المتوفی 1822ء) نے ان کے زِیج کا تجزیہ کیا ہے۔ یپلاس (المتوفی 1827) نے البتانی کا نام عزت و اقرار سے لیا ہے۔ اطانوی مستشرق کی اے نالینو (المتوفی 1938ء) البتانی کی زِیج کو ایڈٹ کر کے 1899ء میں شائع کیا ہے جس کا عنوان ’کتاب الزِیج الصابی‘ ہے۔ اس کے بعد زبج کے لاطینی ایڈیشن بھی شائع کیے گئے۔
قاضی صاعد اندلسی (المتوفی 462/1070ھ) کا بیان ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ اہل اسلام میں کوئی شخص کواکب کے ارصاد کی درستی اور سیاروں کے حرکات کے مشاہدہ میں اس کے مبلغ علم تک پہنچا ہے۔ یہی رائے ابن القضطی کی ہے۔ ابن خلکان نے البتانی کو اپنے فن میں یگانہ روزگار کہا ہے جس کی کارکردگیاں اس کے بے پایاں کہانی اور اس کی وسعت علمی پر دلیل ہیں۔
مغرب اور امریکہ کے مورخین نے البتانی کے کارناموں کی داد دی ہے۔ جان ولیم ڈرپیر (المتوفی 1882) رابرٹ بریفالٹ (المتونی 1948ء) اور مقدمہ تاریخ سائنس کے مصنف جارج سارٹن (المتوفی 1952ء) نے البتانی کے علمی تجربہ کا ذکر کیا ہے۔ فلپ کے ہٹی (المتوفی 1978ء) نے انہیں حقیقی تحقیق کہا ہے۔ ول دوراں (المتوفی 1982ء) نے ان کے مشاہدات کو دور رسی اور درستی کے لحاظ سے غیر معمولی قرار دے کر ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ البتانی کے نام سے تحقیقی مضامین مشرق و مغرب کے موقر سائنسی جرائد اور رسالوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ان کے نام کے مضامین اور نوشتے دنیا کے تمام انسائیکوپیڈیاؤں میں چھپتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا نام آج دنیا کے تمام سائنسدانوں میں معروف ہے۔ البتانی کی بلند نامی آسمانوں تک پہنچ گئی ہے۔ ماہرین نے ان کے احترام میں چاند کے ایک کریٹر crater کا نام ان کے نام پر Albategnius رکھ دیاہے۔ بلا شبہ وہ اس اکرام کے مستحق ہیں :
اللہ کی دین ہے جسے دے
میراث نہیں بلند نامی
***
البتانی اکتالیس سال تک مشاہدات کرتے رہے۔ انہوں نے سبعہ سیارہ کی حرکات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا جن کو دو روشن اجرام (نرین، اعظم) سورج اور چاند اور خمسہ متحیرہ یعنی زحل، مشتری، زہرہ، مریخ اور عطارد شامل ہیں۔ البتانی نے ان سات سیاروں کے کوائف پر تحقیق کی۔ بار بار مشاہدات کے دوران ان پر جو حقائق کھلے ان سے انہیں پتہ چلا کہ مشہور ہیئت داں بطلیموس (المتوفی 168ء) سے فلکیات میں بعض دریافتوں اور تخمینوں میں غلطی ہوئی ہے۔ چناں چہ انہوں نے ان کی دریافتوں اور مقداروں کو تحقیق کی کسوٹی پر جانچا، جو چیز تحقیق کے خلاف تھی اسے رد کر دیا جس میں اصلاح کی ضرورت تھی اس میں اصلاح کی غلط تخمینوں کی جگہ درست تخمینے دیے یا کم ازکم ایسے تخمینے دیے جو حقیقت سے زیادہ قریب ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 جنوری تا 21 جنوری 2023