دفعہ 370 کی منسوخی نے جموں و کشمیر میں ایسا امن قائم کیا ہے جو اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا تھا، مرکز نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے دعویٰ کیا
نئی دہلی، جولائی 11: مرکز نے پیر کو ایک حلف نامہ میں سپریم کورٹ کو بتایا کہ آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کے فیصلے سے جموں و کشمیر میں ایسا امن، ترقی اور استحکام آیا ہے جو پہلے وہاں نہیں تھا۔
وزارت داخلہ نے یہ حلف نامہ ان 20 سے زیادہ درخواستوں کے جواب میں داخل کیا جن میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے اور سابقہ ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے حکومتی فیصلوں کو چیلنج کیا گیا ہے۔ پانچ ججوں کی آئینی بنچ منگل کو اس معاملے کی سماعت کرے گی۔
مرکزی حکومت نے 5 اگست 2019 کو یہ دونوں فیصلے لیے تھے۔ مرکز نے آئین کی دفعہ 35A کو بھی منسوخ کر دیا تھا، جس میں جموں اور کشمیر کے ’’مستقل باشندوں‘‘ کے طور پر بیان کردہ لوگوں کے لیے خصوصی حقوق اور مراعات کو یقینی بنایا گیا تھا۔ تب سے یہ خطہ مرکزی حکومت کے تحت رہا ہے۔
اپنے حلف نامے میں وزارت نے دعویٰ کیا کہ 2019 کے بعد سے جموں و کشمیر میں تین دہائیوں کے ہنگاموں کے بعد معمولات لوٹ آئے ہیں۔
حکومت نے کہا ’’یہ عرض کیا جاتا ہے کہ مئی 2023 کے مہینے میں سرینگر میں G-20 ٹورازم ورکنگ گروپ کی میٹنگ کی میزبانی، وادی کی سیاحت کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ تھا اور ملک نے فخر کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنے اس پختہ عزم کا اظہار کیا کہ علاحدگی پسند دہشت گرد خطہ ایک ایسے خطے میں تبدیل کیا جائے جہاں بین الاقوامی معززین کو بھی مدعو کیا جا سکے اور عالمی تقریبات منعقد کی جا سکیں۔‘‘
حکومت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سڑکوں پر تشدد، جو دہشت گردوں اور علاحدگی پسندوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے، خطے کی سلامتی کی صورت حال کو درپیش ایک واضح مسئلہ تھا لیکن اب یہ ’’ماضی کی بات‘‘ بن چکی ہے۔ حلف نامے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2018 میں پتھر بازی کے واقعات کی تعداد 167 تھی لیکن اس سال یہ کم ہو کر صفر ہو گئی ہے۔
حلف نامے میں کہا گیا کہ بند اور پتھراؤ کے واقعات کی وجہ سے تعلیمی ادارے، تجارت، صنعتیں اور کاروبار کو مستقل بنیادوں پر بند ہونا پڑا، جس سے خاص طور پر غریبوں اور غیر منظم شعبوں میں کام کرنے والوں کی آمدنی کو شدید نقصان ہوا۔
حکومت نے کہا ’’سال 2018 میں منظم بند/ہڑتال کے 52 واقعات ہوئے، جو کہ سال 2023 میں اب تک صفر پر آچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پرعزم انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے نتیجے میں دہشت گردی کے نظام کو ختم کیا گیا ہے جو کہ سال 2018 میں دہشت گردوں کی بھرتیوں کے 199 واقعات کے مقابلے 2023 میں اب تک 12 واقعات تک کی نمایاں کمی سے ظاہر ہوتا ہے۔‘‘
حلف نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام مرکزی قوانین یونین کے زیر انتظام علاقے میں لاگو ہوتے ہیں، جس سے شہریوں کو درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل (مظالم کی روک تھام) ایکٹ اور بچوں کے مفت اور لازمی تعلیم کے حق کے تحت حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
حکومت نے دعویٰ کیا ’’یہ عرض کیا جاتا ہے کہ بہتر سیکیورٹی کے سبب یونین کے زیر انتظام علاقے میں سیاحوں کی اب تک کی سب سے زیادہ آمد بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ 1.88 کروڑ سیاحوں نے صرف 1 جنوری 2022 سے 31 دسمبر 2022 کے دوران جموں و کشمیر کا دورہ کیا، جو کہ معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور اس کا براہ راست اثر عام آدمی کی آمدنی پر پڑتا ہے۔‘‘
دریں اثنا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے پیر کے روز کہا کہ مرکز کے حلف نامہ میں ریاست کا درجہ ختم کرنے کے اپنے ’’غیر قانونی اور غیر آئینی‘‘ فیصلے کا دفاع کرنے کی منطق کی کمی ہے۔
یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ہندوستانی آئین کو پامال کرنے کے لیے ’’وحشیانہ اکثریت‘‘ کا استعمال کیا گیا تھا، انھوں نے کہا کہ مرکز کے فیصلے سے سپریم کورٹ کے ان سابقہ فیصلوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جن میں کہا گیا تھا کہ صرف جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی ہی دفعہ 370 کو ہٹانے کی سفارش ہندوستان کے صدر سے کر سکتی ہے۔
وہیں نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے کہا کہ مرکز کے حلف نامہ میں رائے دہندگان کو اس فیصلے پر مطمئن کرنے کے لیے ’’سیاسی دلائل‘‘ ہیں، لیکن اس میں قانونی دلائل نہیں ہیں۔