عبدالغفور نورانی:جن پر نازاں تھا قلم بھی

دائیں بازو کی وجہ سے بھارت کا خواب ہی نہیں بلکہ اس کی روح بھی خطرے میں ہے : اے جی نورانی

دعوت نیوز بیورو

فاسشٹ طاقتوں کے عزائم ،کشمیر کے حقائق اور بابری مسجد معاملے کی تفہیم کے لیے نورانی کی تحریریں قابل مطالعہ
پچھلے دنوں ہمارے درمیان سے ایک عظیم شخصیت اے جی نورانی راہی ملک عدم ہوگئے۔ ترانوے سال کی عمر کوئی کم نہیں ہوتی ہے۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے بیمار تھے مگر تصنیف و تالیف اور تحقیق سے رشتہ بدستور قائم تھا ۔اس کا انہیں احساس بھی تھا اس لیے بابری مسجد اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر دستاویزی کتاب لانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ترانوے سال کی عمر میں جب کہ انسان تھک جاتا ہے لیکن نورانی تحقیق و تصنیف میں مصروف تھے جو اپنے آپ میں حیرت انگیز بات ہے۔امید ہے کہ ان کے رفقاء وہ کتاب منظر عام پر جلد لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔نورانی نے بھر پورزندگی گزاری ہے۔قدرت نے انہیں بہترین مواقع دیے اور انہوں نے ان مواقع کا صحیح استعمال بھی کیا مگر وہ ایک ایسے وقت میں ہمارے درمیان سے رخصت ہوئے ہیں جب ان کے جیسی ایمان و یقین پر غیر متزلزل ، اصول پر قائم رہنے والے اور فرقہ پرستی، فاسشٹوں کے خلاف تسلسل کے ساتھ قلمی جہاد کرنے والی شخصیت کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔نورانی نے جتنا لکھا ہے اور جن اہم موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اسے پڑھنے میں ہم جیسوں کی پوری زندگی ختم ہوجائے گی۔نورانی کی تصانیف ہماری تہذیب و ثقافت اور آزاد بھارت کی تاریخ کا اہم سرمایہ ہے ۔وہ مدتوں ہمارے درمیان رہیں گے اور ان کی تحقیقی تصانیف رہنمائی کرتی رہے گی۔
اے جے نورانی کے رخصت ہوجانے کے بعد ان سے تعلق رکھنے والی کئی اہم شخصیات نے ان کی زندگی پر اپنے نقطہ نظر سے روشنی ڈالی ہے مگر تمام مضمون نگاروں نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ اے جی نورانی اپنے اصولوں کی پابندی ، فکری و نظریاتی اعتبار سے بہت ہی مستحکم ، پابند عہد کے ساتھ ساتھ سختی کے ساتھ اپنے وقت کی پابندی کرنے والے تھے۔ممبئی ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک انہوں نے اپنی قانون دانی کا دبدبہ قائم کیا اور شیخ عبداللہ سے لے کر جئے للیتا تک کے مقدمات کی پیروی کی ۔مگر ان کی زندگی کا سب سے اہم اور روشن پہلو ان کی تصنیف و تالیف اور کالم نویسی ہے۔ان کی زندگی کا مشن بھارت کی روح کی حفاظت اور بھارت کو فرقہ پرست قوتوں کے خطرات سے آگاہ کرنا ہے ۔کشمیر ، دفعہ 370جیسے موضوعات پر جہاں کئی لوگ قلم اٹھانے سے گریز کرتے ہیں وہیں نورانی صاحب نے ان موضوعات پر خوب لکھا اور دائیں بازو کے نظریات کی سخت مخالفت کی۔کشمیر کے تنازعات اور دفعہ 370کی ضرورت اور اس کی اہمیت اور معاصر بھارت میں جاری اس پر بحث کو سمجھنے کے لیے نورانی کی کتابیں The Kashmir Dispute 1947، Article 370اور Dismantling Jammu and Kashmirکا مطالعہ کیے بغیر موضوع کا صحیح ادراک نہیں ہوسکتا۔اسی طرح بابری مسجد کے قضیہ اور حکومت کے رویے کی پوری تاریخ سمجھنے کے لیے اے جی نوارنی کی کتابThe Babri Masjid Questionکو پڑھنا ہی ہوگا۔نورانی نے تاریخ اور عصری آئینی سوالات پر کم از کم پندرہ اہم کتابیں تصنیف کی ہیں۔یہ وہ کتابیں ہیں جو مستقبل کے لیے اہم ہیں اور جن کو نظر انداز کرنا ہندوستانی قارئین اور شہریوں کو مہنگاپڑ سکتا ہے۔ان کی تصانیف میں ’دی آر ایس ایس اینڈبی جے پی‘: اے ڈویژن آف لیبر‘‘۔’’ساورکر اور ہندوتوا‘‘’’ قومی اعزاز کا معاملہ ‘‘(دو جلدوں میں)،’’اسلام اور جہاد تعصب اور حقیقت‘‘، ’’بھگت سنگھ کا مقدمہ: انصاف کی سیاست‘‘۔ ’’آئینی سوالات اور شہریوں کے حقوق‘‘، ’’ہندوستانی سیاسی آزمائشیں 1775-1947‘‘’’بھارت چین سرحدی مسئلہ 1846-1947‘‘۔’’تاریخ اور سفارت کاری؛ آزادی کی جدوجہد میں جناح اور تلک کامریڈز‘‘۔ ’’حیدرآباد کی تباہی‘‘ ،’’بابری مسجد کی تباہی: ایک قومی بے عزتی‘‘،’’ ہندوستان میں آئینی سوالات: صدر؛ پارلیمنٹ اور ریاستیں‘‘ ’’اسلام جنوبی ایشیا اور سرد جنگ ‘‘دیگر شامل ہیں ۔
اے جی نوارانی نے کشمیر کے بعد جس موضوع پر سب سے زیادہ لکھا ہے وہ آر ایس ایس اور ہندتو ہے۔انہوں نے معاصر بھارت میں آر ایس ایس کی سرگرمیوں کا جائزہ پیش کیا ۔ان کی زندگی کی آخری کتاب جو چار سال قبل شائع ہوئی تھی وہ Rss: A Menace to India ہے۔دراصل وہ اس کتاب کے ذریعہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے ک آر ایس ایس ہندوستان کے لیے خطرہ ہے۔یہ کتاب چار سال قبل لیفٹ ورڈ بکس نے شائع کی تھی۔ ساڑھے پانچ سو صفحات کی اس کتاب کے علاوہ ان کی دیگر کتابیں بھی سیکولرازم اور ہندوستان کے مشترکہ ورثے کے موضوع پر مرکوز ہیں، ان موضوعات پر لکھتے ہوئے انہیں مسلسل فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنا پڑا ہے، اس لیے انہوں نے نہ تو فرقہ پرستی کے خلاف لکھنا چھوڑا ہے اور نہ ہی ایمرجنسی جیسے اہم موضوع پر خاموشی اختیار کی ۔
بمبئی ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک بڑے پیمانے پر پریکٹس کرنے والے وکیل اے جی نورانی کی انتھک، حقائق پر مبنی اور تحقیقی تحاریر و تصانیف اس بات کا ثبوت ہیں کہ انہیں جمہوریت اور نظریہ بھارت سے گہری محبت تھی اور وہ وکالت اور تحریر دونوں کے ذریعے اپنا زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔کوئی کہے گاکہ چوں کہ انہوں نے طویل عمر پائی اس لیے اتنا کچھ لکھ سکے مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اتنا کچھ لکھا اور اتنا کچھ پڑھا اس لیے اتنی لمبی عمر پائی ۔
مارکیز کہتے تھے کہ ہم اپنے خواب اس لیے نہیں کھوتے کہ ہم بوڑھے ہو جاتے ہیں بلکہ ہم اس لیے بوڑھے ہو جاتے ہیں کہ ہم خوابوں کا پیچھا کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کی وکالت اور صحافت دونوں ہی اعلیٰ معیار کی تھی، یہی وجہ ہے کہ کمرہ عدالت سے لے کر دی انڈین ایکسپریس، فرنٹ لائن، ڈان، ہندوستان ٹائمز اور دی اسٹیٹس مین کے صفحات تک مستقل ان کی آواز گرج رہی تھی اور جگہ جگہ ان کی تحریریں اپنا جلوہ بکھیر رہی تھیں۔
آر ایس ایس پر ان کی یہ کتاب دستاویزاتی ہے۔ پچیس ابواب پر مشتمل اس کتاب کے آخر میں تقریباً سو صفحات پر مشتمل ضمیمہ ہے۔ اور اس ضمیمہ میں ہندو قوم پرستی سے متعلق اس وقت تک شائع ہونے والی تمام کتابوں کی فہرست ہے۔ شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہے جس کا اس میں حوالہ نہیں ہے۔
کتاب کا پہلا باب کہتا ہے کہ بلاشبہ آر ایس ایس آج ہندوستان کی سب سے طاقتور تنظیم ہے۔ اس کی اپنی پرائیویٹ فوج ہے جو بغیر کسی سوال کے اپنے لیڈر کے حکم کی تعمیل کرتی ہے اور ان کا لیڈر فاشسٹ خطوط پر کام کرتا ہے۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ آر ایس ایس ہندوستان کے ماضی کے ساتھ جنگ میں مبتلا ہے۔ وہ ہندوستان کے تین عظیم معماروں کو بونا کرتا رہتا ہے: اشوک جو بدھسٹ تھا، اکبر جو ایک مسلمان تھا اور نہرو جو ایک مہذب اور روشن خیال ہندو تھا۔ وہ صدیوں کی ان کامیابیوں کو مٹانا چاہتا ہے جن کے لیے دنیا ہندوستان کو سراہتی ہے اور ان کی جگہ اپنا تنگ نظری لانا چاہتی ہے۔
کتاب کے تعارف میں انہوں نے پنڈت جواہر لال نہرو کا ایک قصہ بیان کیا ہے کہ کس طرح آر ایس ایس ملک کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ یزدی گنڈیویا ہندوستان کے خارجہ سکریٹری تھے اور وہ ہر جمعہ کو وزیر اعظم نہرو کے ساتھ اپنے عہدیداروں کی میٹنگ کا اہتمام کرتے تھے۔ اس میٹنگ میں افسران پنڈت نہرو سے سوال کیا کرتے تھے۔ایک دن جب کسی نے کوئی سوال نہیں کیا تو خارجہ سکریٹری نے خود اپنے شکوک و شبہات کو سامنے رکھا۔ بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ جناب اس وقت کانگریس اقتدار میں ہے اور بار بار اقتدار میں آرہی ہے اور جو بھی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ ہم افسران اس پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ لیکن اگر کل کمیونسٹ اقتدار میں آگئے تو کیا ہوگا؟ نہرو نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا، کمیونسٹ، کمیونسٹ، کمیونسٹ! آخر وہ کیا ہے جو کمیونسٹ کر سکتے ہیں اور ہم نہیں کر سکتے اور ایسا کیا ہے جو ہم نے نہیں کیا؟ آپ کیوں سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں مرکز میں کمیونسٹ برسر اقتدار آئیں گے؟ اس کے بعد نہرو کچھ دیر خاموش رہے اور پھر آہستہ سے بولے، یاد رکھو ہندوستان کو خطرہ کمیونزم سے نہیں، اصل خطرہ دائیں بازو کی فرقہ واریت سے ہے۔
نہرو کا یہ بیان آج ہندوستان کے سروں پر ناچ رہا ہے۔ اس خطرے کا تذکرہ کرتے ہوئے نورانی لکھتے ہیں، اس وقت اب تک زہر بہت ہی پھیل چکا ہے لیکن جو قوتیں یہ زہر پھیلا رہی ہیں وہ ناقابل تسخیر بھی نہیں ہیں۔ انہیں شکست دی جا سکتی ہے اگر ان کی مخالف قوتیں ہر سطح پر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار اور لیس ہوں۔ یہ تیاری صرف نظریاتی سطح پر نہیں ہونی چاہیے، حالانکہ اس سطح پر بھی مقابلہ کرنے کے لیے بہت کم لوگ تیار ہیں۔ اس کے بعد مصنف جو کچھ کہتے ہیں وہ انتہائی چونکا دینے والا ہے، جو کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے وہ صرف بھارت کا خواب نہیں ہے۔ جو چیز خطرے میں ہے وہ بھارت کی روح ہے۔
اس کتاب کے چودھویں باب کا عنوان ہے آر ایس ایس، ایمرجنسی اور جنتا پارٹی اور آج جب بی جے پی ایمرجنسی کو یاد کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں مذمتی تحریک پاس کر رہی ہے تو اس باب کو خاص طور پر پڑھنا چاہیے۔ سنگھ والوں نے اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو جیل سے کیسے خطوط لکھے اور کس طرح بعد میں دوہری رکنیت کے سوال پر ان کے ساتھ دھوکہ کیا اور آر ایس ایس کے کردار کو بدلنے پر جے پی کا اصرار، یہ تمام تاریخی حقائق آج کی نوجوان نسل کو معلوم ہونے چاہئیں۔
جے پرکاش نارائن کا خیال تھا کہ انہوں نے سنگھ کو تحریک میں لا کر اور اس کے لوگوں کو مسلم نوجوانوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع دے کر انہیں سیکولر بنا دیا ہے۔ پھر جن سنگھ کے صدر لال کرشن اڈوانی نے انہیں دہلی میں اپنے قومی کنونشن میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا اور جے پرکاش نارائن نے 7 مارچ 1975 کو اپنی سب سے متنازعہ تقریر کی کہ ’’اگر جن سنگھ فاشسٹ ہے تو جے پرکاش نارائن بھی فاشسٹ ہیں‘‘۔نورانی نے ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی، مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایس بی چوہان اور ونوبا بھاوے کو جیل سے آر ایس ایس کے رہنماؤں کی طرف سے لکھے گئے خطوط کو اچھی طرح سے دستاویز کیا ہے۔ چھ مہینوں میں دس خط لکھے گئے اور پوری کوشش یہ تھی کہ سنگھ سے پابندی ہٹائی جائے اور سنگھ لیڈروں کو رہا کیا جائے۔ جے پی نارائن بھی اس سے بے چین ہونے لگے تھے۔
پونا سے شائع ہونے والا سنگھ کا اخبار ’ترون بھارت‘ سنجے گاندھی کی مسلسل تعریف کر رہا تھا اور ان کی تشویش یہ تھی کہ وہ بیس نکاتی پروگرام کو نافذ کرنے کے لیے سنگھ جیسی تنظیم کا استعمال کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ سنگھ لیڈروں کے ان اقدامات کی جیل میں بند سوشلسٹ لیڈروں نے مخالفت کی تھی۔ اس نے بار بار سمجھایا کہ اس طرح ڈرنا اور سمجھوتہ کرنا درست نہیں۔ ایسے لیڈروں میں بابا آدھو اور ایس ایم جوشی کا نام اہم ہے۔
بابا آدھو نے آر ایس ایس کی سمجھوتہ کرنے والی پالیسیوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ نورانی نے کتاب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے مدھو لیمے کی تحریروں کا بھی خاطر خواہ استعمال کیا ہے۔ ایمرجنسی ہٹانے کے بعد جنتا پارٹی بنائی گئی اور اس نے اپنے حلف نامے میں کہا کہ اگر جن سنگھ کے لوگ جنتا پارٹی میں شامل ہوتے ہیں تو وہ کسی اور تنظیم کے رکن نہیں رہیں گے۔ اس نے حلف نامہ بھرا لیکن اس پر عمل نہیں کیا۔13 ستمبر 1977 کو جے پرکاش نارائن نے ایک بیان دیا جس میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ آر ایس ایس کے لوگ اب ہندو راشٹر کے اصول کو چھوڑ کر سیکولر تصور کو اپنائیں گے اور ملک کی دیگر برادریوں کو بھی اپنائیں گے۔ آر ایس ایس کے اس وقت کے جنرل سکریٹری مادھو راؤ مولے کے جواب سے جے پرکاش حیران رہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ شاید ہم ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ اس طویل خط نے جے پی کو بہت غصہ دلایا اور انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس سے نمٹنے کے لیے کوئی قانون ہونا چاہیے۔
میں کسی بھی قانونی کارروائی کے خلاف ہوں لیکن اگر ضروری ہو تو اسے کیا جانا چاہیے۔ میں صاف کہہ رہا ہوں کہ اب آر ایس ایس کی بقا کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بعد میں جے پی اور دیوراس کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہوئے لیکن کوئی حل نہیں نکلا اور مسلمانوں کو سنگھ میں شامل کرنے پر ان کا اعتراض جوں کا توں رہا۔سنگھ کے اس کردار کے بارے میں جواہر لال نہرو نے 10 نومبر 1948 کو ایم ایس گولوالکر کو لکھے گئے خط میں کہا تھا – ایسا لگتا ہے کہ اعلان کردہ مقصد کا اصل مقصد اور آر ایس ایس کے لوگوں کی مختلف سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا اصل مقصد بھارتی پارلیمنٹ کے فیصلوں اور آئین کی قراردادوں کے بالکل خلاف ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق ان کی سرگرمیاں ملک دشمن اور اکثر تباہ کن اور پرتشدد ہوتی ہیں۔شاید نہرو کے اس درست نظریہ نے نے نورانی کو یہ کتاب لکھ کر ہندوستانیوں کو بیدار کرنے کی ترغیب دی تھی۔
اب جبکہ نہرو بھی نہیں ہیں اور نورانی بھی چنددن قبل چلے گئے ہیں لیکن انہوں نے جس بات سے خبردار کیا تھا اس کو نظر انداز کرنا ہندوستان کی روح پر بھاری پڑ سکتا ہے۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اے جی نورانی نے جن خطرات سے آگاہ کیا ہے اس سے باخبر کرنے کے لیے ان کی کتابوں کا اردو اور دیگر علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تاکہ بھارت کا ہرایک شہری حقائق سے واقف ہوسکے۔
(نوٹ :یہ مضمون ارون کمار ترپاٹھی اور دیگر مصنفین کے مضامین کی مدد سے تحریر کیا گیا ہے۔)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 ستمبر تا 21 ستمبر 2024