آزادئ شام :خوشیاں اور اندیشے۔اسد خاندان کا سورج غروب ہوا
خانہ جنگی کا خطرہ: بلاد الشام سازشوں کے نرغے میں!
ڈاکٹر ساجد عباسی
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بلاد الشام کو أرض مقدس قرار دیا (سورۃ المائدہ۲۱) قدیم شام جس کو بلاد الشام کہا جاتا ہے اس میں فلسطین، لبنان، اردن اور آج کا شام شامل تھا۔ یہ تین و زیتون اورانبیاء کی سرزمین ہے۔ شام کے لیے رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمارے شام میں برکت عطا فرما (صحیح بخاری ۱۰۳۷)
حضرت عبداللہ بن حوالہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حالات اس طرح ہو جائیں گے کہ تم لوگ مختلف گروہوں اور لشکروں میں جمع ہو جاؤ گے، ایک لشکر شام میں ہو گا، ایک یمن میں اور ایک عراق میں“ ابن حوالہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے لیے منتخب فرما دیجیے کہ اگر یہ حالات پاؤں تو کہاں سکونت اختیار کروں؟ آپ نے فرمایا:’’شام کو اختیار کر لینا، بلاشبہ یہ علاقہ اللہ عزوجل کا پسندیدہ ہے، اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ بندوں کو یہیں جمع فرما دے گا (سنن ابوداؤد ۲۴۸۳)۔
بشار الاسد کے ۲۴ سالوں میں سے ۱۳ سالہ دور بربریت کی انتہا کا دور تھا جس کا آغاز ۲۰۱۱ء سے شروع ہوا جو ۱۳ دنوں میں بغیر کسی مزاحمت کے ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ بشار الاسد کی درندگی کا دور اس وقت شروع ہوا جب ۲۶ فروری ۲۰۱۱ء کو ایک ۱۴ سالہ طالب علم نے اپنے اسکول کی دیوار پر یہ تحریر لکھی تھی: "أجاک الدور یا دکتور” اس کا ترجمہ ہے: اے ڈاکٹر کیا اب تمہاری باری ہے؟ اس چھوٹے سے جملے نے وہ چنگاری لگا دی جس نے آزادی کی جدوجہد کی بنیاد رکھ دی۔ بشارالاسد ۲۰۰۰ء میں اقتدار سنبھالنے سے قبل لندن میں آنکھوں کا ڈاکٹر تھا اس لیے وہ شام کی عوام میں’ ڈاکٹر‘ سے موسوم کیا جاتا تھا۔
پچھلے ماہ ۲۷ نومبر کو ھیئۃ تحریر الشام HTS کی یلغار إدلب سے شروع ہوئی اور ۲۹ /نومبر کو شہر حلب میں اس کے مجاہدین داخل ہوئے اور اگلے دن ۳۰ نومبر کو یہ فتح ہوا۔ اگلی پیش قدمی میں ۲ سے ۴ دسمبر کے درمیان حماہ فتح ہوا۔ ۶ اور ۷ دسمبر کے درمیان حمص فتح ہوا۔اس کے بعد شام کے دارالحکومت دمشق پر ۸ دسمبر کو فتح حاصل ہوئی ہے۔ بشار الاسد کے فوجیوں نے لڑنے کے بجائے اپنی وردیوں کو اتار کر عام شہریوں کا لباس پہن کر عوام میں شامل ہونے میں اپنی عافیت سمجھی۔ایک اہم بات یہ ہے کہ جتنے شہر فتح ہو رہے تھے اس کے نظم و نسق پر جو لوگ مامور تھے ان کو ان کے عہدوں پر ہی رکھا گیا تاکہ شہری نظام میں خلل اور رکاوٹ نہ ہو۔ مزید یہ کہ عام معافی کا اعلان کیا گیا کہ کسی سے انتقام نہیں لیا جائے گا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ HTS کا قائد ایک بیدار مغز اور فہم و فراست کا حامل شخص ہے۔ HTS کی قیادت ابو محمد الجولانی کے ہاتھ میں ہے، جو مختلف تنظیموں میں رہ کر قیمتی تجربات سے استفادہ کرتے رہے ہیں اور ادلب میں ایک ماڈل انتظامیہ کا کامیاب تجربہ بھی کر چکے ہیں۔ اس طرح ان کے طریقۂ انقلاب میں کوئی افراتفری اور خون خرابہ پیش نہیں آیا۔ البتہ، ابھی بھی کئی چیلنجز باقی ہیں جن میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ بیرونی سازشوں سے بچتے ہوئے پورے شام کو متحد رکھا جائے۔ ابو محمد الجولانی سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ۱۹۸۲ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پٹرولیم انجینئر تھے۔ ۱۹۹۰ء میں وہ والدین کے ہمراہ دمشق واپس آئے۔ مارچ ۲۰۰۳ء میں امریکہ کے عراق پر حملے کے بعد انہوں نے القاعدہ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ امریکی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور پانچ سال عراق کی جیل میں قید رہے۔ ۲۰۱۱ء میں جب شام میں بشار الاسد کے ظلم کے خلاف آزادی کی جدوجہد کا آغاز ہوا تو وہ شام واپس لوٹ کر اس میں شامل ہو گئے۔ ۲۰۱۶ء میں انہوں نے القاعدہ سے قطع تعلق کر لیا اور ۲۰۱۷ء میں ھیئۃ تحریر الشام کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد ادلب میں اپنی تنظیم کو محدود کر کے اپنے ساتھیوں کی تربیت کرتے رہے اور ادلب کو ایک ماڈل شہر بنانے کی کوشش کی۔
شام میں ۷۴ فیصد سنی مسلم، ۱۲ فیصد علوی، ۸ فیصد عیسائی، ۳ فیصد شیعہ اور ۳ فیصد دروز ہیں۔ اسد خاندان کا تعلق علوی فرقے سے ہے، جس میں حضرت علیؓ کو خدا کا درجہ دیا جاتا ہے۔ شامی عوام کا غصہ اس بات پر تھا کہ اقلیت میں ہوتے ہوئے علویوں نے سنی اکثریت پر ظالمانہ تسلط قائم رکھا تھا اور اعلیٰ عہدوں پر صرف علویوں کو رکھا جاتا تھا۔ سنی عوام کو سرکاری عہدوں سے محروم رکھا گیا تھا اور علویوں پر مشتمل ایک ملیشیا بنائی گئی تھی، جس کے افراد اتنے ظالم تھے کہ وہ کسی بھی شہری کو گرفتار اور قتل کر سکتے تھے، کسی کا گھر جلا سکتے تھے اور کسی کو بھی حقِ ملکیت سے محروم کر سکتے تھے۔ ملک بھر میں انتہائی سخت جاسوسی کا نظام تھا۔ لوگ بات کرنے سے ڈرتے تھے اور مخبری ہونے پر لوگوں کو اٹھا لیا جاتا اور ان کے متعلق پتہ ہی نہ چلتا کہ وہ کس جیل میں ہیں۔ دمشق میں صیدیانا جیل کے متعلق اب میڈیا پر تفصیلات آنے لگی ہیں کہ اس بدنام زمانہ جیل میں روح فرسا مظالم ڈھائے جاتے تھے اور بالآخر قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔
شام میں اسد خاندان کے ظلم کا دور ۵۴ سالوں پر محیط ہے۔ اس کا آغاز ۱۹۷۰ء سے ہوا جب علوی فرقے کی اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک ایئر فورس کمانڈر حافظ الاسد نے فوجی بغاوت کے بعد اقتدار پر قبضہ کیا اور وہ عرب دنیا کے بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوئے۔ ان کے اقتدار کا بدترین واقعہ ۱۹۸۲ء میں پیش آیا جب اخوان المسلمین کو کچلنے کے لیے حماہ نامی شہر کو مکمل طور پر بمباری کر کے شہریوں سمیت نیست و نابود کر دیا، جس میں ۴۰ ہزار سے ایک لاکھ تک لوگ مارے گئے۔
ظالم اور درندہ صفت لوگوں کو جب اقتدار ملتا ہے تو دنیا رہنے کے قابل نہیں رہتی۔ اس لیے اسلام میں ظلم کے مقابلے میں عدل کے قیام پر زور دیا گیا ہے تاکہ خدا شناس اور خدا کے آگے جواب دہی کا احساس رکھنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں طاقت اور اقتدار رہے، تاکہ دنیا رہنے کے قابل بن جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد خود مسلمانوں میں نظامِ عدل و قسط پر شبخون مارا گیا اور اسلامی تاریخ کو انسانی خون سے نہلا دیا گیا۔
دمشق میں HTS کے مجاہدین پہنچنے سے قبل ہی بشار الاسد اپنے خاندان سمیت شام کی ساری دولت لے کر ملک سے فرار ہو کر روس میں پناہ لے چکا تھا۔ بشار الاسد کا اس قدر بغیر مزاحمت کے ملک سے فرار اختیار کرنا سب کے لیے حیران کن واقعہ تھا، بالخصوص ایران کے لیے یہ بہت ہی دل برداشتہ ثابت ہوا۔ ایران کی عراق اور شام کے راستے سے حزب اللہ تک اسلحہ منتقل کرنا آسان تھا، جس سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھی جا رہی تھی۔ اسرائیل اس واقعے کو اپنی کامیابی کا حصہ قرار دے رہا ہے۔ جب سے بشار الاسد فرار ہوا، اس دن سے اسرائیل گولان پہاڑیوں سے تجاوز کر کے بفر زون بنانے کے بہانے شام کی زمین پر قابض ہو کر اپنی فوجی تنصیبات قائم کر رہا ہے اور شام کے فوجی ٹھکانوں پر حملہ کر کے ان اسلحے کے ذخیروں کو تباہ کر رہا ہے جو گولان پہاڑیوں کے قرب و جوار میں دفاع کے غرض سے رکھے گئے تھے۔
سوال یہ ہے کہ بشار الاسد کی عدم مزاحمت کی وجہ کیا ہے؟ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ ان کے سب سے بڑے حلیف، جنہوں نے ۲۰۱۱ء کی بغاوت کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا تھا، یعنی ایران اور حزب اللہ، اس وقت اسرائیل کے ساتھ جنگ میں پورے وسائل کے ساتھ مشغول ہیں۔ دوسری طرف روس، جس نے فضائی حملوں کے ذریعے بغاوت کو پچھلی دفعہ بری طرح کچل دیا تھا، اس وقت یوکرین جنگ میں اپنی ساری قوت لگا چکا ہے، اس لیے شام میں روس کے لیے ماضی کی طرح فضائی حملے کرنا ممکن نہ تھا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ بشار الاسد کے فوجیوں کو کئی مہینوں سے تنخواہیں نہیں دی جا رہی تھیں، اس لیے وہ فوجی کارروائی میں حصہ لینے کے لیے خوش دلی سے تیار نہیں تھے۔ تین لاکھ فوج سے گھٹ کر یہ صرف ایک لاکھ رہ گئی تھی۔ چوتھی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ خود بشار الاسد بھی خفیہ معاہدہ کر کے اپنا ذہن بنا چکا تھا کہ اسے مستقبل میں کسی بغاوت کے خلاف لڑنا نہیں ہے بلکہ اپنی اقتدار کی بساط لپیٹ کر شام سے باہر باقی زندگی گزارنا ہے۔
شام کی آزادی کی تحریکوں میں سے بالخصوص شمال میں ادلب کی HTS ترکی سے قریب تر تھی، تو امکان یہ ہے کہ ترکی اس میں براہِ راست شامل ہے۔ شام میں اس انقلاب کی کامیابی کے جو بظاہر قوی امکانات پیدا ہو چکے تھے، وہ شاید مستقبل میں دستیاب نہ ہوں، اس لیے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا گیا اور ۵۴ سالہ ظالمانہ اقتدار سے ۲۳ ملین شامی آبادی کو آزاد کروانے کا یہ سنہری موقع سمجھا گیا۔ اب ہم دیکھیں گے کہ اس انقلاب سے ایک طرف شامیوں میں خوشیوں کی لہر پیدا ہوئی اور ہزاروں قیدیوں کو رہا ہونے کا موقع ملا، وہیں کیا کیا خدشات پائے جاتے ہیں۔
خوشیاں :
۱) بشار الاسد کے ملک سے فرار ہونے کی خبر سارے عالم میں موجود شامی نژاد افراد کے لیے ایک انتہائی غیر متوقع اور غیر معمولی خوشی کی خبر تھی۔ہزاروں لوگ جیلوں سے رہا کیے جا رہے ہیں جہاں سے دل دہلانے والی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔بالخصوص بدنام زمانہ صیدنایا جیل سے نکالے جانے والے لوگ اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہیں۔اذیت دینے کے بعد مرنے والوں کو کچل کر ان کی پہچان کو مٹانے کی ایسی مشینیں برآمد ہو رہی ہیں جن کے تصور سے انسانیت کانپ جائے۔
۲) شام کے لوگوں کے لیے نصف صدی پر محیط درندگی اور روح فرسا اذیت کا دور ختم ہوا۔
۳) مساجد کے قفل کھولے گئے۔ مساجد میں اذانیں بند تھیں اور نمازِ باجماعت سے لوگ محروم تھے۔ نوجوان ڈاڑھی رکھنے سے ڈرتے تھے کہ کہیں ان کو اخوان سے تعلق کے شک میں گرفتا رنہ کیا جائے۔
۴) آزادی فکر وعمل اور اظہارِ خیال کی آزادی بہت قیمتی نعمت ہے جس سے شامی شہری محروم تھے۔ آج پہلی مرتبہ ان کو ایک کھلی فضا نصیب ہوئی ہے۔جہاں فلسطین کی آزادی اہم ہے وہیں ڈھائی کروڑ آبادی کو آزادی دلانا بھی کم اہم نہیں ہے۔
۵) شام کی ۶ ملین آبادی جو مختلف ملکوں میں پناہ گزیں ہے ان کے اپنے ملک شام واپس لوٹنے کا خواب پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔ ان کے گھر جو کھنڈر بن چکے ہیں وہ ملبہ صاف کریں اور اپنے عزیزوں کی باقیات کو تلاش کریں جو کنکریٹ کے ملبے میں ابھی تک مدفون ہیں۔ ملبے کو ہٹاکر اپنا گھر پھر تعمیر کر سکیں ۔
۶) ۲۳ ملین آبادی کو یہ موقع مل سکے گا کہ دوسرے ملکوں کی عوام کی طرح وہ بھی اپنے ووٹ کا استعمال کرکے اپنے پسندیدہ سیاسی قیادت کو منتخب کرسکیں۔
اندیشے :
۱) اس نازک صورت حال میں دشمنوں کی کوشش ہوگی کہ شام میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو اور امن قائم نہ ہو تاکہ ان کے مذموم مقاصد پورے ہوں۔ افغانستان میں سوویت یونین سے جہاد کے بعد ۷ سال (۱۹۸۹ سے ۱۹۹۶) تک خانہ جنگی چلتی رہی اور امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ امن قائم ہو۔ جو مجاہدین سویت یونین سے جنگ کے دوران امریکہ کے نورِ نظر تھے ان کو امریکہ نے بعد میں دہشت گرد اور اپنا دشمن قرار دیا۔ عراق اور لیبیا میں بھی انقلابِ اقتدار کے بعد قتل و خانہ جنگی کا سلسلہ چلتا رہا۔امریکہ بالخصوص مشرقِ وسطیٰ میں نہیں چاہتا کہ امن قائم ہو۔اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اسرائیل کی ہر حال میں مدد کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اسرائیل قتل عام genocide کا مجرم ہے اس کے باوجود اس وقت بھی امریکہ، اسرائیل کو ہتھیاروں اور فنڈ سے مدد پہنچا رہا ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ اسرائیل اپنی سرحدوں کو وسیع تر کرنے کے لیے مسلسل حالت جنگ میں رہے جس سے اس کو مزید زمین ملتی رہے اور Greater Israel کا پروجکٹ آگے بڑھتا رہے۔ اسرائیل سے مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک اسرائیل کے خوف سے اپنے تحفظ کے لیے بے تحاشا ڈیفنس اور سیکیورٹی پر خرچ کرتے رہیں اور ہتھیاروں کا کاروبار بھی خوب چلتا رہے۔ اس لیے امریکہ چاہتا ہے کہ جو بھی حکومت شام میں بنے وہ امریکہ کی باج گزاربن کر رہے جس سے اسرائیل کے عزائم کو مزید تقویت حاصل ہو۔
۲) نہایت ہی افسوس ناک بات یہ ہے کہ شام کی اس نازک صورتحال پر جبکہ اس کے پاس ابھی ملکی نظام غیر مستحکم و ناپید ہے، اسرائیل شام کے جنوب مغرب میں مسلسل بمباری کر رہا ہے تاکہ اس کی توسیع پسندانہ ہوس پوری ہو۔ اس کے پاس یہ عذر ہے کہ وہ ان فوجی ٹھکانوں پر اپنے دفاع کے لیے حملہ کر رہا ہے تاکہ مستقبل میں اسرائیل پر حملہ نہ ہو۔ مزید یہ بہانہ کیا جارہا ہے کہ کیمیائی ہتھیار باغیوں کے ہاتھ نہ لگیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ خطرہ تو پہلے بھی موجود تھا ۔ اسرائیل کا درندہ صفت حکم راں کہتا ہے کہ حافظ الاسد کے ساتھ کیے گئے معاہدے اب ختم ہو چکے ہیں اس لیے معاہدے سے قبل کی زمین پر اس کا حق ہے جو 1967 کی جنگ میں قبضہ کی گئی تھی۔تشویش ناک بات یہ ہے کہ ابو محمد الجولانی کی طرف سے اسرائیل کے خلاف کوئی مذمتی بیان ابھی تک نہیں آیا ہے۔بعض مبصرین کہتے ہیں کہ شاید اسرائیل کے ساتھ الجولانی کا کوئی سمجھوتہ ہوا ہو۔ الجولانی دمشق میں موجود ہیں اور چند سو کلومیٹر کے فاصلے پر اسرائیل کی بمباری جاری ہے۔ یہ خاموشی پر اسرار ہے۔
۳) فلسطینی جہاد جس رفتار سے جاری تھا اور اسرائیلی جارحیت پر دنیا کی جو رائے زور پکڑ رہی تھی اس پر ایک طرح کی روک لگ گئی۔ اور اب ایران اور حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں وہ شدت باقی نہیں رہے گی ۔
۴) فلسطینی مزاحمت بہت کمزور پڑ گئی اس لیے کہ ایران سے عراق اور عراق سے شام کے راستے لبنان کو جس راستے سے اسلحہ بھیجا جا رہا تھا وہ منقطع ہوگیا ہے۔ ایران جو فلسطینی مزاحمت کا مرکز تھا اس سے اس کو بہت دھکا لگا ہے۔شام کے نئے حکم راں کی پالیسی ابھی غیر واضح ہے۔وقت ہی بتلائے گا کہ شام اپنا کردار فلسطینی مزاحمت میں کب اور کیسے اداکرے گا۔
۵) جب ۲۰۱۱ء میں بشارکے خلاف عوامی احتجاج پر زور طریقے سے شروع ہوا تو اس وقت اس پورے احتجاج کا مرکزی مطالبہ یہ تھا کہ شام کو ایک جمہوریت بنایا جائے اور ڈکٹیٹر شب سے چھٹکارا حاصل کیا جائے تاکہ ہر مطلق العنان کے جبر واستبداد کا عوام باربار شکار نہ ہوں اور اقتدار پر امن طریقے سے منتقل ہو۔افسوس کی بات یہ کہ جولانی صاحب نے ایک مرتبہ بھی اپنی زبان سے یہ نہیں کہا کہ ہم جمہوریت کی طرز پر حکومت لائیں گے۔
بشار الاسد جب درندگی کے ساتھ اپنی سنی عوام کو بدترین عقوبت خانوں میں اذیت دے رہا تھا اس وقت ایران، بشارالاسد کو اس درندگی کی سے باز رکھ سکتا تھا جس سے شامی عوام کو کچھ حد تک راحت مل سکتی تھی لیکن اس نے اپنے حلیف کو بدترین ظلم کو انجام دیتے ہوئے دیکھ کر بھی اس بہیمانہ ظلم سے نہیں روکا۔اگر شام میں شیعہ اکثریت میں ہوتے تو وہ ضرور اس ظلم کو روکتا۔اگر ایران بشارالاسد کی حکومت کی ۲۰۱۱ء کی شورش میں حمایت نہ کرتا تو بشارالاسد کی جبر و استبداد والی حکومت اسی طرح گر جاتی جس طرح معمر قذافی کی حکومت گرگئی تھی اور فری سیرین آرمی کو فتح حاصل ہوتی۔
بشارالاسد سخت ظالم و جابر حکم راں تھا جس کے پاس بات چیت کے ذریعے سے مسئلہ کو حل کرنے کا کوئی متبادل ہی نہیں تھا۔ وہ ہر مسئلہ کو جبر و تشدد سے حل کرنے کا عادی تھا کیوں کہ اس نے اپنے باپ کو بھی اسی روش پر گامزن پایا۔ بشارالاسد کو عوام سے ہی کوئی ہمدردی تھی نہ ہی شام سے ۔بغاوت کو کچلنےکے نام پر اس نے ۶ لاکھ لوگوں کا قتل کیا، ملک کے انفراسٹرکچر کو تباہ کیا جس کی وجہ سے لوگ بے روزگار ہوئے اور ۱۳ملین کی آبادی بے گھر ہوگئی جس میں سے ساڑھے چھ ملین آبادی ملک سے باہر پناہ لینے پر مجبور ہوئی۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کی معیشت بری طرح سے متاثر ہوئی اور خود بشارالاسد کو اپنی تین لاکھ فوج کو تنخواہ دینا دشوار ہوگیا تھا۔ اگر بشار الاسد عوام کو بری طرح کچلنے کے بجائے کچھ رعایتیں دیتا اور ملک صحیح و سالم رہتا تو آج نہ ہی معیشت برباد ہوتی اور نہ ہی وہ اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔اگر وہ اپنے ملک کا وفادار ہوتا تو صدام حسین اور معمر قذافی کی طرح اپنے ہی ملک میں رہتا۔اطلاعات یہ ہیں کہ وہ ملک کی دولت کو باہر منتقل کرکے پوری تیاری کے ساتھ فرار ہوا۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے بشار کی ڈکٹیٹرشپ اسرائیلی حکومت کے لیے بہت سازگار تھی۔ بشارالاسد نے ایرانی حمایت کے باوجود اسرائیل کے خلاف وہ رول ادا نہیں کیا جو ایران چاہتا تھا۔اس طرح سے بشارالاسد نے ایران کو گویا دھوکہ دیا ہے ۔کاش ایران ۲۰۱۱ء میں سنی اکثریت والی اپوزیشن سے سودا کر کے اپنی شرطوں پر ان کی حمایت کرتا تو ایران کے لیے بہتر ہوتا۔لیکن ایران نے شیعہ اقلیت کو سنی اکثریت پر فوقیت دی اور ایک ایسے فرد پر اعتماد کیا جو خود ایران کے لیے بوجھ ثابت ہوا۔
مستقبل میں ایک غیرت مند سنی قیادت اگر ایک مضبوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے تو وہ عوام کی خیرخواہ بھی ہوگی اور وہ فلسطین کی حامی بھی ہوگی۔ یقیناً اسرائیل ایسی حکومت کو کبھی پسند نہیں کرتا جو حقوق انسانی کے لیے فکر مند ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (آل عمران:۲۶)
ہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جسے چاہے، چھین لے جسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اقتدار عطا کرنے اور چھینے اور عزت و ذلت دینے کے سارے اختیارات اپنے پاس رکھے ہیں۔ ظالم کو بھی جب اللہ تعالیٰ کسی ملک کا اقتدار عطا کرتا ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت کار فرما ہوتی ہے۔حکمت یہ ہے کہ لوگوں کا امتحان لیا جائے۔ بیک وقت اللہ تعالیٰ ظالموں کو ظلم کرنے کا بھی موقع دیتا ہے وہیں اپنے مومن بندوں کو صبر کے اعلیٰ منازل کو پانے اور شہداء کا درجہ پانے کا بھی موقع عنایت کرتا ہے۔اس دنیا میں ہرآن کوئی دوزخ کما رہا ہوتا ہے تو کوئی جنت لیکن جب ظلم جب انتہا کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے فرعونوں کو ذلت و رسوائی کے ساتھ اقتدار سے محروم کر دیتا ہے۔جب تک بشارالاسد زندہ رہے گا لوگ اس پر پھٹکار کرتے رہیں گے اور جب وہ اللہ کے پاس پہنچے گا تو پھر اپنے جرائم کے بدلے میں ابدی سزا پائے گا جو اس دنیا میں ناممکن ہے۔یہی اللہ کے نزدیک آخرت کے برپا ہونے کا اخلاقی وجوب ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ (القلم:۳۵)
کیا ہم فرماں برداروں کا حال مجرموں کا سا کر دیں؟
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 دسمبر تا 28 دسمبر 2024