آزادی کے 77 سال۔روٹی ، مکان اور صحت بے حال

نفرت کی سیاست کے بجائے حکومت زمینی مسائل پر توجہ دے

محمد انور حسین،اودگیر

سرکاری تحفظات پر مکمل انحصار کے بجائے ہمیں بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی
77 سال کے عرصے میں تو ایک نسل بوڑھی ہوجاتی ہے ۔فرد ہو ،قوم ہو یا ملک 77 سال اس کے لیے اپنی کارکردگی ثابت کرنے کے لیے بھرپور وقت ہوتا ہے ۔آزادی کے 77 ویں جشن پر دنیا میں یہ اعلان کرتے ہوئے ہمیں بھی فخر ہورہا ہے کہ ہماراملک دنیا کی ایک طاقتور معیشت بننے جارہا ہے لیکن حقیقی صورتحال یکسر مختلف ہے ۔بہت سے میدان ہیں جس پر بات کی جاسکتی ہے، آج صرف بنیادی ضرورتیں روٹی ،مکان اور صحت پر بات کرتے ہیں۔
روٹی اور کپڑے کی طرح مکان بھی انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔جانوروں اور انسانوں میں فرق کرنے والی چیزوں میں ایک مکان بھی شامل ہے ۔جانور کبھی مکان کی ضرورت سے بے نیاز ہوسکتے ہیں لیکن انسان نہیں ۔
ہمارا ملک جو تہذیب کی شاندار روایات کا ملک ہے وہیں تمدن کی بلندیاں بھی کچھ کم نہیں ہیں ۔ہمارے ملک میں بڑے بڑے شاہی محلوں کی تعداد سو کے قریب ہے ،چھوٹے محل بلند عمارتیں ،شاندار بنگلے ،بڑے اور کشادہ مکان تو بے شمار ہیں ۔
ان ہی شاندار اوربلند عمارتوں کے قریب لاکھوں لوگ ہیں جو سڑکوں پر کھلے آسمان کے نیچے یا ٹوٹے پھوٹے شیلٹروں میں رات گزارنے پر مجبور ہیں ۔
بے گھر لوگوں کا مسئلہ ملک کا ایک سنگین مسئلہ ہے لیکن حکومت کی توجہ اس طرح کے مسایل پر کم ہی ہوتی ہے کیونکہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں اس طرح کے مسائل سنسنی پیدا نہیں کرتے بلکہ مندر اور مسجد ،ہندو اور مسلمان کے مسائل ہی سنسنی پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں ۔ جبکہ بےگھر لوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اور خاص طور پر کرونا وبا کے بعد اس تعداد میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے ۔
بھارت میں بےگھروں کے مسئلہ کی کئی وجوہات ہیں ایک وجہ شہروں میں گھر کے کرایہ کا بڑھ جانا اور اجرت کا کم ملنا ۔ممبئی جیسے شہر میں ایک بیڈروم کے لیے ماہانہ 25 تا 30 ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں جبکہ ایک مزدور ماہانہ مشکل سے 15 ہزار روپے ہی کما سکتا ہے ۔اوسطاً دو بیڈ روم کے گھر میں بیس لوگ رہتے ہیں ۔چھوٹے شہروں میں بھی آمدنی اور کرایہ کا یہی تناسب ہے ۔بہت سے مزدور جو کام کی تلاش میں شہر آتے ہیں ان لوگوں کے گاؤں میں نہ ان کو روزگار ملتا ہے نہ ان کی زمین ہوتی ہے مجبوری میں ان کو شہر آنا پڑتا ہے اور گاؤں سے ہجرت کرنے والے لوگوں کی کثیر تعداد غربت کا شکار ہوتی ہے ۔بھارت میں 1.7 ملین لوگ بے گھر ہیں ۔ان میں سے بڑی تعداد ہمارے بڑے شہروں کولکاتا،ممبئی،دلی اور چنئی میں رہتی ہے ۔اکیلے ممبئی کا گنجان پن 73000 افراد فی مربع میل ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔جبکہ نیویارک میں یہ تعداد 29302 افراد فی مربع میل ہے۔
ممبئ کے دھاراوی میں آبادی کے گنجان پن نے تو باقاعدہ عالمی ریکارڈس بنائے ہیں کیونکہ دھاراوی میں آبادی کا گنجان پن 7 لاکھ 17 ہزار7سو 80 افراد فی مربع میل ہے ۔ ایسے میں یہ سوالات لازمی ہیں کہ کیا دھاراوی کی زندگی انسانوں کے لیے مناسب ہے؟ کیا ایک مہذب دنیا کیا اس طرح کی بستیوں کا تصور بھی کرسکتی ہے ؟ جبکہ اسی شہر میں ایسی بلند وبالا عمارتیں بھی ہیں جہاں بہت زیادہ جگہ میں نہایت ہی کم لوگ رہتے ہیں ۔
ہمارا ملک معاشی بڑھوتری کی طرف تو گامزن ہے لیکن معاشی ترقی کے لیے بہت سے پیمانے ثابت کرنے پڑیں گے ۔غربت ایک اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو شہروں کی طرف بھاگنا پڑ رہا ہے ۔ان میں سے بڑی تعداد سڑکوں پر رہتی ہے یا بمشکل کوئی آسرا تلاش کرلیتی ہے۔حکومت کی طرف سے بڑے شہروں میں شیلٹر ہومس چلائے جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد بھی کم ہوتی ہے اور سہولتیں بھی غیر معیاری ہوتی ہیں۔
ان بےگھر لوگوں کا ایک مسئلہ صحت کا مسئلہ بھی ہے ۔ان لوگوں کو مناسب غذا ،پانی اور سہارا نہیں ملنے کی وجہ سے ان کی صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔شہر میں مہنگے علاج کی وجہ سے وہ علاج نہیں کرواسکتے ۔یہ لوگ بہت سے جسمانی امراض کے ساتھ ساتھ ذہنی امراض کے بھی شکار ہوجاتے ہیں ۔NSSO کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ 32فیصد ہیں ۔ان غریب لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا ہی مشکل کام ہے تو گھر کا انتظام کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟
یہ مسئلہ شہروں میں بہت زیادہ ہے لیکن دور دراز کے علاقوں میں بھی بے گھر لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ان کو اتنی سہولتیں نہیں مل پاتی ہیں کہ وہ گھر بنائیں لہٰذا وہ موسم کی سختیاں برداشت کرتے رہتے ہیں جس میں بہت سارے لوگ سردی سے مر جاتے ہیں ۔ہر سال بھارت میں تقریبا 700 سے ایک ہزار کے درمیان لوگ فقط سردی سے مارے جاتے ہیں ۔
سڑک پر زندگی گزارنے کے کئی منفی اثرات ہوتے ہیں جیسے گندگی سے قربت ، بیماریوں میں ملوث ہونا ،صاف پانی کا نہ ملنا ،صحتمند غذا سے محرومی ، جرائم کا شکار ہونا ، نشہ،شراب اور ڈرگس کا شکار ہونا اورجنسی بے راہ روی کا فروغ پانا وغیرہ ۔
اس کے علاوہ بھی ایک مڈل کلاس بھارتی کو اپنا گھر خریدنا مشکل ہوتا جارہا ہے ۔لینڈ مافیا کا قبضہ،آسمان چھوتی زمین کی قیمتیں اور تعمیرات کی لاگت کا مہنگا ہونا ،آمدنی کا کم ہونا جیسے مسائل کی وجہ سے گھر خریدنا دشوار ہوگیا ہے ۔اس کے علاوہ جو لوگ بھی مکان خریدتے ہیں انہیں بینکوں سے قرض حاصل کرنا ضروری ہوجاتا ہے جو سود کے نام پر لاکھوں روپیے بنکوں کو ادا کرتے ہیں۔سودی قرض پر گھر خریدنا کسی بھی حیثیت میں مناسب نہیں ہے ۔اس کا ایک مذہبی اور اخلاقی پہلو تو ہے ہی لیکن معیشت کے لیے بھی نقصان دہ ہے ۔
روٹی جس کے بغیر انسانوں کا جینا ناممکن ہے ۔کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے ملک کے ہر شہری کے لیے روٹی کا انتظام کرے لیکن ہمارے ملک کی صورتحال یکسر مختلف ہے ۔ 2023 کے گلوبل ہنگر انڈکس کی رپورٹ کے مطابق بھارت کا دنیا کے 125 ممالک میں 111واں نمبر ہے۔اناج کی پیداوار میں بھارت دنیا کے دوسرے نمبر کا ملک ہونے کے باوجود دنیا کی آبادی کا ربع حصہ جو بھارت میں رہتا ہے عدم تغذیہ کا شکار ہے ۔ نیشنل ہیلتھ سروے2017 کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 19 کروڑ لوگ بھوکے سوتے ہیں اور ہر دن تقریبا ً4500 بچے بھوک اور عدم تغذیہ کی وجہ سے مرجاتے ہیں ۔
اگر ہم صحت اور دواخانوں کی سہولتوں کی بات کریں تو بھیانک صورتحال ہمارے سامنے آتی ہے ۔حال ہی میں حکومت کی جانب سے کرائے گئے سیلف اسیسمنٹ سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ بھارت میں صرف 20فیصد پرائمری ہیلتھ سنٹرس مطلوبہ معیار پر اترتے ہیں اور42فیصدہیلتھ سنٹرس ایسے ہیں جوصرف 50فیصدہی معیار پر اترپاتے ہیں ۔
یہ اور اس طرح کے بے شمار اعداد و شمار ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں ۔اعداد و شمار کے علاوہ ہمارا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ کس طرح لوگ جدوجہد کر رہے ہیں اورآزادی کے 77 سال کے بعد بھی ہمارے ملک میں انسانوں کا روٹی ،کپڑا ،مکان اور تعلیم کے لیے ترستے رہنا ہماری آزادی اور جمہوریت کی معنویت پر سوال کھڑا کرتا ہے ۔اگر حکومت کی جانب سے مذہب کی سیاست ،تین طلاق ،رام مندر ،اوقاف بل کے بجائے زیادہ ضروری مسائل پر توجہ دی جاتی تو نہ ملک کی ایسی حالت ہوتی نہ حکومت کو یہ دن دیکھنے پڑتے ۔
اب بات کچھ ہماری کرلیتے ہیں ۔ہم اب تک ہر سال یوم آزادی کے موقع پر جو شیلی تقریروں کے ذریعے یہ حقیقت بتاتے آئے ہیں کہ اس ملک کی آزادی کے لیے ہم نے عظیم تر قربانیاں دی ہیں ۔لیکن یہ جائزہ بھی ضروری ہے کہ آزادی کے بعد اس ملک کی تعمیر میں ہم نے کیا رول ادا کیا ہے اور اس ذمہ داری کو تیز گامی کے ساتھ انجام دینے کی ضرورت ہے ۔ملک کے ان مسائل کا رونا رونے سے کام چلنے والا نہیں ہے بلکہ ملت کے ہر فرد کو اس ملک کی تعمیر کی کوشش کرنی ہے ۔حکومت کی ذمہ داری سے قطع نظر کیا ہماری یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ معاشرہ سے غربت کے خاتمہ کی کوشش کی جائے۔کیا ہم اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ ہم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہمارا پڑوسی پیٹ بھر کھانا نہ کھالے ۔اب حکومت حکومت کا رونا بند کریں اس ملک کی نئی تقدیر لکھنے کے لیے کمر بستہ ہوجائیں ۔ہمارے پاس زکوٰۃ کا نظم ہے ہمارے پاس اوقاف کا نظم ہے جو بدقسمتی سے ہماری لاپروائی اور نااہلی کی وجہ سے داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ اس ملک کی تعمیر سماجی تعمیر ،سیاسی تعمیر ،معاشی تعمیر اور اخلاقی و روحانی تعمیر ہماری ذمہ داری ہے ۔کمتری اور خوف کی نفسیات سے باہر آنے کی ضرورت ہے اور ملک کی تعمیر کا عزم نو کرنے کی ضرورت ہے۔
وطن کے جاں نثار ہیں وطن کے کام آئیں گے
ہم اس زمیں کو ایک روز آسماں بنائیں گے
***

 

***

 ہمارا ملک معاشی بڑھوتری کی طرف تو گامزن ہے لیکن معاشی ترقی کے لیے بہت سے پیمانے ثابت کرنے پڑیں گے ۔غربت ایک اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو شہروں کی طرف بھاگنا پڑ رہا ہے ۔ان میں سے بڑی تعداد سڑکوں پر رہتی ہے یا بمشکل کوئی آسرا تلاش کرلیتی ہے۔حکومت کی طرف سے بڑے شہروں میں شیلٹر ہومس چلائے جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد بھی کم ہوتی ہے اور سہولتیں بھی غیر معیاری ہوتی ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 اگست تا 24 اگست 2024