آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

پرفیسر خورشید احمدؒ: فکر اسلامی کے عظیم سپوت

ڈاکٹر مجتبیٰ فاروق،
سنٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ ، نئی دہلی

ابتدائی احوال و تدریسی خدمات
پروفیسر خورشید احمدؒ عالم اسلام کے بلند پایہ دانش ور، ماہر اسلامیات،ماہر اقتصادیات اور داعی اسلام تھے۔اس دور کے بڑے اسلامی مفکرین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ آپ 23 مارچ 1932ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ 1949 میں قانون میں گریجویشن (LLB) کیا جب کہ اقتصادیات (1955) اور اسلامیات (1964) میں ماسٹر زکی ڈگریاں حاصل کیں۔ بچپن سے ہی کافی متحرک رہتے تھے۔ تحصیل علم کے ساتھ ساتھ طلبائی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور رکن بننے کے تین سال بعد یعنی 1953ء میں اسلامی جمعیت طلباء پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ تین سال تک قیادت کرنے کے بعد یعنی 1956ء میں جماعت اسلامی پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی اور متحرک رکن بن گئے اور جماعت کے کئی اہم عہدوں پر کام کیا اور نائب امیر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کے دوران ہی ان کی فکر میں پختگی آگئی اور اس کا اظہار انہوں نے اپنی ایک کتاب’’ ہم نے جمعیت سے کیا پایا؟ میں کیا ہے۔ طلبہ کی قیادت سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے تدریسی میدان میں قدم رکھا اور آغاز میں کراچی یونیورسٹی میں تدریسی فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد بہاولپور اوراسلامی یونیورسٹی اسلام آبادمیں بھی پڑھایا۔ ان کے علاوہ یونیورسٹی آف لیسٹر برطانیہ اور شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں بھی فکری رہنما کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ تعلیم اور فکر اسلامی کے میدان میں یونیورسٹی آف ملائشیاء، پرلغبرہ یونیورسٹی (لوف بورو) برطانیہ اور انٹر نیشنل یونیورسٹی ملائشیاء نے انہیں اعزازی طور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں عطا کیں ۔
فکرِ اسلامی کے تناور درخت
پروفیسر خورشید احمد اعلیٰ ذہانت اور فکر کے مالک تھے اور مغرب میں ایک طویل عرصے تک ان کا قیام رہا اور مغربی دانشوروں کے ساتھ اظہار خیال کرنے کا بار بار موقع ملا لیکن اس کے باوجود ان کی رائے اور تحقیق کسی بھی تجدد یا طغیانی کا شکار نہیں ہے۔ غرض کہ ان کی فکر میں اعتدال و توازن کی صفت بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ فکر اسلامی کے پاس دار تھے اور اس فکر کی پاسداری زندگی کے آخری دم تک کرتے رہے۔ ان کی فکر کا منبع قرآن و سنت ہے، قرآن وسنت سے ہی انہوں نے اپنی فکر کو توانا کیا۔ اسی لیے ان کے مباحث اور تحقیقات اسلام کے مذکورہ دو بنیادی متون کے ارد گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ اسلامی فکر کے آپ تناور درخت تھے۔ انہوں نے تحریک اسلامی کو مزید بلندیوں تک پہنچایا اور اور کئی نئے گوشوں کو متعارف کرایا اور کئی موضوعات پر اضافے اور تشریح کا کام کیا۔ ان کی فکر میں اصلیت (Originality) ہے اور کیونکہ اسلامی و مغربی افکار کے اصل سرچشموں سے انہوں نے براہِ راست واقفیت حاصل کی تھی اس وجہ سے آپ ہمیشہ فکری قیادت پر فائز رہے۔ان کی شناخت ماہر اقتصادیات اور ماہر تعلیم کے طور پر تو رہی لیکن ان میدانوں کے علاوہ فکر اسلامی کے کئی موضوعات کو انہوں نے اپنی جولان گاہ بنایا۔ اسلامی اور تحریکی فکر کا درخت تناور بنانے میں اب تک تقریباً تین سو کے قریب بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کر کے تحقیقی و فکری مقالے بھی پیش کیے۔ نیز اسٹوڈنٹس وائس، چراغ راہ، اقبال ریویو، ماہنامہ ترجمان القرآن، پالیسی پرسیکیوز جرنل جیسے فکری جریدوں کی ادارتی خدمات انجام دیں۔ کئی رسائل و تحقیقی جرائد میں اپنی نگارشات عطا کر چکے ہیں۔ فکر اسلامی کی خدمات کے تعلق سے انہیں کئی اعزازات سے نوازا گیا جن میں اسلامی ڈیولپمنٹ بینک ایوارڈ (1988) شاہ فیصل ایوارڈ(1990) ستارہ امتیاز حکومتِ پاکستان اور امریکن فنانس ہاؤس ایوارڈ قابل ذکر ہیں۔
فکری و تحقیقی اداروں سے وابستگی
پروفیسر خورشید احمد نے کئی اہم فکری و تحقیقی اداروں کو قائم کیا جن میں انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس (IIIE) انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) اور اسلامی فاؤنڈیشن، لیسٹر (UK) قابل ذکر ہیں۔ وہ ان اداروں کے ذمہ دار بھی رہے۔یہ تینوں ادارے عالم اسلام میں تھنک ٹینک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کے سکریٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ اسی طرح سینیٹ آف پاکستان کے رکن (1985-1997ء) بھی رہے ہیں۔ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات اور ڈپٹی چیرمین منصوبہ بندی کمیشن کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اسلامک سنٹر نائیجیریا کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن اور مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن لیسٹر کے ریکٹر اور اردن کی رائل اکیڈمی برائے اسلامی تہذیب کے بھی رکن رہے۔ بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس کے چیئرمین اور عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ کے نائب صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
مغرب سے مکالمہ
عالم اسلام اور مغرب کے درمیان مکالے میں آپ خاص دلچسپی رکھتے تھے اور اس سلسلے میں موصوف سنگ میل کی حیثیت رکھتے تھے۔ مغربی دنیا کو وہ ہرگز بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ مکالمہ اور ان کے ساتھ انٹریکشن پر کافی زور دیتے تھے۔ آپ نے مغرب اور اسلام کے تناظر میں اپنا ڈبیٹ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھایا۔ لیکن اس کے ساتھ مغربی سیکولرازم اور عالمی استعمار اور مغرب کی سیاسی پالیسوں کے مقاصد بھی بڑی صاف گوئی سے عیاں کر دیا۔ انہوں نے مغربی فکرو تہذیب کا بھرپور مطالعہ کیا اور کئی زاویوں سے گہرائی و گیرائی سےاس کا نقد بھی کیا۔ اس کی کمزوریوں اور اس کے اخلاقی گراوٹ و دیگر معائب کا بھی مدلل جائزہ لیا۔ اس کے ساتھ اس کے ان مثبت پہلوؤں کا ذکر کیا جن سے دنیائے انسانیت کو مستفید ہونا چاہے۔ مغرب سے مکالمے کے لیے انہوں نے برطانیہ میں اسلامک فاؤنڈیشن قائم کیا اور مغربی تناظر میں اسلامی لٹریچر بھی تیار کیا گیا اور انہوں نے ’امپیکٹ‘ کے نام سے انگریزی میں ایک علمی رسالہ بھی شائع کیا جس میں دینی، عالم اسلام اور مغربی فکر و تہذیب کے مسائل پر مضامین شائع ہوتے تھے۔ پروفیسر خورشید احمد نے ’’اسٹینڈنگ کانفرنس آن جیوز، کرسچن، اینڈ مسلمزاِن یورپ، برلن اینڈ لندن‘‘ کے نائب صدر کی حیثیت سے طویل عرصے تک کام کیا۔
فکر اسلامی پر منفرد کام
آپ نے گزشتہ ستر سال تصنیف و تالیف میں گزارے۔ آپ علمی و تحقیقی کاموں میں ہمیشہ مشغول رہے۔ آپ کی تحریروں کی سنجیدگی، اصابتِ فکر اور اسلوب کی انفرادیت اور ادب کی چاشنی خوب نمایاں نظر آتی ہے۔ وہ علم و تحقیق کا ایک ناپید کنار سمندر تھے جس کی خاموشی سے اس کی گیرائی و گہرائی کا پتہ چلتا ہے۔ پروفیسر صاحب متعدد فکری و نظریاتی موضوعات پر مبنی رسائل وجرائد کی ادارت کرچکے ہیں۔ انہوں نے نظامِ اسلام، نظام تعلیم، نظام اقتصادیات اور امت مسلمہ کے فکری و سیاسی مسائل کے حوالے سے بہت سا علمی وفکری کام کیا نیز، انہوں نے فکر اسلامی کے حجابات اور مغرب کی فلسفیانہ فکر کا جائزہ بھی لیا اور عصر حاضر میں اکیڈیمک سطح پر اسلامی فکر کو در پیش چیلنجوں کا جواب بھی دیا۔ اسی وجہ سے انہیں عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ ہر چند کہ ان کی تحقیقات اور تحریروں کا موضوع اسلامی اقتصادیات اور عالم اسلام کے فکری و سیاسی مسائل تھے لیکن انہوں نے متعدد اصناف سے اپنی انفرادیت کے جوہر دکھائے۔ علمی سنجیدگی، مطالعہ اور فکرو تدبر کی گہرائی آپ کی تحریروں کی بنیادی خصوصیت ہے۔ جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اس میں فکری روئیدگی پیدا کرتے تھے۔ موصوف نے فکر اسلامی پر خود سے معیاری لٹریچر تیار کیا اور اپنی سرپرستی میں بھی عصر حاضر کے تناظر میں لٹریچر کو تیار کروایا۔اس تعلق سے اسلامک فاونڈیشن سے سیکڑوں کی تعداد میں کتابیں شائع کی گئی ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد مغربی دنیا کے لیے نیا موثر لٹریچر تیار کرنے کے لیے کافی زور دیتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ’’اس مغربی معاشرے سے متعلق موضوعات پر نئی کتب اور نئے سمعی و بصری لوازمات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن ابھی یہ ضرورت کا دس فی صد بھی پورا نہیں کر رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے لیے دوسرے علاقوں میں تیار کردہ لٹریچر کی افادیت ہے مگر صرف ایک حد تک۔ اس کی بھی ضرورت ہے کہ موجودہ لٹریچر کو از سرنو مدون کر کے پیش کیا جائے۔ اصل ضرورت نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور نئے لٹریچر اور جدید ٹکنالوجی پر مبنی لوازمے کی فراہمی ہے۔ ان سب کاموں کے لیے سب تنظیموں کو مل کر منصوبے بنانے چاہئیں اور کام کو باہم تقسیم کر کے وقت کی ضرورت کو پورا کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ امریکہ جیسی بڑی مارکیٹ کے لیے مناسب مارکیٹنگ اداروں کا قیام از بس ضروری ہے۔‘‘ پروفیسر خورشید احمد اسلامی نظام معیشت کے ایک عظیم ماہر تھے۔ انہوں نے اس میدان کو جدید انداز اور منہج کے ساتھ دنیا کے سامنے متعارف کرایا۔ انہوں نے اسلامی بینکاری اور سود سے پاک اقتصادیات کا بہت ہی عمدہ نظام پیش کیا۔
علمی وتصنیفی خدمات
پروفیسر خورشید احمد نے اردو اور انگریزی میں سو سے زائد کتابیں اور بے شمار مقالات و مضامین اور اداریے لکھے ۔۔ ان کی بیشتر کتابوں کا ترجمہ عربی، چینی، ترکی، فارسی، فرانسیسی، بنگالی، جاپانی، جرمن اور انڈونیشی زبانوں میں کیا گیا۔ ان کی تصانیف تحریکی اور غیر تحریکی دونوں حلقوں میں ذوق و شوق کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ اکنا اور ایم ایس اے افسو وغیرہ جیسی تحریکات اور حلقوں میں ان کی تصنیفات کو فکری مطالعہ کے لیے نصاب کا حصہ متعین کیا جاتا ہے۔ موصوف کی فکر میں کافی بلندی پائی جاتی ہے نیز، جامعیت اور وضاحت (Clarity) ان کے اسلوب کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔
چند اہم تصانیف:
مذہب اور دور جدید، اسلامی فلسفہ حیات، اسلامی نظام حیات، اسلامی تحریک درپیش چیلنج، ترقیاتی پالیسی کی اسلامی تشکیل، پاک امریکا تعلقات کے اثرات، امریکا مسلم دنیا کی بے اطمینانی، 11 ستمبر سے پہلے اور بعد، تفہیم القرآن ایک کتابِ انقلاب، دہشت گردی کے خلاف جنگ، پاکستان کی نظریاتی اساس، پاکستانی معیشت کی صورت حال، مسائل اسباب، لائحہ عمل، جمہوریت پارلیمنٹ، اسلام، اسلامی فلسفہ حیات، سوشلزم یا اسلام، تذکرہ زنداں، ادبیاتِ مودودی، تحریکِ اسلامی: شاہ ولی اللہ سے اقبال تک وغیرہ۔ انہوں نے مولانا مودودی کی بہت سی کتابوں کو مرتب اور ترجمہ بھی کیا۔ انگریزی میں Islamic Way of Life, Islamic Law and Constitution, Unity of the Muslim World, Birth Control: A Critical Examination, Sick Nations of the Modern Age قابلِ ذکر کتابیں ہیں ۔
فکرِ مودودی کے شارح
پروفیسر خورشید نہ صرف سید ابوالاعلیٰ مودودی کے دیرینہ ساتھیوں میں بلکہ ان کے خاص شاگردوں میں شامل تھے۔ مولانا کی فکری تربیت سے خورشید صاحب براہ راست فیض یاب ہوئے۔خورشید صاحب مولانا مودودی کو اپنا مرشد مانتے تھے اور ان سے برابر استفادہ کرتے تھے۔ مولانا مودودی خود تحقیقی ذوق کی شخصیت کے حامل تھے اور یہی ذوق انہوں نے اپنے ساتھیوں اور شاگردوں میں پروان چڑھایا۔ اس سلسلے میں مولانا کا یہ طریق کار تھا کہ آپ اپنے ساتھیوں کو ان کے ذوق و شوق اور ان کی صلاحیتوں کا جائزہ لینے کے بعد کام سونپتے تھے۔ اس ضمن میں پروفیسر خورشید احمد نے ایک انٹریو میں کہا کہ”ہماری فکر اور سوچ و بچار کے انداز کی صورت گری میں سب سے زیادہ حصہ خود مولانا مودودی کے افکار و نظریات کا ہے۔ہم نے اس چالیس سالہ رفاقت میں مولانا مودودی کے صرف افکار ہی سے استفادہ نہیں کیا بلکہ سوچنے کے اس انداز اور طرز فکر کو بھی اپنانے کی کوشش کی جس کے اس دور کے مؤجد مولانا مودودی تھے“۔ پرفیسر خورشید احمد نے فکرِ مودودی کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا اور ان کی کئی کتابوں کا ترجمہ اور ایڈیٹ کر کے شائع بھی کیا۔ آپ کو مولانا مودودی کے ایک شارح کی حیثیت سے دنیا جانتی ہے۔ مولانا مودودی نے بعض موضوعات پر اختصار سے کام لیا لیکن بعد میں پرفیسر خورشید احمد نے ان پر تفصیل کے ساتھ کام کیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے مولانا کے بعض ادھورے چھوڑے ہوئے موضوعات کو مکمل کر لیا۔ نہ صرف فکرِ مودودی بلکہ تحریکات اسلامی کے آپ اتھاریٹی تھے۔ آپ ایک تنہا فرد نہ تھے بلکہ تحریک تھے بلکہ یوں کہا جائے کہ تحریک کے مرکزی ستون تھے۔
انتقال پُرملال
پروفیسر خورشید احمد ۹۳ سال کی عمر ۱۳ اپریل ۲۰۲۵ کو مثالی زندگی گزرانے کے بعد خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کے انتقال سے فکر اسلامی کی دنیا میں ایک خلا پیدا ہوا ہے جسے پر کرنا ممکن نہیں۔ ویسے بھی تحریک اسلامی کے پاس ان جیسے بالکل بھی نہیں ہے۔ مولانا مودودی کے تیار کردہ محققین اور افراد میں خورشید صاحب آخری کڑی تھے جو اب ہم سے جدا ہوگئے لیکن ان کا چھوڑا ہوا علمی و فکری ورثہ برابر فیض یاب کرتا رہے گا۔ معروف عرب دانشور وصفی ابو زید نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’المفكر الإسلامي البارز والأكاديمي المعروف، الأستاذ الدكتور خورشيد أحمد، أحد أبرز رموز الفكر الإسلامي المعاصر، ورفيق درب العلامة أبو الأعلى المودودي، والحائز على جائزة الملك فيصل العالمية‘‘ یعنی عصرِ حاضر کے عظیم اسلامی مفکر اور نامور علمی شخصیت، پروفیسر ڈاکٹر خورشید احمد، جو علامہ ابو الاعلیٰ مودودی کے رفیقِ خاص اور فکرِ اسلامی کے نمایاں علَم بردار ہیں، نیز وہ شاہ فیصل ایوارڈ کے معزز حاصل کنندہ ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عطا کرے۔ آمین۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2025