احمد علی اختر
دیرینہ رفیق، تحریک اسلامی کے مخلص اور یکسو کارکن، مربی اور مشفق رہنما، نظم و ضبط اور وقت کے مثالی حد تک پابند، سابق امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند بہار جناب قمر الہدی 31 دسمبر 2022 کو تین بجے شب پٹنہ کے میدانتا ہسپتال میں اپنے چاہنے والوں کو غمزدہ چھوڑ کر اپنے رب سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اپنے بے انتہا رحم و کرم کے طفیل جنت الفردوس میں داخل فرمائے، آمین!
مرحوم کی عمر 87 سال تھی۔ وہ 6 جنوری 1935 میں اپنے آبائی گاؤں دوست پور ضلع مدھوبنی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام نجم الہدیٰ تھا۔ 1954 میں کلواہی ہائی اسکول ضلع مدھو بنی سے میٹرک پاس کیا۔ اس کے بعد پٹنہ کالج آف کامرس میں داخلہ لیا اور 1958 میں گریجویشن کیا۔ 1956 میں آئی کام پاس کرنے کے بعد ہی پٹنہ سکریٹریٹ میں ملازمت شروع کردی تھی۔ کچھ عرصہ بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے ملازمت چھوڑ دی اور 1960 میں پٹنہ لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری لی۔ 1964میں دوبارہ سکریٹریٹ کی ملازمت جوائن کی اور جنوری 1982 میں والنٹری ریٹائرمنٹ لے کر سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔
شادی ململ ضلع مدھو بنی میں ململ کے پہلے رکن جماعت جناب ظہور احمد کی سب سے چھوٹی لڑکی محترمہ رضیہ خاتون سے ہوئی جو شادی کے بعد رضیہ قمر کے نام سے موسوم ہوئیں۔ وہ رکن جماعت اور ناظمہ حلقۂ خواتین بہار تھیں۔ اچھا اور موثر درس قرآن دیتی تھیں۔ خواتین کے حلقے میں رضیہ باجی کے نام سے معروف و مقبول تھیں۔ رضیہ قمر صاحبہ کا انتقال 2010 میں پٹنہ ہی میں دفتر حلقہ کے قریب واقع اپنی قیام گاہ میں ہوا جبکہ فجر کی نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کر رہی تھیں۔ شبیر احمد صاحب منیجر جمال پریس، دہلی اور مطیع الرحمن احقر صاحب پہلے منیجر مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی اور مولوی تبارک اللہ صاحب قیم جماعت افضل حسین صاحب کے معاون دفتر، تینوں حضرات ململ کے تھے اور قمرالہدی مرحوم کے قریبی رشتہ داروں میں تھے۔
قمرالہدی مرحوم جماعت سے متعارف، متاثر اور ہمدرد تو ایک عرصہ سے تھے مگر 1976 میں جماعت سے کافی قریب ہوئے اور 1977 سے باضابطہ بحیثیت کارکن کام کرنے لگے۔ 19 نومبر 1977 کو ان کی درخواست رکنیت بھی منظور ہو گئی۔ رفتہ رفتہ ان کی تحریکی سرگرمیاں بڑھتی گئیں۔ اپنے مربی اور مشفق رہنما ڈاکٹر ضیاء الہدی امیر حلقہ بہار کے کہنے پر جماعت کی ہمہ وقتی خدمت کے لیے کمر بستہ ہوئے اور 31 جنوری 1982 کو سرکاری ملازمت سے والنٹری ریٹائرمنٹ لے کر دوسرے ہی دن یکم فروری 1982 کو بحیثیت آفس سکریٹری دفتر حلقہ میں اپنی خدمات پیش کر دیں۔ اسی کے ساتھ اپریل 1982 سے جماعت اسلامی ہند پٹنہ کی امارت مقامی کے لیے بھی ان کا انتخاب عمل میں آگیا۔ اس طرح وہ امیر مقامی اور آفس سکریٹری دونوں کے فرائض انجام دینے لگے۔ 1995 میں امیرحلقہ کی حیثیت سے ان کی تقرری عمل میں آئی اور وہ 2011 تک ۔۔۔ مسلسل چار میقات یعنی 16 سال امیر حلقہ رہے۔ امارت حلقہ کی ذمہ داری سے فرصت پانے کے بعد وہ ململ جاکر رہائش پذیر ہونا چاہتے تھے مگر ارکان شوری اور امیر حلقہ کی خواہش تھی کہ وہ بحیثیت سرپرست اور مربی اپنی خدمات جاری رکھیں اور ہم لوگوں کی رہنمائی فرماتے رہیں۔ چنانچہ امیر حلقہ کے اصرار پر انہوں نے دفتر حلقہ رکنے کا فیصلہ کر لیا اور شعبہ تنظیم کے سکریٹری، مربی اور دفتر کے نگراں کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھال لی جو عمر کی آخری سانس تک جاری رہی۔ اس طرح امارت حلقہ کے بعد بھی اپریل 2011 تا 31 دسمبر 2022 گیارہ سال دس مہینے دفتر حلقہ بہار میں شعبہ تنظیم کے سکریٹری، نگراں اور مربی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
مرحوم سے میری واقفیت اور رفاقت کا عرصہ 49 سالوں پر محیط ہے۔ میں نے انہیں بحیثیت ہمدرد جماعت بھی دیکھا، بحیث کارکن بھی، بحیثیتِ رکن بھی، بحیثیت امیر مقامی بھی، بحیثیت امیر حلقہ بھی، بحیثیت رکن شوری بھی اور بحیثیت رکن مجلس نمائندگان بھی۔ ہر حیثیت میں ان کی شخصیت مثالی اور لائق تقلید تھی اور اپنے اندر روشنی اور رہنمائی کا سامان رکھتی ہے۔ وہ عالم دین نہیں تھے، حافظ قرآن نہیں تھے، مقرر اور خطیب نہیں تھے، قلم کار، مقالہ نگار اور مصنف نہیں تھے، مفکر اور پالیسی ساز نہیں تھے، حتیٰ کہ درس قرآن دینے والوں کے شمار و قطار میں بھی نہیں تھے، اور یہ بھی نہیں ہے کہ انہوں نے تحریک کے لیے لگاتار اور انتھک دورے کیے ہوں، پھر بھی وہ ایک مثالی شخصیت اور مثالی قائد تھے، اس لیے کہ وہ تحریک اسلامی کے ایک مخلص committed and dedicated workerتھے، ایک مثالی مامور اور مثالی امیر تھے، خدا کی رضا کے طلب گار، جنت کے امیدوار اور عابد شب گزار تھے۔ نماز باجماعت کی پابندی بہت اہتمام سے کرتے تھے، وعدے کے پابند تھے۔
مرحوم کا تنظیمی شعور بالیدہ تھا، وہ اچھے منتظم تھے، بہار سرکار کے سکریٹریٹ کے اسٹیٹکس ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرنے کی وجہ سے دفتری امور کی واقفیت بھی خاصی تھی۔ دفتر حلقہ کا دفتری نظام چست و درست رکھنے میں ان کا رول نمایاں ہے۔ وہ ضابطے کے آدمی تھے۔ نظم و ضبط اور ڈسپلن کے خود بھی پابند تھے اور دوسروں سے بھی پابندی کرانے کا اہتمام کرتے تھے۔ معاملات کے کھرے اور حساب و کتاب کی صاف ستھرے تھے۔ با اخلاق، ملنسار اور مہمان نواز تھے، مزاج میں نفاست اور طبیعت میں شرافت تھی۔ تعلقات اور دوستی کو نبھاتے تھے۔ خاندان کے لوگوں اور رشتہ داروں سے بھی ان کے تعلقات اچھے تھے۔ ململ سے تعلق رکھنے والے تمام تحریکی لوگوں میں، خواہ وہ اس وقت کسی شہر میں آباد ہوں، سب کی نظر میں محترم تھے۔ ان کی حیثیت سر پرست اور گارجین جیسی تھی۔
قمرالہدی صاحب نے تحریک کے لیے قربانی دی تھی، سابق امیر حلقہ بہار ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ کے ایک اشارے پر مرحوم نے والنٹری ریٹائر منٹ اس وقت لیا جب ڈیڑھ ماہ بعد ہی ان کا پروموشن ہونے والا تھا، اگر ڈیڑھ ماہ بعد وہ ریٹائرمنٹ لیتے تو پنشن میں کافی اضافہ ہوجاتا، افسر کے سمجھانے کے باوجود وہ نہیں رکے۔ افسر سے انہوں نے کہا کہ ہمارے امیر حلقہ کا حکم ہے کہ میرے دفتر میں کل جوائن کرو تو مجھے ہر حال میں کل ہی جوائن کرنا ہے اور ریٹائرمنٹ آج لازماً لے لینا ہے، چاہے مجھے ان فائدوں سے محروم ہونا پڑے جس کی آپ خبر دے رہے ہیں۔ چھوٹے سے اس ایک واقعہ میں مثالی قربانی اور مثالی اطاعت گزاری کی اچھی مثال موجود ہے۔ اس واقعے میں ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ قمر الہدیٰ صاحب کے اندر احساس ذمہ داری تھی۔ انہیں جو کام بھی ملا پوری احساس ذمہ داری اور حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا۔ حق مغفرت کرے ۔۔۔۔۔۔۔ بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔ خدا جہاں ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان کی مغفرت اور بلندئی درجات کے لیے دعا کریں وہاں یہ بھی دعا کریں کہ ان کی شخصیت سے جو روشنی اور رہنمائی مل رہی ہے اس سے اپنی زندگی کو منور کرنے کی اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
***
***
قمرالہدی صاحب نے تحریک کے لیے قربانی دی تھی، سابق امیر حلقہ بہار ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ کے ایک اشارے پر مرحوم نے والنٹری ریٹائر منٹ اس وقت لیا جب ڈیڑھ ماہ بعد ہی ان کا پروموشن ہونے والا تھا، اگر ڈیڑھ ماہ بعد وہ ریٹائرمنٹ لیتے تو پنشن میں کافی اضافہ ہوجاتا، افسر کے سمجھانے کے باوجود وہ نہیں رکے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جنوری تا 28 جنوری 2023