آسام میں بنگالی نژاد مسلمان، روہنگیاوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور

غیرقانونی تجاوزات کے نام پرمسلمانوں کے گھرو ں کی مسماری کا سلسلہ دراز

نور اللہ جاوید، کولکاتا

اپوزیشن جماعتوں کی مجرمانہ خاموشی۔ دسمبر میں 400سے زائد مکانات کہ انہدام
13 دسمبر کو آسام کے ضلع ناگاوں میں بٹدربا سیڈ فارم پر سیکڑوں وردی پوش اہلکار اچانک خیمہ زن ہوگئے۔قریبی دیہات جیسے ہیدوبی اور بھوموراگوری کے مکینوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ اچانک اتنے وردی پوش یہاں کیوں خیمہ زن ہو رہےہیں چناں چہ خوف کا سایہ پورے علاقے میں چھا گیا۔یہ وہی علاقہ ہے جہاں مئی میں پولیس کی حراست میں ایک مقامی باشندے کی موت کے بعد ناراض لوگوں کے ایک ہجوم نے بٹدربا پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی تھی۔اس کے بعد سے ہی اس علاقے میں پولیس کی گشت ہوتی رہی ہے مگر اتنی بڑی تعداد میں وردی پوش اس واقعے کے بعد بھی نہیں آئے تھے۔پہلے یہ بتایا گیا کہ یہاں پر ٹریننگ کیمپ لگنے والا ہے مگر 17 دسمبر کو واضح ہوگیا کہ تجاوزات کے خلاف کارروائی ہونے والی ہے چناں چہ اگلے دو دن بعد چشم زدن میں چار گاوؤں کو اجاڑ کر ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ چاروں گاؤں بنگالی نژاد مسلمانوں کی اکثریت کی آبادی پر مشتمل تھے۔ ضلع نوگاوں کی پولیس سپرنٹنڈنٹ لینا ڈولی اس بات پر خوش ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر بے دخلی کارروائی کے دوران نہ کوئی مزاحمت ہوئی اور نہ ہی کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آیا۔
2016ء میں بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد قاضی رنگا نیشنل پارک کے قریب بے دخلی کی مہم شروع کی تواس کے خلاف خلاف احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کردی گئی جس میں دو بنگالی نژاد مسلمانوں کی موت ہوگئی تھی۔گزشتہ سال ستمبر میں بھی ضلع ڈارنگ کے دھول پور علاقے میں بے دخلی مہم کے خلاف احتجاج کرنے والوں پرفائرنگ ہوئی تھی جس میں بھی دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ہیمنت بسوا سرما کے مئی 2021ء میں آسام کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے اب تک چار ہزار سات سو خاندانوں کو اجاڑ دیا گیا ہے۔ان میں زیادہ تربنگالی نژاد مسلمان ہیں۔ایسے میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا غیر قانونی تجاوزات صرف بنگالی نژاد مسلمانوں نے ہی کر رکھے ہیں؟
اس سے قبل نومبر 2022ء میں ضلع ہوجائی میں لمڈنگ ریزرو جنگل کے قریب ایک بڑی بے دخلی مہم چلائی گئی تھی۔ ساڑھے پانچ سو سے زیادہ خاندانوں کے گھر، جن میں سے زیادہ تر بنگالی نژاد مسلمان تھے، مسمار کر کے تقریباً پانچ سو ہیکٹر رقبہ کو خالی کرایا گیا تھا۔ اس کارروائی کے موقع پر تقریباً ایک ہزار سیکیورٹی اہلکار موجود تھے۔دسمبر کے پہلے ہفتے میں ضلع بارپیٹا انتظامیہ نے تقریباً ستر سیلاب زدہ خاندانوں کو ضلع کے کھڈونابری میں سرکاری زمین پر مبینہ طور پر تجاوزات کرنے پر بے دخل کردیا گیا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے مکانات توڑے گئے ہیں ان سبھوں کے نام این آرسی میں شامل ہیں یعنی وہ ہندوستانی شہری ہیں۔
22 دسمبر کو بارپیٹا کے کنارا سترا میں تقریباً چار سو بیگھہ سرکاری اراضی کو خالی کرانے کےنام پر تقریباً چالیس خاندانوں کو بے دخل کر دیا گیا تھا۔ جن لوگوں کے گھروں کو خالی کرایا گیا ہے وہ خاندان ستر سے اسی سال سے وہاں مقیم ہیں اور ان میں سے اکثریت حکومت کو مطلوبہ ٹیکس ادا کر رہی تھی۔ مسمار کرنے کی مہم آسام کے تمام مسلم اکثریتی اضلاع میں چل رہی ہے۔ بے دخلی کے زیادہ تر متاثرین گزشتہ ستر اسی سالوں سے اپنی زمینوں پر قابض ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ کسان تھے جنہوں نے دریا کے کٹاؤ کی وجہ سے چار علاقوں (برہم پترا ریورائن آئی لینڈ) میں اپنی زمینیں کھو دی تھی۔ وہ آس پاس کے علاقوں کی خالی زمینوں پر اپنی زندگی دوبارہ بسر کررہے تھے۔ممبر اسمبلی شرمن علی نے اس ظلم کے خلاف احتجاج کرنے کی کوشش کی تو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آسام کی اپوزیشن جماعتیں کانگریس اور اے یو ڈی ایف کی طرف سے اس پورے معاملے میں ایک طرح سے خاموشی اختیار کرلی گئی ہے۔آل آسام مائنارٹی اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سکریٹری محمد امتیاز حسین کہتے ہیں کہ آسام میں مسلمان نفسیاتی خوف میں مبتلا ہوچکے ہیں اس لیے اب وہ احتجاج کرنے کی بھی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں۔دراصل ہیمنت بسواسرما نے پولیس کو کھلی چھوٹ دے دی ہے کہ بے دخلی مہم کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کر دیں چناں چہ معمولی سے احتجاج پر بھی پولیس فائرنگ کردیتی ہے۔
جس پیمانے پر کارروائیاں ہورہی ہیں اس سے یہ سوال لازمی پیدا ہوتا ہے کہ کیا آسام کے بنگالی نژاد مسلمان روہنگیا مسلمانوں کی طرح بے وطن ہوجائیں گے؟ جن کے گھر اجاڑ دیے گئے وہ اب کہاں جائیں گے؟ انہیں کہاں پناہ ملے گی؟ ان کے حق میں کوئی آواز بھی بلند نہیں ہورہی ہے۔ ترنمول کانگریس کے سابق رکن راجیہ سبھا احمد حسن عمران نے سیاسی جماعتوں، ملی تنظیموں کے ذمہ داروں اور سیول سوسائٹی کے نام کھلا خط لکھ کر آسام بحران پر توجہ دلاتے ہوئےکہا کہ آسام میں اس وقت جوکچھ ہو رہا ہے اس کو انسانی المیہ کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ ساٹھ ستر سالوں سے مقیم لوگوں کے گھروں کو اچانک اجاڑ دیا گیا۔انہوں نے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اس پورے مسئلے پر آسام کی سیاسی جماعتیں پراسرار خاموشی اختیار کرلی ہے۔سیول سوسائٹی کی طرف سے بھی آواز بلند نہیں ہو رہی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 14 جنوری 2023