آسام میں مسلمانوں کو نسل پرستانہ مہم کا سامنا

ہمنتا بسوا سرما کا ‘‘ڈی-مسلمائزیشن’’ پروجیکٹ!

(دعوت نیوز ،کولکاتا بیورو)

الطاف حسین جو پیشے سے انجینئر ہیں مگر کبھی کبھار گلوکاری بھی کرتے ہیں، انہوں نے تین دن قبل آسام کی سیاست میں بنگالی نژاد مسلمانوں، خاص طور پر میاں مسلمانوں (جو آسام کے مسلمانوں کے لیے نفرت انگیز اصطلاح ہے) کے خلاف جاری نفرت انگیز مہم کا جواب دیتے ہوئے یوٹیوب پر ایک گانا پیش کیا۔ اس گانے میں کسی بھی طبقے کے خلاف توہین آمیز یا نفرت انگیز زبان استعمال کیے بغیر یہ پیغام دیا گیا کہ میاں مسلمان بھی آسام کے شہری ہیں اور ملک کے دوسرے شہریوں کی طرح اپنے ملک، اپنی ریاست اور اپنی مٹی سے محبت کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الطاف حسین کو آسام کی پولیس نے نفرت پھیلانے کے الزام میں گرفتار کر لیا، جبکہ دوسری طرف آئین کے نام پر حلف لے کر وزارت اعلیٰ جیسے عظیم عہدے پر پہنچنے والے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمانتا بسوا سرما فخر کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں۔ اسمبلی میں جو جمہوریت کے تحفظ اور عوامی رائے کی عکاسی کرتی ہے، وہ فخریہ کہتے ہیں کہ وہ میاں مسلمانوں کو بالائی آسام پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ انہوں نے بنگالی نژاد مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کی ہو۔ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ ان کے بیانات اس حلف کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ آئین کی خلاف ورزی اور آئین کے ساتھ دھوکہ اپنے آپ میں بڑا جرم ہے، لیکن اس کے باوجود ہیمنتا بسوا سرما وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہیں۔ یہ ملک کا المیہ ہے کہ ایک شخص آئین کی خلاف ورزی، آئین کی توہین اور ریاست کے ایک بڑے طبقے کے خلاف نفرت انگیز بیانات دے کر بھی ریاست کا سربراہ بنا ہوا ہے، جبکہ ایک شہری صرف اس وجہ سے جیل میں ہے کہ اس نے میاں مسلمانوں کے حقوق اور انصاف و شمولیت کی بات کی ہے۔
2014 میں کانگریس کو چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد سے ہی ہیمانتا بسوا سرما نے خود کو مسلم مخالف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ بی جے پی نے انہیں 2021 میں وزارت اعلیٰ کی کرسی سونپ کر انعام بھی دیا۔ وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد امید تھی کہ وہ ریاست کی ترقی اور آسام کے مسائل پر توجہ دیں گے، جہاں بڑی آبادی ہر سال سیلاب کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہو جاتی ہے، لاکھوں ایکڑ فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، تعلیمی ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے اور صنعت کاری نہ ہونے کی وجہ سے بڑی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہے۔ لیکن ہیمانتا بسوا سرما نے اپنے چار سالہ وزارت اعلیٰ کے دور میں ان مسائل پر کام کرنے کے بجائے آسام کے عوام کی تقسیم اور مسلمانوں کے خلاف اقدامات کیے ہیں۔ ان کے مسلم مخالف بیانات نے انہیں قومی میڈیا میں ہیرو بنا دیا، اور بی جے پی نے انہیں مختلف ریاستوں میں انتخابی مہم کی ذمہ داری بھی سونپی۔ تاہم، خوش آئند بات یہ ہے کہ قومی میڈیا نے ان کی زہر افشانی پر نوٹس لینا شروع کر دیا ہے۔ تین دن قبل ملک کے دو باوقار اخبارات ’’انڈین ایکسپریس‘‘ اور ’’دی ہندو‘‘ نے بی جے پی اور آسام کے وزیر اعلیٰ کو آئین کی یاد دہانی کرائی۔ انڈین ایکسپریس نے "Neither fear nor favour: Assam Chief Minister must remember his oath of office” کے عنوان سے لکھا ہے کہ تیسری بار اقتدار میں آنے کے فوراً بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے زور دیا تھا کہ ’’آئین ہماری رہنمائی کی روشنی ہے‘‘۔ ایسا لگتا ہے کہ آسام کے وزیر اعلیٰ نے وزیر اعظم کے پیغام کو نہیں سنا یا اس پر دھیان نہیں دیا۔ یہ ضروری ہے کہ مرکزی حکومت سرما کو ان کے فرض اور ذمہ داری کی یاد دلائے کہ وہ اپنی ریاست کے سب لوگوں سے مخاطب ہوں اور جواب دیں۔ دی ہندو نے "Hateful, baleful: on the Assam Chief Minister and communally sensitive” کے عنوان سے لکھا ہے کہ مسٹر سرما اس حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جو انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ لیا تھا کہ وہ ہندوستان کے سیکولر آئین کے ساتھ سچی ایمان اور وفاداری برتیں گے۔ واضح طور پر یہ کہنے پر کہ وہ ایک مخصوص کمیونٹی کے خلاف ہیں، اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ دوسرا، ایسے گروپوں کے مطالبات کو بڑھاوا دے کر جنہوں نے پوری کمیونٹی کو "بالائی آسام” چھوڑنے کی دھمکی دی ہے اور یہ تجویز کیا ہے کہ اقلیتی برادری کو آزادانہ نقل و حرکت کا حق نہیں ہے، وہ ایک ایسی ریاست میں نفرت کو بڑھا رہے ہیں جو پہلے ہی نسلی تشدد سے متاثر ہے۔ قومی میڈیا نے اس پر نوٹس لینا شروع کیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں سندیپ چودھری نے نیوز 14 میں اس پر پروگرام کیا ہے، مگر ٹی وی چینلوں پر ہونے والے بحث و مباحثہ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں ایک دوسرے کی رائے کا احترام نہیں کیا جاتا۔ ممکن ہے کہ بی جے پی کی قومی قیادت بھی سرما کو آئین و قانون کی پاسداری کی نصیحت کرے۔
اپوزیشن جماعتوں نے اس مرتبہ جرأت کا مظاہرہ کیا اور سرما کی ناکامیوں کو بے نقاب کیا۔ سرما جہاں قانون اور نظم و نسق میں ناکام رہے ہیں، وہیں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں باز آبادکاری اور پریشان حال افراد تک نہیں پہنچ سکے ہیں، جس کے نتیجے میں عوامی ناراضگی یقینی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ بی جے پی میں بھی بے چینی ہے اور کئی ممبران اسمبلی سرما کے آمرانہ رویے کے خلاف ناراضگی ظاہر کر چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آسام بی جے پی میں شدید ناراضگی ہے اور سرما کے پاس اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں شمال مشرقی ریاستیں، بالخصوص منی پور میں بی جے پی کی شکست کے بعد سرما کی پوزیشن کافی کمزور ہوئی ہے۔ وہ اس صورت حال سے نکلنے کے لیے نسلی پرستانہ سیاست کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے عصمت دری کے ایک واقعے کو پوری کمیونٹی کی طرف موڑنے اور میاں مسلم کے نام پر آسام کے ہندوؤں کو پولرائز کرنے کی کوشش کی ہے۔ بالائی آسام میں عام طور پر جو مچھلیاں کھائی جاتی ہیں وہ بارک ویلی یا نچلے آسام سے جاتی ہیں اور مچھلی کی افزائش کرنے والے عام طور پر بنگالی مسلمان ہیں۔ ہمنتا بسوا سرما جو کہ اپنے حلف میں شہریوں کے درمیان کسی قسم کا بھید بھاؤ نہ کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں، بالائی آسام کے ہندوؤں کو مچھلی کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر غیر قانونی قدم اور آئین سے بے وفائی اور کیا ہو سکتی ہے؟ انہوں نے مسلم کسانوں کے بائیکاٹ کی بات بھی کی ہے۔
لازمی رجسٹریشن نکاح کا بل گزشتہ ہفتے آسام اسمبلی نے پاس کر دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس کی شدید مخالفت کی کیونکہ اس بل میں کئی ایسے نکات ہیں جن میں شہری آزادی اور اظہار خیال کی آزادی پر حملہ کیا گیا ہے۔ سرما یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ آسام میں یکساں سِول کوڈ کے نفاذ کی طرف پہلا قدم ہے، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسی آسام میں یکساں سِول کوڈ میں وہاں کے قبائلیوں کو استثنیٰ دینے کی بات کی جا رہی ہے۔ ایک ملک ایک قانون چلانے والوں کا ذہنی دیوالیہ پن دیکھیے کہ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستیں اپنے سیاسی سہولتوں اور مفادات کے اعتبار سے یکساں سِول کوڈ کا قانون بنا رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ملک ایک قانون کا تصور نہیں ہے۔ لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم نریندر مودی نے "سیکولر سِول قانون” کے نفاذ کی وکالت کی، اس طرح انہوں نے آزادی کے تمام رہنماؤں کو فرقہ پرست بتایا۔ مگر سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی ہوں یا بی جے پی کی قیادت ہو یا ہیمانتا بسوا سرما، پہلے خود سیکولر ہونے کا عملی ثبوت پیش کریں۔ لازمی رجسٹریشن میں ایک شق یہ بھی شامل ہے کہ لڑکا اور لڑکی کا تعلق ایک ہی ضلع سے ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بھی لڑکا آسام کے دیگر اضلاع میں شادی نہیں کر سکتا یا کوئی آسام کا لڑکا بہار کی لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس طرح کی پابندی صرف مسلمانوں کے لیے کیوں ہے؟ آسام جغرافیائی اعتبار سے بہت ہی پیچیدہ ریاست ہے۔ رقبہ بڑا اور آبادی منتشر ہونے کی وجہ سے ایک بڑی آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ انہیں شادی سے قبل رجسٹریشن کرانے کے لیے ضلع کوارٹر کے چکر لگانا پڑے گا اور یہ اس وقت مزید مشکل ہو جائے گا جب افسر شاہی مکمل طور پر تعصب میں مبتلا ہو۔ دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ اس کا مقصد آسام میں بچپن کی شادی کا خاتمہ کرنا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ بچپن کی شادی کا رواج مسلمانوں سے زیادہ آسام کے قبائلیوں میں ہے تو پھر اس طرح کی قانون سازی قبائلیوں کے لیے کیوں نہیں ہے۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ بچپن کی شادی کیوں ہوتی ہے؟ اس کے سماجی و معاشی اسباب کا تجزیہ کیے بغیر اور اس کے تدارک کے اقدامات کیے بغیر کوئی بھی قانون سازی ناکافی ثابت ہوگی بلکہ اس کی وجہ سے رشوت خوری کا ایک اور دروازہ کھل جائے گا۔
دراصل اس وقت آسام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سرما کی پولرائزیشن سیاست یا پھر نفرتی سیاست سے کہیں زیادہ ہے۔ سرما ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ وہ منصوبہ ہے "ڈی مسلمائزیشن” یعنی مسلمانوں کے وجود، مسلم تہذیب و ثقافت اور یادگار کا خاتمہ ہے اور اس کے لیے وہ نسل پرستانہ رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ نوے برسوں سے روایت رہی ہے کہ آسام اسمبلی میں جمعہ کے دن وقفہ دیا جاتا تھا، مگر سرما نے اس کا بھی خاتمہ کر دیا۔ حالانکہ انگریزوں نے بھی اس کو ختم نہیں کیا تھا مگر سرما نے اس مذہبی آزادی پر حملہ کر دیا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ قانون کی نگہبانی کرنے والے ادارے خاموش ہیں۔ جب حکومتوں کی سرپرستی میں نسل پرستانہ اور نفرت انگیز مہم چلتی ہے تو اس کی تاثیر زیادہ ہوتی ہے۔ اس نسل پرستانہ مہم سے صرف مسلمان ہی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ آسام کا ہر ایک شہری متاثر ہوگا۔ آگ ایک بار جب بھڑک جاتی ہے تو پھر اس پر قابو پانا مشکل ہے۔ منی پور میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس کی بڑی مثال ہے۔ کوکی اور میتی گزشتہ ڈیڑھ سال سے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ریاست اور مرکز دونوں تماشائی بنے ہوئے ہیں اور بے گناہوں کی جانیں جا رہی ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024