آسام کے عیسائی طبقے میں خوف و ہراس کا ماحول
پولیس کی جانب سے گرجا گھروں کی جاسوسی کی جارہی ہے ؛ کرسچن تنظیمیں
گوہاٹی (دعوت نیوز بیورو)
آسام کی ریاستی حکومت مذہبی امتیاز اور اقلیتوں کی حقوق تلفی جیسے الزامات کی زد میں
ملک کا اقلیتی طبقہ ہمیشہ ہی سرخیوں میں رہا ہے۔ پسماندگی کے شکار اقلیتوں کی ترقی کے لیے کئی اقدامات اٹھائے گئے، اسکیمیں بنائی گئیں لیکن اس کے باوجود وہ آج بھی پسماندہ ہیں۔ اقلیتوں کی اگر ہم بات کریں تو سب سے پہلی تصویر مسلمانوں کی ابھر کر سامنے آتی ہے کیونکہ مسلمان ہی اس ملک کا سب سے بڑا اقلیتی طبقہ ہیں جبکہ بودھ، جین، پارسی، سکھ اور عیسائی بھی اقلیتوں میں شامل ہیں۔ موجودہ حکومت نے اقلیتوں کی کئی اسکیموں خاص کر اسکالرشپ اسکیم میں کٹوتی کر دی ہے جس کی وجہ سے اقلیتی طبقے میں مایوسی دیکھی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی اقلیتوں کی ترقی کے لیے نئے اقدمات اور نئی اسکیموں کے بجائے ان کے دلوں میں ڈر اور خوف پیدا کیا جا رہا ہے۔ سماجی کارکن نیلوفر ناز کے مطابق ملک کا اقلیتی طبقہ پہلے ہی پسماندہ تھا اب وہ احساس کمتری کا بھی شکار ہو گیا ہے۔ یہ لوگ اپنے تحفظ کے بارے میں سب سے زیادہ پریشان ہیں۔ حالیہ عرصے میں اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کو جس طریقے سے نشانہ بنایا گیا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ یو پی حکومت نے مدارس پر پابندی لگانے اور انہیں بند کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ آسام میں بھی کچھ ایسی ہی تصاویر دیکھنے کو ملیں۔ اور اب صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ عیسائیوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آسام کی عیسائی تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے گرجا گھروں کی جاسوسی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے حکومت پر مذہبی امتیاز اور اقلیتیوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔ پورے آسام میں اس معاملے پر اقلیتی طبقے میں کشیدگی دیکھی جا رہی ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی آزادی پر تشویش بڑھ گئی ہے۔ تنازعہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب ریاستی پولیس نے کیتھولک کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہوئے ایک سروے شروع کیا، جس پر عیسائی طبقے نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتے جانے کا الزام لگایا ہے۔ گوہاٹی کے آرچ بشپ نے اس سروے پر تنقید کی اور اسے غیر منصفانہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے مسلمانوں کے ساتھ امتیاز برتا جاتا تھا، انہیں تنگ و پریشان کیا جاتا تھا، اب اس فہرست میں عیسائیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندتو تنظیمیں مشنری اسکولوں سے مذہبی علامتوں کو ہٹانے اور سرسوتی پوجا کو فروغ دینے کی وکالت کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں جو کہ افسوس ناک ہے۔
آسام کی تقریباً 3.74 فیصد آبادی پر مشتمل عیسائیوں کے لیے تین سو سے زیادہ مشنری اسکولوں کی نگرانی کرنے والی سورو فرنانڈیز نے ان اقدامات کو اپنے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی بتاتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔ سروے میں نئے گرجا گھروں، تبادلوں اور تبدیلی کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے بارے میں معلومات کی درخواست دی گئی ہے۔ عیسائی تنظیموں نے سروے کے فیصلے کو حیران کن بتایا ہے۔ آسام کی ہمسایہ ریاست میگھالیہ کی نمائندگی کرنے والی شیلانگ کی کیتھولک ایسوسی ایشن نے عیسائیوں کو ڈرانے کے لیے کرائے جانے اس سروے کی مذمت کی۔ بڑھتے ہوئے دباؤ کے جواب میں چیف منسٹر ہمنتا بسوا سرما نے خود کو اس تنازعہ سے الگ کرتے ہوئے کہا کہ یہ پولیس کا معاملہ ہے۔ حکم راں بی جے پی کے لیڈروں نے واضح کیا کہ انتظامیہ نے سروے کی حمایت نہیں کی۔ کشیدگی میں مزید اضافہ تب ہوا جب ‘کٹمبا تحفظ پریشد’ نے مشنری اسکولوں سے مذہبی علامات کو ہٹانے کا مطالبہ کیا، جس سے اسکول انتظامیہ اور چرچ کے ذمہ داروں میں تشویش پیدا ہو گئی۔ مشنری اسکولوں میں خوف کا ماحول ہے جس کی وجہ سے پولیس سے تحفظ کی درخواستیں کی گئی ہیں۔ کارمل اسکول، جورہاٹ کی پرنسپل سسٹر روز فاطمہ نے سروے پر تشویش کا اظہار کیا اور سیکیورٹی فراہم کیے جانے کا مطالبہ کیا۔ ناقدین نے اقلیتیوں کو نشانہ بنانے سے نمٹنے میں ناکامی کا الزام لگاتے ہوئے حکومت پر بے توجہی برتنے کا الزام لگایا ہے۔ پولیس کی جانب سے مثبت رد عمل کے باوجود مسیحی رہنما حکومت کی خاموشی سے پریشان ہیں۔ آسام پولیس نے واضح کیا ہے کہ وہ پولیس ہیڈ کوارٹر کی ہدایت پر تمام عیسائی تنظیموں کی معلومات اکٹھی کر رہی ہے کیونکہ ریاست کے کئی علاقوں میں عیسائی اداروں اور تعلیمی ٹرسٹوں کو دھمکیاں دینے کی شکایتیں موصول ہوئی تھیں۔ ریاست کے کاربی اینگلونگ ضلعی پولیس نے ایک تحریری بیان میں یہ بات اس وقت کہی جب یونائیٹڈ کرسچن فورم (UCF) نامی ایک عیسائی گروپ نے الزام لگایا کہ پولیس آسام کے کاربی انگلونگ میں گرجا گھروں کی جاسوسی کر رہی ہے۔ گروپ نے ضلع انتظامیہ سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔
تنظیم نے گزشتہ منگل کو ضلع کمشنر کو ایک میمورنڈم پیش کیا ہے جس میں چرچ کے حکام کو پیشگی اطلاع دیے بغیر، دیفو میں اور ڈوکموکا تھانے کے علاقے کے تحت چرچوں میں گھسنے، تصاویر لینے اور سوالات پوچھنے کی شکایت کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آسام کیتھولک ایجوکیشنل ٹرسٹ نے حال ہی میں ڈی جی پی، جی پی سنگھ کو خط لکھا تھا جس میں ان سے ریاست میں مشنری تعلیمی اداروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی درخواست کی گئی تھی۔ جب ایک دائیں بازو کے ہندو گروپ نے مبینہ طور پر دھمکی دی تھی اور اداروں سے حضرت عیسیٰؑ اور مریم کے مجسموں ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کاربی انگلونگ نے کہا کہ تمام عیسائی اداروں کی معلومات اکٹھا کرنے کا کام حکومت آسام کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) گولا گھاٹ کی طرف سے چیف منسٹر کو پیش کی گئی شکایت کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔ عیسائی مشنری اسکولوں کو دی گئی حالیہ دھمکیوں اور حملوں کے خلاف عیسائیوں کی شکایات پر آسام کے کربی اینگلونگ کے ایس پی سنجیب سائکیا نے کہا، "ڈی جی پی کے دفتر کی ہدایت کو دیکھتے ہوئے، متعلقہ تھانوں کے اہلکار گرجا گھروں کا دورہ کر رہے ہیں اور وہاں کے عہدیداروں سے بات کر رہے ہیں۔ پولیس وہاں سروے کے ذریعے اداروں کی حفاظت کا جائزہ لینے گئی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ آسام کیتھولک ایجوکیشنل ٹرسٹ نے حال ہی میں ڈی جی پی، جی پی سنگھ کو خط لکھا تھا جس میں ان سے ریاست میں مشنری تعلیمی اداروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی درخواست کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ دائیں بازو کے ایک گروپ نے مبینہ طور پر دھمکی دی تھی اور اداروں سے حضرت عیسیٰ اور مریم کے مجسموں اور ساتھ ہی ان کے کیمپس سے صلیب کو ہٹانے پر زور دیا تھا۔ مزید یہ کہ اس گروپ نے مبینہ طور پر پادریوں اور راہباؤں سے کہا کہ وہ اپنے مقدس لباس نہ پہنیں۔ عیسائی گروپ کا کہنا ہے کہ آسام پولیس کاربی اینگلونگ گرجا گھروں کی جاسوسی کر رہی ہے۔ پولیس نے کہا کہ یہ پولیس ہیڈکوارٹر کی ہدایت پر کیا جا رہا ہے کیونکہ ریاست کے کئی حصوں میں عیسائی اداروں اور تعلیمی ٹرسٹوں کو دھمکانے کی شکایات موصول ہوئی تھیں۔ یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) نامی ایک عیسائی گروپ نے ضلع انتظامیہ سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، تنظیم نے ضلع کمشنر کو ایک میمورنڈم پیش کیا ہے جس میں پولیس اہلکاروں کے تعلق سے شکایت کی گئی ہے کہ وہ ’دیفو میں گرجا گھروں میں گھس رہے ہیں اور ڈوکموکا تھانے کے علاقے کے تحت، تصاویر لے رہے ہیں اور سوالات پوچھ رہے ہیں۔
میمورنڈم میں عیسائی گروپ نے ڈی سی پر زور دیا ہے کہ وہ عوامی امن کے مفاد میں اس سروے کو فوری طور پر بند کریں۔ سورو فرنانڈیز نے کہا کہ مسیحی رہنما اپنی شکایات کے اظہار اور اپنے مذہبی حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کے لیے وزیر اعلیٰ سے ملاقات پر غور کر رہے ہیں۔ وہ مذہبی آزادی کے آئینی اصولوں کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور سیکولرازم کو کمزور کرنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔ فی الحال اس سروے کے فیصلے پر کشیدگی برقرار ہے۔ لوگوں کی توجہ حکومت کے رد عمل اور آسام میں مذہبی ہم آہنگی اور اس کے اثرات پر مرکوز ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مئی تا 1 جون 2024