آسان ترجمہ قرآن سے توضیحی ترجمہ قرآن تک، تفہیم کی نئی راہیں
تسہیل اور اختصار، آسان تراجم کے بنیادی اصول
ابو فہد، نئی دہلی
مکمل پس منظر اور تفہیم، توضیحی تراجم کی ضرورت
آج کل اردو زبان میں قرآن کریم کے آسان ترجمے زیادہ ہو رہے ہیں بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ آسان تراجم و تفاسیر کی ایک بہار سی آئی ہوئی ہے۔ اور ایسا اس لیے بھی ہے کہ قرآن کے اردو مترجمین اور مفسرین کے سامنے عام اردو داں طبقات تک پہنچنے کی ضرورت موجودہ دور میں ایک بڑی ضرورت بن کر ابھری ہے۔ اور یہ تو تقریباً طے شدہ بات ہے کہ خالص علمی و ادبی اور تحقیقی و تنقیدی چیزیں اور کاوشیں اہل علم و فن تک ہی محدود رہتی ہیں، عام لوگوں کی ان تک رسائی نہیں ہو پاتی، یا تو اس لیے کہ ان کے پاس رسائی حاصل کرنے کے لیے وقت نہیں ہے یا پھر اس لیے کہ ان کے پاس ایسی صلاحیتیں نہیں ہیں۔ اور پھر ان کے سامنے سب سے بڑا حجاب تو شاید زبان کا حجاب ہے۔ علوم و فنون کی کثرت اور ذو لسانی استعداد کی ضرورت نے لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں چھوڑا کہ وہ اردوئے معلیٰ سیکھنے اور جاننے کے لیے مطلوب وقت نکال سکیں، اس لیے زیادہ تر لوگ معمولی اردو سے ہی اپنا کام چلانا چاہتے ہیں۔
اور پھر آج کل اختصاص کا زمانہ ہے اور اس وجہ سے بہت سے اہل علم و ہنر اور صاحبِ مطالعہ افراد بھی غیر اختصاصی چیزوں کو تفصیلات میں جا کر دیکھنا اور پڑھنا نہیں چاہتے، جس علم و فن اور شعبے میں انہیں اختصاص حاصل ہے اس کے علاوہ باقی ہر طرح کے علوم و فنون سے وہ سرسری گزرنا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ صاحب علم ہیں اور اہل الرائے ہیں۔ اس لیے قرآن و سنت کے معانی و مفاہیم کو مختصر کر کے اور آسان بنا کر پیش کرنے کی ضرورت صرف عوام ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان خواص کی بھی اسی طرح کی بڑی اور اہم ضرورت ہے جنہوں نے قرآن و سنت کی قرأت و تفہیم کو اپنے لیے بطورِ اختصاص نہیں چنا ہے تاکہ وہ کم سے کم وقت اور کم سے کم محنت میں قرآن و سنت کی زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کر سکیں، بہت زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر اور بہت زیادہ ذہن پر زور ڈالے بغیر۔
یہ بارہا دیکھا اور سنا گیا ہے کہ ان میں جو لوگ قرآن پڑھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں وہ اس فراق میں رہتے ہیں کہ انہیں کوئی ایسا ٹول ہاتھ آ جائے جس کی مدد سے وہ کم وقت میں اور تھوڑی سی محنت میں زیادہ سے زیادہ قرآن سمجھ کر پڑھ سکیں۔ اس لیے خادمانِ قرآن کی یہ بڑی مجبوری سی بن گئی ہے کہ وہ قرآن کے معانی و مفاہیم کو ہر لحاظ سے آسان کر کے عام لوگوں کے سامنے اور کسی درجے میں خواص کے سامنے بھی پیش کرنے کی اپنی سی سعی کریں۔ اور یہ اسی سعی بامراد کا خوشگوار نتیجہ ہے کہ آج کل آسان تراجم قرآن کی بہار سی آئی ہوئی ہے۔ اسی ضرورت کے تحت ماضی کے بعض مشاہیر مفسرین اور مترجمین کے تراجم اور تفاسیر کی تسہیل بھی کی گئی ہے اور تلخیص بھی لکھی گئی ہے۔
قرآن کا یہ حق ہے کہ وہ ہر انسان تک پہنچے، اسی طرح ہر انسان کا یہ حق ہے کہ قرآن اس کی اپنی زبان میں اس کے لیے دستیاب ہو۔ خواہ اس کا جینڈر کچھ بھی ہو، ملک و زبان کوئی بھی ہو، رنگ و نسل کچھ بھی ہو اور خواہ اس کا مذہب کوئی بھی ہو۔ کم از کم ہر ذی شعور انسان تک قرآن ضرور پہنچ جانا چاہیے۔ اسی عمل کو بال و پر دینے کے لیے اور اسی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے علمائے کرام قرآن کے معانی و مفاہیم کو آسان سے آسان کر کے پیش کرنے کی اپنی سی سعی کرتے ہیں۔ اور اللہ کے پاس ان کے لیے بیش بہا اجر ہے۔
آسان تراجم و تفاسیر کے حوالے سے حال فی الحال میں اور ماضی قریب میں جن علماء کی سعی مشکور سامنے آئی ہیں ان میں چند حسب ذیل ہیں:
حافظ نذر احمد، مولانا عبدالکریم پاریکھ، ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر محمد فاروق خان، مولانا وحید الدین خان، مولانا سلمان الحسینی ندوی، مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا بلال عبدالحئی حسنی ندوی، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور مولانا محمد حسان نعمانی ندوی وغیرہ۔
ویسے تو متاخرین کے بھی بیشتر اردو تراجم و تفاسیر آسان تراجم و تفاسیر کے زمرے میں ہی آتے ہیں جیسے شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا احمد رضا خان بریلوی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا شبیر احمد عثمانی، ڈاکٹر طاہر القادری، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا فتح محمد جالندھری، مولانا محمد جونا گڑھی وغیرہ، ان کے علاوہ شیعہ علماء کے اردو تراجم اور تفاسیر جیسے علامہ جوادی اور محمد حسین نجفی وغیرہ۔ ان علماء کے تراجم بھی تقریباً آسان تراجم کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔ البتہ ان میں سے بعض مترجمین کی زبان اپنی قدامت، عربی و فارسی الفاظ کی کثرت اور جملوں کی ترکیب و ترتیب میں اجنبیت کی وجہ سے آج کے اردو داں طبقے کے لیے بڑی حد تک ناقابل فہم ہوگئی ہے۔
قرآن کے معانی کو آسان زبان میں لوگوں تک پہنچانے کی کوششیں شروع ہی سے ہوتی رہی ہیں۔ خود حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے فتح الرحمان میں فارسی زبان میں یہی کوشش کی اور ان کے صاحبزادے شاہ عبدالقادرؒ نے بھی بامحاورہ اردو زبان میں ترجمہ کرکے یہی کوشش کی۔ انہوں نے موضح القرآن کے مقدمے میں تحریر کیا ہے: ’’اس بندۂ عاجز عبدالقادر کے خیال میں آیا کہ جس طرح ہمارے بابا صاحب (حضرت شاہ ولی اللہ، عبدالرحیم کے بیٹے) نے فارسی زبان میں قرآن کے معنیٰ آسان کرکے لکھے ہیں، اسی طرح عاجز نے ہندی زبان میں قرآن کے معنیٰ آسان کرکے لکھے۔ الحمدللہ کہ یہ آرزو 1790ء (1205ھ) میں حاصل ہوئی۔‘‘ (موضح القرآن جلد اول صفحہ نمبر 2)
آسان تراجم اور تفاسیر میں دو پہلو بطور خاص پیش نظر رکھے جاتے ہیں: ایک تسہیل اور دوسرے اختصار۔ تسہیل سے مراد زبان کو عام فہم بنانا ہے اور اختصار سے مراد تفاصیل ختم کرکے اس کی جگہ آیات کے بہت ضروری معانی کو اختصار کے ساتھ بیان کرنا ہے۔ آسان تراجم سے زیادہ تر یہی مراد لی جاتی ہے کہ ترجمے میں عام بول چال والے لفظ استعمال کیے جائیں، جملے چھوٹے چھوٹے اور مختصر رکھے جائیں اور اسلوب بیان اور لب و لہجہ بھی ایسا رکھا جائے جو آسانی سے سمجھ میں آنے والا ہو۔ اسی طرح آسان ترجموں میں سلف کے اقوال اور تفسیری حوالوں کو منہا کردیا جاتا ہے اور اپنی ترجیحی رائے کے مطابق مناسب اور قرآنی لفظیات سے قریب تر الفاظ میں قرآن کے معانی کو ادا کردیا جاتا ہے۔ بعض جگہ قوسین میں ربط آیات اور سیاق و سباق ظاہر کرنے والے الفاظ اور جملوں کا بھی اضافہ کردیا جاتا ہے، اور یہ ہر طرح سے اچھی اور قابل ستائش کاوش ہے۔ تاہم، آسان تراجم کی کل کائنات بس یہی ہے۔
مگر یہ کہنا شاید غلط نہیں ہے کہ آسان ترجمہ قرآن کی روایت، قرآن کریم کی ترجمانی کے عمل میں آخری حد نہیں ہے۔ آسان ترجمہ قرآن کی موجودہ کاوشوں سے تسہیل اور اختصار کے مقاصد کسی قدر ضرور پورے ہوجاتے ہیں، مگر تفہیم کے مقاصد کلی طور پر پورے نہیں ہوتے۔ اس لیے یہ کہنا شاید درست ہے کہ قرآن کے معانی کی تعبیر و توضیح میں آسان ترجمے آخری منزل نہیں ہیں، آسان تراجم کے بعد اگلی منزل توضیحی تراجم کی ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ قرآن کے معانی کی توضیح و تعبیر میں اگلی منزل ایسے تراجم کی ہے جو آسان بھی ہوں اور توضیحی بھی۔ اور یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ اگر کوئی ترجمہ توضیحی ترجمہ ہے تو وہ لازماً آسان بھی ہوگا، بالکل اسی طرح کہ ہر آسان ترجمہ توضیحی ترجمہ بھی ہو، یہ بھی بالکل ضروری نہیں ہے۔
توضیحی ترجمہ وہ ترجمہ ہے جس میں ان دونوں جہتوں کا التزام کیا گیا ہو، یعنی آیت کا مالہ وما علیہ پوری طرح واضح ہوجائے، آیت کا پس منظر کیا ہے اور آیت میں کس سے خطاب ہے، یہ بھی پوری طرح واضح ہوجائے۔ قرآنی متن میں جو ضمائر ہیں اور اسم موصول وغیرہ ہیں، ان کو ترجمے میں اردو کی ضمائر سے ترجمہ کرنے کے بجائے مطلوب اسماء سے ترجمہ کیا جائے۔ اسی طرح سائل، مسئول اور مخاطب و مخاطَب کو بھی واضح کردیا جائے۔ اسی طرح الفاظ عام فہم استعمال کیے جائیں، جملے مختصر اور سادہ ہوں اور بامحاورہ ہوں، زبان زرخیز ہو اور اسلوب سہل اور سلیس ہو۔ پھر اگر ان تمام خصوصیات کے ساتھ یہ ترجمہ ادبی رنگ و آہنگ بھی رکھتا ہو تو یہ ایک بہترین توضیحی ترجمہ ہو سکتا ہے۔ توضیحی ترجمہ وہ ترجمہ ہے جو حواشی کی ضرورت کو بالکلیہ ختم کردے یا بہت مختصر کردے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں ترجمے میں طوالت در آئے گی، مگر یہ طوالت قرآن کے ایجازی اور اعجازی پہلوؤں کو واضح کرنے کی وجہ سے بھی ہوگی۔ تاہم، اتنی ساری خصوصیات ایک ہی ترجمے میں اپنانا بظاہر مشکل نظر آتا ہے، خاص طور پر شخص واحد کی ذہانت اور کاوش سے کئے ہوئے ترجمے میں۔
ترجمہ قرآن میں توضیحی پہلو اختیار کرنا مترجم کے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ قرآنی بیانیہ اپنے انتہائی معنیٰ میں ایجازی بیانیہ ہے اور موجودہ مشہور و معروف آسان تراجم میں، اسی طرح ادبی تراجم میں یہ ایجاز من وعن منتقل نہیں ہوسکا ہے۔ لفظی تراجم میں تو اور بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ فی الوقت اردو زبان میں کوئی توضیحی ترجمہ نہیں ہے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ ماضی کے بامحاورہ اور ادبی تراجم میں جو ترجمے بہترین ترجمے ہیں، مگر وہ بھی توضیحی ترجمے نہیں ہیں۔
اردو زبان میں قرآن کا ترجمہ کرنا دوسری غیر خاندانی زبانوں کی بہ نسبت زیادہ آسان اور سہل بھی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اردو میں تلفظ اور معانی کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کم و بیش پچاس ساٹھ فیصد الفاظ نہ صرف یہ کہ عربی کے ہیں، بلکہ بڑی تعداد میں قرآنی الفاظ بھی پائے جاتے ہیں۔ تو اس لحاظ سے اردو میں قرآن کا ترجمہ کرنا قدرے آسان ہوجاتا ہے، تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ قرآن کے ترجمے میں قرآن کے کم از کم چار حسن غارت ہوجاتے ہیں: ایک ایجاز، دوسرے اعجاز، تیسرے ادبیت اور چوتھے نغمگی اور سِرّیت۔ قرآن کا ترجمہ آپ خواہ کتنا بھی با محاورہ بلکہ ادبی اور توضیحی کرلیں، ترجمے میں یہ چاروں چیزیں عنقا ہوجائیں گی۔ پھر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ ترجمہ خواہ کتنی بھی ترقی یافتہ اور زرخیز زبان میں ہی کیوں نہ ہو اور خواہ کیسے بھی ادیب، صاحب اسلوب اور ماہر لسانیات کے ذریعہ ہی کیوں نہ کیا گیا ہو اور پھر وہ فی الواقع کتنا بھی مطابق اصل، وقیع اور خوبصورت ہی کیوں نہ ہو، کوئی بھی ترجمہ فی الواقع اصل زبان کے رَمز اور حُسن کی تاب نہیں لاسکتا۔
اس وقت مارکیٹ میں قرآن کے مختلف ترجمے موجود ہیں مگر ہر ترجمہ ہر شخص کے لیے نہیں ہے۔ میرا مطلب ہے کہ قاری کی صلاحیت کے حساب سے ہر ترجمہ ہر قاری کے لیے نہیں ہے۔ بہت ہی ابتدائی درجے کی صلاحیت والوں کے لیے با محاورہ ترجمے ٹھیک ہیں، تاہم جو عربی اور اردو کی تھوڑی بہت شد بد رکھتے ہیں، ان کے لیے ادبی تراجم زیادہ مفید ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ اب مستقبل میں جو ترجمے کیے جائیں، وہ خواہ با محاورہ ترجمے ہوں یا ادبی، ان میں بہرحال توضیحی پہلو غالب رہنا چاہیے۔ توضیحی تراجم کی جو افادیت ہوگی، وہ شاید ہی کسی اور ترجمے کی ہوسکتی ہے۔
***
قرآن کے معانی کو عام فہم زبان میں پیش کرنے کی کوششیں تاریخی اعتبار سے جاری ہیں، جس کا آغاز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے بیٹے شاہ عبدالقادر کی تحریروں سے ہوا۔ اردو زبان میں قرآن کے ترجمے کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں عربی اور اردو کے الفاظ کی مشترکیت زیادہ ہے، تاہم ترجمہ کے دوران قرآن کے مخصوص حسن کو برقرار رکھنا ایک چیلنج ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں موجود مختلف ترجمے قاری کی صلاحیت کے مطابق مختلف دستیاب ہیں، مستقبل میں ان ترجموں میں توضیحی پہلو کی شمولیت کی ضرورت ہے تاکہ قرآن کی صحیح تفہیم کو یقینی بنایا جا سکے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 نومبر تا 11 نومبر 2024