آپ ہی کی ہے عدالت آپ ہی منصف بھی ہیں

بھیما کورے گاوں تشدد کے پانچ سال،.حریفوں سے انتقام کے لیے عدلیہ کا استعمال!

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

یلغار پریشد : دلت فخر کے اظہار کا سالانہ موقع۔ جیلوں میں قید سماجی کارکن انصاف کے منتظر
مہاراشٹر میں پونے سے قریب بھیما کورے گاوں میں جئے استمبھ پر اس سال بھی 31 دسمبر کو لاکھوں لوگوں نے مہار ریجمنٹ کی دلیری کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس طرح یہ بات ثابت ہو گئی کہ دیویندر پھڈنویس کے دوبارہ وزیر داخلہ بن جانے کے باوجودان کی پانچ برس قبل رچی جانے والی خوفزدہ کرنے کی ناپاک سازش بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ فسطائی طاقتوں نے اقتدار کے بل بوتے پر اپنی تاریخی ناکامی کو چھپانے کی خاطر تشدد بھڑکا کر بے قصور لوگوں کو گرفتار تو کر لیا مگر وہ حریت پسند عوام کو ڈرانے دھمکانے کے اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔آگے بڑھنے سے قبل اس تاریخ پر ایک نظر ڈال لینا ضروری ہے جس کی پردہ پوشی کے لیے سنگھ پریوار نے اتنا بڑا ڈراما رچا۔ مہاراشٹر کے اندر بھیما ندی کے شمالی کنارے پر کورے گاؤں بھیما نام کا ایک گاوں واقع ہے۔ یکم جنوری 1818ء میں اس گاوں کے اندر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کا تصور بھی کرنا ہندوستان کے برہمنوں کے لیے محال تھا۔ اس واقعہ کا جشن منانے کی خاطر نسلی امتیاز کے دشمن وہاں ہر سال جمع ہوتے ہوکر برہمنوں کو شرمسار کرتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ سے گنگا کی وادی میں آنے والے آریہ نسل کے حملہ آوروں نے اس ملک کے اصلی باشندوں کو پہلے تو جنوبی ہندوستان میں دھکیلنے کی کوشش کی لیکن جن لوگوں نے اپنی زمین چھوڑنے سے انکار کیا انہیں ورن آشرم کا ظالمانہ نظام قائم کرکے شودر اور اچھوت بنادیا۔ نسلی امتیاز کے اس نظام کو قائم کرنے والے برہمن بغیر محنت و مشقت کے کشتریوں کی تلوار کے بل بوتے پر عیش کرنے لگے۔ ویش تجارت کرتے اور کشتری ان سے محصول وصول کرکے فوج کشی کرتے۔ برہمن ان بکھیڑوں سے دور پوجا پاٹ کرکے مزے اڑاتا۔ یہ تینوں نام نہاد اونچی ذات کے طبقات مل جل کر محنت کش شودروں کا استحصال کرتے اور ان سے اپنی خدمت کرواتے۔ تقریباً پانچ ہزار سالوں تک یہ ظالمانہ رواج جاری و ساری رہا۔ گوتم بدھ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو ان کے ماننے والوں کو ملک بدر کر کے ان کی عبادتگاہوں کو مسمار کردیا گیا۔ گاندھی جی نے اصلاح کی کوشش کی تو ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اب تو انہیں در پردہ ملک کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا جارہا ہے۔
وطن عزیز میں شودروں کو صدیوں تک تعلیم اور فوج سے دور رکھا گیا۔ مسلم بادشاہوں کی ملک میں آمد کے بعد ان کے لیے تعلیم کے دروازے کھولے گئے۔ ان مظلوم طبقات میں سے ایک بڑی تعداد مشرف بہ اسلام ہوگئی۔ اسلام کے سبب ذات پات کے نظام سے نجات پانے کے بعد ان پر فوج اور دیگر فنی مہارت کے دروازے بھی اپنے آپ کھل گئے۔ انگریزوں نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ مسلمان چونکہ انگریزی سامراج کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے میں پیش پیش تھے اس لیے انہوں نے شودروں کو اپنی فوج میں شامل کرکے مہار رجمنٹ کو منظم کیا۔ بھیما کورے گاوں کے اندر انگریزی فوج کے 500 سپاہیوں کا پیشوا باجی راؤ دوم کے 28000 فوجیوں کے ساتھ معرکہ پیش آیا۔ انگریزوں کے محض 500 فوجیوں میں 450 مہار (اچھوت) تھے اور ان لوگوں نے پیشوا کی طاقتور فوج کو شکست د ے دی۔ ان فوجیوں کو ان کی بہادری اور جرأت پر اعزاز دیا گیا۔ برطانوی ریزیڈینٹ کی سرکاری رپورٹ میں ان فوجیوں کے نظم و ضبط اور ان کی ہمت و ثابت قدمی کی تعریف کی گئی۔ اس جنگ کی اہمیت یہ تھی کہ اس نے نہ صرف پیشوا سلطنت کے خاتمہ میں مدد کی بلکہ اچھوت مہاروں کو اپنی بہادری دکھانے اور ذات پات کی پابندی کو توڑنے کا موقع دیا۔
مہاراشٹر کا برہمن اس شرمسار کرنے والی تاریخ کو بھلا دینا چاہتا ہے مگر دلت فخر سے اسے یاد رکھتا ہے اور اسی لیے ہر سال 31 دسمبر کو یلغار پریشد کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ 2017 میں اس لڑائی کی 200 ویں سالگرہ کا اہتمام بڑے زور و شور سے کیا گیا تھا۔ اس وقت چونکہ دیویندر پھڈنویس جیسا برہمن وزیر اعلیٰ مہاراشٹر پر حکومت کررہا تھا مبینہ طور پر اس کی شئے پر پونے شہر کے مراٹھوں نے اگلے دن فساد برپا کر دیا۔ اس کے بعد فسادیوں کو سبق سکھانے کے بجائے اس کا فائدہ اٹھاکر سنگھ پریوار نے اپنے نظریاتی حریفوں سے انتقام لینا شروع کردیا۔ ان بے قصور لوگوں کے لیے ’اربن نکسل‘ کی اصطلاح گھڑی گئی۔ ان پر فساد بھڑکانے کے علاوہ راجیو گاندھی کے طرز پر وزیر اعظم نریندر مودی کے قتل کی سازش کا الزام بھی لگا دیا گیا۔ آگے چل کر اسی حکمت عملی کا دہلی میں اعادہ کیا گیا۔ شمال مشرقی دہلی میں کپل شرما کی مدد سے فساد بھڑکا کر اس کی آڑ میں این آر سی اور سی اے اے کے خلاف تحریک چلانے والے عمر خالد اور خالد سیفی جیسے بے شمار نوجوانوں کو ملک سے بغاوت کے الزام میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔
31 دسمبر 2017 کی یلغار پریشد کے بعد بھیما کورے گاؤں میں تشدد کے واقعات کی جانچ کے بہانے جون 2018 میں دلت کارکن سدھیر دھاؤلے کو ممبئی میں ان کے گھر سے جبکہ وکیل سریندر گاڈلنگ، سماجی کارکن مہیش راؤت اور شوما سین کو ناگپور سے اور رونا ولسن کو دہلی میں ان کے فلیٹ سے گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد اگست میں پونے پولیس نے دہلی میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے صحافی گوتم نولکھا اور سدھا بھاردواج کو حراست میں لیا۔ ان کے علاوہ حیدرآباد میں قلمکار اور سماجی کارکن پی وراورا راؤ، ممبئی میں سماجی کارکن ویرنان گونزلویس، سزین ابراہم، صحافی کرانتی ٹیکولا اور ارون فریرا، رانچی میں سماجی کارکن فادر اسٹین سوامی کے گھروں کی تلاشی لی ہے۔ گوا میں سماجی کارکن اور قلمکار آنند تیلتمبڈے کے گھر پر بھی پولیس تلاشی کے لیے پہنچی۔ آگے چل کر ان سب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا گیا۔ پنچ نامہ کے مطابق ان پر آئی پی سی کی دفعہ 153اے، 117, 505 اور 120 کے ساتھ ہی غیرقانونی سرگرمی (روک تھام) قانون یعنی یو اے پی اے کی مختلف دفعات کے تحت بھی معاملہ درج کیا گیا ۔
مہاراشٹر پولیس کی بائیں بازو کے کارکنان کی گرفتاری کو کئی وکیلوں، مفکروں اور قلمکاروں نے خوف وہراس میں مبتلا کرنے والی کارروائی قرار دے کر ایمرجنسی کی یاد دلانے والا واقعہ بتایا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایگزیکیٹیو ڈائرکٹر آکار پٹیل نے کہا کہ یہ گرفتاریاں ہیومن رائٹس کارکن، وکیلوں، صحافیوں اور حکومت کے ناقدین کے خلاف کارروائی ہے۔ یہ تمام ہندوستان کے غریب اور حاشیہ پر پڑے ہوئے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنے والے لوگ ہیں۔ ان کی گرفتاریوں سے بے چین کرنے والے سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا انہیں ان کے کام کے لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ ‘آکسفیم انڈیا کے سی ای او امیتابھ بیہر نے کہاکہ یہ گرفتاریاں معمول سے ہٹ کر ہیں۔ حکومت کو ڈر کا ماحول بنانے کے بجائے اظہار کی آزادی اور پر امن طورسے جمع ہونے والے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنی چاہیے۔ حکومت پر برملا تنقید کا یہ نتیجہ نکلا کہ ایمنسٹی کو اپنا دفتر بند کرنے کے لیے مجبور کر دیا گیا اور آکسفیم کی ہر رپورٹ کو حکومتِ وقت نے غیر حقیقی یا ملک کو بدنام کرنے والی کارروائی قرار دے کر جھٹلا دیا۔
ملک بھر میں ان گرفتاریوں کے خلاف مختلف سماجی تنظیموں کی جانب سے زبردست مظاہرے اور پرزور احتجاج ہوا۔ اس میں گرفتار کارکنوں کو بغیر کسی شرط کے جلد از جلد رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ دہلی میں مہاراشٹر بھون کے سامنے مظاہرین نے الزام لگایا کہ ان لوگوں کوغلط مقدمہ میں پھنسایا گیا ہے اور یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے۔اس احتجاج میں سماجی کارکنوں کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی شرکت کی۔اس موقع پر مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کو میمورنڈم بھی پیش کیا گیا مگر حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ اس اثناء میں متعصب میڈیا نے گرفتار شدگان کو بدنام کرنے کی خاطر نت نئے جھوٹ گھڑ کر انہیں مرچ مسالہ کے ساتھ پیش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا تو اس نے پانچ انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاری کے معاملے میں ٹرانزٹ ریمانڈ پر روک لگاتے ہوئے انہیں اگلے حکم تک گھر میں نظربند رکھنے کی ہدایت دی اور مہاراشٹرا حکومت سے جواب بھی طلب کیا۔ سپریم کورٹ نے ان گرفتاریوں پر تلخ تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اختلاف جمہوریت کے لیے سیفٹی والو کی طرح ہے۔اگر اسے دبایا گیا تو کوکر پھٹ بھی سکتا ہے لیکن آگے چل عدالتِ عظمیٰ نے بھی گھٹنے ٹیک دیے اور گرفتار شدگان میں سے بیشتر لوگ ہنوز جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔
بھیما کورے گاوں کے بعد ہونے والے تشدد کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے حکومت مہاراشٹر نے فروری 2018 میں سبکدوش ہائی کورٹ جج جسٹس جے این پاٹل کی نگرانی میں ایک دو رکنی کمیشن قائم کیا تھا۔ پاٹل کے ساتھ سابق چیف سکریٹری سُمت ملک کو بھی اس میں شامل کیا گیا تھا۔ مذکورہ کمیشن کے سامنے گزشتہ ہفتہ تحقیقات کے دوران ایک پولیس افسر نے اپنے حلفیہ بیان میں تشدد کے اندر یلغار پریشد کی تقریب کے کسی بھی کردار سے انکار کردیا۔ عدالتی کمیشن کے سامنے سب ڈویژنل پولیس افسر گنیش مورے کے اس اہم انکشاف نے پونے پولیس اور قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کی طرف سے کیے گئے دعووں کی پول کھول دی ہے۔این آئی اے نے بہتان لگایا تھا کہ بھیما کورے گاؤں میں جمع ہونے والی بھیڑ کو ملزمین نے اپنی تقریروں سے اکسا کر تشدد کو بھڑکانے میں سرگرم رول ادا کیا تھا۔ ابھی حال میں ریٹائر ہونے والے مورے نے قبول کیا کہ ان کے دائرہ اختیار میں درج کیے جانے والے زیادتی کے نو معاملات کی تفتیش انہوں نے کی اور پایا کہ ان میں یلغار پریشد کی تقریب کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ مورے کے مطابق ایسی کوئی جانکاری یا مواد نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ یکم جنوری 2018 کو برپا ہونے والے فسادات 31 دسمبر 2017 کو شنیوارواڑہ، پونے میں منعقدہیلغار پریشد کا نتیجہ تھے۔
یلغار پریشد کیس میں گرفتار کئی ملزمین کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل مہر دیسائی نے دی وائر کو بتایا تھا کہ کمیشن کے سامنے پیش کیے گئے شواہد کو ٹرائل کورٹ میں استعمال نہیں کیا جا سکتا، لیکن پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کا یہ قبول نامہ یقینی طور پر دفاعی فریق کے مقدمے کو مضبوط کرتا ہے اور ہم سماعت کے وقت اس کی جانچ کا کوئی طریقہ تلاش کریں گے۔اس معاملے کے ایک اور دفاعی وکیل نہال سنگھ راٹھور کا کہنا ہے کہ کمیشن کو فوراً بامبے ہائی کورٹ سے مورے کے بیان کا نوٹس لینے کو کہنا چاہیے۔ راٹھور نے کہا کہ ایک سینئر پولیس افسر کا جو تحقیقات سے واقف تھے، یہ قبول نامہ یلغار معاملے کی جڑ پر حملہ کرتا ہے۔ ایسے بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر 16 افراد کو جیل بھیج دیا گیا جبکہ ایک کو جیل کے اندر جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس طرح کی گواہی پر دھیان دیا جانا چاہیے اور ہائی کورٹ کی طرف سے کارروائی کی جانی چاہیے کیونکہ یہ پہلا موقع ہے جب کسی سرکاری افسر نے یہ قبول کیا ہے کہ یلغار پریشد کے واقعہ کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
پونے کے بھیما کورے گاؤں میں ذات پات کی بنیاد پر برپا ہونے والے تشدد کو پانچ سال ہو چکے ہیں لیکن اس کیس کے 15 ملزمین کے خلاف جمع کیے گئے شواہد کی 60 فیصد ‘کلون کاپیاں’ ابھی تک ان کے وکیل کو نہیں فراہم کی گئیں۔ یہ چونکانے والا انکشاف اس کیس میں کچھ ملزمین کی نمائندگی کرنے والے وکیل برون کمار نے ابھی حال میں کیا۔ ان کے مطابق اسپیشل این آئی اے عدالت نے مئی 2022 میں مرکزی ایجنسی این آئی اے کو ملزمین کو تمام کلون کاپی فراہم کرنے کی ہدایت دی تھی اس کے باوجود اگر صرف 40 فیصد کاپیاں دی جاتی ہیں تو اس کا مطلب نہ صرف عدالت کی توہین بلکہ حقائق کو چھپانے کی کوشش ہے۔ پچھلے سال 18 اگست 2022 کو سابق چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت نے ٹرائل کورٹ سے کہا تھا کہ وہ تین ماہ کے اندر ملزمین کے خلاف الزامات طے کرے۔ اس سے امید بندھی تھی بہت جلد ان بے قصور لوگوں کی رہائی ہو سکے گی مگر ان کی سبکدوشی کے بعد 25 نومبر 2022 کو خصوصی این آئی اے جج آر جے کٹاریہ نے کہا کہ ان معاملات میں الزام طے کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کرنے میں مزید ایک سال لگے گا۔ یعنی ان کے نزدیک سپریم کورٹ کے حکمنامہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے نیز مزید ایک سال تک اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوگی۔ یہ فیصلہ حکومت کے ایماء پر اس کے ناقدین کو ہراساں کرنے کی مذموم کوشش نہیں تو کیا ہے؟
اس قضیہ کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر وہ تشدد کس کے ایماء پر ہوا تھا اور اس کا اصلی مجرم کون تھا؟ ملند ایکبوٹے اور منوہر کلکرنی عرف سنبھاجی بھیڑے کے براہ راست ملوث ہونے کے شواہد مقدمہ کے وکیل راہل مکھارے واضح طور پر پیش کر چکے ہیں۔ متاثرین کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر بھی ان لوگوں کی نگرانی میں کئی سالوں سے اس علاقہ میں سرگرمِ عمل ان کی تنظیم سے وابستہ لوگوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ تشدد کے بعد متاثرین کی طرف سے درج کروائی گئی تقریباً 25 ایف آئی آر میں دائیں بازو کے لوگوں کا نام لیا گیا ہے جو بنیادی طور پر ایکبوٹے کی سمست ہندو اگھاڑی اور بھیڑے کے شیو پرتشٹھان ہندوستان سے وابستہ تھے۔ بھیما کورے میں جمع ہونے والے امبیڈکر کے پیروکاروں کی بھیڑ کے خلاف بھیڑے کے غنڈوں نے بھگوا جھنڈے لے کر اس کا تحریر کردہ پریرنا منتر پڑھا تھا۔ اس میں ہندوؤں کو ہتھیار اٹھانے کے لیے اکسایا گیا تھا۔ گاؤں والوں کا دعویٰ تھا کہ ایسا دلتوں کے خلاف نام نہاد بااثر ذاتوں، خصوصاً مراٹھوں کو اکسانے کے لیے کیا گیا تھا۔
مقامی لوگوں نے بھیڑے اور ایکبوٹے پر ماحول کو خراب کرنے کا الزام تو لگایا مگر اتفاق سے متاثرین میں سے کسی نے بھی یلغار پریشد کی تقریب پر تشدد بھڑکانے کا الزام نہیں لگایا تھا۔ ان ایف آئی آر کے بعد اسی بنیاد پر انتہا پسند رہنماؤں ملند ایکبوٹے اور سنبھاجی بھیڑے پر دلتوں کے خلاف تشدد بھڑکانے میں براہ راست ملوث ہونے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں ایکبوٹے کو 2018 میں کچھ دنوں کے لیے گرفتار کیا گیا تھا، لیکن مودی کے گرو بھیڑے کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ متاثرین نے حکومت اور عدلیہ دونوں کے سامنے بار بار اپنی بات رکھی لیکن حکومت نے ان کی گواہی کو دبا دیا اور سرکار کے اشارے پر کام کرنے والی پولیس یلغار پریشد کے منتظمین اور شرکاء پر تشدد کا الزام لگاتی رہی۔ اس کو کہتے ہیں اندھیر نگری چوپٹ راج۔ حکومتِ وقت جس طرح این آئی اے کی عدالت کے ذریعہ اپنے مہروں ایکبوٹے اور بھیڑے کو بچا کر بے قصور لوگوں کو پریشان کروارہی ہے اسے دیکھ کر منظر بھوپالی کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
آپ ہی کی ہے عدالت آپ ہی منصف بھی ہیں
یہ تو کہیے آپ کے عیب و ہنر دیکھے گا کون
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 پونے کے بھیما کورےگاؤں میں ذات پات کی بنیاد پر برپا ہونے والے تشدد کو پانچ سال ہو چکے ہیں، لیکن اس کیس کے 15 ملزمین کے خلاف جمع کیے گئے شواہد کی 60 فیصد ‘کلون کاپیاں’ ابھی تک ان کے وکیل کو نہیں فراہم کی گئیں۔ یہ چونکانے والا انکشاف اس کیس میں کچھ ملزمین کی نمائندگی کرنے والے وکیل برون کمار نے ابھی حال میں کیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 14 جنوری 2023