آپ اور آپ کی اولاد کا سب سے اہم مسئلہ
بچوں کو رب کی بندگی کے راستے پر چلانا ماں باپ کی اولین ذمہ داری
حمیراعلیم
اگر آپ مرنے سے پہلے اپنے بچوں کو ایک آخری بات بتانا چاہیں تو وہ کیا ہو گی؟ اس کے بارے میں ایمان داری اور احتیاط سے سوچیں۔ آپ کی دانست میں سب سے اہم آخری پیغام کیا ہے جسے آپ یاد دلانا چاہتے ہیں؟ کچھ لوگ اس وقت وراثت کے مسائل، اپنی صحت کے مسائل اور درد کے بارے میں، کام یا ان لوگوں کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں جنہیں وہ پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہوتے ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں بہت سے مسائل ہوتے ہیں، لیکن ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ مرنے سے پہلے ہمارے بچوں کو یاد دلانے کے لیے سب سے اہم سوال یا پیغام کیا ہے؟
اللہ نے ہمیں قرآن مجید میں ایک بہت ہی خوبصورت اور اہم اشارہ دیا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے مرنے سے پہلے اپنے بچوں سے کیا پوچھا تھا۔
’’کیا تم گواہ تھے جب موت یعقوب کے پاس آئی۔ جب اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم تیرے معبود اور تیرے باپ دادا ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق (علیہم السلام) کے معبود کی عبادت کریں گے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں‘‘ (البقرہ 133)
’’تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟‘‘ اپنے بچوں سے پوچھنا یہ واحد اور سب سے اہم سوال ہے۔ اور یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جس کی تربیت یعقوب علیہ السلام کی زندگی میں صرف بستر مرگ پر ہوئی تھی۔ بلکہ اس سوال کا جواب وہی ہے جو ساری زندگی وہ انہیں سکھاتے رہے تھے۔
یہ کام کرنا اور اپنے بچوں تک اسے پہنچانا ہی سب سے اہم مسئلہ ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ بہت سے لوگ صرف اپنے بچوں کو دولت یا اثاثے منتقل کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں یا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ ان کے پاس مادی علم کی اتنی ڈگریاں ہوں کہ وہ معقول ملازمتیں حاصل کر سکیں، لیکن وہ اس بات پر اتنی توجہ نہیں دیتے کہ ان کے بچوں کا ابدی ٹھکانہ کیا ہو گا۔ ابدی جنت یا پھر ابدی خسارہ۔
ہم اس سوال کو معمولی سمجھتے ہیں یا اسے ہلکا لیتے ہیں گویا اس کام کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جس مسئلے کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں وہ ہماری زندگی کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا۔ایک بار جب لوگ اپنی قبروں میں جاتے ہیں دولت، ڈگریاں، شہرت، اثاثے، مقبولیت، دوست واحباب اور رشتہ دار، ان میں سے کوئی بھی قبر میں ان کے ساتھ نہیں جائے گا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’زمین پر موجود ہر شخص فنا ہو جائے گا۔اور تیرے رب کا چہرہ باقی رہے گا جو عظمت اور عزت کا مالک ہے‘‘ (55:26-27)
سب کچھ فنا ہو جائے گا۔ واحد ابد الٓاباد ذات اللہ رب اللعالمین کی ہے تو کیا آپ کے بچے اس کے لیے کام کر رہے ہیں؟ کیا وہ خود کو اس لمحے کے لیے خود کو تیار کر رہے ہیں جب وہ ان کی ملاقات ان کے رب سے ہوگی اور وہ ان سے ان کی زندگی کے مقصد کے بارے میں پوچھے گا کہ انہوں نے زمین پر جو وقت گزارا تھا وہ کیسے گزارا تھا؟ ہم اپنے بچوں کو دین کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کرنے کا بندوبست تو کر ہی دیتے ہیں لیکن صرف اتنا کردینے سے ہماری ذمہ داری ادا نہیں ہوجاتی بلکہ پوری دل جمعی سے ہمیں دین کی بات، دین کا فہم اور مقصد حیات کا شعور ان کے ذہنوں میں بٹھانے کی ضرورت ہے۔ وہی ماں باپ کامیاب ہیں جو پورے جوش و جذبہ اور سوز دروں کے ساتھ اپنے بچوں کے اندر دین کے لیے جینے اور مرنے کا جذبہ پیدا کرتے ہوئے عملاً انہیں اس راستے پر ڈالنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔ بچوں کو کسی اسلامی اسکول میں ڈالنے یا کسی شیخ کے پاس بھیجنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا جب تک کہ خود ماں باپ دین پر چلتے ہوئے بچوں کو دین کے راستے پر چلانے کا جتن نہ کریں۔
یہ مسئلہ آپ کے بچوں کی زندگی کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ اگر آپ نے بچوں کو پال پوس کر بڑا کر دیا اور انہیں زندگی کا اعلٰی معیار فراہم کر دیا لیکن ان کے ذہن روح اسلام سے عاری عمل دین سے بے بہرہ ہوں تو آپ نے بچوں کی پرورش کرکے کوئی کارنامہ نہیں کیا بلکہ الٹا حتمی خسارہ کا سامان کیا ہے۔ ذرا سوچیں کہ بچوں کی پرورش وپرداخت کوئی آسان کام تو نہیں ہے جو گردش لیل ونہار کے ساتھ خود ہی انجام پا جائے بلکہ اس کے لیے ماں باپ کو غیر معمولی ایثار سے کام لینا پڑتا ہے اور محنت ومشقت کرنی پڑتی ہے لیکن اتنا بڑا کام کرنے کے باوجود بھی نتیجہ خوش گوار نہ نکلے تو پھر سارا کیا کرایا دھرا ہی رہ جائے گا اور روز حشر خود آپ کے بچے آپ کے سامنے سراپا سوال ہوں گے کہ آپ نے ہماری دنیا بہتر بنانے کے لیے ہمارے ساتھ سب کچھ کیا لیکن ہماری آخرت کیوں خراب کر دی؟
آپ کے بچوں کی جسمانی پرورش خواہی نخواہی ہو ہی جائے گی لیکن روحانی، فکری اور جذباتی تربیت ایک نہایت اہم مسئلہ ہے جس کا حل دین کامل سے جڑا ہوا ہے اور بحثیت ماں باپ آپ اپنے بچوں کے نگہبان ہیں۔ دراصل اولاد کا ہونا کوئی عیش و آرام کی چیز یا معمولی بات نہیں ہے بلکہ بچے ایک امانت ہیں جو اللہ نے آپ کے سپرد کیے ہیں۔ وہ آپ کے حق میں گواہی دے سکتے ہیں یا آپ کے خلاف گواہی دے سکتے ہیں۔ اور یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں آپ سے قیامت کے دن ضرور پوچھا جائے گا۔ اسی لیے آپ بھی یعقوب علیہ السلام کی طرح اس مسئلے کی سنگینی کو محسوس کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے بعد آپ کے بچے اللہ کے بندے بن کر زندگی گزاریں۔
اگر اللہ نے آپ کو اولاد کی نعمت سے نوازا ہے تو اس نعمت کی قدر کیجیے۔ کیا آپ نہیں چاہتے کہ آپ کے بچے آپ کے ذریعہ اپنے رب کو پہچان لیں ۔ایسا اسی وقت ہو گا جب وہ آپ کے اندر اسلام کو دیکھیں گے۔ اکثر ماں باپ سے یہ غلطی ہوتی ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ اپنی روزی روٹی کمانے اور اپنے خاندان کو آسائشیں مہیا کرنے پر مرکوز ہوتی ہے، لیکن وہ اپنی اولاد کے تئیں اپنے اہم ترین مشن اور آخری فرض کو بھول جاتے ہیں۔ غور کریں کہ اللہ تعالٰی ان آیات میں کیا فرماتا ہے۔
’’اور نصیحت کرتے رہو بے شک ایمان والوں کو نصیحت نفع دیتی ہے۔
اور میں نے جن اور انسان کو پیدا کیا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔ میں ان سے کوئی روزی نہیں چاہتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ بے شک اللہ ہی بڑا روزی دینے والا زبردست طاقت والا ہے۔‘‘(سورہ ذاریات آیات 56 تا 58)
یہاں دیکھیں کہ اللہ نے ہمیں زندگی کا مقصد یاد دلانے کے بعد کس طرح رزق کا ذکر کیا ہے۔ اگر آپ غور کریں گے تو اس حقیقت کو پا جائیں گے کہ رب کو پہچاننا اور اس کی بندگی بجالانا رزق رسانی کی ایک اہم وجہ ہے جب کہ لوگ اسی رزق کے حصول میں مگن ہو کر اپنے رازق و مالک اللہ رب العالمین کو اور اپنی زندگی کے اصل مقصد کو ہی بھول جاتے ہیں۔
ہم اکثر اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ مصروف زندگی کی وجہ سے اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت کیسے گزاریں؟ لیکن یہ بنیادی طور پر زندگی میں ہمارے مقصد کو سمجھنے اور اس کی بنیاد پر اپنی ترجیحات کو دوبارہ ترتیب دینے کا معاملہ ہے۔ بچوں کی اور اپنی روحانی پرورش اور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق پر کام کرنا کوئی ہلکا یا ثانوی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ہماری زندگی کا آخری مشن ہے۔
اگر آپ اس زندگی کے بارے میں سوچیں تو اللہ نے اس میں سب کچھ ہمارے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ اس نے ہمارے لیے زندگی آسان کی ہے اور بہت سی مخلوقات ہماری خدمت کے لیے بنائی ہیں۔ ہم اپنے آس پاس کی ہر چیز کا استعمال کرتے ہیں لیکن حقیقت میں کائنات میں کسی بھی چیز کو ہماری ضرورت نہیں ہے یا ایسا نہیں ہے کہ وہ ہم پر منحصر ہے۔ کائنات ہمارے بغیر ٹھیک بھی رہے گی۔ سورج، چاند، سمندر، زمین سب کچھ ٹھیک رہیں گے یا اس سے بھی بہتر تو اس میں ہمارا کردار کیا ہے؟ اس زمین پر ہمارا اصل کام کیا ہے اور ہمارے وجود کا مقصد کیا ہے؟ ہمیں اس کے بارے میں مسلسل سوچنے اور اپنے بچوں کے ساتھ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ زندگی کا مقصد ایسا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے جسے وہ کالج میں فلسفے کی کلاس میں پہلی بار سنیں اور پھر خود کو اپنے مذہب پر شک کرتے ہوئے پائیں۔ وہ ہمارے ذریعے اس سے پہلے کیوں متعارف نہیں ہوئے؟ ہم کہاں تھے؟ کیا ہمیں اپنے بچوں کی دائمی منزل کی فکر نہیں تھی؟ ہم اپنی زیادہ تر توانائی ان کی عارضی زندگی کے ذریعہ معاش پر کیسے مرکوز کر دیتے ہیں اور ہمیں ان کے ابدی ٹھکانے کی پروا کیوں نہیں ہے؟
یہ بات حضرت یعقوب علیہ السلام نے محسوس کی۔ وہ اس بارے میں فکر مند تھے کہ واقعی اہمیت کس چیز کی ہے۔ انہیں اپنے بچوں کی ابدی منزل کی فکر تھی۔ وہ اپنے بچوں سے بہت پیار کرتے تھے اور وہ ان کے ساتھ دوبارہ ملنا چاہتے تھے۔ اگر ان کا رشتہ البقی (ابدی) خالق کے گرد گھوم رہا ہے تو وہ ضرور انہیں دوبارہ ملا دے گا۔ لیکن اگر ان کا رشتہ فانی زندگی کے گرد گھوم رہا تھا تو وہ ختم ہو جائے گا کیوں کہ انہوں نے اپنے وجود کو ابدی حقیقت سے جوڑا نہیں تھا۔
***
اگر اللہ نے آپ کو اولاد کی نعمت سے نوازا ہے تو اس نعمت کی قدر کیجیے۔ کیا آپ نہیں چاہتے کہ آپ کے بچے آپ کے ذریعہ اپنے رب کو پہچان لیں ۔ایسا اسی وقت ہو گا جب وہ آپ کے اندر اسلام کو دیکھیں گے۔ اکثر ماں باپ سے یہ غلطی ہوتی ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ اپنی روزی روٹی کمانے اور اپنے خاندان کو آسائشیں مہیا کرنے پر مرکوز ہوتی ہے، لیکن وہ اپنی اولاد کے تئیں اپنے اہم ترین مشن اور آخری فرض کو بھول جاتے ہیں
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 ڈسمبر تا 31 ڈسمبر 2022