آنکھ حیراں ہے کہ کیا شخص زمانے سے اٹھا
مایہ ناز خطیب اور ہزاروں خوبیوں کے مُرقع مرحوم سید شبیر علی
غلام فرید، آکوٹ
کالی ٹوپی، بڑی موری کا پاجامہ، گول گھیرے کی قمیص اس پر کالی صدری پہنے سفید لباس میں ملبوس ایک دبلی پتلی شخصیت جنہیں دنیا سید شبیر علی کے نام سے جانتی ہے، ایک ایسے انسان تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی خدمتِ دین اور تحریکی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے گزار دی۔
یادش بخیر کہ زمانہ طالب علمی کے دوران اسکول کے کسی پروگرام میں میں نے ایک گیت ’بہت خوبصورت ہے میرا وطن۔۔۔‘ پڑھا تھا تو اس وقت اسٹیج پر دیگر کئی شخصیتوں کے ساتھ ساتھ سید شبیر علی صاحب بھی موجود تھے۔ گیت سن کر وہ زیر لب مسکرائے اور مجھے دعاؤں سے نوازتے ہوئے چلے گئے۔ اس وقت مجھے پتہ نہیں تھا کہ وہ کون ہیں اور ان کی شخصیت کس قدر بلند ہے۔
اس واقعہ کو ایک عرصہ گزر گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جناب شبیر صاحب سے واقفیت ہوتی گئی تو پتہ چلا کہ وہ بہترین عالمانہ شخصیت کے مالک ہیں جس کا اندازہ ان کے خطبات سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے تقریباً چالیس برس آکوٹ کی عید گاہ سے عوام کو خطاب کیا۔ وہ بین الاقوامی سطح کے مقرر تھے۔ تقریر کے دوران وقت کی پابندی ان کا اختصاص تھا۔ بائیں ہاتھ پر گھڑی ہمیشہ کلائی کی طرف باندھتے اور دوران تقریر بار بار گھڑی کی طرف دیکھتے۔ جس مسجد میں بھی خطبہ ہوتا وہاں کے ذمہ داروں سے پہلے ہی وقت دریافت کر لیتے اور پھر اس وقت سے ایک منٹ پہلے اپنی تقریر ختم کر دیتے۔
مولانا کی آواز میں کھنک تھی، بولنے کا انداز اتنا دل چسپ کہ سننے والا ہمہ تن گوش ہو جاتا۔ عیدین میں جب اپنے مخصوص انداز میں منبر سے اعلان کرتے چلیے۔۔آئیے۔۔ کچھ وقت وقفہ گزرنے کے بعد کہتے قدم تیز اٹھائیے۔۔ اور اس کے بعد دوڑیے۔۔ تو ہر سامع زیر لب مسکرا دیتا۔ مرحوم آکوٹ کی ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ دنیا میں ہمیشہ حق پرستوں کی مخالفت ہوتی رہی ہے تو مولانا کیسے مثتثنیٰ رہتے۔ لہٰذا ان کی بھی مخالفت ہوئی لیکن آپ اختلاف کے آداب سے بھی خوب واقف تھے۔ ایک مرتبہ جب خطبہ عید پر کچھ حضرات کو اعتراض ہوا تو مولانا کے محبین نے مخالفین کی ایک نہ سنی اور نوبت ہاتھا پائی تک آگئی۔ اس وقت انہوں نے بڑی حکمت سے اس حادثے کو ہونے سے روک دیا۔ یہ ان کا ہی خاصہ تھا، کوئی اور ہوتا تو کشتے کے پشتے لگا دیتا۔ اپنی تصنیف خطباتِ عیدین کے ذریعے انہوں نے عوام کے لیے اپنا پیغام چھوڑا ہے۔ وہ اپنے موقف پر مضبوطی سے جم جانے والے، حق پر ثابت قدم رہنے والے بے باک مقرر اور تحریکی ذمہ داریوں کو بستر مرگ پر بھی ادا کرنے والے تھے۔ جب کووڈ کے دوران بیمار ہوئے اور عید کا موقع آگیا تو اسی حالت میں بستر ہی پر لیٹے لیٹے عید کا خطبہ تحریر کر لیا۔
مرحوم مرض اور کبر سنی کی وجہ سے بہت نحیف ہو چکے تھے، اس کے باوجود اپنی تحریکی ذمہ داریوں کو انجام دینے کا جذبہ کم نہیں ہوا تھا۔ مولانا کے آخری ایام میں ان کی حالت دیکھ کر دل پر ایک خدشہ نے دستک دی جس کے نتیجے میں ہم نے ان کی عید گاہ کے خطبے کی ویڈیو بنانی شروع کی۔ افسوس کہ وہ خدشہ صحیح ثابت ہوا۔ ہم صرف دو خطبے ہی ریکارڈ کر پائے اور مالکِ حقیقی سے جا ملے۔ تنہائی میں سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کتنا قیمتی سرمایہ کھو دیا ہے۔
مولانا سید شبیر علی نہایت مخلص اور مطمئن شخص تھے۔ ان کو کسی نے کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔ وہ روزانہ ڈائری لکھنے کے عادی تھے۔ مسکراتا ہوا چہرہ آپ کی عادت ثانیہ تھے۔ پیشے سے پرائمری ٹیچر تھے۔ ان کی شخصیت اور کردار سے ساتھ کام کرنے والے متعدد اساتذہ اور دیگر کئی افراد متاثر ہوئے اور تحریک اسلامی کے قریب آئے۔ وہ آکوٹ کی تحریک اسلامی کے اولین ارکان میں سے تھے۔ وقت کے نہایت پابند، جماعت کے ہر پروگرام میں وقت مقررہ سے پہلے پہنچ جاتے تھے۔ اپنی ملازمت کی مصروفیت کو انہوں نے کبھی تحریکی سرگرمیوں میں مانع نہ ہونے دیا، یہاں تک کہ ہفتہ اور اتوار کو بھی مختلف مقامات کے دورے کرنے میں لگا دیتے اور پیر کو سیدھا اسکول پہنچتے۔ وہ دور اندیش بھی تھے اور مضبوط قوت ارادی کے حامل بھی۔ حکومتِ وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے قلمی، قولی اور عملی جہاد کرنے والے مجاہد تھے۔ فرعون وقت جب حق پرستوں کو پابند سلاسل کرنے لگا تو انہوں نے از خود گرفتاری دی۔ وہ رفیقوں سے بے انتہا محبت کرنے والے رفیق بن کر سامنے آئے۔ کہتے ہیں کہ جب ایمرجنسی کے دوران پولیس ان کو گرفتار کرنے کے لیے ان کے اسکول پر پہنچی تو وہ وہیں سے سیدھے پولیس اسٹیشن چلے گئے، گھر جانا بھی گوارا نہ کیا۔ ایک مرتبہ کسی اور موقع سے جب آکوٹ کی تحریک کے رفقا گرفتار کر لیے گئے اور مولانا کو گرفتار نہ کیا گیا تب آپ خود بوریا بستر لے کر پولیس اسٹیشن پہنچ گئے اور کہا کہ میں بھی ان کا ساتھی ہوں مجھے بھی گرفتار کر لیجیے۔ یہ انداز دیکھ کر کیا اپنے اور کیا بیگانے سب عش عش کرنے لگے۔
ادب سے بھی ان کو بہت دل چسپی تھی۔ غالب اور اقبال کے کئی اشعار یاد تھے جنہیں اپنے خطاب اور نجی محفل میں سنایا کرتے۔ چھوٹوں سے بڑی شفقت سے پیش آتے۔ ادبی و علمی معلومات کے حصول میں کبھی تکلف نہیں کیا بلا تردد نوجوانوں سے بھی پوچھ لیتے۔ پیش رفت میں شائع ہونے والے مقالوں اور غزلیات پر بھی تبصرہ کرتے۔ پڑھنے پڑھانے کا اتنا شوق تھا کہ تفہیم القرآن سات مرتبہ ختم کی تھی اور کہا کرتے تھے کہ جب بھی پڑھتا ہوں اک نئی دنیا سامنے آتی ہے۔
کوئی ناگہانی آفت آنے پر بھی بڑے اطمینان سے اس کا مقابلہ کرتے۔ بیماری کے دنوں میں بھی اللہ کا شکر ادا کرتے رہے۔ مرض کی شدت میں کبھی شکوہ نہ کیا ہمیشہ اللہ اکبر اللہ اکبر کا ورد کیا کرتے تھے۔ کسی بھی ملاقاتی کے آنے پر بڑی شفقت سے آئیے آئیے کہنا آخری وقت تک آپ کا معمول رہا۔ غرض یہ کہ مرحوم ہزارہا خوبیوں کے مالک تھے۔ ہمہ وقت تحریک کے متعلق غور و فکر کرنے والے رکن جماعت تھے۔ 17؍ اکتوبر کی دوپہر تک مولانا لکھنے پڑھنے میں مشغول رہے غالباً اگلی تصنیف ’میرا تحریکی سفر‘ لکھنا جاری تھا اور اس سفر کو ادھورا چھوڑ کر آپ اپنے آخری سفر پر نکل پڑے اور دن کے تین بجے اللہ اکبر اللہ اکبر کہتے ہوئے 84 برس کی عمر میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانوں سے اٹھا
آنکھ حیراں ہے کہ کیا شخص زمانے سے اٹھا
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 نومبر تا 2 دسمبر 2023