عالمی معیشت پر کساد بازاری کا اندیشہ

دنیا کے دیگر خطوں میں جنگ کے بادل ۔ایک تہائی دنیا پر مندی کا شکنجہ

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

2023مزید مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔آئی ایم ایف کا انتباہ
2021 میں عالم انسانیت کورونا کے قہر سے نجات پاکر معیشت کی بحالی کی طرف مائل ہوئی۔ 2022 میں اکثر ملکوں کی معیشت کی شرح نمو میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ معیشت سست روی سے ہی سہی اپنی ڈگر پر چلنے لگی مگر روس نے اپنی استعماریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوکرین پر حملہ کر دیا اور جنگ ہنوز جاری ہے۔ اس سے جانی نقصان تو ہوا مگر عالمی معیشت پر غیر یقینیت کے بادل منڈلانے لگے۔ توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں زبردست اچھال آیا۔ سپلائی چین درہم برہم ہوگئی، عالمی معیشت کی بحالی میں رکاوٹیں آئیں اور اکثر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں افراط زر بڑی تیزی سے بڑھا۔ اس پر قابو پانے کے لیے امریکہ، یورپی ممالک و دیگر ممالک کے مرکزی بینکوں نے شرح سود میں اضافہ کیا جس سے قرضوں کا حصول پہلے سے زیادہ دشوار ہو گیا۔ اس طرح 2023 میں عالمی کساد بازاری جیسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جس سے نکلنا جلد ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اسی طرح کے حالات 2009 میں دیکھنے کو ملے تھے۔ فی الوقت بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے صارفین میں ضروری اشیاء اور خدمات کی طلب کم ہو گئی ہے۔ اس لیے مرکزی بینکوں نے شرح سود میں اضافہ کا تسلسل برقرار رکھا ہے۔ کساد بازاری کا سب سے زیادہ اثر برطانیہ پر ہو سکتا ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل فائنانس کے تجزیہ کاروں کے مطابق عالمی جی ڈی پی کو ہونے والے نقصانات کا انحصار یو کریں۔ روس جنگ کی شدت پر منحصر کرے گا۔ ترقی یافتہ معیشتیں بڑی تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف ڈالر کی مضبوطی سے برامدات متاثر ہو رہی ہیں۔ فی الحال ڈالر کی قیمت 83 روپے سے زائد ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ سے بھارتی و دیگر ایشیائی معیشتیں بھی زد میں آرہی ہیں۔ مہنگائی چونکہ آسمان چھو رہی ہے۔ روزگار چلے جانے کی وجہ سے عام لوگوں کے ہاتھوں میں پیسہ نہیں ہے اس لیے بازار میں طلب نہیں کے برابر ہے۔ مگر توانائی کی قیمتوں میں کمی اور رسد میں نرمی کی وجہ سے 2023 میں روزمرہ کی عام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اعتدال پر رہے گا۔ پھر بھی افراط زر کی شرحیں مرکزی بینک کے ہدف کی سطح (قوت برداشت) سے اوپر ہی رہیں گی جو معیشت کی صحت کے لیے بہتر نہیں ہے۔ یہ بھی متوقع ہے کہ یورو زون کے افراط زر کی شرحیں امریکہ کے مقابلے میں آہستہ آہستہ نیچے آئیں گی۔ اس کے باجوود بنیادی افراط زر جس کی وجہ سے توانائی اور خوراک کی قیمتیں غیر مستحکم رہتی ہیں باعث تشویش ہے۔ جرمنی میں گیس اور بجلی کی قیمتیں لگاتار بڑھ رہی ہیں جس کا اثر پیداوار کے شعبہ میں کام کرنے والی کمپنیوں پر پڑ رہا ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ حکومت مدد کرنا چاہتی ہے لیکن پوری طرح نہیں۔ جرمنی کے کئی کیمیکل پلانٹس بند ہونے کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں جس میں کروڑوں کلو واٹ بجلی اور گیسوں کی کھپت ہوتی ہے۔ روس سے گیس سپلائی بند ہونے کے بعد جرمنی اسٹیل پلانٹس، بھاری صنعتوں اور میکانیکل انجینئرنگ کے شعبوں کے ہاتھ پاوں پھول رہے ہیں۔ جرمنی کیمیکل صنعت کارپوریشن توانائی کے ماہر یارک روٹر میل کہتے ہیں بجلی اور گیس مہنگی ہونے کی وجہ سے کئی صنعتوں کی پیداوار کی لاگت بڑھ گئی ہے۔ یہی حال کم و بیش دیگر یورپی ممالک کا ہے۔ گزشتہ سال روسی توانائی کے متبادل تلاش کرنے اور صارفین کو سردیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ہزاروں ارب یورو خرچ کرنے کے بعد بھی یوروپی یونین کو اپنے ذخائر کو مکمل طور پر بھرا ہوا رکھنے کے لیے بڑی جدوجہد کرنی پڑسکتی ہے۔
اب تو دنیا کے دیگر خطوں میں بھی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ روس اور یوکرین جنگ نے عالمی معیشت پر بڑے برے اثرات ڈالے ہیں تو دوسری طرف تائیوان پر چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی باعث تشویش ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی کی بالادستی کی جنگ 2023 میں کسی بھی وقت شدت اختیار کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ سال چین کو جدید ترین امریکی سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی کی منتقلی پر امریکہ نے پابندی عائد کردی ہے۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا کا ڈکٹیٹر بار بار بیلسٹک میزائیلوں کے تجربے کر کے خطہ میں کشیدگی کو ہوا دیتا رہتا ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کار بھی کافی پریشان ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ چین اور جاپان جیسے صنعتی ممالک دنیا کے اکثر ملکوں کی تجارت کو متاثر کرتے ہیں جس کی وجہ سے عالمی معیشت میں اتار چڑھاو دیکھنے کو ملتا ہے۔ اکتوبر میں کورونا وبا پھوٹ پڑنے کے بعد چین زیرو کووڈ پالیسی پر عامل ہوا، لیکن لوگوں کے احتجاج پر اسے ختم کرنا پڑا اس لیے لاک ڈاون غریب مزدور طبقہ کو کافی متاثر کرتا ہے کیونکہ صعنتی ادارے کل کارخانے بند ہو جاتے ہیں اور مزدور بے روزگار۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) نے خبردار کیا ہے کہ ایک تہائی دنیا مندی کا شکار ہو سکتی ہے اور 2022 کے مقابلے میں 2023 مشکلات سے پر ہو گا اس کی وجہ سے چین، امریکہ اور یورپی یونین ممالک کی معیشت سست ہوجائے گی۔ سی بی ایس نیوز کے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایم ایف چیف کرسٹینیا جارجیوا نے کہا کہ 2023 میں جو ملک مندی کے لپیٹ میں نہیں آئیں گے انہیں بھی اپنے کروڑوں لوگوں کے لیے مندی جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے انتباہ دیا کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین کو 2023 کے آغاز میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ زیرو کووڈ پالیسی کی وجہ سے شرح نمو ڈرامائی انداز میں سست ہو گئی ہے۔ چالیس سالوں میں پہلی بار ایسا ہو سکتا ہے جب 2022 میں چین کی شرح نمو عالمی شرح نمو کے برابر یا اس سے کم ہو سکتی ہے۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا ہے اس لیے آئندہ چند ماہ چین کے لیے بڑے سخت ثابت ہو سکتے ہیں جس سے چین اور عالمی شرح نمو پر منفی اثرات ہوں گے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے یہ انتباہ ایسے وقت دیا گیا جب روس-یوکرین جنگ دنیا کے بڑے مرکزی بینکوں میں شرح سود کا اضافہ ہوا اور چین میں کورونا کی نئی لہر سے عالمی معیشت پر برا اثر ہوا ہے۔ اب تو چین نے زیرو کووڈ پالیسی کو ختم کر کے اپنی معیشت کو بے ترتیب انداز میں کھولنے کی شروعات کردی ہے۔ پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے چین کے صدر شی جن پنگ نے نئے سال کے خطاب میں احتیاط اور اتحاد پر زور دیا ہے اس لیے اگلے چند مہینے چین کے لیے مشکلات سے پر رہیں گے۔ واضح رہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے اکتوبر کی پیشن گوئی میں گزشتہ سال چین جی ڈی پی کی شرح نمو 3.2 فیصد تھی جو کہ 2022 کے فنڈ کے عالمی آوٹ لک کے عین مطابق ہے۔ اس وقت ادارے نے کہا تھا کہ 2023 میں سالانہ نمو 4.4 فیصد تک ہو سکتی ہے جبکہ عالمی معاشی سرگرمیاں سست رہیں گی۔ جارجیوا نے مزید کہا کہ امریکی معیشت جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، بڑی لچکدار ہے اور امریکہ کساد بازاری سے آسانی سے نکل سکتا ہے کیونکہ امریکہ کی لیبر مارکٹ کافی مضبوط ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ میں گزشتہ سال شرح مہنگائی گزشتہ چار دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی جسے کنٹرول کرنے کے لیے مرکزی بینک نے شرح سود کو 4.5 فیصد تک بڑھا دیا ہے۔ مرکزی بینک کے حکام نے گزشتہ ماہ اندازہ لگایا تھا کہ 2023 میں شرح سود پانچ فیصد تک بڑھ جائے گی جو 2007 کے بعد سے اب تک نہیں دیکھی گئی تھی۔ اب قیمتوں کے دباو میں کمی ہونے سے امریکہ میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے جس سے بے روزگاری کی شرح 1960 کے بعد سے 3.7 فیصد کی کمترین سطح پر آجائے گی۔ ایسے معاشی اتھل پتھل کے دور میں نئے ورلڈ آرڈر کی طرف منتقلی شروع ہو سکتی ہے۔ دی اکانومسٹ نے اشارہ دیا ہے کہ بین الاقوامی تبدیلی ایک ایسے وقت آنی شروع ہوئی ہے جب عالمی معیشت میں امریکہ کا وزن نسبتاً کم ہو رہا ہے۔ گزشتہ صدی میں امریکہ کی جی ڈی پی دوسری جنگ عظیم میں اپنے حریف ممالک جرمنی، جاپان، سوویت یونین اور چین سے بہت زیادہ رہی ہے تاہم ان دنوں چین کی جی ڈی پی امریکہ سے زیادہ پیچھے نہیں ہے۔
***

 

***

 2023 میں جو ملک مندی کے لپیٹ میں نہیں آئیں گے انہیں بھی اپنے کروڑوں لوگوں کے لیے مندی جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین کو 2023 کے آغاز میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آئی ایم ایف چیف کرسٹینیا جارجیوا


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 جنوری تا 21 جنوری 2023