علیحدہ ریاست بارک ویلی کی تحریک اور مسلمانوں کا موقف
آسام کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حکمت عملی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کریں
دعوت بیورو کولکاتا
1980 کی دہائی میں لسانی تنازعات کو فرقہ واریت کی شکل دے کر 1983 میں نیلی میں مسلمانوں کا قتل عام کرایا گیا تھا ۔علیحدہ ریاست کے مطالبات کو آزادی سے قبل آسام کے وزیر اعلیٰ محمد سعداللہ اور مولانا بھاشانی کے عزائم کی تکمیل سے جوڑکر فرقہ واریت کا رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس میں بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ آسام کا بارک ویلی خطہ پسماندگی اور غربت کا شکار ہے ۔گزشتہ 70 سالوں سے آسام کے حکمرانوں نے جان بوجھ کر اس خطے کو نظر انداز کیا ہے۔جنوبی آسام کے تین اضلاع کاچھر، کریم گنج اور بیلا کنڈی پر مشتمل یہ خطہ بنگالی نژاد ہندو اور مسلمانوں کی آبادی ہونے کی وجہ سے لسانی عصبیت کا شکار ہے ۔ اس علاقے میں تمام صنعتی کارخانے جس میں سچر پیپر ملس، شوگر ملس اور دیگر کارخانے شامل ہیں، بند ہوچکے ہیں۔چائے کے باغات بھی کسمپرسی کے عالم میں ہیں ۔نیتی آیوگ کی رپورٹ 2023کے مطابق آسام بارک ویلی خطہ میں بے روزگاری کی شرح 31.42 فیصد ہے ۔بارک ڈیمو کریٹک فرنٹ کی پریس ریلیز کے مطابق ان تین اضلاع میں 5لاکھ سے زائد نوجوان بے روزگار ہیں ۔
بارک ندی کے کنارے واقع اس خطے میں 42 لاکھ شہری آباد ہیں جن میں 85فیصد بنگلہ زبان بولنے والے ہیں۔ آزادی سے قبل سے ہی آسام میں لسانی تنازع کی جڑیں گہری ہیں۔ آسامی النسل شہریوں کو احساس ہے کہ بنگالی آبادی میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے ان کی تہذیب و ثقافت ، لسانی شناخت خطرے میں ہے۔آسام میں لسانی تنازعات کی آگ کم وبیش 8 دہائیوں سے بھڑک رہی ہے۔1947 سے قبل کریم گنج، جو کہ وادی بارک کا ایک بڑا حصہ ہے، سلہٹ کا حصہ تھا۔ تقسیم کے دوران یہ علاقہ ایک متنازع پٹی تھی۔ برطانوی دور حکومت میں سلہٹ صوبہ آسام کا حصہ تھا۔ لیکن 1947 کے ریفرنڈم میں، اس نے مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش ) میں شامل ہونے کا انتخاب کیا اور صرف کریم گنج کا علاقہ ہندوستان میں باقی رہ گیا۔ اسی وقت، مشرقی پاکستان کی وادی سورما سے ایک بڑی بنگالی ہندو آبادی تقسیم کے نتیجے میں مذہبی ظلم و ستم سے بچنے کے لیے آسام کے ضلع کاچھر میں ہجرت کی۔ پہلےکریم گنج اور بیلا کنڈی ضلع کاچھر کا حصہ تھا مگر کریم گنج اور بیلاکنڈی اضلاع 1983 اور 1989 میں کاچھر سے الگ ہوئے تھے۔بڑی تعداد میں نقل مکانی نے بنگالی ہندوؤں اور بنگالی مسلمانوں کے درمیان تعلقات کو ایک نیا رخ دیا۔وادی بارک، برہم پترا کی وادی کے بالکل برعکس، بنگالی بولنے والی آبادی کا مسکن بن گیا۔آزادی کے بعد لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تنظیم کے دوران ضلع کاچھر کو تریپورہ میں ضم کرنے کے مطالبات بھی کیے گئے۔تریپورہ میں بھی مشرقی پاکستان سے بڑی تعداد میں بنگالی ہندووں نے ہجرت کی تھی۔70 سال گزرجانے کے باوجود سلہٹ سے آنے والے بنگالی ہندو آج بھی آسام میں غیر ہیں ۔سلہٹ میں ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ بنگالی مسلمانوں سے زیادہ آسامی النسل ہندوؤں نے شدت کے ساتھ کیا تھا ۔وہ کسی بھی صورت میں سلہٹ کو آسام کا حصہ بنانا نہیں چاہتے تھے۔ان کے مطابق اگر سلہٹ مشرقی پاکستان کا حصہ بن جاتا ہے تو وہ لسانی اعتبار سے زیادہ مضبوط ہوں گے۔بارک ویلی کے ساتھ تعصب کس طرح برتا جاتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے ۔حال ہی میں آسام میں بڑے پیمانے پر سرکاری دفاتر کے لیے تقرریاں ہوئیں ۔آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے دعویٰ کیا کہ سرکاری ملازمتوں میں بارک ویلی کے 20 فیصد امیدواروں کو حصہ داری دی گئی ہے۔مگر چند دنوں بعد ہی کریم گنج کے ممبر اسمبلی کے ایک سوال کے جواب میں حکومت نے وضاحت پیش کی کہ بارک ویلی سے تعلق رکھنے والےمحض 1.5فیصد امیدواروں نے ہی کامیابی حاصل کی ہے۔
آسام میں بوڈو بولنے والوں کی تعداد 24 لاکھ ہے۔ بوڈو زبان آسام کی دوسری سرکاری زبان ہے، بوڈو خطے سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی کے گھروں کے باہر لگے سائن بورڈ آسامی کے ساتھ بوڈو زبان میں بھی ہوتے ہیں۔جبکہ آسام میں 15 ملین آبادی بنگلہ بولنے والوں کی ہے ۔مگر آسام میں بنگلہ زبان کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔ 2008 میں آخری مرتبہ ملک میں حد بندی ہوئی تھی۔ چونکہ آسام میں این آر سی کا عمل شروع ہونے والا تھا اس لیے یہاں حلقہ بندی نہیں ہوسکی۔ اگلی حلقہ بندی 2026میں ہونی ہے۔مگر اچانک الیکشن کمیشن نے اس سال جون میں حلقہ بندی کا فیصلہ کیا۔ اس نئی حلقہ بندی سے عین قبل آسام کے چار اضلاع کوضم کردیا گیا ۔اس کے بعد اب جو نئی حلقہ بندی ہوئی ہے اس میں بارک ویلی جہاں کی آبادی 42 لاکھ ہے وہاں اسمبلی کی کل سیٹیں 15تھیں اب وہ کم کرکے 13 کردی گئیں جبکہ بوڈو لینڈ جہاں کل آبادی محض 24 لاکھ ہے وہاں اسمبلی کی نشستیں 12 سے 15 کردی گئیں ۔
سوال یہ ہے کہ بارک ویلی کی محرومی کا حل کیا ہے؟ گزشتہ ہفتے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے بارک ویلی کے دورے کے دوران اپنے ایک بیان سے سب کو چونکا دیا ۔انہوں نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ بارک ویلی آسام کا ہی حصہ رہے تاہم بارک ویلی کے عوام اگر چاہتے ہیں کہ بارک ویلی آسام سے الگ ہوجائے تو انہیں اس کو قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔مگر یہ مطالبہ بارک ویلی کے تمام شہریوں کا ہونا چاہیے صرف لیفٹ حامی تنظیموں کا نہیں ۔ہیمنت بسوا سرما کے اس بیان کے چند دنوں بعد ہی کولکاتا پریس کلب میں بارک ڈیموکریٹک فرنٹ کی پریس کانفرنس ہوئی جس میں فرنٹ کے چیرمین پردیپ دتا نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ اس محرومی کا تدارک علیحدہ ریاست کی تشکیل سے ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ درگاپوجا کے بعد تحریک شد و مد سے چلائی جائے گی اور ہمیں امید ہے کہ ہماری تحریک کامیاب ہوگی ۔انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان کی اس تحریک میں بارک ویلی کے تمام طبقات شامل ہیں ۔تاہم اس پریس کانفرنس میں بنگالی مسلم کی نمائندگی نہیں تھی ۔ہم نے اس جانب ان کی توجہ مبذول کرائی تو انہوں نے اس سوال کا واضح جواب نہیں دیا۔مگر یہ سوال کافی اہم ہے کہ بارک ویلی کے 48فیصد بنگالی مسلمان اس مسئلے پر کیا سوچتے ہیں؟ اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ علیحدہ ریاست کی تشکیل آسام کے دیگر خطے آسام کے بالائی حصہ ، شمالی آسام اور برہم پتر ویلی میں آباد مسلمانوں کی کیا سوچ ہے۔
آسام کے دارالحکومت گوہاٹی کے اخبار ’جن ادھیکار‘‘ سے وابستہ صحافی شکیل احمد نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ علیحدہ ریاست کی تشکیل اس وقت ممکن نظر نہیں آتی ہے۔ بارک ویلی کو اگر علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا جاتا ہے تو آسام کے دیگر علاقوں میں آباد مسلمانوں کی سیاسی اہمیت کم ہوجائے گی۔ بارک ویلی میں صرف تین اضلاع ہیں جب کہ برہم پتر ویلی ، شمالی آسام اور بالائی آسام کے اضلاع میں بھی بڑی تعداد میں مسلمانوں کی آبادی ہے جن میں بنگالی النسل کی اکثریت ہے۔بارک ویلی کی علیحدگی کی صورت میں ان علاقوں میں آباد بنگالی مسلمان حاشیہ پر پہنچ جائیں گے۔
گوہاٹی ہائی کورٹ میں سینئر وکیل اور مختلف مسلم تنظیموں سے وابستہ حافظ عبدالرشید جن کا آبائی تعلق بارک ویلی سے ہے، انہوں نے ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی بارک ویلی کے خطے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو محرومیوں کا سامنا ہے۔کارخانے بند ہوئے ہیں ، چائے کے باغات آخری سانسیں لے رہے ہیں ۔بے روزگاری کی شرح آسام میں سب سے زیادہ اسی خطے میں ہے۔تعلیمی اداروں کی کمی ہے۔سیلاب کی وجہ سے ہر سال یہاں بڑے پیمانے پر تباہی آتی ہے مگر اس مسئلے کا حل علیحدہ ریاست نہیں ہے۔مسلم نقطہ نظر سے تو کسی بھی صورت میں نہیں ہے۔اس لیے ہم اس تحریک کے ساتھ نہیں ہیں ۔کسی بھی مسلم تنظیم نے علیحدہ ریاست کے مطالبے کی حمایت نہیں کی ہے۔تقسیم کی صورت میں دونوں جگہ مسلمان بے حیثیت ہوجائیں گے۔بارک ویلی علیحدہ ہونے کی صورت میں غالب امکان ہے کہ وہ تریپورہ سے الحاق کرلے ۔عبدالرشید کہتے ہیں کہ بارک ویلی میں پسماندگی کے باوجود یہاں کے مسلمانوں نے آسام کے مسلمانوں کو قیادت دی ہے۔اس سوال پر کہ آسام کے وزیر اعلیٰ نے علیحدہ ریاست کے مطالبے پر نرم رویہ کیوں اپنایا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ، اس لیے کہ بارک ویلی کے علیحدہ ہونے کی صورت میں آسام میں آسامیوں کو واضح اکثریت حاصل ہوجائے گی ۔
بارک ویلی کی سیاسی صورت حال پر نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ آسام سے علیحدگی کی مخالفت نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔ اس طرح کی سوچ یونین ٹیریٹری ڈیمانڈ کمیٹی کے سابق ممبران کی بھی ہے جن میں تیمور راجہ چودھری جنہوں نے 1979 میں وزیر اعظم اندرا گاندھی سے اس خطے کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانےکے مطالبے کی حمایت کے لیے ملاقات کی تھی، نے کہا کہ طاقت کے نئے ڈھانچے کی تشکیل وادی کی مسلم اور ہندو آبادیوں کے درمیان غیر ضروری تناؤ کا باعث بن سکتی ہے، دونوں کی تعداد تقریباً برابر برابر ہے۔ چودھری نے کہاکہ ’’دونوں برادریوں کے درمیان بہت زیادہ عدم اعتماد ہے۔ ہندو سمجھتے ہیں کہ علیحدہ ریاست کی تشکیل سے مسلمانوں کو وادی میں تمام سیاسی طاقت حاصل ہو جائے گی۔ مسلمانوں کے بھی خدشات ہیں۔وادی بارک ہمیشہ سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا شکار رہی ہے۔ اس میں 1968 اور 1990 میں دو بڑے فسادات ہوئے ہیں۔ 2013 میں، سلچر کے ایک مندر میں گائے کا گوشت ملنے کی افواہوں نے جھڑپوں کو جنم دیا جس میں کم از کم 30 افراد زخمی ہوگئے تھے۔ 2015 میں اس وقت ایک بار پھر کشیدگی ہوگئی جب سلچر کے ایک مندر میں ذبح کی گئی گائے کا سر ملا۔ ’’لو جہاد‘‘ کے الزامات کے بعد پرتشدد جھڑپوں کے واقعات ہوچکے ہیں۔
آسام معاہدہ جو 1984میں راجیو گاندھی کی قیادت والی مرکزی حکومت اور آل آسام اسٹوڈنٹ یونین کے درمیان ہوا تھا اس کے مطابق 31مارچ 1971سے قبل آنے والوں کو ہی ریاست کا شہری تصور کیا جائے گا ۔اس کے بعد آنے والے غیر ملکی کہلائیں گے۔شہریت ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ بنگالی ہندوؤں کو آسام کی شہریت دینے کی کوشش کی گئی مگر احتجاج اور اندرونی ناراضگی کے بعد اب تک یہ ایکٹ قانون بننے کے بعد بھی نافذ نہیں ہوسکا ہے۔علیحدہ بار ک ویلی ریاست کی صورت میں این آرسی میں جگہ نہیں پانے والے بنگالی ہندوؤں کے لیے پناہ گاہ ہوجائے گا۔اس صورت میں بارک ویلی کی ڈیموگرافی (آبادیاتی ساخت) میں الٹ پھیر ہوجائے گا۔ایڈووکیٹ حافظ عبدالرشید کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے تئیں تعصب کے معاملے میں آسامی النسل ہندوؤں میں مسلمانوں سے متعلق تعصب کم ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے مفادات میں متحدہ آسام زیادہ بہتر ہے۔
ہیمنت بسوا سرما اگرچہ اس معاملے میں سیاسی حکمت عملی اور طویل مدتی سیاسی مفادات کے پیش نظر بارک ویلی کے علیحدگی کے لیے تیار ہیں مگر بی جے پی اس مسئلے کو اتنی آسانی سے نظرانداز کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ علیحدہ ریاست کا مطالبہ لیفٹ نظریات کے حامل ہندو بنگالی کررہے ہیں ۔اس حقیقت کے باوجود بی جے پی اس پورے مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کررہی ہے ۔آسام بی جے پی کے سکریٹری آدھے ادھورے تاریخ کا سہارا لے کر دعویٰ کرتے ہیں علیحدہ ریاست کے مطالبے کے پیچھے سید محمد سعد اللہ (1937-1946 تک برطانوی ہندوستان میں آسام کے پہلے وزیر اعظم) اور مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کے عزائم کی تکمیل مقصود ہے۔مولانا بھاشانی آسام اور مغربی بنگال کے ایک بڑے حصے کو پہلے مشرقی پاکستان اب بنگلہ دیش کے ساتھ ملانا چاہتے تھے۔ اس طرح سعد اللہ اور مولانا بھاشانی کے عزائم کی تکمیل کے لیے عوام کا ایک طبقہ علیحدہ ریاست کا مطالبہ کر کے ایک عظیم تر اسلامی ریاست بنانے کی گہری سازش کر رہا ہے۔ 1980کی دہائی میں آسام لسانی عصبیت کی آگ میں جھلس رہا تھا مگر آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی دیگر تنظیموں نے لسانی عصبیت کو مسلمانوں کے خلاف موڑنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں آسام میں فروری 1983میں نیلی قتل عام کا واقعہ پیش آیا جہاں ایک دن میں ایک ہجوم نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کردیا ۔اس واقعے کو 40سال گزرجانے کے باوجود نیلی قتل عام کے ایک بھی مجرم کو سزا نہیں ملی ہے۔اب جبکہ بارک ویلی علیحدہ ریاست کی تشکیل کے مطالبہ کو مسلمانوں سے جوڑنے کی سازش کی جارہی ہے تو ذہنوں میں کئی خدشات جنم لے رہے ہیں۔اس سے پہلے کہ خدشات حقیقت کی شکل اختیار کر لیں، تدارک کے لیے آسام کے مسلمانوں کو بہت سوچ سمجھ کر اقدامات کرنے ہوں گے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 اکتوبر تا 14 اکتوبر 2023